کسی اجنبی سے دیار میں: قسط نمبر 10
’’وہ مجنون نہیں ہوا کہ شیخ سالم حداد کی حرمہ کو ہراس کرے۔‘‘
’’وقاص اور اس کے گینگ کا کیا بنا؟‘‘
’’سب کچھ بھول جاؤ۔ کسی خبیث کا نام یاد رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف یہ یاد رکھو کہ تم زوجہ سالم حداد ہو۔‘‘
بدر نے اسے نظر بھر کر دیکھنا چاہا وہ چوکس ہو کر ڈرائیونگ کر رہا تھا۔ بدر نے اپنی نظر لگنے کے ڈر سے نظریں پھیر لیں۔
’’کافی اسٹینڈ کھولو، اس میں چیونگم پڑی ہو گی، منہ میں ڈال لو۔‘‘
’’یہ شیخ مکرم حداد کون ہے؟‘‘
’’میرے بابا کے بھائی ہیں۔‘‘
’’آپ سب پھر ایسے کیوں نام لے رہے تھے جیسے کسی چھوٹے کا نام لیا جاتا ہے۔‘‘
’’ہم عربوں میں نام سے ہی مخاطب کیا جاتا ہے۔ ہم چچا، ماموں وغیرہ وغیرہ کم ہی کہتے ہیں۔ چھوٹا ہو یا بڑا بس نام ہی لیتے ہیں۔‘‘
’’خواتین کے بھی؟‘‘ بدر حیران ہوئی۔
’’جی خواتین کے بھی، مرد اجنبی ہو تو محمد کہہ کر بات کر لیتے ہیں۔‘‘
ایسی ہی چھوٹی چھوٹی باتوں کے درمیان وہ واپس اسی صلالہ میں پہنچ چکی تھی جہاں سے فرار ہوئی تھی۔ لیکن اب حیثیت و مرتبے میں فرق تھا۔ اب وہ عمان کے نامی گرامی شخص کی حرمہ تھی۔ اس کی بیک پر طاقتور قبیلہ تھا اور اس کے میاں کے موبائل میں سارے قانونی کاغذات موجود تھے۔ اس نے ان چند دنوں میں دیکھا تھا پیسہ، حیثیت اور رسائی کیسے کیسے ٹیڑھے معاملات لمحوں میں حل کر دیتی تھی۔ سارا شہر رنگ برنگی بتیوں سے سجا تھا۔ ان کی کروزر شارع ابو بکر صدیق رض پر مڑ کر ایک دیو ہیکل لکڑی کے گیٹ کے سامنے رک گئی۔ آس پاس خاصی تعداد میں ایک سے بڑھ کر ایک قیمتی گاڑیاں کھڑی تھیں۔
سالم نے گاڑی بند کی اور نیچے اترنے کا اشارہ کیا۔
’’یہ پیسے اور آپ کی گھڑی؟‘‘
’’میری نہیں، تمہاری۔‘‘ وہ پھیکا سا مسکرایا۔
’’شاپر اٹھا لو۔‘‘
وہ شاپر ہاتھ میں پکڑے، حسین کی بیوی کا قدرے لمبا برقع دوسرے ہاتھ سے اوپر اٹھائے برستی پھوار میں اس کے پیچھے چل پڑی۔
’’آپ کا گھر ہے یا محل؟‘‘
وہ گیٹ پر کندہ کھجور کے درخت دیکھ رہی تھی جس میں جلتی چھوٹی سبز بتیاں ڈھلتی شام میں دلفریب لگ رہی تھیں۔ بدر کو اندازہ ہوا دبئی کی طرح یہاں گھروں میں سوئمنگ پول نہیں تھے۔
وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر سیڑھیاں چڑھتا گیا اور کوریڈور کے آخری کمرے کا دروازہ کھول کر اس میں داخل ہو گیا۔ دیواروں پر جا بجا کرہ یعنی فٹ بال کی پینٹنگز لگی تھیں۔ ایک فریم میں دھاگوں سے بنی فٹ بال بالکل اصلی لگ رہی تھی۔ اس لگژری کمرے کی قیمتی اشیاء سے ہٹ کر بھی ایک خوشبو تھی جو نہ چاہتے ہوئے بھی دل و دماغ پر چھا رہی تھی۔ بدر کو معلوم تھا عرب خوشبوؤں کے کس قدر دیوانے ہیں۔ سالم کی غیر موجودگی میں بھی اس کے کمرے میں یقیناً خوشبو کا چھڑکاؤ کیا جاتا رہا تھا۔ بدر کو اس کی حیثیت و مرتبہ اپنے لیگل پیپرز دیکھ کر ہی ہو گیا تھا پر خود اس محل میں آ کر اس کے بیڈ روم میں بیٹھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی اس پر مرعوبیت طاری تھی۔ وقاص کے ساتھ وہ عربی شیخ کے گیٹ کیپر کے کمرے میں رہ چکی تھی۔ وہ بھی بہترین تھا پر یہ کمرہ ایک الگ دنیا تھی۔ ایسے عربوں کے گھر میں مضبوط تعلق سے آنے کا اس نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔ وہ ذرا سا بیڈ کے کنارے پر ٹک گئی۔ کوئی دس منٹ بعد سالم ڈریسنگ روم سے نکلا تو وہ اس سالم حداد سے بالکل مختلف تھا جس کو وہ اب تک دیکھتی آئی تھی۔ یہ تو پکا عربی شیخ تھا، شیخ بھی عمان کا…
سفید بے داغ داشہ، جس کے گلے پر بٹن کی بجائے سفید ڈوری لگی تھی جسے بڑی نفاست سے باندھا گیا تھا۔ پیروں میں سفید ہی عمانی چپل، سر پر سمندری سبز رنگ کے عمانی رومال کی عمانی طرز پر بندھی پگڑی جس میں سے اس کے سیاہ گھنے بال گردن اور کانوں پر پڑے تھے۔ کمر میں سفید بیلٹ کے ساتھ سیاہ منقش کور میں قید ناف کے دائیں جانب لٹکتا عمانی خنجر۔ وہ عمان کی تہذیب کا مکمل ثبوت بنا کھڑا خود پر بے دریغ پرفیوم چھڑک رہا تھا۔ بدر اسے دیکھے گئی۔ اس کی باڈی لینگویج آج اضطراری تھی۔ اس کے انداز میں بھلے وہی اعتماد تھا جو اس کی شخصیت کا خاصہ تھا پر کہیں کچھ غلط تھا۔ اتنا غلط کہ بدر پر اس سے زیادہ بے چینی طاری ہونے لگی۔ اس کی نظروں کے ارتکاز سے اس نے پیچھے پلٹ کر دیکھا اور پھر ہاتھ میں پکڑی پرفیوم کی بوتل بیڈ پر اس کے پاس اچھال دی۔
’’اچھا لگ رہا ہوں تو تعریف کر دو۔‘‘
بدر مسکرا بھی نہ سکی۔ وہ چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور پھر عموداً کھڑا ہو گیا، بدر بھی اس کے انداز کے انوکھے پن سے ہچکچا کر کھڑی گئی۔ یہ پہلی بار تھا کہ اس نے بدر کی التجا کرتی نظروں سے روگردانی کی۔
سالم نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے قریب کیا اور پھر یکا یک دونوں ہاتھ کمر میں ڈال کر سینے سے بھینچ لیا۔
’’یا حیاتِ سالم، مجلس ہے سارے حدادی اکٹھے ہوئے ہیں دعا کرنا میں اپنا مقدمہ جیت آؤں۔ پھر ہم آج ہی پاکستان کے لیے نکل جائیں گے۔ مجھے نہیں معلوم تمہاری طرف اس نکاح کو لے کر کیا صورت حال بنتی ہے۔ میں بہر صورت تمہارے ساتھ زندگی جینا چاہتا ہوں، چاہے کچھ بھی ہو۔ فرض کرو میں صرف سالم حداد رہ جاتا ہوں، شیخ ہٹا لیا جاتا ہے تو کیا تب بھی مجھے قبول کر لو گی؟‘‘
سالم نے اس کی گردن میں اپنا چہرہ دھنساتے ہوئے سرگوشی کی ۔ وہ جس شدت سے اسے ساتھ لگائے ہوئے تھا، بدر بولنے کی پوزیشن میں ہی کہاں تھی۔ ورنہ اسے ضرور کہتی کہ میری تمہارے سامنے کوئی حیثیت، کوئی اوقات ہی نہیں ہے۔ تم شیخ سالم حداد ہو تو بھی بلند تر ہو، اگر صرف سالم حداد ہو تو بلند ترین، ہمارے جیسے غریب ملک کے غریب گھر کی لڑکیاں قبول نہیں کرتیں انہیں قبول کیا جاتا ہے۔
بدر نے پہاڑ جتنا حوصلہ بنا کر ہاتھ اس کے کندھوں کے گرد پھیلا دیئے۔ اس نے اسکارف سے نکلا ہوا اس کے بائیں کان کے جھمکے کا موتی چوما۔ اپنے کندھوں سے اس کے ہاتھ اٹھا کر اپنے ہاتھوں میں گرمجوشی سے دبائے اور تیز قدموں سے کمرے سے نکل گیا۔
حواسوں پر چھاتی اس کی خوشبو اور فعل سے نکلنے میں بدر کو کئی منٹ لگ گئے۔ خود کو کمپوز کر کے اس نے مجلس کی طرف جانے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ جاننا چاہتی تھی ایسی کون سی شدید بات ہے جس کا سامنا کرنے سے پہلے وہ اسے اس درجہ خود سے بھینچ کر گیا ہے۔ بدر کے تجسس نے نظر سے اوجھل اس پہلو کو کھوجنے کا ارادہ کر لیا۔ وہ دروازہ کھول کر باہر نکلی تو سارا کوریڈور خالی تھا۔ وہ جانتی تھی مجلس (جرگہ، پنچایت) یقیناً مجلس میں ہی ہو رہی گی۔ اس نے سامنے کی سیڑھیوں کی بجائے سالم کے کمرے کے پیچھے موجود چند سیڑھیوں کا استعمال کیا اور نیچے اتر آئی۔ یہ بیک یارڈ قسم کی جگہ تھی جس میں کمروں کی بڑی بڑی کھڑکیاں کھل رہی تھیں۔ بدر برستی پھوار میں چوروں کی طرح ہولے ہولے چلتے ان کھڑکیوں میں سب سے بڑی ونڈو کے نیچے جا کر کھڑی ہوئی۔ اندر سے آتی مختلف آوازوں نے اس کے اندازے کی تصدیق کر دی کہ یہی مجلس تھی۔ بیڈ روم میں اتنی بڑی ونڈو نہیں ہو سکتی یہی سوچ کر وہ شیشے کی اس ونڈو کے سامنے آئی تھی۔ بوگن ویلیاں کی بیل کے پاس پڑا سیمنٹ کا بلاک اس نے ونڈو کے نیچے کیا اور اس پر پیر رکھ کر ایڑھیاں اٹھا کر اندر جھانکا۔ فرشی نشست پر سامنے ہی کافی تعداد میں عمانی مرد بیٹھے تھے۔ ان سب کا حلیہ سالم جیسا ہی تھا۔ ایک کونے میں منہ سر لپیٹے سیاہ برقعوں میں ملبوس چند عورتیں بھی براجمان تھیں۔ یقیناً وہ خاندان کی بڑی معتبر و سرکردہ خواتین ہی ہوں گی۔ بدر نے برستی پھوار میں اپنی ناک ایلو مینئم کی دیدہ زیب کھڑکی سی ٹکا دی۔ موسم کا نظارہ لینے کے لیے شیشہ ہٹا کر صرف جالی آگے کی گئی تھی۔ بدر اب ہمہ تن گوش تھی۔ اسے وقاص نے زبردستی عربی سکھانے کی سر توڑ کوشش کی تھی تاکہ کسٹمرز مزید خوش ہوں۔ بدر کو بولنی تو نہ آئی لیکن اس کوشش کے نتیجے میں وہ کافی حد تک عربی سمجھنے کی قابل ضرور ہو گئی تھی۔ آج اسے وقاص کا یہ پہلا فعل اچھا لگا تھا۔
’’محترم بابا جان، شیخ نجم کون ہوتا ہے میری حرمہ کے کردار پر بات کرنے والا؟ آپ نے میری حرمہ کے بارے میں اس کے بہتان سن کر اسے واپس بھی جانے دیا؟ میں ہوتا تو اسے ذبح کر ڈالتا۔‘‘ سالم نے طیش بھری آواز کے ساتھ اپنی ناف کے ساتھ لٹکے خنجر پر ہاتھ رکھا تھا۔
بدر کو لمحوں میں کہانی سمجھ آئی۔
’’تو اب تم اس ہندی لڑکی کی وجہ سے محترم بابا جان سے سوال کرو گے؟ گستاخی کرو گے؟‘‘ یہ بائیں طرف والا عربی تھا۔
سالم اب کھلے دائرے میں سفید براق داڑھی والے بزرگ کی طرف منہ کر کے دو زانو بیٹھ گیا۔
’’وہ ہندی نہیں باکستانی ہے اور میری بیوی ہے۔‘‘
’’برخوردار، بیویاں نسلی اور خاندانی ہی اچھی لگتی ہیں۔ شوق جیسے مرضی پال لو تم جوان ہو ہم شوق رکھنے سے کہاں منع کر رہے ہیں۔‘‘ دائیں طرف سے آواز آئی۔
’’اتنے دن کافی ہوتے ہیں شوق پورا کرنے کے لیے۔ صرف ایک ہی کال گرل پر شوق قائم نہیں رکھتے۔ شوق رکھنے کے بھی کوئی طریقے ہوتے ہیں۔‘‘
ایک اور آواز…
باتیں تھیں یا مارٹر گولے… بدر کے پرخچے اڑتے جا رہے تھے۔
’’یا شیخ، کچھ تو حیا کریں… کچھ تو حیا کریں۔‘‘ سالم حداد کا انداز بے حد طیش بھرا تھا۔
’’تم کو ایک ہندی لڑکی کو بیوی کہتے حیا نہیں آتی، جو ہمیں حیا آئے۔‘‘
’’وہ ہندی نہیں ہے۔‘‘
’’عرب ہے؟‘‘
سالم اب خاموش تھا۔
’’وللہ تم تو قاضی بن گئے شیخ سالم حداد، ہندی کو ہم عرب کہیں، کیونکہ تم کہہ رہے ہو تمہاری حرمہ ہے۔‘‘
’’میری حرمہ ہے اسی لیے تو کہہ رہا ہوں حرمہ ہے۔‘‘ اب وہ قدرے ٹھہرے لہجے میں جواب دے رہا تھا۔
’’اب ہماری نسلیں ایک غیر عرب کے بطن سے جنم لیں گی۔ مقام عبرت ہے شیخ کہ ہماری نسلیں نام نہاد مسلمانوں کے ہاتھوں پروان چڑھیں گی۔ مقام فکر ہے کہ اب ہماری اپنی نسل اپنا تشخص گنوانے پر تل گئی ہے۔‘‘
’’وہ شناخت جس کی ہم الف سنہ (ہزار سالوں)سے حفاظت کر رہے ہیں۔ ہر سال قانون بناتے ہیں اس کو اب نئی نسل یوں توڑے گی۔‘‘
’’احترام سے عرض کرنا چاہتا ہوں یہ حفاظت نہیں ہے غرور ہے۔ ہم نسلی برتری میں مبتلا مغرور قوم ہیں۔ ایک مسلمان کو غرور زیب نہیں دیتا۔ نسلی امتیاز اسلام نے ختم کر دیا تھا۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے برتری کی بنیاد تقوی ہے۔‘‘
’’تقریر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں تمہارے بڑوں کے بھی بڑے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ابھی صرف یہ بتاؤ کہ اس لڑکی سے نکاح کیوں رجسٹرڈ کرایا؟ اس کے اپنے نام پر کاغذات کیوں بنائے؟ جبکہ تمہیں معلوم تھا وہ شیخ نجم طبوق کی ملکیت ہے۔ میں نے تمہیں منع کیا تھا تم طبوق کے راستے میں نہیں آؤ گے۔ پھر بھی تم نے اسے نیچا دکھانے کی خاطر اس کے بستر سے وہ ہندی لڑکی گھسیٹ لی۔ طبوق آیا تھا وہی بتا کر گیا ہے کہ تم نے جان بوجھ کر اس کی ملکیت پر ہاتھ ڈالا۔ ہاتھ ڈالا تھا تو نکاح کے کاغذات تیار کرانے کیا ضرورت تھی۔‘‘
’’بابا مجھے نہیں معلوم تھا کہ شیخ طبوق یا کوئی قبیلہ طبوق کا نفر اس معاملے میں انوالو ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے مجھے پتہ بھی ہوتا تو میں یہ شادی ضرور کرتا۔‘‘
’’آئیوا، آئیوا … شیخ سالم طبوقوں کے بستر کی زینت حدادیوں کا فرد بنا دی۔ اور تو اور اس سے نسل بڑھانے کا بھی ارادہ ہے۔‘‘ زہریلے اور جارحانہ انداز میں سالم کو داد دی گئی۔
’’مت بھولیں کہ میری حرمت کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ کوئی اور ایسے لفظ بولتا تو اب تک گردن اڑا چکا ہوتا۔‘‘
’’ہم سب کی گردنیں اڑا دو۔ سارے ظفار کی کیسے اڑاؤ گے؟ سارا ظفار جانتا ہے ایک کال گرل شیخ سالم حداد کی بیوی بن گئی ہے۔ کال گرل بھی کون جس پر طبوق دعویٰ رکھتا ہے۔ سالم مجنون نہیں بنتے تمہارا شوق پورا ہو گیا۔ اب شیخ طبوق کو وہ لڑکی واپس کر دیتے ہیں۔ وہ پہلے ہی کہہ کر گیا کہ طلال البلوشی کے کہنے پر تم نے اس لڑکی کو اس کے قابل نہیں چھوڑا۔ ہم خیر مقدم کے طور پر اسے بلا کر پیش کش کر دیتے ہیں۔ بہتر ہے تم ابھی طلاق دے دو۔ قانونی کاغذات بنتے رہیں گے۔‘‘
’’بہت ہو گیا… اب ایک بھی لفظ مزید نہیں سنوں گا۔‘‘ اس کی غیض سے بھرپور بلند دھاڑ نے بدر کو بھی دہلا دیا۔ اس کے پیر بلاک سے نیچے اتر گئے۔ تب ہی ایک لمبی تڑنگی سیاہ عبایا میں ملبوس عورت ایک انڈین لڑکی کے ساتھ اس کے پاس آ کر رکی۔
’’طوبٰی کہہ رہی ہیں ہمارے ساتھ چلو۔‘‘
طوبٰی نے غصے سے اس کا ہاتھ تھاما اور دھپ دھپ سیڑھیاں چڑھتی سالم حداد کے کمرے سے اگلے کمرے میں لے آئی۔
’’تم بدر جہاں ہو؟‘‘
حیدرآباد دکن کی انڈین ملازمہ مترجم بنی کھڑی تھی۔
بدر نے سر ہلایا تو طوبٰی نے اس کے سر سے اسکارف نوچ کر پھینک دیا۔
’’عبایا اتارو۔‘‘
بدر ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی تو اس نے انڈین ملازمہ کو اشارہ کیا۔ بدر نے زبردستی سے بچنے کے لیے خود ہی اتار دیا۔ اب وہ مجسمے کی صورت ان کے سامنے کھڑی تھی۔ قدرت کی صناعی کی بہترین مثال، خوبصورت مورتی سا ترشا ہوا بدن، صبیح چہرہ اور کمر پر ریشمی بالوں کی آبشار۔
’’حسین ہو پر اتنی نہیں کہ میرا شیخ مجنون ہو جائے۔ تجھ سے زیادہ ہوش ربا حسن دیکھا ہے اس نے۔ وہ بھی تب، جب وہ کم عمر تھا۔ وہ تو ان کو ٹھکراتا آیا ہے تم کیا چیز ہو۔ یقیناً سحر (جادو) کیا ہے تم نے جادو گرنی۔‘‘
بدر کو لگا وہ عورت اس کا منہ نوچ لے گی۔
’’رخسانہ تجھے کیا لگتا ہے یہ جادو جانتی ہو گی یا نہیں؟‘‘
رخسانہ چپ رہی۔
’’بنگالی، ہندی، باکستانی سب جادو کرتے ہیں۔ ان کو قاضی (عدالت) کے ہاں دے دینا چاہیئے۔ فوراً موت کی سزا ہونی چاہیئے جادو کرنے والوں کو۔‘‘
بدر کو اندازہ ہوا وہ عورت سچ مچ اسے جادو وغیرہ کا چکر سمجھ رہی ہے۔ اسے صلالہ میں وقاص کے ساتھ کام کرنے والی ایک لڑکی نے بتایا تھا کہ ظفار تاریخی طور پر سامری جادوگر کا علاقہ تھا۔ اس لیے ظفار کے لوگ اندر خانے اب بھی توہم پرستی کر جاتے ہیں، جادو سے بھی خوفزدہ رہتے ہیں۔ سلطنت آف عمان میں جادو کی سزا بھی موت ہی ہے۔