کسی اجنبی سے دیار میں: قسط نمبر 1

زبیدہ کو تو گویا موقع مل گیا استانی کو اپنا سارادکھ، ڈپریشن اور محرومی سنا ڈالی۔ ساتھ ساتھ استانی جی کی محرومی اور بچیوں کی قسمت پر بھی آنسو نکل آئے۔ اب استانی کی باری تھی، اس نے اپنی ایک بیٹی کو آواز دے کر آنٹی کے لیے چائے بنوائی اور باقی سب کو نظر انداز کرکے صرف اسی کی سامنے بیٹھ گئی۔
’’زبیدہ تمہاری بیٹیاں، بیٹے سے زیادہ تنگ کرتی ہیں؟‘‘
’’نہیں جی! بیٹا تو پورا خبیث ہے۔ بچیاں تو ایسی اچھی ہیں جب سے بڑی ہوئی ہیں، میراسا راگھر ہی سنبھال لیا ورنہ اس بیماری کے ساتھ (اپنے موٹاپے کی طرف اشارہ تھا) میں اب تک مر مرا گئی ہوتی۔‘‘
’’تو پھر تو بیٹیاں رحمت ہوئیں نا؟ ‘‘
’’نہیں استانی جی! اتنی زیادہ تو زحمت ہی ہوتی ہیں۔ پہلے پالو، پھر جہیزاکٹھا کرو پھر شادی کرو آ گے سسرال کے نخرے اٹھاؤ۔ ساتھ ہی دوسری کا جہیز شروع کر دو۔ اوپر سے رشتے والوں کے نخرے کہ خوداتنی بہنیں ہیں تو بیٹیاں ہی پیدا کریں گی۔ حالانکہ جس گھر میں زیادہ بیٹیاں ہوتی ہیں ساری حسین سے حسین ترین ہوتی ہیں جیسی آ پ کی بچیاں ہیں ماشاء اللہ! کتنی سوہنی ہیں ایسے ہی میری بچیاں شکل و صورت میں بڑی ہی سوہنی ہیں، پر قسمت… حق ہا!‘‘
’’یہ جواز زحمت تو نہیں بناتا، رحمت کا پلڑا بھاری ہی ہے۔‘‘ استانی ستارہ مسکرائی۔
’’زبیدہ! ان کو تعلیم دلاؤ، دین اور دنیا کی… پھر کسی دین دار لڑکے سے شادی کرنا، دنیاوی تعلیم سے بیٹیاں پیروں پر کھڑی ہوں گی۔ ابھی میری اس بیٹی کی بطور ریاضی کی استاد سرکاری کالج میں نوکری لگی ہے۔‘‘ استانی نے چائے سرو کرتی اپنی بیٹی کی طرف اشارہ کیا توزبیدہ نے اس کے سر پر پیار دیا اور اچھے نصیب کی دعا بھی دی۔
وہ دن زبیدہ کے لیے نئی سوچ کا دریچہ کھلنے کا پہلا دن تھا۔ بات چیت کے دوران اسے اتنا وقت لگ گیا کہ سب خواتین ایک ایک کرکے رخصت ہو چکی تھیں۔ استانی جی کی لیکچرر بیٹی اس وقت واپس اپنے گھریعنی شوہر کے پاس جا رہی تھی۔ اس نے زبیدہ کو پیدل چلنے کی زحمت سے بچانے کے لیے اپنے ساتھ گاڑی میں بیٹھنے کی پیشکش کر دی، یوںزبیدہ کے لیے تابوت میں آخری کیل ٹھونکا گیا۔ ایک جوان خوبصورت، بااعتماد لڑکی جس کا کوئی بھائی نہیں تھا، جس کے شوہر کے پاس گاڑی تھی اور وہ گاڑی لڑکی خود ڈرائیو کر رہی تھی، زبیدہ کے دل سے چپک گئی۔
ہر جمعرات زبیدہ اپنی بیٹی یا بیٹیوں کے ساتھ درس سننے پہنچ جاتی۔ دین بھلے دل پر اثر کرتا تھا یانہیں لیکن زبیدہ کی ترجیحات سیٹ ہوتی گئیں کہ لڑکیوں کو ریاضی، کامسٹری(کیمسٹری) پڑھانی ہے اس سے نوکری لگ جاتی ہے اور پھرکھاتے پیتے گاڑی والے گھروں میں لڑکیوں کی شادی کرنی ہے۔
اس کے دیکھتے دیکھتے استانی جی کی ریاضی کی استاد لڑکی اور اس کا میاں باہر کے ملک چلے گئے۔ استانی اور ماسٹر نے ریٹائرمنٹ کے بعدگھر اچھے علاقے میں لے لیا۔ آ س پاس کے جن جن لوگوں کے پاس پیسہ آ تا گیا وہ یہ تنگ گلیاں چھوڑ کر شہر کی نئی کالونیاں بساتے گئے۔ زبیدہ کے دل میں یہ گرہ بھی پڑتی گئی کہ بیٹیوں کی شادیاں بھی ویسے ہی علاقے میں کرنی ہیں جہاں اس کے پرانے ہمسائے جا جا کر آباد ہو رہے ہیں کیونکہ جب بھی وہ ان کے ہاں ملنے گئے پرانی کالونی اور اس کی گلیوں کی برائی ہی سن کر آئی۔ جس سے اسے اور احساس کمتری ہونے لگتاتھا۔
کوشش اور دعا سے فخر جہاں کی شادی وہ نوکری پیشہ سفید پوش لوگوں میں کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ سارے خاندان میں عزت بن چکی تھی۔ ٹھیلے والوں اور چوکیداروں کے علاوہ اگر کسی نے داماد ڈھونڈاتھا تو صادق اور زبیدہ نے، زبیدہ کا میکے اور سسرال میں سٹیٹس اونچا ہو چکا تھا اب وہ مزید اونچا کرنا چاہتی تھی۔ اس کی لاکھ کوشش کے باوجود یاسر نے ددھیال والے پرانے کوچے میں شادی کروائی کہ دادی کے گھر آ تے جاتے اسے سیما سے عشق ہو گیا تھا۔ زبیدہ انہی کوچوں اور کھولیوں سے اٹھ کر یہاں آئی تھی، اسے معلوم تھا سیما اور اس کی ماں نے یاسر کو پھنسایا تھا کہ اکلوتا لڑکا ہے باقی برادری سے بہت بہتر گھر اور حالات ہیں۔ سیما بالکل ویسی تھی جیسی ان کے گھرانوںمیں بہوئیں ہوتی ہیں۔ تمیز تہذیب سے واسطہ کم ہی تھا۔ صادق، زبیدہ اور گھر کی لڑکیاں جب بھی استانی ستارہ کی تعلیم کے مطابق رد عمل دیتیں یا عمل کرتیں تو سیما بڑے طنز سے کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا کہہ کر اپنے کمرے میں گھس جاتی۔
بدر جہاں بی ایس سی فائنل میں تھی جب اچانک ہی بیٹھے بٹھائے بناکسی بیماری کے اور بنا ہی بیمار ہوئے صادق خالق حقیقی سے جا ملا۔ اپنی راجدھانی میں بچیوں کے معاملے میں صرف اور صرف اپنی چلانے کا زبیدہ کا وہ آ خری دن تھا۔ بدر جہاں ایم ایسی میں داخلہ نہ لے سکی، یاسر نے یونیورسٹی کی فیس سن کر نام ہی نہ لینے دیا ۔ حالانکہ اماں کو بہت شوق تھا بدر میتھس میں ایم ایس سی کرکے بالکل استانی ستارہ کی بیٹی کی طرح سرکاری کالج میں میتھس کی استانی لگے۔ اس نے پرائیویٹ پڑھانا شروع کر دیا اور زبیدہ نے جہیز بنانا شروع کردیا۔ ساتھ ہی جگت اماں کی خدمات حاصل کر لیں۔
جگت اماں کی سالوں سے زبیدہ سے گاڑھی چھنتی تھی۔ اس کی بیٹیوں کے حسن کی بھی وہ مداح تھی۔ وہ کہتی ،’’بیدی! تیری ساری کڑیاں بہت سوہنیاں ،پر اے جو بدر ہے اس کو تو رب نے پریوں والی مٹی سے بنایا ہے۔ حسن بانو پری اتنی ہی سوہنی ہوگی تبھی تو شہزادہ گلفام عاشق ہواتھا۔‘‘ جگت اماں ایک لوک داستان کا حوالہ دیتی، بدر کے لیے زبیدہ کی ڈیمانڈ اور اپنی خواہش کے مطابق سال بعد اب جا کر کہیں اماں کورشتہ ملا تھا جب بدر اسکول کے تعاون سے بی ایڈ کا امتحان دے چکی تھی۔
٭…٭…٭
اس نے فون نکال کر نمبر ان بلاک کیا اور کال ملا لی۔
’’کیسا ہے رو بل؟‘‘
آ گے سے حسب توقع ننگی گالیاں پڑیں۔
’’اچھا، اچھا! زیادہ بکنے کی ضرورت نہیں، مجھے بتا کون سے ٹھکانے پر ہو؟خود آ کر سارا قرضہ واپس کرتا ہوں۔‘‘
علاقے کا نام اور بلڈنگ کا نام ذہن نشین کرکے اس نے فون بند کیا اوراردگرد اے ٹی ایم مشین ڈھونڈنے کی کوشش کی تاکہ بینک میں موجودسیلری بھی نکال سکے اور پھر تیسری سٹریٹ میں گوہر مقصود ہاتھ آگیا۔ اکاؤنٹ صفر کرکے اس نے عمانی ریال جیب میں منتقل کیے اور لفٹ لینے شاہراہ پر رک گیا۔ دو گاڑیوں نے اس کا لفٹ کے لیے اٹھا انگوٹھا نظرانداز کیا، تیسری میں بیٹھے سکھ نے اسے اس کے مطلوبہ علاقے میں ڈراپ کیا تھا۔ دور ہی سے روبل کی بتائی قدرے پرانی بلڈنگ اسے نظر آ گئی۔ دروازہ بنگالی عورت نے کھولا تھا۔ پہلے تو روبل نے اسے دھکے مارے، گالیاں دیں اور پھر ٹھنڈا ہو کر اس کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا۔ ان کا دھندہ ہی ایسا تھا بے غیرتی سب میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ کسی قسم کی انا و خود داری سے دور کا واسطہ نہیں تھا صرف پیسے سے واسطہ تھا۔ ان صفات کے ساتھ اور ایک دوسرے سے بگاڑ کر وہ عمان میں تو ہرگز کام نہیں کر سکتے تھے اسی لیے چھوٹی موٹی زک ایک دوسرے کو پہنچا کر بھی وقت پڑنے پر ایک ہو جاتے تھے۔
’’دھندے کے ٹائم پر بھی یہ چاروں ادھر گھوم رہی ہیں۔‘‘
’’تیرا ان سے کوئی واسطہ نہیں خبیث، تُو بس میرے پیسے واپس کر اورادھر سے نکل۔‘‘ روبل تلخی سے بولا۔
’’یہ لو! پورے تین سو تیس ہیں۔‘‘ اس نے ریال چوم کر روبل کی طرف بڑھائے۔
’’کہیں لمبا ہاتھ مارا ہے؟‘‘
’’ہاتھ کو چھوڑ، یہ بتا تیرا حساب چُکتا ہوا کہ نہیں؟‘‘
’’سارا حساب خلاص حبیبی! سارا حساب خلاص۔‘‘ روبل نوٹ سونگھ کرترنگ میں آ گیا۔
’’جینی کا کیا ہوا؟‘‘ روبل کو جیسے اچانک جینی یاد آئی تھی۔
’’کون جینی؟‘‘ اس نے اطمینان سے ٹانگیں تپائی پر پساریں۔
’’پکے حرامی ہو!‘‘
’’سوچا تھا رات ادھر رکوں گا، پر تیرے پاس ایک بھی ڈھنگ کا پیس نہیں ہے۔ ساری دیشی (بنگلہ دیشی) بوڑھیاں اکٹھی کر رکھی ہیں۔ ایکدم بوڑھی بکریاں لگ رہی ہیں، کوئی کشش نہیں تو دھندہ چوپٹ ہی ہوگا۔‘‘
’’تین ذرا اچھی کنڈیشن میں ہیں، وہ کام پر گئی ہیں۔‘‘
’’اچھی کنڈیشن میں ہیں تبھی کام پر لیا کسی نے …ورنہ وہ بھی ادھرکولہے مٹکاتی پھر رہی ہوتیں۔‘‘
’’راجن کا کام کھوب چل رہا ہے۔ ساری ورائٹی ہے دیشی، پاکی، ہندی، نیپالی، فلپائنی اور تو اور سنا ہے فرانسی گوری بھی ہے۔ ہم کا توکاروبار ہی اجڑ گیا۔‘‘ روبل نے آہ بھری۔
’’اتنے پیس رکھنا رسک ہے۔ راجن کے پاس بھی کوئی اچھا پیس نہیں ہوگا،تب ہی تو اتنا مال جمع کر لیا ہے۔‘‘
ان کی بات چیت سے لگتا ہی نہ تھا کہ وہ عورتوں کے بارے میں بات کررہے ہیں، ہیومن ٹریفکنگ کی بات کر رہے ہیں۔
’’اب تیرا کیا ارادہ ہے؟‘‘ روبل نے اپنے مخصوص بنگلہ دیشی انداز میں پوچھا۔
’’میں نے سوچا ہے اب اکیلا کام کروں گا اپنی چوائس کی چھوٹی سی ٹیم بناؤں گا، صاف ستھرے اورunusedمال کے ساتھ ہائی سوسائٹی کسٹمرز کو ٹارگٹ کرنا ہے بس۔‘‘
’’بڑے بدلے ہوئے لگ رہے ہو، کوئی خاص مڈل مین مل گیا ہے کیا؟‘‘
’’میں خود ہی مڈل مین اور فرنٹ مین ہوں۔‘‘ اس نے قہقہہ لگایا۔
’’اتنے سال جھک ماری ہے اب وقت آ گیا ہے اپنا کام شروع کیا جائے۔‘‘
’’تمہارا مرضی ہے، بتانا نہیں چاہتے تو کوئی بات نہیں، میں پھر بھی بیسٹ آف لک بولے گا۔‘‘
’’شکراً حبیبی!اجازت ہو تو آج رات ادھر رک جاؤں، میرا ذہن بدل گیا ہے۔ ‘‘
’’رک جاؤ، لیکن دس ریال دینا پڑے گا باقی کسٹمر ادھر فلیٹ میں آ نے کابیس دیتا ہے، تیرے کو کنسیشن دے رہا ہے ہم ، آ خر کو اتنا وقت مل کربزنس کیے ہیں۔‘‘ روبل نے دانت نکوسے۔
٭…٭…٭
لیمن کلر بدر جہاں پر بے حد چجتا تھا۔ اس کی کالج فیلوز، سکول کی کولیگز اور محلے کی ہم عمر لڑکیاں بھی جب اسے کھلتے رنگ پہنے دیکھتی تھیں تو دیکھتی رہ جاتی تھیں۔ ایک جلن ہوتی تھی جو بدر کواپنی خوبصورتی کا احساس دلا کر تھوڑا مغرور اور شاہانہ رد عمل دینے پر مجبور کر دیتی تھی۔ اسے یاد تھا فورتھ ائیر میں میڈم قیصرہ نے فیئرویل پارٹی پر اسے یہی لیمن سوٹ پہنے دیکھ کر کہا تھا۔
’’بدر! تم پر برقع اور نقاب فرض ہے ساتھ آ نکھوں پر بھی کوئی رنگین چشمہ لگایا کرو، ورنہ میرے جیسے حسن پرستوں کو تو آ نکھیں ہی پاگل کر دیں گی۔ تمہیں ایسے تیار دیکھ کر خدا کی صناعی یاد آ رہی ہے۔‘‘
میڈم قیصرہ بڑی زندہ دل و برجستہ گو استاد تھیں۔ ساری کلاس انہیںسننا پسند کرتی تھیں ان کی باتوں سے لطف لیتی تھی۔ اب بھی کلاس نے ان کی بات سے لطف لیا جبکہ بدر بلش کر گئی۔ اس کی عجیب عادت تھی، اپنی خوبصورتی کا اسے احساس بھی تھا اور ادراک بھی، اپنی ہم عمرلڑکیوں سے تعریف وہ حق سمجھ کر وصول کرتی تھی جیسے ہی کوئی بڑی عمر کی خاتون تعریف کرتی، وہ شرمندہ و پزل ہو جاتی تھی۔
اس نے سفید کھڑے پاجامے کو ایک بار تھوڑا نیچے کرکے سستے سے کھسے پر کرکے اپنے پیروں کو تنقیدی نظر سے دیکھا۔ اس کی اپنی نظروں کو اچھا نہیں لگا تو ٹخنوں سے اوپر کرکے لیمن فینسی لیس لگی شرٹ پر ہاتھ پھیر کر استری قائم رکھنے کی کوشش کی۔ سیاہ سلکی بال آدھے کیچر میں قید کرکے کمر پر گرا لیے اور ڈھیلا سا دوپٹہ اوڑھ کرشیشے میں اپنا جائزہ لیا۔
’’بدر باجی! شیشہ ٹوٹ جائے گا۔‘‘ سب سے چھوٹی ممتاز جہاں عرف تاج نے شرارت کی۔
’’شیشہ بھلے نہ ٹوٹے، آ نے والے مہمان ریجیکٹ نہ کریں بس!‘‘
’’تمہیں کوئی ہوش و حواس میں تو ریجیکٹ نہیں کر سکتا۔‘‘ مہرو کے لہجے میں بہن کے لیے محسوس کیا جانے والا پیار تھا۔
’’اماں! یہ سودا پکڑ لو، پورے ایک ہزار کا آ یا ہے۔ کہا بھی تھا چوک والی بیکری سے لے آ تا ہوں ادھر سے پانچ سو کا آ نا تھا۔ پر نہیں جی !مہنگی بیکری سے لانا ہے کے دم چھلے نے پانچ سو کا چونا لگوایا ہے۔ اگر دبئی والا معاملہ نہ ہوتا تو مولا قسم بحریہ، ڈی ایچ والوں پر ایک روپیہ نہ خرچ کرنے دیتا۔‘‘ یاسر تپا ہوا تھا۔
’’اچھی امید رکھ میرے لال (لعل) !بہن کی اچھی جگہ شادی ہونے سے تیری بھی شان بنے گی۔ میں تو تیری شادی بھی اونچے گھرانے میں کرناچاہتی تھی پر تیری قسمت…‘‘ زبیدہ بیگم نے بیٹے کو ٹھنڈا کرنے کے ساتھ ساتھ سیما کو بھی لپیٹے میں لیا کہ جانتی تھی اندر خانے سیما جلی کڑھی بیٹھی ہے طرح طرح کی پٹیاں وہی پڑھا رہی تھی۔ اس نے بدر کواپنے بھائی کے لیے مانگنے کی کوشش بہت کی تھی پر آ گے زبیدہ اوراس کے اپنی بیٹیوں کے لیے دیکھے گئے خواب تھے۔
’’اتنے بے عقل تو ہم بھی نہیں ہیں کہ ڈیفنس اور بحریہ والوں کو اتنا ہی ہمدرد سمجھ لیں جو اندرون گلی آ کر ہم سے رشتے داری کر لیں گے۔ نرگس مجھے بہت مختلف لگی ہے۔ وہ کہتی ہے انہیں صرف لڑکی سے غرض ہے۔ ویسے بھی سارا خاندان ان کا سالوں سے دبئی رہتا ہے۔ شاید بدر کو بھی دبئی ہی لے کر جائیں گے۔‘‘ فخر جہاں کی یاسر سے شروع سے لگتی تھی باقی کی کسر اس کے سیما کی پڑھائی پٹی پر چلنے سے پوری ہو گئی تھی۔ یہ بھی سچ تھا کہ فخر کی اچھے گھر شادی اورسسرال سے یاسر دبتا تھا اسی لیے ماں اور بہنوں کی نسبت فخر اس پرپریشر ڈال لیا کرتی تھی، اب بھی اس نے یاسر کو لتاڑا۔
’’فون پر بات چیت سے کہاں اندازہ ہوتا ہے وہ تو جب آ ئیں گے تب نرگس بی بی کا پتہ چلے گا کہ ہفتے بھر کے راشن کے پیسے ضائع ہوئے یا کام آئے۔‘‘ سیما شوہر کو کمزور پڑتے دیکھ کر پیچھے کیوں رہتی۔
’’پیسے ضائع ہوں گے تو ہمارے بھائی کے ہوں گے، تمہارے میکے کے نہیں جویوں جلی بیٹھی ہو، تمہاری ساری جیلسی ہمیں سمجھ آ رہی ہے۔‘‘
’’اے فخر! اللہ کا واسطہ تم ہی چپ ہو جاؤ۔‘‘ گریبان اٹھا کر اندرتبت پاؤڈر انڈیلتے زبیدہ نے بحث ختم کرنا چاہی۔
’’اماں! تم بھی مجھے ہی کہہ رہی ہو، حالانکہ یاسر اور سیما کو یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ پچھلے ایک سال سے سینکڑوں اپنی برادری اور غیرخاندان والے بدر کا رشتہ پوچھنے آ نا چاہتے تھے، ہم نے کسی کو گھرگھسنے نہیں دیا تاکہ ایسے لوگوں کو کھلانا پلانا نہ پڑے جدھر ہم نے رشتہ ہی نہیں کرنا۔ اب یہ والا رشتہ مطلب کا لگ رہا ہے تب ہی بلایا ہے۔ قسمت ادھر ہوئی تو اللہ کرے ہو جائے گا، نہ ہوئی تو ابھی چار رہتی ہیں ان کی شادیوں کے سلسلے میں لوگوں کا آ نا جانا تو رہے گا ہی… ایسے رشتوں میں ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے پہلے آ نا ہے ہماری حیثیت اتنی نہیں ہے نہ ہی لڑکے والوں کو رشتوں کی کمی ہے۔ ایک چھوڑسو لڑکیاں ملتی ہیں۔ چار تو ہمارے ہی گھر میں ہیں۔ ‘‘
’’ویسے فخر باجی !ایک بات پوچھوں؟‘‘ سیما فخر سے عمر میں چھوٹی تھی۔ رشتہ بھلے بڑا تھا لیکن وہ فخر کو شروع سے باجی کہنے کی عادی تھی تو باجی ہی کہتی تھی۔
’’ہاں ہاں پوچھو!‘‘ فخر نے اپنا بیٹا گود سے اتارا۔ ’’ جاؤ گڈو! بھائی کے ساتھ کھیلو۔‘‘
’’لڑکا بد صورت ہوا یا لولا لنگڑا، تھتھا (تتلا) ہوا تب بھی کوٹھی کارپیسے کی وجہ سے بدر کی شادی اس کے ساتھ ہی کر دو گی؟‘‘ سیما نے شہد میں ڈوبے لہجے میں زہر اگلا۔
’’ویسے تو میرے جیسے پڑھے لکھے سفید پوش گھروں (سسرال) میں مردکی جیب ہی دیکھی جاتی ہے اس لیے کر لیتے ہیں لیکن ہم بدر سے پوچھ لیں گے جیسے اس کی مرضی ہوئی۔‘‘ فخر نے بھی اتنے ہی شہد میں ڈوبے لہجے میں تیر مارا تھا۔
’’فخر باجی! اندر آ نا۔‘‘ بدر کی آواز پر فخر کمرے میں چلی آئی۔
’’باجی! آپ پڑھی لکھی ہو کر جب بھابھی کے لیول پر اترتی ہیں تو قسمیں بہت بری لگتی ہیں۔ ایک تو بحث سے میرا دل گھبراتا ہے بی پی لو ہونے لگتا ہے اوپر سے دوسری سیما آپ لگنے لگتی ہیں۔‘‘ بدر نزاکت سے کرسی پر یوں بیٹھی کہ کپڑوں کی استری پر آ نچ نہ آ ئے۔
’’تمہاری حساسیت مجھے بھی بہت بری لگتی ہے، سیما کو اس کے لیول پرڈیل کیا کرو تم لوگ ورنہ سر پر بیٹھ جائے گی۔‘‘
’’وہ تو اب بھی بیٹھی ہوئی ہے۔‘‘ مہر نے ٹکڑا جوڑا۔
’’تاج! مجھے پانی پلانا۔‘‘ بدر نے گہرا سانس لے کر خود کو نارمل کرنا چاہا۔
فخر نے بہن کے پاس بیٹھ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ پانچ تھیں اورپانچوں کی جان ایک دوسرے میں تھی، بنا کہے سنے ایک دوسرے کا دل اورجذبات سمجھنے والی بہنیں تھیں وہ سب۔
’’بدر! سیما اور یاسر پر کڑھنا چھوڑ دو۔ سیما کی باتیں بری لگتی ہیں تودل میں کڑھنے کی بجائے منہ پر جواب دے دیا کرو۔‘‘
’’باجی! جب آپ اپنے سسرال کی ان سے دوگنی برداشت کر لیتی ہیں توان کی بھی کر لیا کریں۔‘‘
’’سسرال کی برداشت ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ سسرال ہے اور ہمارے میکے سے حیثیت میں بھی بڑا ہے سیما کی نہیں ہوتیں، اس کا میکہ تو ہمارے میکے کے پاسنگ بھی نہیں ہے اسے تو اماں اور ہم سب سے بنا کررکھنی چاہیے پر نہیں ایک آ نکھ ہم سب اسے برداشت نہیں ہوتیں۔ یاسرپہلے بھی لا ابالی تھا اب تو سیما کی کٹھ پتلی ہے۔ کاش ابا تم سب کوبیاہنے تک تو زندہ رہتے۔‘‘
وہ پانچوں ہی آ خری بات پر افسردہ ہوئیں۔ بدر کی تو جھڑی لگ گئی۔ فخر سمیت چاروں نے اسے بانہوں میں لیا تھا۔
’’ہائے بدر باجی! رو کر اپنا دن خراب نہ کریں۔‘‘
’’تاج ٹھیک کہہ رہی ہے اتنی حساس رہو گی تو سسرال میں مر ہی جاؤگی۔ بڑی بڑی باتیں برداشت کرنا پڑتی ہے میکے کی کم حثییتی،غربت کے طعنے سننے پڑتے ہیں صرف اس لیے کہ ہماری آ نے والی نسل ہم سے بہتر ہو۔ ان کو معاشرے میں ہم سے بہتر عزت و مقام مل سکے۔ سمجھ رہی ہومیری بات؟‘‘ فخر نے محبت سے بہن کی ٹھوڑی چھوئی باقی تینوں کو بھی فخر کہ باتیں سمجھ آ تی تھیں انہیں بڑی بہن کی سمجھداری پر کبھی شک نہیں ہوا تھا۔