کسی اجنبی سے دیار میں: قسط نمبر 10
بدر نے دیکھا وہ جس چٹان سے نیچے آئی اسی چٹان کے نیچے وہ موجود تھا۔ پانی کے بار بار کے ٹکراؤ نے اندر سے پتھر یوں کاٹ ڈالا تھا جیسے کسی ماہر سنگ تراش نے اپنا فن دکھایا ہو۔ انہی کٹے ہوئے پتھروں کے درمیان چھوٹے چھوٹے پتھروں کے ساحل پر وہ موجود تھا۔
’’آپ نیچے کیسے گر گئے؟ زیادہ چوٹ تو نہیں آئی؟‘‘
برستی پھوار اسے اب غصہ دلا رہی تھی کہ کبھی تو رکنی چاہیئے یہ ہر وقت برستی رم جھم۔
’’نہیں، کوئی چوٹ نہیں آئی۔ تم ذرا سنبھل کر کھڑے ہونا یہاں سارے پتھر بہت سلپری ہیں بار بار ٹکراتے پانی نے ان پر نظر نہ آ نے والی کائی جما دی ہے جس کی وجہ سے یہ سلپری ہو چکے ہیں۔‘‘
بدر نے اپنے پیروں کے نیچے پتھروں کو دیکھا وہ واقعی ہی سلپ کرا دینے والے تھے۔ وہ پتھر دیکھ رہی تھی جب غڑاپ کی آواز سے سالم پانی میں گرا تھا۔ بدر کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ وہ کئی لمحوں تک پانی کی سطح پر نہ ابھرا تو بدر نے عین اپنی عادت کے مطابق بدترین ہی سوچا۔
اس کے خیال میں وہ پانی میں گرتے ہی پتھر سے ٹکرا کر بے ہوش ہو چکا تھا لیکن جب وہ اس کے قریب پانی سے نکلا تو اپنی ذرا سی غفلت سے وہ سلپ ہو کر پانی میں تھی۔ وہ جو کنارے پر گہرا نہیں سمجھ رہی تھی گر کر گہرائی پتا چل رہی تھی۔ نیچے ہی نیچے جاتے اس نے اندھا دھند ہاتھ پاؤں مارتے چیخیں مارنا شروع کر دیں۔ جب اسے لگا وہ ڈوبنے والی ہے تب سالم نے اسے تھام لیا۔
’’ہلو مت یا پھر تیرنے کی کوشش کر لو۔‘‘
غوطہ کھانے کے بعد وہ سارا شکریہ اور ساری ٹینشن بھول گئی، اسے صرف اپنا ڈوبنا یاد رہا۔
وہ اس کی کمر میں ہاتھ ڈالے اسے پھسلتے پتھروں سے ذرا سا دور لا کر اس کے برابر بیٹھ گیا۔ بدر منہ پر ہاتھ رکھے بری طرح کھانس رہی تھی۔ سالم نے پتھروں پر ہتھیلیاں ٹکائیں اور ہنسنا شروع کیا تو ہنستا ہی گیا۔ اس کی مزاق اڑاتی ہنسی اور گیلی مرغی بنا اپنا آپ احسان مندی کے سارے جذبات نگل گیا۔ دوسروں کے گرنے پر ہنستے ہوئے لوگ اسے بچپن سے ہی برے لگتے تھے۔
’’تم غالباً میری مدد کرنے آئی تھیں۔‘‘
’’آپ تو اتنی بلندی سے گرے ہیں، میں تو نہیں ہنسی۔‘‘
’’کس نے کہا میں گرا ہوں؟‘‘
’’تو آپ چٹان سے سلپ ہو کر نہیں گرے؟‘‘
’’نہیں، میں تو سوئمنگ کرنے آیا تھا۔‘‘
’’مجھ سے ناراض ہو کر؟‘‘
بدر نے اپنے لمبے بال نچوڑ کر پانی نکالا۔
’’تم نے معافی مانگ لی تو انا ہی مٹ گئی، غرور ہی ڈھے گیا، ناراضی یاد ہی نہیں رہی۔‘‘
بدر کو اس کی ایسی باتیں موضوع بدلنے پر مجبور کر دیتی تھیں۔
’’یہ بھی کوئی تیراکی کی جگہ ہے مگرمچھ کا ڈنر بن سکتے تھے آپ۔‘‘
’’تم نے مجھے تیرتے نہیں دیکھا ورنہ مگرمچھ کی دھمکی تو نہ دیتیں۔ چلو ایک بات تو پتہ چلی پیپرز دیکھنے کے بعد ہی سہی مجھے کھونے سے ڈرنے لگی ہو۔‘‘
’’وہ تو مجھے یہ ٹینشن ہوئی کہ میں پاکستان کیسے جاؤں گی۔‘‘ اس نے صاف گوئی سے اندر کی بات بتا دی۔
’’بدر جہاں میری دو گھنٹے کی تیراکی ایک طرف اور تمہارا یہ جملہ ایک طرف، وہ exertion ہوئی ہے کہ چوبیس گھنٹے انرجی بحال نہیں ہو گی۔‘‘ سالم نے آہ بھری۔
وہ جو کب سے لفظ جوڑتی توڑتی رہی تھی صرف ایک غوطے نے سب کچھ بھلا دیا یہ بھی کہ وہ اس کے قریب بیٹھی ہے۔ اتنے قریب کہ اس کے ننگے کسرتی کندھوں پر ٹکا سمندری پانی اور بارش کی ننھی بوندیں مکس ہوتے دیکھ سکتی ہے۔
’’میں زندگی بھر آپ کے احسانات یاد رکھوں گی۔‘‘
’’بدر رونا نہیں پلیز، میں کوئی رونا دھونا سننے کے موڈ میں نہیں ہوں۔ بہتر ہے جو کچھ رہتا ہے اس کے بارے میں بھی بدترین سوچ لو، مجھ پر مزید شک کر لو۔ کاغذات جھوٹے ہیں یہ بھی سوچ لو لیکن یہ رونے کا سیشن مت شروع کرنا۔‘‘
بدر نے آنسو گلے میں اتار کر اس کے سنہری گندم کے رنگ والے ہاتھ پر اپنا سفید ہاتھ رکھا۔ اس نے پلٹ کر اس کا بھیگا چہرہ دیکھا۔
’’تم مجھے چھو سکتی ہو لیکن مجھے تمہارا ہاتھ پکڑنے سے پہلے پاکستان جا کر تمہاری ماما سے، اخو سے، اختی سے حتٰی کہ تمہاری اسٹریٹ کے لوگوں سے اجازت لینی ہو گی کہ میں اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑ سکتا ہوں؟‘‘
’’آپ کی باتیں تلخ زیادہ ہیں یا گندی زیادہ ہیں مجھ سے فیصلہ نہیں ہوتا۔‘‘ بدر نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے اٹھا لیا۔
’’تلخ کا مجھے معلوم نہیں لیکن ہمارے کلچر میں گندی بالکل نہیں ہیں۔ شادی زندگی کا اہم، خوبصورت اور حلال رشتوں میں سب سے قریبی رشتہ ہے۔ ہمارے ہاں نئے شادی شدہ جوڑے ماما، اخو، اختی وغیرہ وغیرہ کی ٹینشن دماغ میں نہیں رکھتے۔ اس ٹینشن سے بچنے کے لیے سب انہیں دور بھیج دیتے ہیں۔‘‘
’’تو کہاں جاتے ہیں وہ لوگ؟‘‘ بدر حیران ہوئی۔
’’ہوٹل یا پھر کچھ کپل اپنے بنائے گھر میں رہنے کو ترجیح بھی دیتے ہیں سوائے فوڈ ڈیلیوری پرسن کے ان کے گھر کوئی نہیں جاتا۔‘‘
’’یوں رشتوں سے کٹ کر بھی کوئی زندہ رہ سکتا ہے بھلا؟‘‘
’’ان کا اپنا نیا رشتہ بن جاتا ہے جیسے ہی چیکو (بچہ) آنے کا پتہ چلتا ہے زندگی روٹین پر آ جاتی ہے۔‘‘
’’اف کسی بات میں کوئی شرم ورم ہے آپ کے کلچر میں؟‘‘
’’شادی، پریگنینسی، بے بی… تم بتاؤ ان میں کون سی شرم والی بات ہے؟‘‘ سالم نے بھی اب برا منایا۔
’’ساری باتیں ہی شرم کرنے والی ہیں۔‘‘
’’بدر ہمارے ہاں ایڈجسٹ ہونے میں تمہیں بہت وقت لگنے والا ہے۔ شاید اسی لیے ہمارے عرب خاندان ہم زبان سے شادی کرنے پر زور دیتے ہیں، ہم زبان ہو بھلے اہل کتاب ہو۔‘‘
’’مطلب مسلمان ہونا اہم نہیں، ہم زبان ہونا زیادہ اہم ہے؟‘‘ بدر جی بھر کر بدمزہ ہوئی۔ سالم خاموش ہی رہا۔
’’گھر چلیں، مجھے بھوک بھی لگ رہی ہے۔‘‘
’’ہاتھ پکڑ لوں؟‘‘ اس نے طنزیہ بدر سے پوچھا۔
’’ورنہ پھر سے گر جاؤ گی، میں ہنسوں گا تو برا بھی مناؤ گی۔‘‘
بدر نے ہاتھ بڑھا کر کہنی کے قریب سے اس کا ننگا بازو خود تھام لیا۔
’’آپ ایسے آدھے ننگے کپڑے کیوں پہنتے ہیں۔ ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے عربی ایسے ننگے منگے سے پھرتے ہوں گے۔‘‘
سالم نے اس کے انداز پر بھرپور قہقہہ لگایا۔
’’میں کچھ بھی پہن لوں تمہیں کون سا فرق پڑتا ہے۔ ایک میں ہوں تمہاری نظر اٹھتی ہے تو محبت میری نسوں میں خون بن کر دوڑنے لگتی ہے۔ کب تک امتحان دینا ہے بدر؟‘‘ وہ ناہموار زمین پر مضبوطی سے قدم رکھتا اس سے پوچھ رہا تھا۔ بدر ایک بار پھر مشکل میں پڑ گئی۔ وہ اپنا نقطہ نظر بتانے کے لیے لفظ ڈھونڈنے لگی۔ سالم نے اس کا ہاتھ کہنی سے اٹھا کر اپنی نبض پر رکھ دیا۔
’’تمہارے بارے میں سوچوں تو خون جسم میں اتنی تیزی سے گردش کرنے لگتا ہے جیسے نسیں پھاڑ ڈالے گا۔‘‘
’’میں پاکستان جا کر اماں کو سب بتانا چاہتی ہوں۔ وقاص نے جو جھوٹ مجھ سے بلوائے ہیں، ان کی وجہ سے وہ سب بہت پریشان ہیں۔ میں خود بھی بہت ڈسٹرب ہوں اس لیے پہلے ان سے ملنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’تو تم چاہتی ہو میں تمہیں تمہاری اُمّی سے رخصت کرا کے اپنے گھر لاؤں؟‘‘
بدر نے سر ہلا دیا۔ وہ یہ تو کہہ نہیں سکتی تھی اسے شادی ہی وہ لگتی ہے جہاں والدین کے گھر سے بیٹی رخصت ہو۔
بدر جانتی تھی وہ اس کی کہی ہر بات کو یاد رکھتا ہے اس لیے اس نے موضوع بدل دیا۔
’’اندر سے یہ جبلی گھر اتنا پیارا ہے لیکن باہر سے کتنا خراب لگتا ہے۔‘‘ بدر نے سیاہ پڑے پینٹ کو دیکھتے ہوئے گھر پر تبصرہ کیا۔
’’ہر سال خریف کی وجہ سے سیاہ کائی سی لگ جاتی ہے جتنی بھی رینوویشن کرا لو ایک سیزن بمشکل نکلتا ہے۔‘‘
’’ایک اور بات میں نے نوٹ کی ہے یہاں پر آسمانی بجلی نہیں کڑکتی۔‘‘
’’یہی تو ہمارے ظفار کی خاصیت ہے یہاں کی مطر بہت پرسکون بہت ہی دل آویز ہے۔ بادل گرج کر شور کرتے ہیں نہ بجلی ڈراتی ہے۔ تبھی تو سیاح تین ماہ مسلسل ہونے والی بارش کا نظارہ کرنے آتے ہیں۔ یہ نبی صالح علیہ السلام کی اونٹنی والا علاقہ ہے۔ صلالہ جائیں گے تو تمہیں اونٹنی والا تاریخی مقام دکھاؤں گا ان شاء اللہ۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘
’’سالم، یہ ہر شے پر شاپر کیوں چڑھائے ہیں؟‘‘
’’تاکہ سب اشیاء نمی سے محفوظ رہیں، لائٹس اور ٹی وی وغیرہ بھی چوبیس گھنٹے چلتے ہیں ورنہ نمی سے دوبارہ آن کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔‘‘
’’ٹی وی سے یاد آیا یہاں اتنی دور بجلی اور پانی موجود ہے، وہ کیسے؟‘‘
’’حکومہ (حکومت) کی ذمہ داری ہے شہری کی سہولت کا خیال رکھنا۔ اب شہری بھلے جبل کا ہو یا وادی کا۔‘‘
’’مطلب ایک گھر کے لیے گورنمنٹ اتنا خرچہ کر کے بجلی اور پانی یہاں تک پہنچا دیتی ہے؟‘‘
’’پاکستان میں نہیں پہنچاتی ہو گی۔ یہاں تو یہ سب حکومہ کی ہی ذمہ داری ہے۔‘‘
’’آپ کبھی پاکستان گئے ہیں؟‘‘
’’اب جاؤں گا تمہارے ساتھ۔‘‘
’’اردو کہاں سے سیکھی؟‘‘
’’لنڈن سے، انڈین و پاکستانی میٹس تھے وہاں۔‘‘
’’چائنیز بھی آتی ہے؟‘‘ بدر نے اشتیاق سے پوچھا۔
’’بات چیت تو کر ہی لیتا ہوں، ان کی شاعری نہیں سنا سکتا۔‘‘
’’پنجابی کا پتہ ہے؟‘‘
اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتا بیرونی دروازے پر زور دار دستک ہونے لگی تھی۔ بدر اور سالم نے کھانا چھوڑ کر ایک دوسرے کو دیکھا۔ یہ ان کا پہلا اور آخری کھانا تھا جو انہوں نے اعتماد کی فضا میں کھایا تھا۔
٭…٭…٭
حسین اور معتصم نے معذرت خواہانہ نظروں سے بدر کو دیکھا۔
’’سالم معاملہ سنگین ہو چکا ہے۔ شیخ حداد نے تمہیں بلایا ہے اور ابھی بلایا ہے۔‘‘
’’بدر تم اپنی چیزیں سمیٹ لو۔‘‘سالم نے پلٹ کر اسے کہا اور ان کے ساتھ باہر نکل گیا۔
اب بدر بے یقینی کے سفر سے نکل آئی تھی۔ اسے ان تینوں کے اکیلے گفتگو پر کوئی خدشہ جاگا نہ تحفظات نے انگڑائی لی۔ اس نے حق مہر کی رقم اور گھڑی الگ رکھی۔ اپنے اور سالم کے کپڑے ایک ہی شاپر میں پیک کر لیے۔ ایسے ہی اس کا تکیہ اٹھا کر دیکھا نیچے گن پڑی تھی، اس نے وہ بھی اٹھا لی۔ دیکھنے میں ہلکی پھلکی لگنے والی شے مناسب وزن رکھتی تھی۔ سالم کے آواز دینے پر اس نے مجلس میں آ کر وہ گن اس کی طرف بڑھا دی۔ سالم نے دروازے بند کیے۔ دونوں اکٹھے باہر نکلے تو اس نے بیرونی دروازے کی بھی کنڈی لگا دی۔ معتصم اور حسین منتظر کھڑے تھے۔
’’یا سالم تم اپنی گاڑی لو، مجھے میری ڈرائیو کرنے دو۔‘‘
سالم نے معتصم کے ہاتھ سے اپنی لیکسز کروزر کا ریموٹ پکڑ لیا۔ اب وہ لینڈ کروزر پر حسین اور معتصم کے پیچھے تھے۔
’’سب ٹھیک ہے نا؟‘‘
’’آئیوا۔‘‘
’’شیخ طبوق کو پتہ چل گیا؟‘‘
’’نعم…‘‘
’’وہ مجھے تنگ تو نہیں کرے گا؟‘‘ ایک خوف سا تھا جو کبھی کبھی سر اٹھا لیتا تھا۔