کسی اجنبی سے دیار میں: قسط نمبر 2
نرگس سال خوردہ لکڑی کے صوفے کے کونے میں نزاکت سے ٹکی ہوئی تھی۔ اس کی سادہ سی ساڑھی کی فال سیمنٹ کے صاف ستھرے فرش پر گری ہوئی تھی۔ جگت اماں نے اٹھانے کی کوشش کی تو اس نے شان بے نیازی سے منع کر دیا۔ ایک بازو میں سونے کے دیدہ زیب ڈیزائن کے کڑے، دوسرے میں سونے کا ہی بریسلیٹ تھا جبکہ دائیں ہاتھ میں سفیدنگوں والی انگوٹھی تھی ۔ انگوٹھی کے ڈیزائن والا سفید نگینے جڑا پینڈنٹ گلے میں جھول رہا تھا ۔ صحت مند دمکتی جلد پر کندھوں تک کٹے آ تے بال اسے بہت باعتماد اور خوبصورت دکھا رہے تھے۔ بدر تو کیا سارا گھرہی پزل ہوا بیٹھا تھا۔
’’اور جی گھر ڈھونڈنے میں کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی ؟ ‘‘ رعب حسن، رعب امارت اور اپنے بے پناہ موٹے جثے سے شدید کنفیوز ہوئی زبیدہ نے بات کا آ غاز کرنا چاہا تھا۔
’’نہیں کوئی پریشانی نہیں ہوئی ،اماں بشیراں ساتھ جو تھیں بس گاڑی ذرا دور کھڑی کرنا پڑی ہے۔ میرا ڈرائیور چھٹی پر ہے آ ج کل تو خود آ نا پڑا۔‘‘
’’ ہاں جی تنگ گلی ہے نا اس لیے بڑی گاڑی اندر نہیں آ تی، دور ہی کھڑی کرنی پڑتی ہے۔ ویسے آپ فکر نہ کریں میرا گڈو نگرانی کر رہا ہے کسی کوہاتھ نہیں لگانے دے گا ۔ گاڑی بالکل محفوظ ہے ۔ ‘‘
’’یہ پانچوں آ پ کی بیٹیاں ہیں؟‘‘
’’ہاں جی!‘‘ زبیدہ کی مری ہوئی آواز یوں نکلی جیسے کہہ رہی ہو ۔ہاں مائی لارڈ یہ جرم مجھ سے ہی ہوا ہے۔
’’یہ بڑی شادی شدہ ہے۔ اس کا میاں سرکاری سکول میں کلرک ہے، یہ بہو اور بیٹا ہے، یہ بدر جہاں ہے وہ تینوں ابھی پڑھ رہی ہیں۔‘‘
’’ماشاء اللہ آ پ کی ساری بیٹیاں بہت پیاری ہیں بلکہ آپ بھی بہت پیاری ہیں۔ساری بیٹیاں آپ پر ہی لگ رہی ہیں۔‘‘
نرگس کی تعریف پر زبیدہ کے چہرے پر لالی آ گئی۔ اس نے لاشعوری طورپر اپنا چکن کا دوپٹہ اپنے گرد پھیلا کر موٹاپا چھپانا چاہا۔
’’ہمارے ابا بھی بہت ہینڈسم تھے۔‘‘ فخر نے بات چیت میں حصہ ڈالا۔ نرگس نے سر ہلا کر تائید کی۔
زبیدہ کے اشارے پر بدر نے میز پر پڑی اشیا خورو نوش سرو کرنا شروع کیں، اسے اندازہ ہوا کہ نرگس بڑے غور سے اس کی حرکات و سکنات کاجائزہ لے رہی ہے تو ہاتھوں میں معمولی سی لرزش در آئی۔ اس کے پلیٹ تیار کرنے اور سرو کرنے کا بغور جائزہ لیا گیا۔
’’بچے! سب کچھ نکال دو، صرف پیسٹری رہنے دو‘‘
’’میں تو ساری چیزیں کھاؤں گی بدر!‘‘ جگت اماں کو اپنی پڑ گئی۔
’’بچے! کتنی تعلیم ہے تمہاری؟‘‘ نرگس بے حد نرم اور دھیمے لہجے میں بات کر رہی تھی، لہجے سے بدر کے لیے پسندیدگی صاف جھلک رہی تھی۔
’’بی ایس سی کی ہے ابھی بی ایڈ کے ایگزامز دیے ہیں۔‘‘ چائے میں ہدا یات کے مطابق چینی گھولتے بدر نے جواب دیا۔
’’اور کیا مشاغل ہیں؟ ‘‘
’’کنٹری پبلک سکول میں میتھس پڑھاتی ہوں، ناول وغیرہ پڑھتی ہوں اوربس گھر کے کام کر لیتی ہوں۔‘‘ بدر نے اپنے مخصوص حسن آ شنا لہجے میں ہلکی ہنسی کے ساتھ جواب دے کر نرگس کی آ نکھوں کے تاثرات جانناچاہے۔
نرگس اتنے قریب سے قدرتی سبز کانچ سی آ نکھیں پہلی بار دیکھ رہی تھی۔ لینز تو وہ بھی لگایا کرتی تھی لیکن یہاں تو رب کی صناعی اسے حیرت زدہ کر رہی تھی۔
’’تمہاری آ نکھیں ہی سبز ہیں یا لینز لگائے ہیں؟‘‘ نرگس نے تصدیق کرناپھر بھی ضروری سمجھا۔
’’نرگس بٹیا! سو فیصد اصلی آ نکھیں ہیں میں نے بتایا تھا نا!دیکھو گی تو نظر نہ ہٹا سکو گی ایسی سونے جیسی کڑی ہے پڑھی لکھی گٹ پٹ انگریزی بھی کرنا جانتی ہے۔ بھلے انگریزی بول کر دیکھ لو۔‘‘
’’بد ر! انگریزی میں گل کرکے دکھاؤ بہن کو۔‘‘ اماں ہر حال میں نرگس سے ہاں کہلوا کر ہی اٹھنا چاہا رہی تھی۔
نرگس نے بدر سے آنکھیں اٹھا کر زبیدہ پر مرکوز کیں۔
’’آ نٹی! میں اپنے میاں، بھائی اور خالہ سے مشورہ کر لوں پھر آ پ کو پروگریس رپورٹ دوں گی۔‘‘
’’بیٹا! میاں اور خالہ کو لے آتیں ۔ گھر بھلے چھوٹا ہے پر اپنا ہی سمجھو۔‘‘ زبیدہ نے قدرے منتشر لہجے میں باوقار جواب دینے کی کوشش کی۔
’’ایکچوئلی میرے میاں بزنس ٹور سنگا پور گئے ہوئے ہیں۔ خالہ کراچی ہوتی ہیں اور سسرال والوں کو میں لانا نہیں چاہتی تھی کیونکہ اماں نے سارے حالات اور ایریا کا مجھے بتا دیا تھا تو مجھے مناسب نہیں لگا، میرامیاں اور سسرال ذرا سٹیٹس کانشیس لوگ ہیں تو یو نو…‘‘ نرگس نے کچھ نہ کہہ کر بھی مسکراتے دھیمے لہجے میں سب کچھ کہہ دیا۔
وہ سب اپنی جگہ چور سے بن گئے۔
’’وقاص اتنا ہو گا جب میرے پیرنٹس کی روڈ ایکسیڈنٹ میں ڈیتھ ہوئی۔‘‘ نرگس نے اسکول گرل تاج کی طرف اشارہ کیا۔’’ ان کے بعد میں نے اسے سنبھالا ، براٹ اپ کیا، میری پہلی اولاد کی طرح ہے۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد اس نے بھی میرے پاپا کی فیملی کی طرح مڈل ایسٹ کو ٹھکانا بنایا۔ اب تو تین سال سے ایک کمپنی میں بہت اچھی جاب ہے لیکن… شادی کی طرف نہیں آ رہا تھا۔ جتنا مجھے اس کی شادی کا شوق ہے اتنا ہی اسے سیٹ ہونے کا، بینک بیلنس سٹیبل کرنے کا مسئلہ ہے۔ میں کہتی ہوںشادی کر لو کسی دوسری کی قسمت ساتھ جڑے گی تو خود ہی بینک بیلنس بھی بڑھ جائے گا۔‘‘ نرگس خود ہی ہنسی تو ان سب نے بھی خوامخواہ ساتھ دیا۔
’’میرے پاپا کے بعد بزنس تباہ ہو گیا ۔‘‘ نرگس نے ٹشو سے آنکھوں کے کنارے صاف کیے۔
’’پاپا کی فیملی بہت امیر ہے ہم بہن بھائی ان سے پیچھے رہ گئے، وقاص کو کم تر ہونا بہت برا لگتا ہے۔ وہ باقی کزنز کے برابر آ کردکھانا چاہتا ہے، بس اسی لیے رات دن کام اور شادی سے فرار…‘‘
’’اپنے وقت پر شادی بھی بہت ضروری ہے۔‘‘ فخر نے نرگس کی بات میں اضافہ کیا۔
’’بالکل! بہت ضروری ہے جبھی تو پیچھے پڑی ہوں اور آ پ کے سامنے بیٹھی ہوں ۔ ویسے کوائف سے یہ نہ سمجھیں کہ ہم کوئی ہینڈ ٹو ماؤتھ قسم کے لوگ ہیں ۔ ڈیفنس میں ہمارا ترکے کا بنگلہ ہے پاپا کا بینک بیلنس بھی کافی ہے اور وقاص خود بھی بہت شاندار کما رہا ہے۔‘‘ نرگس نے اونچاقہقہہ لگایا۔
’’لو بھلا ہم کوئی پاگل ہیں جو تم کو اپنے جیسا سمجھیں ۔‘‘ جگت اماں گویابرا ہی مان گئیں۔
’’چلیں، میں آ پ کو جلد بتاتی ہوں ۔ بدر تو مجھے بہت بہت پیاری لگی ہماری سوسائٹی میں موو بھی کر سکتی ہے۔‘‘
یاسر گاڑی تک رخصت کرکے آیا تو زبیدہ بچ جانے والے لوازمات حصے کے مطابق سب کو بانٹ رہی تھی۔
’’ بھئی مجھے تو بہت اچھی لگی نرگس، کوئی ناز نخرہ نہیں کوئی بڑے گھر کا رعب نہیں ڈالا۔‘‘
’’اماں اسے بدر جتنی پسند آ ئی ہے وہ پلٹ کر ضرور آئے گی یہ بات لکھ لیں میں نے اس کے تاثرات بہت اچھی طرح نوٹ کیے تھے۔‘‘
’’جاتے جاتے ہزار روپیہ گڈو کی مٹھی میں بھی دے گئی۔‘‘ یاسر نے اضافہ کیا۔
’’ کیا؟‘‘
’’تم نے پیسے لیے ہی کیوں ؟ ‘‘
’’اماں! مجھے کوئی اندازہ ہی نہ ہوا کہ اتنے زیادہ پیسے دے رہی ہے ۔میں سمجھا سو پچاس ہوں گے، میں نے جب گڈو کی مٹھی سے لیے، تب تو وہ چوک سے گاڑی نکال چکی تھی۔ ‘‘ان سب بہنوں حتی کہ زبیدہ اور سیما کو بھی یاسر کی لالچی طبیعت کاپتہ تھا اس لیے فوراً سمجھ گئیں کہ یاسر نے جان بوجھ کر رکھے ہوں گے۔
’’یاسر! ہم وہاں بہن کا رشتہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تم جانتے ہو وہ لوگ کس طبقے سے ہیں ۔ ان کا یہاں تک آ نا ہی بڑی بات تھی ۔ تم نے پیسے رکھ کر ثابت کر دیا ہم چھوٹے محلوں کے لوگ دل کے بھی چھوٹے ہوتے ہیں۔ وہ پیسے کھانے پینے کے ازالے کے طور پر دے کر گئی ہے، رشتہ طے نہیں کر کے گئی ۔ تم پیسے نہ لیتے تو ہماری مہمان نوازی کا بھرم ہی رہ جاتا ۔ ‘‘ فخر کا بس نہیں چل رہا تھا یاسر کا سر ہلا ہلا کر اسے غلطی کا احساس دلائے۔
بے چینی میں دن کٹ رہے تھے۔ زبیدہ، فخر اور یاسر خاص کر سولی پرلٹکے تھے ۔ فخر اور زبیدہ،بدر اور باقی لڑکیوں کی بہتری کے لیے اس کا اچھے گھر رشتے کا سوچ رہی تھی اور یاسر دبئی کے ویزے کے لالچ میں سوچ رہا تھا۔
’’ مہرو! تم نے وہ وائٹ نگوں والی انگوٹھی دیکھی کتنی پیاری تھی جومہمان نے پہنی ہوئی تھی اس عید پر میں بھی وائٹ نگوں والی جیولری لوں گی۔‘‘
’’پاگل! وہ نگ نہیں ڈائمنڈ تھے۔‘‘ مہرو نے تاج کا مذاق اڑایا۔
’’میں نے کون سا پہلے کبھی دیکھے ہیں مجھے کیا معلوم ہیروں اور سفید نگوںمیں کیا فرق ہے دونوں ایک جیسے ہی لگتے ہیں۔‘‘ تاج برا مان گئی۔
’’تم دونوں تو اپنی چونچ بند کرو ہمیں اپنی مصیبت لگی ہوئی ہے تم دونوں کو زیور سوجھ رہے ہیں۔‘‘ زبیدہ نے بیٹیوں کی چھوٹی جوڑی پر سارا غصہ نکال دیا۔
٭…٭…٭