سلسلہ وار ناول

کسی اجنبی سے دیار میں: قسط نمبر 2

عمانیوں کی قدیم روایت کے مطابق اس نے اپنی ساری محرم خواتین اوربزرگ مردوں کے ہاتھ چومے، اپنے ہم عمر کزنز کے گال سے گال ملا کرمرحبا و مبروک کہا بچوں کے سر چومے اور بالآخر ویل چیئرپر سب کے درمیان بیٹھی ہاجرہ حداد کے قدموں میں جا بیٹھا۔
’’تمہارے اعزاز میں ضیافت کا اہتمام ہے۔‘‘
’’لیکن ماما! میں صرف آرام کرنا چاہتا ہوں پورا ایک مہینہ ہو گیا اپنا کمرہ اور بیڈ مس کرتے، آ ج صرف بھرپور نیند کی چاہ ہے۔‘‘
شیخ حداد نے بیٹے کو کندھے پر ہاتھ کر اجازت دی کہ جاؤ تم آزاد ہو ، ہم اس دعوت کو خود بھگتا لیں گے۔
’’سالم پر گوروں کا لباس کتنا چجتا ہے؟‘‘ ریماحداد نے بھائی کو پھوپھی کے پاس رکے دیکھ کر ماؤں اور باپ سے تصدیق چاہی۔
چھ فٹ سے نکلتا قد، کسرتی مضبوط بدن، صاف رنگت جو دھوپ میں کھیل کھیل کر سن ٹن کی بدولت گندم کے سنہرے خوشوں کی رنگت میںڈھل چکی تھی، رخساروں پر سجی سیاہ داڑھی کا خو بصورت خط اورسیاہ گھنیرے صحت مند و سخت بال جو گردن سے نیچے بکھرے ہوئے تھے ۔ اس سے نظریں ہٹانے نہ دے رہے تھے۔ طوبی حداد نے بیٹی کی نظروں کا تعاقب کیا تھا۔
’’ماشاء اللہ کہو لڑکی، بھائی کو نظر لگاؤ گی کیا؟‘‘
’’سالم پر کون سا لباس نہیں جچتا؟ ‘‘ہاجرہ حداد بھی مسکرا اٹھی،ان کاشیر جوان و دل کش بیٹا ان کی نظروں کے سامنے سیڑھیاں چڑھ کر گھرکے اندرونی حصے میں جا رہا تھا۔
شیخ حداد نے مہمانوں کو بیٹے کے آرام کا بتا کر لان میں جانے کی درخواست کی تاکہ سب مل کر کھانا تناول کر سکیں ۔
’’اب شیخ کی شادی کر ہی دیں، شیخ طفیل بھوان کی بیٹی مصر سے پڑھ کر آئی ہے انہوں نے مجھے کہا ہے شیخا بنا مہر کے ہمارے سالم سے نکاح کو تیار ہے ۔ ‘‘ سالم کی پھوپھی نے بھابھیوں کو نیا پرپوزل بتایا۔
’’ واللہ بنا مہر کے ؟ ‘‘ وہ دونوں حیران ہوئیں ۔
’’ ہاں، شیخا ہمارے سالم کی بہت بڑی فین ہے کہتی ہے چمپئن ٹرافی میں کئے گئے سالم کے گول ہی اس کا مہر بن جائیں گے ۔‘‘
’’ عرب کی لڑکیاں بھی باقی دنیا کی طرح مجنون(پاگل) ہو گئی ہیں بنا مہرکے نکاح کی پیش کش کریں گی اب۔‘‘
عرب بھلے ماڈرن دنیا کے ہمقدم چل رہے تھے لیکن اپنی روایات، رسوم و رواج کے وہ پکے تھے۔
’’ہم تو شیخ سے کبھی نہ کہیں کہ ایسی لڑکی سے شادی کرو۔‘‘ ہاجرہ نے صاف گوئی سے کہا۔
’’سٹار ہے ہمارا سالم، ہزاروں اس پر صرف اسی سٹارڈم کی وجہ سے مرتی ہیں، یہ بات آپ کو جانے کب سمجھ آ ئے گی۔‘‘ شریفہ نے بھابھیوں کی عقل پر انگلی اٹھائی۔
’’اسی بات نے تو اس کا دماغ خراب کر رکھا ہے غضب خدا کا اٹھائیس سال کا ہو گیا ہے شادی کے نام پر اتھرا گھوڑا بن جاتا ہے ۔ ہمارے لڑکے تو بیس کے نہیں ہوتے شادی کروا لیتے ہیں یہ فرنگیوں، ہندوؤں میں رہ کران جیسا ہو گیا ہے۔‘‘
’’ کیا پتا بھائی کہتا ہو شادی کرا لی تو لڑکیوں کی فین فالونگ کم ہو جائے گی۔‘‘ ریما نے شرارت سے ماؤں اور پھوپھی کو دیکھا، حسب توقع ان کے منہ لال ہو گئے۔
’’یہ بات ہے تو صبح دو ٹوک بات کرتی ہوں کھونٹے سے باندھتی ہوں اس جنگلی گھوڑے کو۔‘‘ ہاجرہ کو جلال ہی آ گیا۔
دوسری طرف شیخ سالم نے سرخ گلابوں کے بوکے سے بھری راہداری اوراپنے بیڈ روم کو دیکھ کر سر پر ہاتھ پھیرا تھا۔ خوشبو سے بھری فضامیں اس نے بیڈ پر بیٹھ کر معتصم اور حسین کے گھر کا احوال جانناچاہا تو آ گے سے فون بند ملے۔
’’ہو گئے حُرمہ کو پیارے، اب دس دن مجھے دستیاب نہیں ہوں گے کمینے۔‘‘ فون صوفے پر اچھال کر اس نے سرخ گلابوں کا ایک گلدستہ اٹھایا۔
’’الف مبروک سالم!‘‘
’’آئی لو یو…‘‘
ساتھ سرخ ہی لپ اسٹک سے بھرے ہونٹوں کا بوسہ تھا۔ اس نے اپنی انگلیوں کی پوریں کسی کے لبوں کی سرخی سے بچا کر کارڈبند کر دیا اور گلدستہ نیچے کارپٹ پر، پھر دوسرا، تیسرا، چوتھا، ہربوکے پر لگے کارڈ میں اظہار محبت، شادی کی آفر اور رنگین لبوں کے گمنام بوسے تھے۔ اسے معلوم تھا ان پھولوں میں مرد مداحوں کے بھیجے گئے پھول بھی ہوں گے،لیکن بنا بوسوں کے پھول تلاش کرنے کااس کا کوئی ارادہ نہیں تھا اس لیے اے سی کو اپنی پسندیدہ فگر پرایڈجسٹ کرکے سونے کے لیے وہ الٹا لیٹ گیا۔
٭…٭…٭
اس عالی شان کوٹھی کے شاندار ڈرائنگ روم میں وہ دونوں ماں بیٹابیٹھے تھے ۔ نرگس کے باوردی ڈرائیور نے انہیں بس سٹینڈ سے پک کیاتھا ۔ چکنا فرش جس پر جگہ جگہ خوبصورت رنگوں اور تراش کے رگزپڑے تھے۔ ڈرائنگ روم کی سجاوٹ ہی مکینوں کے مالی خوشحالی بتارہی تھی۔ زبیدہ اور یاسر نرم و ملائم صوفے میں دھنس سے گئے تھے۔ رعب امارت سے دل سکڑا پڑا تھا چہرے فق اور ہونٹ خشک ہو رہے تھے کہ نرگس شیشے کی ٹرالی اور ملازمہ کے ساتھ ڈرائنگ میں داخل ہوئی۔ یاسر کسی نہ کسی طرح صوفے سے اٹھنے میں کامیاب ہو گیا لیکن زبیدہ اپنے بھاری بھرکم وجود کے کارن ہل بھی نہ سکی۔ نرگس نے خودآ کر اسکے گال سے گال جوڑ سلام دعا کی۔
پھر اپنا قیمتی برینڈ کا فون زبیدہ کے ہاتھ میں پکڑا دیا فون پر ساحل سمندر کی ویڈیو تھی جس میں اٹھائیس انتیس سال کا شارٹس پہنے ہوئے جوان بھاگ رہا تھا۔ زبیدہ اور یاسر کے دیکھتے ہی دیکھتے وہ ساحل کی ریت سے پانی میں گھس کر تیراکی کرنے لگا۔ اب وہ ہاتھ ہلارہا تھا غالباً ویڈیو بنانے والے کو ہی ہلا رہا تھا۔ اسکے بعد اسی جوان کی مختلف جگہوں پر تصاویر تھیں۔
قیمتی لباس اور گھڑی وغیرہ کو چھوڑ کر وہ درمیانے قداور عام سا جوان تھا، چہرے مہرے سے خوشحالی جھلک رہی تھی۔
’’ یہ وقاص ہے تصویریں اور ویڈیو دکھانے کا مقصد تھا کہ آپ دیکھ لیں کوئی جسمانی عیب نہیں ہے۔ اگر ہماری آ پس میں کوئی بات بنتی ہے تووہ ابھی ویڈیو کال بھی کر لے گا۔
آ نٹی! بات یہ ہے کہ مجھے بدر بہت پیاری لگی وقاص نے سارا فیصلہ مجھ پر چھوڑ دیا ہے۔ مسئلہ یہ کہ ہمارے خاندان اور دوست احباب میں سے اکثر کی چاہ ہے وقاص ان کے گھر شادی کرے۔ وہ لوگ ہمارے ہم پلہ اور کچھ ہم سے بھی زیادہ سٹرونگ ہیں۔ ہمارے ہاں حسن سلیقہ وغیرہ نہیں دیکھا جاتا صرف سٹیٹس دیکھا جاتا ہے۔ ہیرے جواہرات پہن کر سیلون جا کر سب لڑکیاں ہی خوبصورت نظر آ نے لگتی ہیں۔ اس لئے حسن کبھی بھی پہلی ترجیح نہیں ہوتا لیکن میرا بدر پر دل آ گیا ہے۔ وقاص نے تو پہلے ہی کہا تھا آ پی جہاں مرضی شادی کر دیں لیکن بیوی میری بہت خوبصورت ہونی چاہیے۔ عرب میں رہتا ہے ناں عربوں جیسی عادات ہو گئی ہیں عرب دولت نہیں عورت کا حسن دیکھتے ہیں وہ بات تو آپ نے بھی سنی ہوگی کہ عرب کہتے ہیں’’ سواری اور بیوی ہمیشہ بہترین ہونی چاہیے۔‘‘
یاسر اور زبیدہ تو یوں بیٹھے تھے جیسے فرمانبردار شاگرد لیکچر سن رہے ہوں۔
’’آ نٹی، یاسر بھائی! بات یہ ہے کہ ہماری اور خاص کر وقاص کی بہت انسلٹ ہو گی جب سب کو پتاچلے گا برأت کہاں جانی ہے اور لڑکی والے کس حیثیت کے لوگ ہیں۔‘‘ حیثیت کو نرگس نے کچھ یوں ادا کیا کہ زبیدہ کوصاف سمجھ آ گئی وہ اوقات کہنا چاہتی تھی پر کہہ نہیں سکی۔
’’آج کل تو شادی ہال میں بھی شادی ہو جاتی ہے ناں…‘‘ زبیدہ نے پھنسی پھنسی آواز میں تصدیق چاہی۔
’’میں نے بھی یہی سوچا ہے اسی لیے آ پ کوبلایا ہے کہ کھل کر بات کرلوں آگے جیسے آ پ کی مرضی…‘‘
’’ہم چاہتے ہیں سادگی سے شادی کر لیں، اپنے کسی رشتے دار کو نہ بلائیں نہ بتائیں ۔ وقاص کہہ رہا تھا شادی کے فوراً بعد بدر کو دبئی ہی لے جائے گا تاکہ یہ کلاس ڈفرنس وغیرہ پر پردہ ہی پڑا رہے۔ چند ہفتوں بعد رشتے داروں کو بتا دیں گے وقاص نے اپنی پسند سے دبئی میں ہی شادی کر لی ہے لڑکی اور اس کی فیملی دبئی میں رہتے ہیں وغیرہ وغیرہ جیسا چکر چلا دیں گے۔ ‘‘
زبیدہ اور یاسر نے ایک دوسرے کا منہ دیکھا۔
’’آ نٹی! ساتھ ساتھ ہم بہن بھائی کوشش کریں گے یاسر کو بھی فنانشلی سپورٹ کرسکیں۔ اللہ کا بڑا کرم ہے ہم پر۔‘‘
’’ اللہ معاف کرے بیٹی! ہم بھلے آ پ لوگوں سے غریب ہیں پر بیٹیوں کاکھاتے نہیں ہیں نہ صدقہ خیرات لیتے ہیں حسب توفیق دیتے ہی ہیں،اللہ دینے والے ہاتھ رکھے۔‘‘ زبیدہ نے پہلی بار کھل کر اپنے انداز میں بات کی ورنہ تو وہ ماں بیٹا بالکل ٹھس ہو چکے تھے۔ یہ بات بھی شاید برا لگنے کی وجہ سے اپنے آپ اس کے منہ سے نکل گئی تھی۔
’’بالکل بالکل آ نٹی اللہ آپ لوگوں کو مزید دے ویسے میں نے یاسر کی ویزے کی بات کرنی تھی کہ ہم اس کو فری ویزہ دے دیں گے اُدھر جاب یہ وقاص کی کمپنی میں کر سکتا ہے یا کچھ بھی اپنا کام کر سکتا ہے۔ پاکستانی لاکھ تو کما ہی لیا کرے گا منتھلی۔ ‘‘
اب کہ یاسر سیدھا ہوا تھا۔
’’اس طرح سے بدر کو اپنی فیملی کا حصہ بنانے کی ہماری خواہش بھی پوری ہو جائے گی آپ بھی مالی طور پر مستحکم ہوتے جائیں گے تو پھرمجھے یا وقاص کو رشتے داروں کے مذاق اڑاتے چہرے کم برداشت کرناپڑیں گے بدر کا بھی سیلف کانفیڈینس بڑھے گا اسے تب تک ہماری سوسائٹی میں موو کرنا بھی آ جائے گا۔‘‘
نرگس کی انگریزی ٹرمز زبیدہ کو بھلے سمجھ نہیں آ ئیں لیکن بات پوری سمجھ آ گئی تھی۔
’’آ گے جیسی آپ لوگوں کی مرضی۔‘‘ نرگس نے ساتھ ہی انواع و اقسام کے لوازمات کی طرف اشارہ کیا تھا۔
یاسر اور زبیدہ نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر ہاں کر دی۔ نرگس نے زبیدہ کا گال چوم کر مبارک دی اور پیسٹری سے منہ میٹھا کرا دیا۔ زبیدہ کو یوں لگ رہا تھا جیسے ساری دنیا اس ڈرائنگ روم میں سمٹ کراس پر رشک کر رہی ہو۔
’’میں کل تو نہیں پرسوں بدر کو انگوٹھی پہنانے کی رسم کرنے آؤں گی،میرے بہت سے چاؤ ہیں اکلوتی بھابھی ہے میری۔‘‘ نرگس ایکدم ہی چہکنے لگی تھی۔
’’ہاں جی ہاں جی کیوں نہیں ،جب دل کرے آؤ اپنی بھابھی سے ملنے۔‘‘ زبیدہ اور یاسر بھی اب خوش ہو چکے تھے۔
’’وقاص! تمہاری ساس اور برادر ان لاء (سالا) گھر آئے ہیں، پلیز ویڈیوکال تو کرو، بھلے دس منٹ ہی ٹائم نکال لو۔‘‘ نرگس نے وقاص کو وائس نوٹ بھیجا تھا۔
یاسر اور زبیدہ کے اعصاب ایک بار پھر تن سے گئے۔
’’آ نٹی! ایک اور بات، میں اپنے میاں کے سنگاپور واپس آ نے سے پہلے ہی شادی کرنا چاہتی ہوں۔ یو نو جتنا بھی اچھا ہو سسرال تو سسرال ہی ہوتا ہے میں نہیں چاہتی میرا میاں میرے بھائی کا سسرال دیکھے ۔ ادھردبئی میں ہی مل لیں گے ایک دوسرے سے۔‘‘زبیدہ تو اس بات ریشہ خطمی ہی ہو گئی اسے پہلی بار نرگس اور اپنی کلاس کی عورتوں میں کوئی قدر مشترک نظر آئی تھی، میکے کا بھرم رکھنا اسے لگتا تھا صرف گلی محلوں کی عورتوں کا ہی فعل ہے۔
وقاص سے چند منٹ بات چیت کے بعد نرگس نے انہیں مٹھائی اور کیک وغیرہ زبردستی دے کر رخصت کیا کہ خوشی کا موقع ہے۔
٭…٭…٭
صوفہ کمروں کے سامنے بنے برآمدے میں رکھ کر مہر النساء نے سٹیج کا تاثر دینے کی اپنی سی کوشش کی تھی۔ فخر کی ساس اور محلے کی دو تین معمر خواتین صبح سے ہی محفل جما کر بیٹھ چکی تھیں۔ رشتے داروں کو بدر کی منگنی کا سیپشل فون کر کر کے زبیدہ نے بتایا تھا۔ نرگس کو انکی فیملی سے غرض نہیں تھی اس نے کہا تھا آ پ کا گھر اورخاندان ہے جس کو چاہیں بلائیں نہ بلائیں لیکن ہماری طرف سے میں ہی ہوں گی۔ زبیدہ کو کسی شے کی پروا نہیں تھی ایک دو بار فخر اور بدرکو محسوس ہوا کہ نرگس منگنی کرنے بھی اکیلی آئے گی تو رشتے دار اور محلے والے کیا کہیں گے۔ زبیدہ نے صاف کہہ دیا۔
’’جو مرضی کہتے رہیں مجھے صرف تمہارے سکھ کی فکر ہے مجھے یہی خوشی ہی کافی ہے تم امیر ہو جاؤ گی جیسے سکول کالج میں خود پڑھناچاہتی تھی تمہارے بچے پڑھیں گے اور دبئی میں رہو گی۔‘‘
پلاؤ کی دیگ زبیدہ نے خیر خیرات کے طور پر بنوائی تھی تاکہ منگنی بھی ہو جائے اور ساتھ محلے والے خیرات بھی کھا لیں گے، یہ اور بات ہے اس کی خبر صرف بدر اور فخر کو ہی تھی۔
مہندی رنگ کے سوٹ میں لبوں پر ہلکی سی لپ اسٹک لگا کر عام سے جیولری کے ساتھ دونوں کلائیوں میں کانچ کی سوٹ کی ہم رنگ چوڑیاں پہنے بدر اپسراؤں کو مات دے رہی تھی۔ نرگس کے آ نے کا شور پڑ گیا ۔ دو خواتین اور ایک ادھیڑ عمر مرد بھی ساتھ تھا ۔ پھولوں کے ہار، پھلوںاور مٹھائی کے ٹوکرے خواتین اور مرد نے اٹھا رکھے تھے جبکہ خودنرگس نے شاپنگ بیگ تھام رکھے تھے ۔ نرگس ان سب لوگوں کے لئے ٹی وی کا درجہ پا گئی تھی سب اسے کی ایک ایک ادا کو نوٹ کر کے پیسے سے ہی جوڑ رہے تھے ۔
’’ میری بھابھی اتنے ہلکے سوٹ میں تو انگیجمنٹ رنگ نہیں پہنے گی، ہم اپنا ڈریس لے کر آئے ہیں ۔ یہ لو لڑکیو! ذرا ہیوی میک اپ کے ساتھ تیارشیار کرکے لاؤ ہماری بھابھی کو۔‘‘ نرگس نے شاپنگ اور جیولری بیگز مہرو اور فخر کو دینا چاہے تو سنگل صوفے پر بیٹھی زبیدہ بدقت تمام اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’نرگس بیٹی! پہلے سب کو سامان دکھانا ہے پھرلڑکیاں بدر کو تیار کرلائیں گی۔ ‘‘
’’تو آپ ہی دکھا دیں پھر …‘‘ نرگس نے سارے بیگز انکی طرف بڑھا دیئے۔ فخر نے ماں کو زحمت سے بچانے کے لئے پکڑ کر ایک ایک چیز دکھانی شروع کی۔ ڈیزائنر ٹی پنک فینسی سوٹ کے ساتھ سارے میچنگ لوازمات تھے۔ جیولری بوکس کھول کر دکھایا تو ہلکی ہلکی بھن بھن کی آوازیں آنے لگیں۔ منگنی پر اتنا بھاری سونے کا سیٹ چڑھانے والا سسرال اس محلے میں کسی نے نہیں دیکھا تھا صرف ذکر سنا تھا یا ہر دوسری عورت اپنے کسی دور دراز کے امیر رشتے دار کے ایسے قصے سنا دیاکرتی تھی۔ لیکن اب نظروں کے سامنے پڑاسیٹ انہیں رشک و حسد میں مبتلا کر رہا تھا۔
بہنوں میں سے سب سے اچھا میک اپ کرنا صرف بدر کو ہی آ تا تھا سوبہنوں کی مدد سے اس نے نرگس کے لائے ڈریس کے ساتھ قدرے ہیوی میک اپ کیا تو فخر اسے برآمدے والے صوفے پر لے آئی۔ اب نرگس نے اپنے ہینڈ بیگ سے انگوٹھی نکالی اس کا سر چوما اور پھر پہنا ڈالی۔ مہروتصویریں بناتی جا رہی تھی۔
آ خر میں اس نے پھر سے ہینڈ بیگ میں ہاتھ ڈالا اور ایپل فون نکال لیا۔
’’یہ وقاص کی طرف سے تمہارا گفٹ ہے میں سم کارڈ بھی لے کر آئی ہوں فون آن ہوتے ہی وہ تم سے خود رابطہ کر لے گا۔ جدید دور ہے ناں؟‘‘ اس نے مسکرا کر حاضرین کی طرف دیکھا تو سب ہی تقلید میں مسکرادیئے۔

پچھلا صفحہ 1 2 3

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page