کسی اجنبی سے دیار میں : قسط نمبر 3
اس کی آ نکھ کھلی تو ہاتھ کی نس میں ڈرپ چل رہی تھی۔ اس نے سر گھما کے ادھر ادھر دیکھا تو معلوم ہوا ہسپتال میں ہے ۔ پیشنٹ اٹینڈنٹ کی کرسی خالی تھی۔ اس نے سر اٹھا کر نوید کو ادھر ادھر ڈھونڈنا چاہا لیکن نڈھال ہو کر سر واپس تکیہ پر ڈال دیا۔
’’مارتھا ! نوید کہاں ہے ، مجھے ہوا کیا ہے ؟‘‘ جینی نے اپنی نرس فلپائنی سہیلی کو دیکھا تو اپنی زبان میں ہی پوچھا۔
’’نوید کا مجھے کیا پتہ، میں تو کل ہسپتال سے واپسی پر اچانک تیرے فلیٹ گئی تو دیکھا تم بے ہوش ہو کر فرش پر پڑی ہو۔ سارا فلیٹ الٹ پلٹ تھا صاف روبری کا کیس تھا ۔ پولیس کو کال کر نہیں سکتی تھی کہ تمہارا ویزہ ختم ہونے کا معلوم تھا ۔ ڈاکٹر موہنی کی منت سماجت کرکے یہاں ایڈمٹ کیا ہے ۔ اب تم اور بے بی دونوں خطرے سے باہر ہو۔‘‘
’’کیا ؟‘‘ جینی کی صدمے سے آ نکھیں ایک بار پھر الٹ گئیں۔
دس پندرہ منٹ کی نرسز کی مشقت کے بعد اس کی طبیعت سنبھلی تو آ نکھوں سے آ نسو قطار در قطار نکل رہے تھے ۔
’’میرا فون کہاں ہے ؟‘‘
’’جینی! تمہیں یقین کیوں نہیں آ رہا ، چور سب کچھ لے گیا ہے ۔‘‘
’’چور نہیں نوید لے گیا ہے ، اس نے پاکستان جانا تھا اس لیے باسٹرڈ مجھے لوٹ کر چلا گیا ہے ۔‘‘ اس نے اپنے ٹراؤزر کی جیب کو ہاتھ مارا تو پتہ چلا ہسپتال کے لباس میں ملبوس ہے ۔
’’میری جینز میں بینک کارڈ تھا، وہ ملا ؟‘‘
’’کچھ نہیں ملا ۔‘‘ مارتھا اسے صدمے سے دیکھنے لگی۔
’’آج تاریخ کیا ہے ؟‘‘
’’سترہ دسمبر !‘‘
’’سترہ دسمبر ؟‘‘ جینی کو یقین نہ آیا تو اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑا اپنا پیشنٹ چارٹ دیکھا اس پر بھی سترہ دسمبر دو ہزار پندرہ لکھا ہوا تھا۔
’’میں دو دن فلیٹ میں بے ہوش رہی اب تک وہ بلڈی پاکستان پہنچ چکا ہوگا ۔ میں اس کو چھوڑوں گی نہیں میں اس کو جان سے مار دوں گی۔‘‘ جینی فلپائنی میں چلا رہی تھی اس لیے ہسپتال کا باقی فلپائنی سٹاف اس کی ساری گریہ زاری سمجھ رہا تھا۔
’’مارتھا! مجھے بے بی ابورٹ کرانا ہے پلیز میری مدد کرو ۔‘‘
’’دماغ ٹھیک ہے ابھی کل ڈاکٹر نے بے بی سٹیبل کرنے کے انجکشنز لگائے ہیں ڈرپ میں بھی میڈیسن چل رہی ہے ابارشن کی سٹیج سے معاملہ اوپر جا چکا ہے تمہاری اپنی جان چلی جائے گی۔‘‘
’’تو مر ہی جانے دو مجھے موت کی سزا ہی ملنی چاہیے۔‘‘
’’تمہیں کہا تھا نا کسی پاکستانی پر بھروسہ نہ کرو تم نے میری ایک نہ مانی ، تمہیں شروع سے غلط فہمی تھی کہ تم شکار کر رہی ہو پہلے دن سے وہ شکاری تھا۔ ‘‘
’’پوری سٹوری تو بتاؤ ؟‘‘ نورالا چند مہینے قبل بطور نرس سلطنت آئی تھی آ ج کل وہ بھی ایک پاکستانی کو ڈیٹ کر رہی تھی اس لیے گھبرا کر سب سے پہلے اسی نے مکمل کہانی جاننے کی کوشش کی۔
’’نوید یہاں ڈرائیور تھا اپنی شیخا کو لے کر سیلون آ تا تھا اسی سیلون میں جینی بیوٹیشن تھی اس کی جینی سے ہیلو ہائے وہیں سے ہوئی ۔ وہ اکثر جینی کو قیمتی تحائف دینے لگا ، ڈنر پر لے جانا لگا تو جینی اس کے جال میں پھنس کر اس کا فلیٹ بھی شیئر کرنے لگی ۔ میں نے منع کیا تو اس نے اس سے شادی کر لی ۔‘‘
’’کورٹ میں شادی کی ؟‘‘ نورالا نے جینی کے کنپٹیوں پر جاتے آ نسوؤں سے نظر ہٹا کر مارتھا سے پوچھا ۔
’’نہیں ، اسلامی طریقے سے نکاح ہوا تھا نوید کے کسی اسلامی سکالر( مولوی) دوست نے پڑھایا تھا۔ ‘‘
’’او مائی گاڈ! اس کا مطلب ہے شادی کا کوئی ڈاکومنٹ نہیں ہے ۔‘‘
’’یہ اسلامک شریعہ والا نکاح ہے۔‘‘ جینی نے تلخی سے جواب دیا۔
’’اب کیا کرنا ہے ؟ ‘‘
سارا فلپائنی سٹاف سر جوڑے کھڑا ہو گیا۔ گلف میں چھوٹا میڈیکل سٹاف زیادہ تر فلپائنی اور انڈین ہے ۔ فلپائنی انڈینز کی نسبت روکھے اور تنک مزاج ہیں پر ایک دوسرے کی وہ دل کھول کر مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہم وطن ہونا گہرا رشتہ ہے ۔ اس لیے وہ ہر طرح سے اپنی ہم وطن کو کور دینے کی کوشش کا سوچ رہے تھے ایسے چھوٹے موٹے کام جس میں اکثریت ملوث ہو پایہ تکمیل تک پہنچ ہی جاتے تھے۔
’’ہسپتال کا بل کیسے چکایا جائے ؟ ‘‘پر سب غور کر رہے تھے۔
’’ڈاکٹر موہنی کی مدد لے کر جینی کو صفائی والے عارضی سٹاف میں رکھ لیتے ہیں۔ میکا تین ماہ کی چھٹی پر فلپائن جا رہی ہے بس اسی کی جگہ اس کو رکھ لیتے ہیں۔‘‘ سینئر نرس نے تجویز نکالی۔
’’لیکن جینی کا ریزیڈنٹ کارڈ مہینہ پہلے ایکسپائر ہو چکا ہے اب جینی ایک طرح سے غیر قانونی ہے۔‘‘ مارتھا نے یاد دلایا ۔
’’ہمیں الرٹ رہنا پڑے گا کسی بھی عمانی ڈاکٹر کی نظر سے جینی کو بچانا ہے ڈیوٹی آورز رات کے رکھنے ہیں اور باتھ رومز کے ہی رکھنے ہیں۔‘‘
’’یہ ٹھیک رہے گا کیونکہ عمانی رات کی ڈیوٹی تو موت سمجھتے ہیں ۔ باقی ڈاکٹرز کو غرض نہیں ، رہی ڈاکٹر موہنی تو وہ جینی کی کنڈیشن کی وجہ سے عورت ہونے کے ناطے بھی ہمارے ساتھ ہے۔‘‘
’’ٹھیک کہہ رہی ہو ویسے تو عارضی ورکر کا کارڈ بائے نیم نہیں بنتا پھر بھی میکا کا سٹاف کارڈ جینی کو دے دو میکا کہہ کر ہی بلایا لیا کریں گے۔‘‘
’’میں جینی سے کہوں گی کسی فلپینو سیلون کا پتہ کرے اور دن میں وہاں جاب کرے۔ اسے ڈیلیوری چارجز کے علاوہ جرمانہ بھی بھرنا ہوگا تبھی عمان سے جاسکتی ہے۔‘‘
‘’’ ڈیلیوری کے بعد کوئی جگاڑ لگا کر ویزہ ری نیو کروا دیں گے۔ لیکن ابھی تو ہسپتال کا بل چکانے کے لیے اور ڈیلیوری کے لیے ریال جمع کرنے کی اسے اشد ضرورت ہے۔‘‘
اظہار خیال و لائحہ عمل طے کرنے کے بعد انہوں نے جینی کا کمرہ چھوڑ دیا تو وہ بے آواز رونے لگی۔
٭…٭…٭
لو لو ہائپر مارکیٹ میں رنگین فواروں کے پاس کھڑی ہو کر بدر نے اپنی ویڈیو بنوائی اور مہر اور فخر کو سینڈ کر دی۔ وہ جہاں جہاں جا رہی تھی وقاص کے دیے قیمتی فون سے تصویریں اور ویڈیو بنا کر پاکستان سینڈ ضرور کر رہی تھی۔
’’بدر آپی! آ پ کی ساری تصویریں اور ویڈیوز اماں جان بوجھ کر کبھی ممانی کو سینڈ کرتی ہیں کبھی پھوپھو کو ، جب ان کا میسج آ تا ہے تو کہہ دیتی ہیں غلطی سے سینڈ ہو گئی فخر کو کرنی تھی۔آپ کی تصویروں اور ویڈیوز نے ہماری اماں کی ٹور بنا دی ہے۔ ہر جگہ اماں کو پروٹوکول مل رہا ہے۔‘‘
تاج کا وائس نوٹ سن کر وہ بے ساختہ ہنسی تھی۔ وقاص کو لگا آس پاس پیتل کے گھنگرو بج اٹھے ہیں۔
’’اب پیر میں درد تو نہیں ہے؟‘‘
’’نہیں، بالکل بھی نہیں… یہ جوتے بھی بہت آرام دہ ہیں ذرا بھی پتہ نہیں کہ پیروں میں جوتے پہنے ہوئے ہیں۔ وکی! پاکستانی کتنے روپوں کے ہیں؟‘‘
وقاص نے اسے جو رقم بتائی سن کر بدر کی آ نکھیں ہی پھیل گئیں۔ پارکنگ میں وقاص کی کار کے ساتھ کھڑی سیاہ رینج روور پر بدر نے ہاتھ رکھا ۔
’’وکی! میں نے ناولوں میں اس گاڑی کا بہت ذکر پڑھا ہے ۔‘‘
’’تم بھی بیٹھ سکتی ہو ۔ ‘‘
’’اللہ ہمیں دے گا تو ضرور بیٹھوں گی۔‘‘ وہ سادگی سے کہہ کر اس کے برابر بیٹھ گئی۔
وہ جانے کون سی شاہراہ مڑے کہ سامنے دنیا کا مشہور ترین کیفے تھا۔
’’آؤ! کافی پیتے ہیں۔‘‘
’’یہاں سے؟‘‘ بدر کا لہجہ بڑااستعجابیہ تھا ۔ ’’اتنے پیسے فضول چیز پر ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
’’بال وال سیٹ کر لو میں اندر تمہاری تصویریں بھی بناؤں گا۔‘‘ وہ اکثر اپنے فون سے بھی اس کی تصویریں بناتا رہتا تھا۔ بدر کو بہت اچھا لگتا تھا، فخر کا احساس بھی ہوتا تھا کہ میرا شوہر میری خوبصورتی کو محسوس کرتا ہے۔
ہال کے وسط میں ٹیبل خالی تھی وقاص اسے ہاتھ پکڑ کر وہیں لے آ یا۔
’’خوش تو ہو؟ ‘‘
’’بہت خوش ہوں۔‘‘
’’بدر! یہ بہت عجیب دنیا ہے یہاں پر کمانے کا ڈھنگ آ نا چاہیے پھر یہاں بھی اور پاکستان میں بھی وارے نیارے ، میں تو کہتا ہوں کاروبار ہی یہاں شروع کرنا چاہیے۔‘‘
’’مجھے تو جاب اچھی لگتی ہے جیسے آ پ کی ہے کاروبار میں نقصان ہو جائے تو کمر ہی ٹوٹ جاتی ہے۔‘‘
ویٹر نے وقاص کو کافی اور بدر کو عبودی سرو کیا۔
’’کافی لے لیتیں جوس سے ٹھنڈ لگے گی اچھی خاصی خنکی ہو چکی ہے باہر۔‘‘
’’ہمارے پاکستان کی سردی کے تو پاسنگ بھی نہیں ہے۔‘‘ بدر مسکرائی تو گویا سُچے موتیوں کی لڑی پر روشنی پڑ گئی ہو ۔
وہ جو آج سعودیہ سے سیمی فائنل جیتنے کا جشن منانے آ ئے ہوئے تھے ٹھیک اسی وقت اوپر وی آئی پی ایریا کی ریلنگ پر کھڑے سالم کی نیچے ہال کے وسط میں اس پر نظر پڑی تھی۔
’’اتنی خوبصورت مسکراہٹ …‘‘
سالم مبہوت سا ریلنگ تھامے کھڑا رہ گیا۔