کسی اجنبی سے دیار میں: قسط نمبر 10
’’اللہ کی قسم مجھے نہیں معلوم یہ جادو کیا ہوتا ہے۔ میں مسلمان ہوں۔‘‘
بدر نے برقع پوش عورت کو حقیقت بتانی چاہی۔ انڈین لڑکی عربی ترجمہ کر کے بتانے لگی۔
’’اونہہ مسلمان… قرآن آ تا ہے؟‘‘
’’جی۔‘‘
’’آتا ہوتا تو عربی بھی آتی۔ ایسے کیا پڑھا ہو گا قرآن میں۔‘‘
بدر بے بسی کے انتہا پر تھی۔ اسے مجلس کی کارروائی سے ان لوگوں کے نزدیک اپنی حیثیت سمجھ آئی تھی۔ اس کا جسم فروشی سے تعلق تھا۔ وہ نام نہاد مسلم تھی بلکہ وہ مسلمان ہی نہیں تھی۔ عربی نہ آنے پر اس کا ایمان جج کیا جا رہا تھا۔ اس خود پسندی اور نسلی تعصب کی اس نے وقاص اینڈ کمپنی سے بے شمار کہانیاں سنی تھیں۔ وہ سب سچ تھیں، اسے اب پتہ چل رہا تھا۔ وہ اب عربوں کی عرب پرستی اتنے گھٹیا انداز میں دیکھ رہی تھی کہ ذہن ماؤف ہوتا جا رہا تھا۔
’’اے حسین ساحرہ، میں طوبٰی حداد ہوں۔ شیخ سالم حداد کی دوسری ماں۔‘‘ وہ اونچی لمبی سرخ و سفید حسین عربی عورت طنز نہایت سیاہ کرتی تھی۔
’’تم نے میرے شیخ کو خوش کیا تمہارا شکریہ۔ لیکن تم میرے شیخ کی مستقل حرمہ بننے کی خواہاں ہو، یہ نہیں ہونے دوں گی۔‘‘
’’میرا یقین کریں مجھے تو صرف مدد درکار تھی میں نے یہ سب کبھی نہیں سوچا تھا۔ بلکہ میں نے تو شیخ سالم اور میجر طلال کی خواہش کا احترام کیا ہے۔‘‘
’’تم نے احترام کیا اور میرا شہزادہ تمہیں مستقل کرنے کا متمنی ہو بیٹھا ہے۔ بلینک چیک سائن کر کے دے رہی ہوں، لے کر شیخ سالم حداد کی حیات سے دفع ہو جاؤ۔ وہ تمہیں حرمہ رکھے گا تو فقیر ہو جائے گا، مسکین ہو جائے گا۔ اس سے شیخ کا لقب چھن جائے گا۔ میرا شہزادہ، میری جان کا ٹکڑا شاہراہ پر آ جائے گا۔ اس کی حیثیت کسی غریب حبشی جیسی رہ جائے گی۔ ایسا عربی جس کی صرف زبان عربی ہو گی جو گلف میں رزق کمانے آیا ہوتا ہے۔‘‘
بدر اسے ٹکر ٹکر دیکھ رہی تھی۔ اسے اب پتہ چل رہا تھا سیاہ فام افریقی مسلمان بھی ابھی تک ریسزم کا شکار ہو رہے تھے۔ اپنے ملکوں کی غربت انہیں مغروروں کے در پر خوشی سے نہیں لاتی تھی۔
طوبٰی حداد نے چیک اس کی طرف بڑھایا۔
’’جتنے سوچ سکتی ہو، اتنے فلوس (پیسے) لکھ لو اور قیمت لے کر ابھی کے ابھی عمان چھوڑ دو۔ اس سے پہلے کہ مجلس تمام ہو۔ تمہیں یا تمہارے خاندان کو شیخ طبوق کبھی تنگ نہیں کرے گا۔ وہ حدادیوں کا جھوٹا نہیں کھاتا۔ مجنون تو میرا سالم ہوا ہے جو طبوقوں کا کچرا گھر لے آیا ہے۔ آہ!‘‘
بدر کو جانے کیوں ہمیشہ فوری فیصلے ہی کرنے پڑتے تھے۔ اب بھی اندر ہی اندر ریزہ ریزہ ہوئی جا رہی تھی۔
’’اگر میں شیخ سالم حداد کو نہ چھوڑوں تو؟‘‘
’’تو… تو اے نحوست کے مجسم، وہ حدادیوں سے نکل جائے گا۔ وراثت سے اس کا تعلق نہیں رہے گا۔ اگر بابا محترم نے کہہ دیا کہ کوئی اس ہندی جسم فروش لڑکی رکھنے والے سے نہ ملے تو سارے خاندان سے کٹ جائے گا۔ حدادی اس کے آدھے ادھورے عرب بچوں سے شادیاں نہیں کریں گے۔ یہ تکلیف کیا کم ہو گی کہ شیخ سالم حداد کی نسل مکمل عرب نہیں ہے۔ ڈسٹ بن کے کچرے جیسی اوقات رہ جائے گی شیخ سالم حداد کی۔ لوگ کہیں گے ایسا قابل مرد ہوتا تو کسی عرب حرمہ کو گھر میں نہ بسا لیتا۔ ہندی عورتیں تو کسی کے ساتھ بھی گھر چلا لیتی ہیں۔ عرب عورت کی نسوانیت و شخصی تکبر کی گرد تک نہیں پہنچ سکتی تم عورتیں۔شغالا ہی رکھی جا سکتی ہو۔‘‘
اور پھر فیصلہ ہو گیا۔ بدر اپنے محسن کو یوں بے حیثیت نہیں کر سکتی تھی۔ اس کے ہونے سے شیخ سالم حداد کی شان گھٹتی تھی، وہ کیسے اس کی شان گھٹا دیتی۔ وہ جانتی تھی یہ سب جس قدر طاقتور لوگ ہیں چاہے مرد ہو یا عورت، دنیا کے کسی بھی کونے میں تاریں ہلا کر اپنی مرضی پوری کروا سکنے والے۔
’’مجھے شیخ طبوق اور وقاص کی طرف سے گارنٹی چاہیئے۔‘‘
’’وہ سلسلہ تو شیخ سالم نے ختم کرا دیا ہے تمہیں بتایا نہیں؟‘‘
’’بتایا ہے پر ابھی مجلس میں بات ہو رہی تھی تو…‘‘
’’مجلس میں بات حدادی کر رہے ہیں۔ طبوق اس معاملے سے اسی دن نکل گیا تھا جس دن تیرا منحوس نام میرے شیخ نے اپنے نام کے نیچے لکھا تھا۔ پھر بھی جب تک بطاقہ ختم نہیں ہوتا، دو سال شیخ سے کہہ کر تجھے طلاق نہیں بھجواؤں گی۔ تب تک تم نیا شکار پھانس لینا۔ اب ایئر پورٹ کے لیے نکلو۔ یہ فلوس پکڑو…‘‘
طوبٰی حداد نے عمانی ریالوں سے بھرا سیاہ ہینڈ بیگ اس کی طرف بڑھایا۔
بدر نے چیک کو ہاتھ نہیں لگایا تو اس نے کیش سے بھرا بیگ تیار کر دیا۔
’’اس کی بورڈنگ کروا کے بٹھا کے پھر آنا۔ قدیر ساتھ جا رہا ہے۔‘‘ طوبٰی حداد نے رخسانہ کو ہدایات دیں۔
’’فلائٹ کے لیے پریشان نہ ہو، ہم شیخوں کے لیے ہمیشہ بزنس کلاس میں سیٹ پڑی ہوتی ہے۔ کبھی بھی کہیں بھی ہمیں ایمرجنسی میں نکلنا پڑ جاتا ہے۔‘‘
بدر کو ادراک ہوا بچھڑنا کتنا ضروری تھا۔ وہ دو الگ دنیا کے باسی تھے۔ کوئی جتنا بھی با حیثیت ہو اپنے دائرہ کار میں کہیں نہ کہیں مجبور ہوتا ہے۔ اس شخص نے اس سے اتنی محبت کی تھی، اتنی عزت دی تھی۔ اسے مزید مجبور کرنا اس کی حیثیت چھیننا احسان فراموشی ہوتی۔ بدر احسان فراموش نہیں تھی۔ وہ اسے ’’چوز‘‘ کرنے کی مجبوری سے نکال گئی۔ عزت و آبرو کے ساتھ پاکستان پہنچنے کی بے شمار دعائیں اس نے مانگی تھیں۔ اب وہ وقت آیا تو اسے ایک بے باک اور سر پھرے شخص کی محبت کے دائرے سے نکلنے پر شدید دکھ ہو رہا تھا۔
’’رو کر میرے گھر نحوست نہ ڈالو۔ جا کر کسی باکستانی کے خواب دیکھو۔ شیخ کی تو میں اسی ہفتے شادی کراتی ہوں۔ تمہارے خمار سے نکل کر کسی اور طرف متوجہ تو ہو۔‘‘
’’آ آ ں ں… تمہارے ہاں تو شوہر کی دوسری شادی پر بیویاں رو رو کر مر جاتی ہیں۔ جاؤ تمہارے لیے یہ راستہ کھلا ہے۔‘‘ اس نے صاف اس کا تمسخر اڑایا۔
’’نام کے مسلمان اور شادی عرب کے مسلمانوں میں کرانی ہے۔‘‘ اس نے ٹھک سے اس کے سامنے پاسپورٹ رکھا۔
’’یہ پاسپورٹ آپ کے پاس کیسے آیا؟‘‘
’’شیخ سالم حداد سے بڑا شیخ اس کا باپ ہے۔ اس لیے سالم سے بھی پہلے شرطہ خانے سے یہ سارے کاغذات ہم تک پہنچ گئے تھے۔‘‘ طوبٰی نے اس کے عمانی کاغذات اپنے قبضے میں لیے اور دروازے کی طرف بڑھی پھر فورا ًہی وہ پلٹ آئی۔ اب وہ پھر بدر کو سر سے پیر تک کھوجتی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ جائزہ لینے کے بعد طوبٰی حداد نے شہادت کی انگلی اس کے پیٹ کی طرف بڑھائی۔
’’بطن خالی ہے؟‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب یہ کہ ہمارا بچہ تو پیٹ میں نہیں ہے۔‘‘
’’نہیں۔‘‘
بدر نے احساس اہانت کے ساتھ کچھ مزید اگلنا چاہا تھا لیکن خدا جانے زبان کیوں رک گئی۔
’’اتنی جلدی کیسے پتہ چل سکتا ہے کہ نہیں ہے۔‘‘ وہ بڑبڑائی۔
’’اگر حمل ہوا تو فوری مجھ سے یا سالم سے رابطہ کر لینا۔ ضائع کرانے کی کوشش بھی مت کرنا۔ ہماری نسل بڑی قیمتی ہے۔ گندی نالیوں میں بہانے کے لیے نہیں ہے، نہ دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے لیے۔ رابطہ کرنے کے لیے میرا نمبر تو نہیں ہو گا؟‘‘
’’میرے پاس کسی کا بھی نمبر نہیں ہے۔‘‘ بدر نے دانت پر دانت جما کر اپنی طرف سے پھر یہ باور کرانا چاہا کہ وہ اس معاملے میں اتنی زیادہ انوالو نہیں جتنا سمجھا جا رہا ہے۔
طوبٰی حداد ڈریسنگ کی طرف گئی۔ سبز اسٹکی نوٹ پر دو نمبر لکھ کر اسے پکڑائے۔
’’اوپر والا میرا اور دوسرا سالم کا ہے۔ کسی پر بھی رابطہ کر سکتی ہو۔ بعد کی بعد میں دیکھیں گے۔ لیکن اگر ایسا کچھ نہ ہوا تو تم ایسی ہو جانا جیسے شیخ سالم حداد سے کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا۔ میرے شیخ کا پیچھا چھوڑ دینا۔ تمہاری توقع سے زیادہ قیمت ادا کر رہی ہوں۔‘‘
’’پچھلے دروازے پر قدیر سیارہ (گاڑی) تیار کر کے کھڑا ہے۔ اسے لے جاؤ گاڑی میں ہی پرچہ لکھوا لینا۔ قدیر پڑھ کر تصدیق کر دے گا۔ ویسے بھی فلوس لے کر چالاکی نہیں کرے گی یہ ساحرہ۔‘‘
رخسانہ نے سر ہلا دیا۔
بدر کو اس کی ساری گفتگو سمجھ آ رہی تھی لیکن وہ ایسے لوگ تھے جو کم ہی پروا کرتے تھے۔
٭…٭…٭
بدر نے پیسوں کا بیگ رخسانہ کو پکڑایا۔
چند لمحے پرچی پر لکھے کانٹیکٹ نمبرز کو دیکھتی رہی۔ ایک تو وہی تھا جو اس نے مارٹ کے بل پر لکھا بھی دیکھ رکھا تھا۔ وہ بل جو سالم نے اس کے اور اپنے لیے شاپنگ کر کے ادا کیا تھا۔ یعنی واقعی وہ نمبر سالم حداد کا ہی تھا۔ دوسرا پھر طوبٰی حداد کا ہی ہو سکتا تھا۔ اس نے پرچی بھی رخسانہ کے بیگ پر رکھ دی۔
’’اس مغرور عمانی عورت کے منہ پر مار دینا۔ مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر غریب خودی سے عاری نہیں ہوتا۔‘‘
وہ جہاز میں سوار ہوئی تو دل کا موسم ٹھہر چکا تھا جیسے سکتے کی سی کیفیت ہو جاتی ہے۔ اسے بالکل رونا نہ آیا۔ بار بار اپنے آپ کو احساس دلانے پر اسے اب گھر جانے کی خوشی محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے سارا تخیل تاج، مہرو، فخر ، گڈو اور اماں کی طرف موڑ دیا۔
’’چاچا جی مجھے شیخوپورہ میرے گھر چھوڑ دیں۔ پیسے گھر جا کر ہی دوں گی۔ ابھی میرے پاس سوائے پاسپورٹ کے اور کچھ نہیں ہے۔‘‘
فجر کی نماز کے بعد نمازی مساجد سے نکل رہے تھے جب وہ لاہور ایئر پورٹ کے ٹیکسی سٹینڈ پر ایک باریش شخص کی گاڑی کے شیشے پر جھکی التجا کر رہی تھی۔ وہ بھی خدا ترس شخص تھا راضی ہو گیا۔
جوں جوں گھر قریب آتا گیا اس کے اندر کچھ پگھلتا گیا۔ پھر لوہے کا چھوٹا سا دروازہ کھول کر سرخ اینٹوں کے چھوٹے سے صحن میں قدم رکھتے اس کا روم روم سسک رہا تھا۔ وہ بھاگ کر ماں کے سینے سے لگی تھی۔ گرمیوں کی چھٹیوں کی وجہ سے زیبی، تاج سب ہی گھر موجود تھیں۔ تاج کے بلک بلک کر رونے سے پہلے ہی محلے کی سب عورتیں جمع ہو کر ناک پر انگلی دھرے چہ مگوئیوں میں مصروف ہو چکی تھیں۔ بدر تاج کو ساتھ لپٹائے کھڑی تھی، جب سیما نے اپنی ورلڈ فیمس زبان کی چپ توڑی۔
’’تاج وہ حج کر کے نہیں آئی جو جپھیاں ڈال ڈال کر برکتیں سمیٹ رہی ہو۔ چپ کر کے ادھر اماں کے پاس بیٹھ اور ہمیں اس بدکار (بد کردار) سے پوچھنے تو دے گناہ کی گٹھڑی اٹھائے ہم مسکینوں کے در پر کیوں آئی ہے۔ کیا اللہ کا عذاب ڈلوا کر بھائی کی روزی روٹی بھی بند کرانی ہے؟‘‘
’’سیما میں ابھی زندہ ہوں۔ میری اولاد کی ماں نہ بن، ذرا سانس لینے دے۔ سب سامنے آ جائے گا۔‘‘
’’دیکھا، ایسی مائیں ہوتی ہیں جو بیٹیوں کو شہ دے کر یارانے لگواتی ہیں۔ اپنی بیٹی ہے نا شادی شدہ ہو کر کسی دوسرے کے ساتھ بھاگ گئی تو بھی دودھ کی دھلی تھی۔ اب جس کے ساتھ بھاگی تھی ادھر سے گھر آ گئی تو بھی قبول ہے۔ واہ مولا تیرے رنگ۔‘‘ سیما نے ہاتھ نچا کر محلے کی اپنے جیسی خواتین کو بھرپور تفریح فراہم کی۔ مہرو نے بمشکل انہیں گھر سے نکال کر کنڈی چڑھائی اور بدر کے پاس آ بیٹھی۔ سیما فون لے کر اپنے کمرے کا دروازہ بند کر چکی تھی۔
’’اماں آپ مجھے جانتی نہیں ہیں۔ آپ کو بھی لگتا ہے کہ میں وقاص سے شادی کے باوجود کسی اور شیخ کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔‘‘
’’تو نے خود کہا تھا۔‘‘
’’اماں مجھ سے کہلوایا گیا۔‘‘ آدھے سال کا غبار اس نے رو رو کر ماں اور بہنوں کے سامنے نکال دیا۔ اب وہ ماں بیٹیاں مل کر رو رہی تھیں۔ مہرو نے ماں سے صاف کہا کہ اس کے لالچ نے انہیں یہ دن دکھایا ہے۔
ان کے رونے دھونے کو فل اسٹاپ یاسر اور سیما نے آ کر لگایا تھا۔ فخر بھی بھیگے پائنچوں کے ساتھ چپل پہنے ہانپتی کانپتی اندر داخل ہوئی۔ وہ بھی سیما کے فون کرنے پر کپڑے دھوتی سب چھوڑ چھاڑ کر رکشہ پکڑے آ گئی تھی۔
’’دیکھ لو یاسر، ایسے خوشی کے آنسو بہا رہی ہیں جیسے ان کی لاڈلی حسینہ کوئی تمغہ جیت آئی ہو۔ ٹیکسی والے کو پیسے بھی مجھے دینے پڑے ہیں۔ یہ سات ملک پھر کے ہم پر احسان کر کے آئی ہے۔‘‘ سیما نے بدر کی طرف اشارہ کیا۔
’’سیما آہستہ تو بولو سارے آس پاس والے سن رہے ہیں۔‘‘
’’اچھا ہے ابھی سن لیں۔ بعد میں بھی بھابھی کو ہی ایک ایک کو بتانے کا جوکھم اٹھانا پڑے گا۔‘‘ مہرو نے تپ کر جواب دیا۔
’’تھپڑ نہ کھا لینا مجھ سے۔ ڈھیل دے دے کر اپنی عزت کا جنازہ نکلوا لیا ہے۔ اب کسی کو رعایت نہیں دوں گا۔‘‘ یاسر آگ کا گولا بنا ہوا تھا۔
ایک بار پھر سے اماں نے بدر کی ساری آپ بیتی نئے سرے سے سنائی۔ ایک بار پھر وہ ماں بیٹیاں مل کر روئیں۔ فخر نے بہن کو لپٹایا تو اسے لگا سارے دکھ مٹ گئے ہیں، ہر غم کا مداوا ہو گیا ہے اور سب پہلے جیسا بھی۔ لیکن وہ سدا کی نادان تھی۔ وہ پہلے جیسی تھی پر لوگ بدل چکے تھے حتٰی کہ بھائی بھی اور بہنوئی بھی…