سلسلہ وار ناول

کسی اجنبی سے دیار میں : قسط نمبر 4

بدر گنگ رہ گئی اسے اپنی سمجھ نہ آئی کہ خوش ہو ایک رذیل مجرم سے جان چھوٹ گئی ،کوئی تعلق نہیں رہا یا پھر اسی طرح چیختی چلاتی رہے کہ اجنبی دیس میں تن تنہا جرائم پیشہ لوگوں کے چنگل میں مزید پھنس گئی۔
’’اسے خوش کرکے دیکھو تو سہی تمہارے سارے بھک منگے خاندان کی مفلسی نکل جائے گی۔‘‘ وقاص نے قدرے نرمی سے اسے قائل کرنے کی کوشش کی ۔اس کے ذرا سے ڈھیلے پن اور شعوری لاپروائی کا فائدہ اٹھا کر بدر نے اپنے لمبے ناخن وقاص کے چہرے پر گاڑ دیے۔ اس فعل نے وقاص کو آگ کا بھانبھڑ بنا دیا۔
’’یہ فون ، کپڑے ، تحفے فائیو اسٹار عیاشیاں مفت ہوتی ہیں یا ریال درختوں پر لگتے ہیں؟ تمہارے ریوڑ نے جو لُوٹا ہے وہ تم ہی پورا کرو گی ۔وکی بھائی! مجھے فون لے دو۔‘‘ وقاص نے منہ بگاڑ کر مہرالنساء کی نقل اتاری ۔ جانوروں کی طرح مار کھا کر بدر کو سمجھ آ گیا اکڑ سے بات نہیں بن رہی تو اس نے آنسوؤں اور لجاجت سے کام لینا چاہا۔
’’وقاص! میں تمہاری منت کرتی ہوں مجھے پاکستان بھیج دو تمہیں اللہ کا واسطہ بس پاکستان بھیج دو۔ دیکھو! اب تمہارا اور میرا کوئی تعلق بھی نہیں رہا تم مجھے طلاق دے چکے ہو تو پلیز مجھے جانے دو ۔ شیخ سے پیسے تو تم لے ہی چکے ہو اسے کہہ دینا بھاگ گئی۔ ‘‘
وقاص نے درشتی سے اس کے چہرے کو اوپر اٹھایا۔
’’جب تمہیں پتہ چل ہی گیا ہے پیسوں کا تو یہ بھی سمجھ آ گئی ہو گی اب تم شیخ کی ملکیت ہو اس نے تمہیں خریدا ہے۔ وہ ہمیں پاتال سے ڈھونڈ لائے گا۔ ہم اسے دھوکا نہیں دے سکتے۔‘‘
’’دھوکا میں نے نہیں تم نے دیا ہے غلیظ انسان۔‘‘
’’میں تو تمہیں اتنے دن سے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا تم ہو ہی خر دماغ ، میری کسی بات سے تمہیں سمجھ نہ آ سکی۔ اب میری بات غور سے سن کر اپنا ذہن بنا لو، پاکستان کو بھول جاؤ۔ رہنا بھی یہیں ہے اور کرنا بھی یہی کام ہے خوشی سے کرو گی تو تیرے پچھلے بھی عیش کریں گے اور ہم بھی۔زبردستی دھندہ کراؤں گا تو ایک پیسہ نہیں دوں گا۔‘‘
’’تم مجھے بلف نہیں کر سکتے۔ وہ کالا مجھ سے زیادہ تم سے ناراض ہے۔ دھوکا تم نے کیا ہے۔ وہ تمہیں اس قابل ہی نہیں چھوڑے گا کہ مجھ سے دھندہ کروا سکو۔‘‘
وقاص اس کی بات سن کر جلبلایا۔ بدر سمجھ گئی اس کا تیر عین نشانے پر لگا ہے اب وقاص سے سچ برداشت نہیں ہو رہا۔
’’میں شیخ کے ٹھیک ہونے سے پہلے پہلے تمہیں پانی کی طرح رواں نہ کر دوں تو نام بدل دینا۔ یہی شیخ ہوگا اور تم پالتو بلی کی طرح اس کے پاؤں چاٹتی نظر آؤ گی، میرے لفظ یاد رکھ لو۔ ابھی تو میں شیخ کے پیچھے ہسپتال جا رہا ہوں اسے رام کرنے کی کوشش کرنی ہے۔‘‘
’’تو کیا وہ اکیلا ہسپتال گیا ہے؟‘‘
’’اکیلا کیوں…؟ بکواس کی تھی یہ بنگلو اس کا ہے، اپنے ہاؤس کیپر کے ساتھ گیا ہے ۔ مجھ سے چوکیدار کے ساتھ جاتے ان خبیثوں کی شان گھٹتی ہے۔ میں تمہیں پھر سے سمجھا رہا ہوں بدر چپ چاپ میری بات مان لو تم ان شیخوں کو نہیں جانتی ہو یہ بنا ڈکار لیے بندے کھا جاتے ہیں۔ راضی خوشی شیخ کی خدمت کر لو اور کوئی آ پشن نہیں ہے۔ تم اور میں اس وقت شیخ کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی ہیں۔‘‘
’’میری جوتی یہ گناہ کرتی ہے خود کو مار لوں گی، تمہیں شیخ خود مار دے گا۔ قصہ ہی تمام کر دوں گی۔‘‘
بکھرے بال، اجڑا حلیہ اور تشدد سے ورم زدہ چہرہ، آ نے والے وقت کا خوف اسے چودھویں کی بجائے گرہن لگا بدصورت چاند بنا رہا تھا۔
وقاص نے فون اٹھایا اور باہر نکل گیا۔ بدر کو دکھتے کان میں بھی چابی گھما کر کمرہ لاک کرنے کی آواز سنائی دی۔ ٹیسیں اٹھتے بدن کے ساتھ اس نے اپنا لائحہ عمل سوچنا چاہا کہ خودکشی کرنی ہے یا فرار کی کوشش۔
ابھی ذہن یکسو بھی نہ ہوا تھا کہ پھر سے دروازہ کھل گیا۔
’’ہاں جی ڈیڑھ ہوشیار میڈم بدر جہاں! یہ ذرا چند خون گرم کرنے والی ویڈیو تو دیکھ لو۔‘‘ اس نے سختی سے بدر کے بال نوچ کر اس کی آ نکھوں کے سامنے اپنا فون کیا۔ بدر کی نظر پڑی تو کریہہ منظر میں اس کی لاڈلی بہن تاج تھی، لڑکا کوئی اجنبی تھا۔ بدر چیخ تو ہی اٹھی۔ آ نکھوں کا یہ تشدد جسمانی تشدد سے کہیں بڑھ کر ظالم تھا۔ اس نے آ نکھیں سختی سے بند کر لیں۔
’’ابھی یہ مہر النساء کو دیکھ لو۔‘‘
بدر نے بدستور آ نکھیں بند ہی رکھیں۔
’’اچھا چلو یہ خود کو تو دیکھ لو… کس قدر قیامت ہو۔‘‘
بدر نے اس کے منہ پر تھوک دیا…
’’ رذیل انسان …!‘‘
’’تمہیں کیا لگا تھا کچی گولیاں کھیل رہا ہوں۔ برسوں سے اس دھندے میں ہوں بڑا وسیع تجربہ ہے۔ تم دھیان رکھ لو اگر خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو ان ساری ویڈیوز کی سی ڈیاں (سی ڈیز) شیخوپورہ کی ہر دکان اور محلے میں مفت بانٹ دی جائیں گی۔ اس کے علاوہ نقصان کی بھرپائی کے لیے تاج بیگم کو اٹھا لیں گے۔ کیا غضب کی اٹھان ہے سسٹر ان لاء کی۔پھر یہ نقلی ویڈیو بنوانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ روز اصلی بنا کر مارکیٹ میں ڈالا کریں گے۔ تم اوپر جنت سے جھانک کر نظارے لینا کیسے تمہاری بہنیں برباد ہوتی ہیں۔ پارسا مرو گی تو جنت میں ہی جاؤ گی ناں، جہنم تو ہم جیسوں کے لیے ہے۔‘‘
’’خدا کرے تم مرجاؤ ، سکول جاتی بچی تک کو نہیں چھوڑا تم نے ، اس کی بھی فیک ویڈیو بنا دی۔‘‘ بدر سسکنے لگی۔
’’اب میرے آ نے تک چاہے فرار ہو جاؤ چاہے خود کشی کر لو، نتیجہ میں بتا ہی چکا ہوں شیخوپورہ میں موجود ہمارے آ دمی مفت گندی فلمیں بانٹ دیں گے۔ تم اکیلی بچ جاؤ گی وہ سب پھنس جائیں گی۔ بہتر ہے تم اکیلی قربانی دو، پیسہ کماؤ خود بھی خوش رہو میرے جیسوں کا بھی بھلا کرو۔‘‘ اب وہ بڑی اکڑ سے دروازہ کھلا چھوڑ کر نکلا تھا۔ بدر نے کھلے دروازے اور اپنے گرد اپنی اوراپنی معصوم بہنوں کی اخلاق سوز جعلی فلموں کی قید محسوس کی۔ کوئی بے بسی سی بے بسی تھی۔
’’اماں !‘‘ دور دیس بیٹھی ماں کو پکار کر وہ بلند آواز سے رو پڑی۔
٭…٭…٭
ایک بے انتہا تھرلنگ میچ کا وننگ گول شیخ سالم حداد کے حصے میں آ یا تھا۔ اس گول کے ساتھ ہی وہ گلف کاسب سے زیادہ گول کرنے والا کھلاڑی بن گیا تھا۔ ٹیم عمان عرب لیگ کے فاتح کی ٹرافی اٹھا کر فوٹو سیشن کروانے کے بعد بھی اپنے ٹھکانے پر جانے کے لیے آزاد نہیں تھی۔ سالم جھنجھلا سا گیا۔ اس کی جگہ معتصم نے لے کر بڑا سنبھل کر میڈیا کے لوگوں کو ہینڈل کرنا شروع کیا۔ وہ اب لائم لائٹ کی زندگی پوری طرح سمجھتے تھے۔ انجان تو سالم بھی نہیں تھا اسے بھی خوب پتا تھا ان صحافیوں کی دشمنی بھلی تھی نہ دوستی پر وہ پھر بھی عجیب سا ری ایکٹ کر گیا تھا۔
معتصم نے ڈھیروں ڈھیر مبارک بادیں وصول کرکے ’’سالم کے سر میں درد ہے‘‘ والی وضاحت ایک بار پھر سے دے کر جان چھڑائی۔ حسین نے سالم کو کال ملائی تو فون بند ملا ۔
’’اب ؟‘‘
’’ہوٹل چلتے ہیں سالم بھی وہیں ہوگا۔‘‘
اور پھر جب وہ ساری ٹیم اور سٹاف ہوٹل پہنچا تو شیخ سالم حداد بے انتہا مشکل اور تھکا دینے والے میچ کے بعد بھی دیوانوں کی طرح تیراکی کر رہا تھا۔ حسین اور معتصم نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر باقی ٹیم کو چیخ پکار کرکے جیت سیلبریٹ کرتے چھوڑ کر سنیکر کھولے اور سوئمنگ پول میں چھلانگ لگا دی۔
’’حداد!‘‘
سالم نے اپنے دائیں بائیں حداد کہنے والوں کو دیکھا اور پھر سر ہلا دیا۔ وہ تینوں ایک دوسرے کو خوب سمجھتے تھے۔
دبئی کے اس فائیو سٹار ریزورٹ کے اس یارڈ میں شیخ سالم خنک رات میں بھی اوپر ی بدن ننگا چھوڑے صرف شارٹ پہنے ایک آرام کرسی پر نیم دراز تھا۔ حسین اور معتصم سوئمنگ پول کے گرم پانی سے نکل کر بھاری بھرکم تولیے اوڑھے بیٹھے تھے۔
’’شیخ! تم عشق میں مجنون (پاگل) ہو گئے ہو۔‘‘ معتصم نے کافی کا بڑا سا سپ لے کر بات کا آ غاز کیا۔
’’عشق؟‘‘
’’آ ئیوا!‘‘ ( ہاں)
پھر کئی سیکنڈز تک سالم ہنستا ہی رہا یہاں تک وہ دونوں بھی ساتھ شامل ہو گئے۔
’’حسین کی نئی نئی شادی ہے وہ ایسی احمقانہ بات کرے تو سمجھ آ تی ہے پر تمہاری شادی کو تو تین سال ہو گئے۔‘‘
’’تم مجنون ہو گئے ہو شیخ مان لو۔‘‘ معتصم نے زور دے کر کہا۔
’’مجنون تو میں ہوں، کورہ (فٹ بال) کے لیے جنون ہی ہے جس نے یہ ٹرافی وطن کو دلائی ہے۔‘‘
’’اتنی بڑی جیت کے بعد بھی جس طرح تم اپنے آپ میں الجھے ہوئے ہو تو مان لو کہیں کچھ بدل گیا ہے۔‘‘
’’نہیں ، میں ظفار جاتا ہوں جو مجھے عشق وشق کے طعنے دے رہے ہو۔‘‘ سالم برہم ہوا۔
’’تمہیں کیا لگتا ہے کالج جانے والے ہی عشق کرتے ہیں؟‘‘
’’ہاں مجھے یہی لگتا ہے۔‘‘
’’غلط لگتا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں بہترین کھلاڑی اور میچورر شخص ایک ہندی لڑکی کے لیے مجنون بنا ہوا ہے۔‘‘
’’وہ ہندو نہیں ہے ۔‘‘ سالم نے ناگواری سے جواب دیا۔
’’یعنی بات اسی لڑکی کی ہے۔ اب کہو معاملہ کیا ہے حبیبی! ہم کس مرض کی دوا ہیں کچھ تو علاج تجویز کر دیں گے۔‘‘ معتصم شروع سے ہی شوخ طبع تھا۔
’’یارو! مجھے لگتا ہے میں اسے بہت دیر سے جانتا ہوں۔ میں نے وہ چہرہ وہ آ نکھیں بار بار دیکھی ہوئی ہیں۔‘‘
’’عالم ارواح کی شناسائی ہو گی۔‘‘ معتصم کی زبان پھر سے پھسلی۔
’’شاید…! ورنہ ایک دو بار دیکھنے سے کوئی اتنی شدت سے کیسے یاد رہ سکتا ہے بلکہ یاد آ سکتا ہے۔ ‘‘ شیخ سالم حداد کے انداز میں بے کلی و بے بسی سی تھی۔
’’گھر جا کر سب ٹھیک ہو جائے گا، اٹھو تیاری کرتے ہیں، تین بجے فلائٹ ہے۔‘‘
’’تم لوگ کرو تیاری…‘‘
اب کہ صحیح معنوں میں حسین کا ماتھا ٹھنکا ۔
’’تو تم نہیں جا رہے باوجود اس کے کہ عرب لیگ جیتی ہے ٹرافی جا کر سلطان کی خدمت میں پیش کرنی ہے۔‘‘
’’تم لوگ کر لینا میرا بتا دینا بیمار ہوں اس لیے اپنے گھر رہ گیا ہوں۔‘‘
’’بیمار ہو اور دبئی والے گھر میں اکیلے رہو گے…براوو شیخ !بہت اچھے جا رہے ہو۔‘‘ معتصم روڈ ہو گیا۔
’’یہاں رہ کر کیا کرنا ہے …اس ہندی لڑکی کو ڈھونڈو گے؟‘‘ حسین کی ٹون بھی طنزیہ ہو گئی۔
’’ہاں! یہی کرنا پڑے گا۔‘‘

پچھلا صفحہ 1 2 3

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page