کسی اجنبی سے دیار میں : قسط نمبر 3
آ تشی لہنگے میں آ تشی میک اپ نے بدر کے حسن کو ایسا دو آ تشہ کردیا تھا کہ وقاص اسے دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ نرگس نے سچ کہا تھاکیمرہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں دکھا سکا تھا۔ وقاص نے ایک سے بڑھ کرایک حسین عورت دیکھ رکھی تھی پر یہاں کچھ الگ تھا بالکل مختلف…
وہ اجنتا کی کوئی پاکیزہ مورت تھی جس کے ارد گرد سے ٹھنڈی میٹھی روشنی کی شعاعیں پھوٹتی تھیں ایسی پاکیزہ شعاعیں جواس کے کردار و حیا کی ترجمانی کرتی تھیں۔ جو برف کو پانی اور پانی کو آگ میں ڈھال سکتی تھیں۔ اس کا ایک ایک نقش مکمل تھا۔ وقاص کی نظریں چہرے ہونٹوں، گردن سے ہوتی ہوئیں اس کے کلچ پر جمے سفیدروئی جیسے ہاتھوں پر جم گئیں جن پر مہندی سے پورا چاند بنا ہوا تھا۔ اس کی نظریں اپنے ہاتھوں پر محسوس کرکے بدر کی کلچ میں جمی انگلیوں میں خفیف سی لرزش اتر آئی۔ وقاص نے اپنا گندمی ہاتھ اس کی انگلیوں پر رکھ دیا۔
’’تم تو میرے حواس چھین رہی ہو…‘‘ وہ پھیکا سا مسکرایا۔ بدر بھی خفیف سا مسکرا دی۔
وقاص نے اس کی ٹھوڑی اٹھا کر آ نکھوں میں آ نکھیں ڈالنا چاہیں…
’’ مجھے فکر لگ گئی ہے کہیں میرے ہاتھ لگانے سے میلی ہی نہ پڑ جاؤ۔‘‘
اب کے بدر سچ مچ ہنس دی تو وقاص نے بھی قہقہہ لگایا۔
’’آپ بھی نا؟‘‘
’’کیا میں بھی نا؟‘‘
اگلے چند منٹوں میں وہ یوں گفتگو کر رہے تھے جیسے برسوں سے جانتے ہوں۔ بدر کو چند لمحے پہلے تک اپنی کمتری کا جو احساس تھا وہ کہیں دور جاتا نظر آ یا تھا۔ اس نے بلا تامل اس کا کریڈٹ وقاص کی باتونی طبیعت کو دیا وہ اس قدر دوستانہ لہجے میں باتیں کر رہا تھا کہ بدر کے دل میں اس کی عزت کا گراف مزید اوپر جانے لگا۔ وقاص نے خوب صورت ڈیزائن کا بریسلیٹ اس کی حسین کلائی میں بطور منہ دکھائی ڈالا تھا۔
بدر جب تک میک اپ اتار کے اپنے میکے کی طرف سے دیا گیا سادہ سوتی لباس پہن کر آئی تو وقاص بھی شادی کی شیروانی اتار کر آرام دہ لباس پہن چکا تھا۔
وہ بیڈ کے کنارے پر نظریں کارپٹ پر گاڑھ کر ٹک گئی۔
’’بدر! ایک بات کہوں؟‘‘
’’جی!‘‘
’’میں چاہتا ہوں ہم اپنی نئی زندگی میرا مطلب اپنے تعلق کا آ غاز اپنے گھریعنی دبئی جا کریں لیکن اگر تم ایسا نہیں چاہتی ہو تو…‘‘
بدر تڑپ ہی تو اٹھی، اسے ڈھیر شرم آئی اسے یوں لگا جیسے وقاص اسے ایسی ویسی لڑکی سمجھ رہا ہے جو شادی صرف فزیکل ریلیشن کو ہی سمجھتی ہے۔
’’آپ نے کیسے سوچ لیا مجھے اعتراض ہوگا میرے بارے میں ایسی گھٹیابات زندگی میں نہ سوچیے گا۔‘‘
بدر کے اس خفا خفا سے انداز نے وقاص کو بے ساختہ ہنسنے پر مجبورکر دیا۔ اب وہ اٹھ کر الماری سے کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔ پھر بدر نے دیکھااس نے غالباًکوئی ٹیبلٹ منہ میں ڈالی اور سائیڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس اٹھا کر لبوں سے لگا لیا۔
اگلے دو دن بعد سیما، یاسر، فخر، زبیدہ سمیت سارا گھر اسے لاہورایئرپورٹ پر الوداع کہنے آ یا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ وہ سارا خاندان حج و عمرہ کے علاوہ خاندان کے کسی فرد کو لاہور ایئرپورٹ پر چھوڑنے یا لینے آ یا تھا۔ زبیدہ سمیت ان کے لیے یہ مقام فخر تھا۔ ذات برادری اور خاندان میں ایک دن میں ہی صادق علی اور زبیدہ کا گھرانا مزید اونچاہو گیا تھا۔ زبیدہ تو گویا ہوا کو تلواریں مارنے لگی تھی اسے بیٹی کی جدائی سے زیادہ بیٹی کے دبئی جانے کی خوشی تھی۔ تاج البتہ رورو کر آ نکھیں سجا چکی تھی۔ بدر آ خر تھی تو الہڑ لڑکی، جو خواب کبھی دیکھے ہی نہ تھے وہ پورے ہونے پر اس کے انگ انگ میں سرشاری اتری ہوئی تھی۔ وہ ہنستی تو گویا ارد گرد ہنسنے لگتا تھا۔ سیما جل کرخاک ہوئی جا رہی تھی اور فخر اس کی تاحیات ہنسی کی دل ہی دل دعائیں کیے جا رہی تھی۔ بالآخر گیلری سے ہوتی ہوئی وہ جہاز میں آبیٹھی۔
اس نے جہاز اور اس کی سیٹوں کی دھڑا دھڑ تصویریں اوراپنی سیلفیاں لیں تاکہ مہرو کو سینڈ کر سکے۔ مہرو نے اپنی دوستوں کو دکھا کر اپنے نمبر بنانے تھے۔ جب بدرنے دیکھا کہ آ س پاس والے اب اس کی اتنی تصویر کشی پر متوجہ ہو رہے ہیں تو اس نے فون ہینڈ بیگ میں ڈال کراپنی ناک جہاز کی کھڑکی سے لگا دی۔
’’لاہور کتنا بڑا ہے…‘‘لایعنی سوچ اس کے ذہن میں ابھری۔
اس نے سر گھماکر وقاص کو دیکھا، وہ بالکل نارمل تھا جبکہ وہ حددرجہ پرجوش تھی۔ کہانیوں اور ٹی وی میں دیکھے جانے والے دبئی میںوہ خود جا رہی تھی جو شہر ستم گر بھی تھا اور شہر دوستاں بھی۔
اور پھر…
شیخوپورہ کی تنگی گلیوں کی گمنام بدر جہاں اور سلطنت آف عمان کے نامور فٹ بالر شیخ سالم حداد کے جہازوں نے اکٹھے ہی دبئی کی سرزمین کو چھوا تھا۔
٭…٭…٭
لاہور اور دبئی ائر پورٹ کا کوئی موازنہ ہی نہیں تھا۔ بدر دنیا کے اتنے رنگ اپنے سامنے لائیو دیکھ کر حیران و ششدر تھی۔ اس نے پھر سے ہینڈ بیگ سے فون نکالا اور تصویریں بنانا شروع کر دیں۔ یہاں کسی کو پروا نہیں تھی کوئی کیا کر رہا ہے یا کتنی تصویریں بنا رہا ہے ۔ وقاص اس کے آ گے تھا بدر کو معلوم تھا کہ وہ اپنے دوستوں کو کال کر رہا ہے تاکہ وہ انہیں ائیرپورٹ سے پک کر لیں۔ وہ فون میں مگن رہ کر اس کی آواز کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی کہ یوں لگا جیسے کسی دیوار میں ٹکرا گئی ہو۔ پنسل ہیل پہنے ہوئے ٹخنے پر تو کوئی ایسا سخت بھاری پتھر لگا تھا کہ وہ توازن ہی برقرار نہ رکھ سکی اور لہرا کر خود سے ٹکرانے والی دیوار کے سفید جوتوں پر جا گری ۔ بایاں ہاتھ اس شخص کے جوتوں پر تھا اور دایاں ننگی پنڈلی پر، اس نے ذرا کی ذرا تکلیف سے نظر چرا کر آ نکھیں اٹھانا چاہی تھیں لیکن مقابل کو آدھے ادھورے لباس (شارٹس) میں دیکھ کر واپس جھکا لیں۔ تکلیف حد سے سوا ہو گئی ۔ اسے لگا ٹخنہ ٹوٹ گیا ہے پر شرمندگی کا احساس اتنا تھا کہ اس کے حلق سے آواز تک نہ نکلی ۔
’’ہے سوری… سو سوری…!‘‘
سفید جوتے سوری کی آواز کے ساتھ اس سے ذرا سا پیچھے ہٹے تو بدر کے دونوں ہاتھ جوتوں اور پنڈلی سے چکنے فرش پر آ پڑے ۔ اب اس سے ٹکرانے والا بھی اس کے پاس نیچے بیٹھ گیا ۔ اس نے اس کی سفید میکسی ہٹا کر سفید ہیل میں مقید مہندی لگا پاؤں پکڑنا چاہا تھا تب تک وقاص اور باقی لوگ بھی ان کی طرف متوجہ ہو چکے تھے ۔ وقاص بھی فورا ًنیچے بیٹھا تھا لیکن اس کے ٹخنے پر نرمی سے ہاتھ رکھنے والا اجنبی تھا۔ بدر نے ذرا کی ذرا آ نکھیں اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر وقاص کی طرف متوجہ ہو گئی۔ وقاص چوٹ دیکھنے لگا تواسے اپنی تکلیف میں پتا ہی نہ چلا کب تیز اور اونچی آواز میں عربی میں گفتگو کرتے وہ سارے لوگ اس کے پاس سے گزر گئے۔ بدر کو ان کے ایک جیسے لباس سے یہی سمجھ آ سکا کہ کھلاڑیوں کی کوئی ٹیم تھی جس کا ممبر جاتے جاتے اپنے جوتوں سے اس کا ٹخنہ توڑ گیا تھا ۔ وہ جو سمجھ رہی تھی اس کے پاؤں کی ضرب شدید ہے اسے خبر ہی نہ تھی کہ کسی کے دل پر کتنی شدید ضرب آ ئی ہے، ایسا کاری وار ہوا ہے کہ اصل محور سے ہٹا دے گا۔
دکھتی کمر، ٹیس اٹھتے ٹخنے کے ساتھ وہ ٹیکسی میں بیٹھی تو اسے وقاص کی عربی میں کی گئی گفتگو میں لفظ فارمیسی سمجھ آ یا تھا ۔
درد کش دوا اور مساج کے لیے جیل لے کر وہ واپس اس کے برابر آ بیٹھا۔ بالآخر ٹیکسی ایک دیو ہیکل گیٹ کے سامنے آ رکی تھی۔ اس عظیم الشان بنگلے کو دیکھ کر لمحہ بھر کو بدر پاؤں کا درد بھول ہی گئی۔ وقاص نے اسے سہارا دے کر گاڑی سے نکالا، پھر دونوں بیگ سرمئی گیٹ کے اندر لے گیا۔ کچھ سیکنڈ بعد وہ ٹیکسی والے کو فارغ کرکے اسے بھی گیٹ سے اندر لے آیا۔ گیٹ سے ملحقہ کمرے کے سامنے ان کا سامان پڑا تھا۔ بدر کومعلوم تھا ایسے کمرے عموماً گیٹ کیپر یادیگر ملازمین کے لیے ہوتے ہیں ۔ لیکن اندر آ کر اسے اپنا تاثر بدلنا پڑا۔ وہ سپر لگژری بیڈ روم تھا جس کا فرنیچر لاکھوں میں رہا ہوگا ۔
’’ادھر بیڈ پر بیٹھ کر اس ٹیوب سے پاؤں کا مساج کرو، میں کچھ کھانے پینے کا انتظام کرتا ہوں۔‘‘
وقاص نے فارمیسی سے لی گئی دوا اس کی طرف بڑھائی۔
’’سوری وکی! لیکن غلطی میری نہیں تھی وہ عربی پتا نہیں کہاں سے نکل کر خود ہی مجھ سے ٹکرا گیا۔ میں توازن برقرار ہی نہ رکھ سکی ۔ در اصل ایسی ہیلز میں نے پہلے کبھی نہیں پہنیں، نہ ہی اتنے چکنے فرش پر ہیل پہن کر چلنے کا تجربہ تھا تو بس…‘‘ بدر نے شرمندگی کی باوجود اصل بات صاف کہہ دی۔
’’کوئی بات نہیں، ایسا ہو جاتا ہے ۔‘‘
میں نے نوٹ کیا ہے ایئر پورٹ پر زیادہ خواتین نے جوگرز نما جوتے ہی پہنے ہوئے تھے ۔ مجھے تجربہ نہیں تھا ورنہ تو میں بھی ایزی جوتے ہی پہنتی۔ ‘‘
’’چلو چھوڑو جو ہوا سو ہوا، اگلی بار جوگرز پہن لینا ، ابھی تو مساج کرو کل تک فرق نہ پڑا تو ڈاکٹر کو دکھانا پڑے گا ۔‘‘
بدر نے ڈکلوفینک جیل اٹھا کر پاؤں پر مساج شروع کر دیا۔
٭…٭…٭
سارا دن وہ لڑکی اس کے ذہن پر سوار رہی تھی۔ شیخ سالم حداد کو اندازہ تھا کہ اس کے سنیکرز کی ٹوہ نے اس لڑکی کے پاؤں پر کیا قیامت ڈھائی ہو گی۔ فٹ بال کھیلتے ہوئے ساتھی کھلاڑیوں کے سنیکر اکثر ایک دوسرے کی پنڈلیوں اور ٹخنوں پر لگ جاتے تو درد کی شدت نانی یاد کرا دیا کرتی ۔ ایسی چوٹیں معمول کا حصہ ہوتے ہوئے انہیں تڑپا کے رکھ دیتی تھیں تو وہ تو دعوے سے کہہ سکتا تھا اس نرم و نازک لڑکی پر یہ افتاد پہلی بار ٹوٹی تھی۔ کچھ یاد آ نے پر اس نے اپنے بیگ سے اینٹی سیپٹک ٹیوب نکالی اور بیڈ پر جا بیٹھا۔ پنڈلی کے نرم گوشت میں اس لڑکی کا اچھا خاصا بڑا ناخن گھسا تھا ۔ ہوٹل کے اس کمرے میں اسے وہ دو سفید کبوتروں جیسے ہاتھ یاد آئے جن پر مہندی سے مکمل چاند بنائے گئے تھے ۔
’’کہاں گم ہو شیخ ؟‘‘ معتصم نے اس کی آ نکھوں کے سامنے چٹکی بجائی۔
’’حسین! تمہیں وہ لڑکی یاد ہے جو صبح مجھ سے ٹکرائی تھی؟‘‘
’’تم سے تو ہزار ٹکراتی رہتی ہیں بلکہ قدموں میں گرتی رہتی ہیں کس کس کو یاد رکھیں ؟‘‘ معتصم نے چیونگم کی ببل پھوڑی۔ سالم نے اسے گھور کر دیکھا ۔
’’ہاں ہاں یاد ہے۔‘‘ حسین نے گویا اس کا حوصلہ بڑھایا ۔
’’یار! اسے بہت شدید چوٹ لگی تھی میرے سنیکر کی ٹھوکر تم سے برداشت نہیں ہوتی وہ تو بہت کمزور سی لڑکی تھی ۔ مجھے اس کے لیے بہت برا محسوس ہو رہا ہے ، ہمیں وہاں رکنا چاہیے تھا۔‘‘
’’رکنا چاہیے تھا…؟ یعنی ہم اس ہندی لڑکی کو مستشفاء (ہسپتال) لے کر جاتے، معائنہ کراتے ؟‘‘ حسین گویا برا ہی مان گیا۔
’’وہ ہندی نہیں باکستانی تھی ۔‘‘
عرب ’’پ‘‘ نہیں بول پاتے کیونکہ ان کے حروف تہجی میں پ نہیں ہے سو وہ پ کو ’’ب‘‘ سے ری پلیس کر دیتے ہیں ۔
’’تمہیں اس نے بتایا کہ باکستانی ہے ؟ ‘‘
’’نہیں ،میں نے اس کا چہرہ دیکھا تھا وہ نقش وہ خد و خال وہ آ نکھیں باکستانی ہی ہو سکتی ہیں ۔ وللہ ایسی ساحر آ نکھیں …‘‘ اس نے جھرجھری لی تھی لیکن اس کی خود کلامی نما آواز کسی نے سنی ہی نہیں ۔ حسین اپنی بیوی کی آ نے والی کال اٹینڈ کرتا ٹیرس پر نکل گیا اور معتصم متوجہ ہی نہ تھا۔ شیخ سالم حداد نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں پھنسا کر تکیے پر رکھیں ان پر اپنا سر رکھا اور ہوٹل کے کمرے کی دیدہ زیب چھت میں بدر جہاں کو دیکھنے لگا۔
کبھی وہ اسے سفید لباس میں سفید سنگ مر مر کی مورت لگی تو کبھی دادی سے سنی کہانیوں والی اپسرا۔ اس کے نرم و نازک مہندی لگے سفید ہاتھ کا ٹھنڈا لمس ابھی تک اس کی پنڈلی پر تازہ تھا ۔ سالم کو لگا جیسے اس لمس والی جگہ پر چیونٹیاں رینگی ہوں۔ اس نے زور سے ہاتھ مار کر ان چیونٹیوں کو بھگانا چاہا۔
’’وہ غیر معمولی حسین لڑکی تھی شاید اس لیے بار بار خیال آ رہا ہے میں محض چوٹ لگنے کو سبب سمجھ رہا ہوں۔‘‘
’’غیر معمولی حسین تو جولیا بھی ہے ۔‘‘ دماغ نے دلیل دی ۔
وہ جولیا جیسی نہیں تھی … اسے اجنبی لڑکی کا شدید تکلیف میں بھی گریز یاد آ یا۔ اس کو شارٹس میں دیکھ کر سبز آ نکھوں میں اٹھنے والی ناگوار لہریں بھی اسے پوری جزیات سے یاد آ ئیں تو وہ مسکرا دیا۔ کس طرح اچانک ہی اس کا کھیل میں پہنا جانے والا سخت و مضبوط جوتا اس کے ٹخنے سے جا ٹکرایا تھا ، اسے پوری جزیات سے یاد آ یا تو تکلیف ہوئی کہ اس کی وجہ سے کسی لڑکی کو اتنی سخت چوٹ لگی ۔
’’کہیں فریکچر ہی نہ ہو گیا ہو؟‘‘ اس نے گہرا سانس بھرا تھا۔
’’آنا اسفا مرہ جمیلہ !‘‘ (اے خوبصورت خاتون میں شرمندہ ہوں)
’’نہ حسین مجھے وی آئی پی لاؤنج سے لے کر نکلتا نہ میں تم سے ٹکراتا نہ تمہارے چوٹ لگتی۔‘‘
٭…٭…٭