کسی اجنبی سے دیار میں: قسط نمبر 1
صادق علی اور زبیدہ کا تعلق ننکانہ صاحب سے تھا۔ جب ان کی شادی ہوئی تب صادق موسمی پھل کی ریڑھی لگایا کرتا تھا۔ تربوز کے موسم میں وہ تربوز کاٹ کر کالا نمک چھڑک کر بیچتا اور امرود کے موسم میں امرود کاٹ کر اس پر کالا نمک چھڑک کر بیچا کرتا۔ پہلے تو اس محدودآمدنی کے ساتھ اس لیے گزارہ چل رہا تھا کہ باقی بھائی بھی کوئی نہ کوئی کام دھندہ کرتے تھے، بہنیں ماچس کی ڈبیاں بھرتی تھیں، یوں سارے پیسے ماں کے ہاتھ میں دے ڈالتے وہ گھر اور گھر داری چلا لیاکرتیں۔ شادی کے بعد جب زبیدہ امید سے ہوئی تو گھر میں خرچے کو لے کرفساد عروج پکڑ گیا۔ صادق کو بہنیں بیاہنے کی فکر نہیں صرف بیوی کی فکر ہے جیسی بات روز ہوتی اور روزانہ چھوٹے سے گھر کے افراد بڑاسا فسادی شو کوچے کے باقی لوگوں کو مفت دکھاتے۔ صادق نے سسرکے مشورے سے اگلے کوچے میں کھولی نما کمرہ کرائے پر لیا اور ٹرنک اٹھا کر بیوی کے ساتھ اس میں شفٹ ہوگیا۔ سسر کے مشورے پر ہی اس نے موسمی پھل کے ساتھ ریڑھی پر پاپڑ اور ابلی چھلیاں بھی رکھ لیں۔ ریڑھی کو دھکیل کر صدائیں لگاتا وہ گلیوں سے ہوتا سکول کے سامنے کھڑا ہونے لگ گیا۔ آ مدن بڑھی تو کھانے پینے کی شوقین زبیدہ کی توموجیں لگ گئیں۔ دس مہینے بعد جب وہ یاسر کی ماں بنی تب چھوئی موئی سوکھی سڑی زبیدہ سوکھی سڑی ہرگز نہ رہی۔ اکیلے بنا روک ٹوک اور حساب لینے دینے کی ٹینشن سے آزاد صادق کی صحت پر بھی اچھا اثر پڑ چکا تھا۔ عقل سمجھ کا معیار بھی بدل گیا تو دوسرے ٹھیلے والوں کی دیکھا دیکھی اس نے دس روپے دیہاڑی کمیٹی بھی ڈالنی شروع کر دی۔ صادق کے باغیانہ اقدام کے بعد خوشحالی اور کمیٹی کی اطلاع نے اس کے گھر والوں کو مزید آ گ بگولہ کر دیا۔ ماں بہنوں کی بددعائیں اور کوسنے گلی کی کسی نہ کسی عورت کے ہاتھ زبیدہ تک پہنچ ہی جاتے تھے۔ وہ صادق کو ہر طرح سے بھڑکانے کی کوشش کرتی کہ ماں بہنوں سے جا کر بد دعاؤں اور کوسنوں کا حساب لے کر آ ئے، لیکن وہ نیک طینت شخص تھا کبھی غصے میں لڑنے نہ گیا بلکہ پہلے ہی زبیدہ کو بتا دیا جب تک بہنوں کی شادیاں نہیں ہو جاتیں، وہ کمیٹی والدین کو ہی دیا کرے گا۔ اس کے کمیٹی دینے پر بھی ماں اور بہنوں کے دل میں لگی گرہ مکمل نہ کھل سکی، پر صادق اپنے عمل میں پیچھے نہ ہٹا… یہاں تک کہ بہنوں کی شادیوں سے فارغ ہوا تو اس کے اپنے گھر ڈیڑھ ڈیڑھ سال کے وقفے سے تین بیٹیاں ہو چکی تھیں۔
اب وہی ماں، بہنیں، خاندان حتی کہ محلے میں بھی اسے دیکھ کر ٹھنڈی آ ہیں بھری جانے لگی تھیں کہ اتنی سی عمر میں تین تین بیٹیاں ہو چکیں، بیٹا صرف ایک۔ اس طبقے میں بیٹے خوش قسمتی سے زیادہ ہاتھ بانٹنے کی مد میں اہم گردانے جاتے تھے اور بیٹیاں بوجھ۔ ہروقت ارد گرد سے ٹھنڈی آ ہیں اور ہمدردی کے بول سن سن کر صادق کولگنے لگا وہ واقعی بہت مظلوم ہے اور پھول جیسی تینوں بیٹیاں اس کے سرپر اس کی قوت سے زیادہ بھاری بوجھ۔ اسی وجہ سے اکثر فخر جہاں اوربدر جہاں شرارتیں کرتیں اس کے عتاب کا نشانہ بن جاتی تھیں یہ اور بات تھی کہ اگلے ہی لمحے وہ انہیں اپنے ساتھ بھینچ لیتا، انہیں پیار کرکے اپنی اونچی آواز کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتا۔ جھلنگی میں لیٹی مہرالنساء کوپیار سے چھوتا اور زبیدہ سے کہتا…
’’کوئی گل نئیں بیدی! یہ اپنے حصے کا رزق لے کر آئی ہیں۔ ہر روز پہلے سے زیادہ کمائی ہوتی ہے۔‘‘
’’صادق! اگر یہ بات ہے تو تم بڑی کمیٹی ڈال لو۔ مدینہ بستی میں بڑے سستے مکان مل رہے ہیں، سر کی چھت تو اپنی کر لیں۔‘‘
’’مدینہ بستی کے سارے مکان سٹام (اسٹامپ پیپر) پر مل رہے ہیں، نرا رولاہی ہے۔ مالک کل کو مُکر جائے تو مکان واپس کرنا پڑ جاتا ہے۔‘‘
’’ہائے ہائے! پھر تو بالکل نہیں لینا، لگتا ہے زندگی ایسے ہی گزرے گی۔ ‘‘
’’ایسے کیوں گزرے گی؟ کسی جگہ نام ہونے والا پلاٹ قسطوں پر لے لیتے ہیں۔ پکا کام کریں گے کوئی رولے والی گل نئیں۔‘‘
’’پلاٹ لے کر بنائے گا کون؟ پتا بھی ہے کتنا خرچہ ہوتا ہے؟‘‘
’’پلاٹ ہوگا تو چھت بھی ڈال ہی لیں گے۔‘‘ صادق نے روکھے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔
بہت سوچ سمجھ کر اور اپنی طرف سے عقل مند ترین دوستوں رشتے داروں سے مشورہ کرنے کے بعد صادق نے کچھ قرضہ لے کر تین مرلے کاپلاٹ بک کروا ہی لیا۔ اس کے بعد اس نے کمیٹی ڈالنی بند کی اور پلاٹ کی قسط جمع کرنے لگا۔
انہی دنوں زبیدہ کو بہت امید تھی کہ اب کی بار بیٹا ہوگا اور جوڑی مکمل ہو جائے گی۔ دائی سے لے کر محلے والیوں تک سب کا یہی کہناتھا تین بیٹیوں کے بعد بیٹا ہی ہوگا اور بلا کا اتھرا ہوگا۔ زبیدہ فقط یہ سوچتی جیسا بھی ہو بس لڑکا ہو۔ جتنے اس کی رینج میں پیر مزار آ تے تھے سب کے پاس منتیں مانگ رکھی تھیں۔ اسے یقین تھا اتنی منتوں اوردعاؤں کے بعد بیٹا ہی ہوگا، پر کسی منت اور پیر کی نہ چلی۔ زبیدہ نے چوتھی لڑکی کو جنم دیا تھا۔ اس نے وہ بین ڈالے کہ دائی بنا پیسے لیے گھر سے چلی گئی،بڑی تینوں بیٹیاں چارپائی کے نیچے گھس گئیں اوریاسر باہر بھاگ گیا۔ جانے کتنے گھنٹے بچی کرلاتی رہی زبیدہ نے دودھ پلانا تو درکنار ہاتھ تک نہ لگایا۔ صادق اور فخر جہاں اس کے ترلے واسطے کرتے رہے ایک بار بچی کو اٹھا کر تو دیکھے ،وہ کروٹ لیے ہچکیوں سے روتی رہی۔ آخر نانی نے روئی کی بتی بنا کر بچی کو بکری کا دودھ پلانا شروع کر دیا اور بدر جہاں نے بہن کا نام سہیلی کے نام پرثناء رکھ دیا۔ ماں کی بے حسی اور موسم کی سختی کا نتیجہ نمونیا کی صورت نکلا تھا اور سرکاری ہسپتال میں سات دن داخل رہ کر ساڑھے تین مہینے کی ثناء جنت مکیں ہو گئی۔ یہ اتفاق ہی تھا ثناء کی موت کے بعد صادق کو پلاٹ کا قبضہ و مکمل کاغذات عنایت کر دیے گئے۔ اب صادق کے پاس اگلا ٹاسک کمیٹیاں ڈال ڈال کر پلاٹ کو گھر بنانا تھا۔ وہ اپنے مقصد کی تکمیل میں جت گیا۔ بچے سکول چلے جاتے، زبیدہ مہرالنساء کی انگلی پکڑتی ماں کی طرف نکل جاتی اور پھر وہ اپنی ماں کے ساتھ پیروں فقیروں کے چکر لگانا شروع کر دیتی۔ اس نے کوئی حکیم چھوڑا نہ عطائی، نہ مزار اور پیر…بیٹوں کی جوڑی بنانے کا جنون اسے شہر میں پابجولاں گھمائے پھرا۔ کہنے والیاں منہ پر کہہ دیتیں کہ اب مزید تین بیٹیاں اور ہوں گی، پھر ہی بیٹا ہوگا۔ خدا جانے کس فارمولے کے تحت عورتوں نے زبیدہ جیسی خواتین کے متعلق تخمینہ لگا رکھا تھا کہ یا بیٹا تین بیٹیوں کے بعد ہوتا ہے یا سات کے بعد۔ زبیدہ کے چونکہ تین بیٹیوں کے بعد بیٹا نہیں ہوا تھا تو زبیدہ خود پر سے وہ نحوست اتارناچاہتی تھی جو سات کوکھیں بیٹیوں کے لیے مختص کر چکی تھی۔
زبیدہ اپنے جنون میں مبتلا رہی، غیر معیاری دوائیں اور ٹوٹکے اسے فربہی سے شدید موٹاپے کی طرف لے گئے یہاں تک کہ چھٹی بیٹی کی بار گھر میں ڈیلیوری نہ ہو سکی سرکاری ہسپتال میں ایمرجنسی میں اس کا آ پریشن ہوا اور رحم بھی نکالنا پڑی۔ یوں بیٹا تو درکنار مزید بچہ پیدا کرنے کا کوئی سلسلہ ہی نہ بچا۔ اچھی بات فقط اتنی ہوئی کہ صادق اپنے پلاٹ میں ایک کمرہ ایک چھوٹا سا باورچی خانہ اور غسل خانہ بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ یوں کسی ہندو کراڑ کی پرانی کھولی چھوڑ، وہ لوگ اپنے گھر شفٹ ہوگئے۔ زبیدہ کو اب ہولے ہولے صبر آنے لگا تھابیٹیوں سے روکھا رویہ بھی اب قدرے نرمی میں ڈھل گیا تھا۔ صادق نے اس سے کہیں پہلے رب کی رضا سے سمجھوتہ کر لیا تھا۔ اب اکثراسکول کے بعد یاسر کو اپنے ساتھ ٹھیلے پر لے جاتا۔ کمیٹی پہلے کی طرح چالو تھی اس دفعہ کی کمیٹی کھلنے پر اس کا ارادہ ایک مزید کمرہ اور چھت پر برساتی بنانے کا تھا۔
زبیدہ کوئی بہت سلیقے اور شعور والی عورت تو نہ تھی البتہ ماں تو تھی،سو فکر تو اسے ہر لمحہ رہتی تھی۔ آ س پاس والے لوگ گو کہ امیر کبیرنہ تھے پر شعور والے سلجھے ہوئے اور بچوں کی تعلیم پر توجہ دینے والے ضرور تھے۔ ان کی دیکھا دیکھی زبیدہ نے بھی ذرا دلچسپی سے بچوں کوسکول بھیجنا شروع کر دیا۔ ماں کی توجہ اور فطری ذہانت نے بڑی جلدی رنگ دکھانا شروع کر دیا تھا۔ ساری بچیاں پڑھنے میں اچھی تھیں صرف یاسر ہی نکما تھا۔ کچھ تو نئی نئی آئی جوانی کا خمار اور کچھ پچھلے کُوچے کی کمپنی نے اسے اچھا خاصا بگاڑ ڈالا تھا۔ ہر وقت اکلوتا رہنے کا رعب ڈالا کرتا۔جس پر زبیدہ کبھی تو صادق کو شکایت کردیتی اور کبھی چپ ہو جاتی کہ اندر ہی اندر اسے بھی یاسر بڑا مظلوم اور اپنی پانچ بیٹیوں کا اکلوتا میکہ لگتا تھا۔
اپنی بیٹیوں کے بارے میں بڑے بڑے خواب دیکھنے کا آ غاز زبیدہ نے ماسٹر مرید سلطان کے گھر سے کیا تھا۔ ایک بار جب کچھ خواتین اسے زبردستی درس کی محفل میں شریک ہونے کے لیے ماسٹر صاحب کے گھرلے کر گئیں تو اس نے ایک کھاتے پیتے گھرانے کا گھر اندر سے پہلی باردیکھا تھا۔ اسے معلوم تھا ماسٹر اور استانی کے گھر ہر ہفتے کسی مدرسے سے معلمہ آ کر درس دیا کرتی ہیں، پر اس کا دل کبھی اس گھرمیں داخل ہونے کو نہ مانا تھا۔ اب وہ پچھتا رہی تھی کہ کسی بیٹی کوہی ساتھ لے آ تی تو وہ بھی سارس کی شکل کا سرخ بلب والا لیمپ، بجلی والی اگر بتی، نئے ڈیزائن کا صوفہ تو دیکھ لیتیں۔
’’استانی جی کی بھی پانچ بیٹیاں ہیں۔‘‘ ساتھ والی نے ٹہوکا دے کر اسے قدر مشترک بتائی تو زبیدہ کی آ ہ نکل گئی۔
’’ان کی بیٹیاں بھی بڑی سوہنی ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک، بالکل تمہاری بیٹیوں کی طرح۔ اللہ بخشے میری اماں کہا کرتی تھیں جس گھر میںزیادہ لڑکیاں ہوں ساری ایک سے بڑھ کر ایک حسین ہوتی ہیں، میں نے تو مثال بھی دیکھ لی، تمہارے اور استانی ستارہ کے گھر می یہ بات بالکل سچ نکلتی ہے۔ ‘‘
’’آپ صادق پھل فروش کی بیگم ہیں نا؟‘‘ استانی ستارہ نے پوچھا۔
’’ہاں جی! صادق کی گھر والی ہوں۔ یہ آ پ کی بیٹیاں ہی ہیں نا؟‘‘ زبیدہ کا تودماغ ہی اس بات میں پھنسا ہوا تھا، صرف بیٹیاں اور بیٹا کوئی بھی نہیں، تو یہ گھر بھی ان کی طرح بہت مظلوم تھا۔
’’ہاں جی یہ چاروں میری بچیاں ہیں۔‘‘
’’میری بھی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، اللہ آ پ کو بھی ایک بیٹا تو دے دیتا۔‘‘ زبیدہ کی آواز بھرا گئی، یوں وہ ہائی سکول کی پرنسپل عرف عام میں استانی ستارہ کی نظروں میں ایسی آ ئی کہ استانی اس کے بالکل پاس آ کر بیٹھ گئی۔