سلسلہ وار ناول

کسی اجنبی سے دیار میں: قسط نمبر 2

’’بدر! تم کوئی وظیفہ ہی شروع کرلو نوافل کی منت مانگ لو ایسی بے فکرپھرتی ہو جیسے کوئی بات ہی نہیں ہے۔‘‘
دس دن ہو گئے تھے نرگس کی طرف سے کوئی پیش رفت نہ ہوئی تھی۔ جگت اماں کو فون کرنے پر اماں نے صاف بتا دیا نرگس کہیں اور اپنے جیسوں میں بھی رشتہ دیکھتی پھر رہی ہے۔ فخر آج پھر آئی ہوئی تھی، اسے بدر کی لاپرواہی کھل رہی تھی۔
’’ کیا کہا؟‘‘
’’اماں! اس کی حالت دیکھو اس کوپروا ہے کوئی؟‘‘
’’فخر باجی! نیا ناول ہے پورے دس روپے کرایہ دے کر آئی ہوں۔ صبح سکول جاتے ہوئے واپس کرنا ہے، ابھی صرف تین سو صفحے پڑھے ہیں رات کواماں نے بتی بند کرا دینی ہے، مجھے اپنا لالچ ہے آپ پتا نہیں کیا کہہ رہی ہیں۔‘‘
اب کہ فخر نے سچ میچ سر پیٹ لیا۔
’’ تم ان جاسوسی ناولوں کو پڑھ پڑھ کر قلعہ فتح کر لینا، جو کرنے والا کام ہے بس وہ نہ کرنا۔‘‘
’’جب جائے گی سیما کے میکے جیسے گھر میں تب پتا چلے گا مجھ قبرمیں لیٹی کو روئے گی۔‘‘ زبیدہ نے بھی بھڑاس نکالی۔
’’اماں! آپ یہ بات کیوں نہیں مان لیتیں کہ ہمارے رشتے ہمارے جیسے گھروں میں ہوتے ہیں ڈیفنس میں نہیں ہو سکتے۔ سات پشتوں میں کوئی رشتے دار ڈی ایچ اے کا نہیں ہوگا ہمارا، اور اب آپ چاہتی ہیں ڈیفنس، بحریہ میں یکا یک ہماری شادیاں ہو جائیں۔‘‘
’’میرے چاہنے سے کون سا ہونے لگی ہیں۔‘‘ زبیدہ دس دن سے دل میں غبارلیے پھر رہی تھی، بالآخر بڑی بیٹیوں کے سامنے رو ہی پڑی۔ دونوں نے ماں کو دونوں طرف سے تھاما۔
’’کون سی کمی ہے میری بدر میں، پورے شہر میں کوئی ایسی سوہنی نہ ہوگی۔ نہ کبھی بیوٹی پالر گئی نہ کبھی میک آف (میک اپ) کیا پھر بھی نظر نہیں ٹھہرتی۔ نصیب برے اس لیے ہیں ادھر چھوٹے سے گھر میں پیدا ہو گئی۔‘‘
فخر بھی ماں کے ساتھ ہی رونے لگی۔ تاج اور مہرو اوپر برساتی میں اس وقت پڑھتی تھیں محلے کے چھوٹے بچوں کو ٹیوشن بدر پڑھایا کرتی تھی۔ آ ج بدر ناول پڑھ رہی تھی تو مہرو نے پڑھانی تھی۔
’’اماں! میرا یقین کریں میں نے کبھی شادی کا نہیں سوچا، آ پ کو شوق ہے تو میں کہتی ہوں ٹھیک ہے کل بھی ہونی ہے آ ج ہو جائے۔ ورنہ یاسربھائی اور فخر باجی کے مسئلے مسائل دیکھ کر میرا دل ہی نہیں کرتاشادی کو۔‘‘
’’در فٹے منہ تیرا، کوئی چنگی فال منہ سے نکال،اللہ کرے تیری اسی سال شادی ہو وقاص کے ساتھ ہی ہو۔ دشمنوں کے سینے سڑ جائیں ان کی بد دعائیں انہی پر لوٹیں۔‘‘
زبیدہ نے سیما کو دیکھ کر اونچی آواز میں کوسنے دیے۔ کیونکہ سیمانے بدر کی پھوپھیوں اور مامیوں کو وقاص کے رشتے کے بارے میں اطلاع پہنچا دی تھی۔ اب ہر روز کسی نہ کسی رشتے دار خاتون کا فون آ تاہمدردی کے بہانے ٹھٹھہ اڑاتیں کہ زبیدہ اونچے خواب دیکھتی منہ کے بل گر رہی ہے ۔ فخر اور بدر نے متوقع جنگ روکنے کے لیے ماں کو کوسنوں سے باز رکھنے کی پوری کوشش کی۔
’’ہائیں اماں! کیا بدر کی شادی رشتے داروں سے چھپا کر کرو گی ذرا یہ توبتاؤ ؟ ‘‘ سیما نے دوپٹہ سر پر باندھا اور مکمل طور پر میدان میں اتر آئی ۔ اب زبیدہ اور سیما کو چپ کرانا کسی مائی کے لعل کی بس کی بات نہیں تھی ۔ دریاؤں پر بند باندھنے آ سان تھے لیکن محلے میں ہوتی گھریلولڑائیوں کو روکنا ناممکن تھا۔ زبیدہ کی پانچوں لڑکیوں کا ذہن اگرمختلف تھا تو تعلیم، استانی ستارہ کی تربیت اور خواتین کے شماروں سے پڑھی جانے والی کہانیوں کی بدولت مختلف تھا ورنہ وہ بھی اسی کیٹگری میں آ تیں جن میں ان کے طبقے کی ساری خواتین آ تی تھیں۔
’’میرا مذاق اڑانے والوں کے منہ کالے ہوں گے ۔ بدر کے نصیب پر ایک عالم رشک کرے گا تو دیکھنا میری نیک بچی کا نصیب اللہ کیسے کھولتا ہے ۔ تیری جیسی ساری ڈائنیں گردن اونچا کرکے دیکھا کریں گی میری بیٹی کو …‘‘ زبیدہ، سیما کے طعنوں کے جواب دیتی ہانپنے لگی تھی ۔ فخر نے ماں کے منہ پر ہاتھ رکھ کر چپ کرایا۔
’’اپنا جثہ اور ہانپنا دیکھ اماں، مجھے نہیں لگتا تو اس ریوڑ کا نصیب کھلتا دیکھ سکے گی۔سیدھی قبر میں جاتی لگ رہی ہے۔‘‘ سیما نے ہاتھ پرہاتھ مار کر خود اپنی بات کا لطف لیا۔
’’بھابھی! خدا کے واسطے اپنی زبان کی کڑواہٹ کم کر لے ماں نہ سمجھیں، پر ان کی عمر کا تو لحاظ کر لیں۔‘‘ بدر روہانسی ہو گئی۔
’’ تو چل بوہتی پڑھی لکھی، میری استانی بننے کے ضرورت نہیں ادھرسکول میں ہی استانی بنا کر ۔ ‘‘ سیمانے بدر کو بھی ٹھیک ٹھاک سنا ڈالیں ۔ فخر ایسے موقعے پر چپ کرکے عزت بچا لیتی تھی یوں ذرا بھرم رہ جاتا تھا۔
ایسی لڑائی کے بعد سیما اپنے کمرے میں گھس جاتی تھی ۔ یوں رات کے کھانے اور دیگر کاموں کا سارا بوجھ بدر پر آ جاتا تھا۔ اب بھی وہ دل کی بھڑاس نکالنے کے بعد کمرے میں گھس چکی تھی ۔ انہیں معلوم تھا اب وہ اپنی ماں کو کارکردگی سنائے گی پھر یاسر کی پھوپھیوں سے چغلیاں کرے گی۔ لیکن ان میں سے کسی کی جرأت نہیں تھی کہ سیما کوروک سکیں کیونکہ یاسر سارے کا سارا سیما کا تھا ۔ زبیدہ بھی یاسر کے سامنے سیما سے جنگ کرنے سے ذرا دب جاتی تھی۔ اکیلے میں جم کرمقابلہ ہوتا تھا جیسے آ ج ہوا تھا۔
’’اے بدر! مجھے اماں کا نمبر ملا کر دے میں نرگس کا نمبر لے کر خود بات کروں گی۔‘‘
’’لو کیا منتیں کرو گی کہ میری بیٹی کا رشتہ اپنے بھائی کے لیے لے لو۔‘‘ فخر نے برا منایا۔
’’ہاں! منت بھی کر لوں گی، بدر کا اعلیٰ خاندان میں رشتہ ہو جائے میں منت کرتے کون سا پتلی ہونے لگی ہوں۔‘‘
’’اماں! آپ بھابھی کی باتیں دل پر نہ لیں، ان کی باتوں کا غصہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ خوامخواہ نرگس کو کال کرکے میری اور اپنی بے عزتی کرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بڑے لوگ بڑے لوگوں میں رشتہ کرتے ہیں اس کابھائی کل کو ہمارے گھر کیسے آ ئے گا اس نے ہر بات سوچ سمجھ کر ہی دوبارہ ہم سے رابطہ نہیں کیا۔‘‘
’’بھلے تو بھی ادھر نہ آ نا اپنے گھر شان سے سکھی رہو گی تو مجھے کوئی غم نہیں کہ میری بیٹی مجھے ملتی ہے یا نہیں۔‘‘
’’اماں مجھے پانچ سال ہو گئے ہر طرح کی لڑکیوں کے ساتھ پڑھتے پڑھاتے، میں نے یہی دیکھا امیر کی شادی امیر کے گھر اور غریب کی شادی غریب کے گھر ہی ہوئی ہے۔ کسی امیر لڑکی نے کسی غریب سہیلی کوبھابھی نہیں بنایا۔ مجھ سے بھی دوستی تھی میری تعریف بھی کرتی تھیں پر میرا بیک گراؤنڈ جانتی تھیں اس لیے کبھی مذاق میں بھی نہیں کہتی ہیں کہ ہم نے تمہیں اپنی بھابھی بنانا ہے۔مجھے یہ حقیقت بہت اچھی طرح پتا ہے اس لیے میں اونچے خواب نہیں دیکھتی، آپ بھی نرگس کو اپنے ذہن سے نکال دیں اللہ کوئی اور سبب لگا دے گا۔‘‘
فخر نے بھی بہن کی بھرپور تائید کی۔
’’لیکن میرے دل کو قرار نہیں آ تا۔‘‘ زبیدہ پھر سے منہ پر کپڑا رکھ کر رونے کا ارادہ باندھ چکی تھی جب فون بجنے لگا۔
’’ہیلو! میں نرگس بات کر رہی ہوں، آ نٹی کل آپ لوگ میرے گھر لاہور آسکتے ہیں؟‘‘
’’بسم اللہ بسم اللہ! کیوں نہیں بیٹی ہم سر کے بل آ سکتے ہیں۔‘‘
’’آپ برا نہ منائیں تو صاف بات کروں؟‘‘
’’ہاں !کیوں نہیں بیٹی۔ ‘‘
’’زیادہ لوگ نہیں صرف آپ اپنے بیٹے اور بیٹی میرا مطلب ہے بدر کی شادی شدہ بہن کے علاووہ کسی کو ساتھ مت لائیں۔ میں کچھ بات کرناچاہتی ہوں جو آ پ کے رشتے داروں کے سامنے کرنا مناسب نہیں ہے۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے ہم صبح آ تے ہیں لاہور، کتنے بجے تک؟ ‘‘
’’جب بھی آ جائیں بس اسی نمبر پر فون کر دیں ،میرا ڈرائیور آپ لوگوں کوپک کر لے گا۔ میں کل سارا دن گھر پر ہی ہوں۔‘‘
فون بند کرکے زبیدہ سجدے میں ہی جا پڑی تھی۔ فخر بھی بے حد خوش تھی بدر ماں بہن کی خوشی میں خوش تھی پھر بھی اس نے ماں کو یاددلایا۔
’’اماں رشتہ طے نہیں ہوا، ابھی تو آپ نے لڑکا بھی نہیں دیکھا سجدے پہلے ہی شروع کر دیے۔ ذرا خوشی بچا کر رکھ لیں۔ کیا پتا لڑکا بھینگاہو۔‘‘ بدر کی شرارت پر اماں برا مان گئی۔
’’اللہ نہ کرے پر میں نے سوچ لیا ہے چھوٹا موٹا نقص ہوا بھی تو میں نے کل ہاں کر آنی ہے آ خر کو وہ بھی تو سمجھوتہ کر رہے ہیں۔ مرد کی جیب اور جائیداد ہی سب کچھ ہوتی ہے۔‘‘
گھر میں صبح لاہور جانے کے لیے پلاننگ ہونے لگی تو بدر نے ناول اٹھایااور اوپر برساتی میں پہنچ گئی۔ اسے پتا تھا فخر اب خوشی خوشی سارے کام کر دے گی۔
اس نے کتاب کے صفحے پر نظر جمائی تو ہر جگہ وقاص لکھا نظر آ نے لگا۔ جسم وجاں میں کوئی میٹھی سی لہر تھی جو دوڑنے لگی تھی۔ وہ اپنے احساسات پر بند باندھ کر ناول پڑھنے کی کوشش کرنے لگی۔
٭…٭…٭
صلالہ انٹرنیشنل ائر پورٹ پر اس وقت ظفار سٹیٹ ساری کی ساری اپنی قومی کورہ ٹیم (فٹ بال) کے کپتان، گولی ااور ڈیفنس کھیلنے والے کھلاڑی کے استقبال کے لیے جمع تھی۔ سلطنت آف عمان اگر کورہ (فٹ بال) کا چمپئن بنا تھا تو اس میں ستر فیصد حصہ ظفار سٹیٹ کا تھا ۔ کپتان سالم حداد، گول کیپر حسین معشنی اور ڈیفنس پلیئر معتصم جمال کا تعلق ظفار صلالہ سے تھا ۔ وہ تینوں اپنے کھیل میں یکتا ہونے کے ساتھ ساتھ بچپن کے دوست بھی تھے ۔ حسین ڈی کا بادشاہ تھا تومعتصم اپنے کام کاماہر لیکن سالم ون مین آرمی تھا ۔ عمان کے ساتھ ساتھ سارا خلیج بھی کہتا تھا کہ شیخ سالم حداد جیسا جوشیلا، غضبناک اور شاندار کھلاڑی اس سے پہلے اس سرزمین نے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ اب بھی مراکو میں عمان کو چمپئن بنانے کے علاوہ سار ی سیریز میں سب سے زیادہ گول کرنے کا ریکارڈ قائم کرکے آ نے والا فٹ بالرشیخ سالم حداد ہی تھا۔ اتنے سالوں بعد چمپئن بننے کی خوشی نے پورے ملک میں خوشی و جوش کی لہر دوڑا رکھی تھی۔
وی وی آئی پی ارائیول لاونج سے باہر نکلتے ہی جب معتصم نے لوگوں کاجم غفیر دیکھا تو پیچھے آ تے دوستوں کے چہروں کے تاثرات بھی جانچے۔
’’ہاں صدیق! کیا پلان ہے؟‘‘ مسقط ائر پورٹ پر انہیں لوگوں سے ملتے ملاتے سیلفیاں آٹو گراف دیتے دو گھنٹے لگے تھے۔
’’ملنا پڑے گا ۔‘‘
سالم نے شریر مسکراہٹ سے حسین کو دیکھا تو معتصم نے اس کا اشارہ سمجھ کر زور دار قہقہہ لگایا۔ حسین نے کھا جانے والی نظروں سے دونوں کو گھورا۔
’’چمپئن بن کر مصیبت میں پڑ گئے ہیں۔‘‘ اس کی بڑبڑاہٹ واضح تھی۔
’’جہاں تین ہفتے صبر کیے رکھا وہاں گھنٹہ اور نکال لو، فوت نہیں ہو جاؤگے۔‘‘
معتصم نے ساتھ ہی سالم کو آ نکھ ماری،سالم اس کا اشارہ سمجھتے ہی ہینڈ کیری چھوڑ کر لوگوں کو ہاتھ ہلانے لگا۔ شورسیٹیاں اور مرحبا سے صلالہ شہر کی فضا گونجنے لگی۔
’’ سالے، کمینے! میری بد دعا ہے تیری نئی نئی شادی ہو تو بیک ٹو بیک ٹورنا منٹ آ جائیں، ورلڈ کپ شروع ہو جائے، کلب تیرے گھر جانے پرپابندی لگا دے۔ تو اپنی بیوی کے بدن کی خوشبو بھول جائے۔ میری بددعا ہے تجھے۔‘‘ حسین بلبلا اٹھا۔
شیخ سالم حداد اور معتصم جمال نے لوگوں سے گلے ملتے، پھول پہنتے اس کی باتوں پر فلک شگاف قہقہہ لگایا تھا اس بات سے بے خبر کہ بعض گھڑیاں قیامت کی بے حس ہوتی ہیں ہنسی اڑاتی باتوں کو گرہ میں باندھ لیتی ہیں وقت آنے پر جب لوٹتی ہیں تو انسان ہنسنا تو کیا رونا بھی بھول جاتا ہے۔
شیخ حسین معشنی کی ڈیڑھ مہینہ پہلے ہی شادی ہوئی تھی شادی کے ہفتے بعد ہی اسے پریکٹس میچز اور ٹورنا منٹ کے لئے عمان چھوڑنا پڑاتھا۔ سارا ٹورنا منٹ اس نے بیوی کے ہجر میں گزارا تھا۔ اب بھی سالم اور معتصم کی شرارت سے اس کا ہجر دو گھنٹے مزید طویل ہو گیا تھا۔
اس سے پہلے کہ لوگ اس کے ہاتھ میں فٹ بال پکڑاتے طوبی حداد برقع سنبھالتی اس تک پہنچ چکی تھی احتراماً سارے عوام پیچھے ہٹ گئے۔
’’مرحبا و مبروک میرے شیخ!‘‘ طوبی حداد نے اسکے گلے لگتے ہی مبارک پیش کی۔
’’ماما ہاجرہ نہیں آئی؟‘‘
’’تو میں ماما نہیں ہوں کیا؟‘‘ طوبی حداد نے سوتیلے بیٹے سے بھرپورشکایت کی۔
اس نے فوراً ماں کا ہاتھ پکڑ کر پشت چوم ڈالی۔
’’کس نے کہا آپ میری ماما نہیں ہیں؟ ‘‘
’’میں نے سوچا تھا میرا شیخ اس بار ساتھ میری بہو لائے گا مراکو کی حسینہ جو بہت خوش جمال اور خوش بدن ہو گی۔‘‘
’’ماما آپ سب میری شادی کے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہیں۔ ‘‘ شیخ نے سرجھٹکا۔
’’اس لیے کہ تمہاری عمر کے لڑکوں کے دو دو بچے ہو چکے ہیں آ خر کیاوجہ ہے جو تم اس طرف نہیں آ تے۔ وہ دیکھو معتصم اور حسین کی بیویاں کیسے انہیں پیار سے گھر لے جارہی ہیں ۔ آج تمہاری بیوی بھی انہی کی طرح ادھر ہمارے ساتھ کھڑی ہوتی۔‘‘
طوبی حداد کے احترام کی وجہ سے وہ ہجوم سے جلدی نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ ڈرائیور نے لیکسز لینڈ کروزر کا بیک ڈور کھولنا چاہا توشیخ سالم نے اس کے ہاتھ سے چابی لے لی۔
’’ماما! آ گے آ جائیں میں ڈرائیو کروں گا۔ اتنے دن سے ہاتھ سٹیرنگ پکڑنے کوترس گئے ہیں۔‘‘
جب وہ گھر پہنچے تو چاند جوبن پر آ چکا تھا بھیگی رات کا حسن دو آ تشہ ہوچکا تھا۔ ’’بیت حداد‘‘ کا قیمتی لکڑی سے بنا دیوہیکل گیٹ مکمل کھلا تھا ۔ منقش گیٹ پر عرب کا ٹریڈ مارک یعنی کھجورکا درخت کنندا تھا جس میں جلتی سبز بتیاں اسے حقیقی دکھانے کی بھرپور کوشش کر رہی تھیں۔ وہ گاڑی سے نکلے تو’’بیت حداد‘‘ ایک بارپھر سے سلامتی و مرحبا کے نعروں سے گونج اٹھا۔ حداد قبیلے کا ہر فردہونہار تھا لیکن قومی ٹیم کا فٹ بالراور کپتان صرف ایک ہی تھا شیخ سالم حداد تو قبیلہ اس اعزاز کو پاکر فخر کیوں نہ کرتا۔ اس پر تو ساری سلطنت فخر کر رہی تھی۔

پچھلا صفحہ 1 2 3اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page