خشک خون: سنیعہ مرزا
سلاخوں کے ساتھ ٹیک لگائے وہ دیوار کے ساتھ بیٹھا سامنے دیوار پر پڑنے والے عکس کو تک رہا تھا ۔ وہ سلاخوں کو بار بار گنتا کبھی دائیں طرف سے گنتی شروع کرتا ‘کبھی بائیں طرف سے ۔ اس کے اردگرد چند قیدی اپنی اپنی مصروفیات میں مگن تھے ۔کوئی ہاتھ میں تسبیح لیے اپنے ناکردہ گناہوں سے رہائی چاہتا تھا اور کوئی سگریٹ سلگائے اپنے سلگے ہوئے مقدروں کو مزید آتشیں کر رہا تھا ۔ چند اور ایسے ہی مناظر تھے اس کے دائیں بائیں اس جیل خانے میں اور ہو بھی کیا سکتا تھا؟
اور وہ اس جیل خانے کا واحد کردار جو پرسکون تھا، اس کی آنکھوں کے سرخ ڈوروں میں نہ کوئی تھکن تھی نہ ہی قید کے صعوبت کے اثرات،نہ جرم کی سنگینی کی وحشت۔
اس کی دائیں ہاتھ کی پشت پر چند سوکھے ہوئے خون کے نشان تھے ۔ ہلکے آسمانی رنگ کے ٹراؤزر پر بھی کہیں کہیں سرخ دھبے تھے ۔ کچھ دیر بعد کانسٹیبل نے ایک پلیٹ میں سالن اور روٹی آہنی سلاخوں کا تالا کھول کے اس کی جانب بڑھائی۔
وہ نہایت تندہی سے اٹھا اور پلیٹ تھام لی ۔ آج تیرہواں روز تھا اسے فاقوں سے مرتے ۔ ایک چھوٹی سی چپاتی اور سالن اتنا خوش شکل بھی نہیں تھا مگر اس کے لیے ضیافت سے کم نہیں تھا ۔پلیٹ تھام کے وہ پھر اسی تندہی سے واپس اسی جگہ آلتی پالتی مار کے بیٹھ گیا ۔ داغ زدہ ہاتھ سے اس نے پہلا نوالا بنایا اور اسے نہایت مگن ہو کے سالن میں ڈبو دیا۔
نوالہ سالن میں تر کر کے نکالتے ہوئے اس کی نظر اپنے ہاتھ کی پشت پر لگے سرخ دھبے پر پڑی۔ اس کی نظروں میں پچھلی رات کا منظر گھوم گیا۔
وہ بان کی خستہ حال چارپائی پر چت لیٹا تھا ۔ اس کی آنکھیں چھت پر جھولنے والے پنکھے سے لپٹی ہوئی تھیں ۔ جس کا پر چکر تیس سیکنڈ بعد مکمل ہوتا تھا تو بھیانک سی ایک آواز اس کے کانوں سے ٹکرا جاتی ۔وہ بہت بے چین تھا بہت بے چین …
آج فاقوں سے مرتے بارویں رات تھی ۔وہ پنکھے کے چکروں کے ساتھ ساتھ کروٹیں بدل رہا تھا ۔ بائیں جانب رخ موڑ کر اس نے ایک بوڑھے ضعیف اور قریب المرگ وجود کو دیکھا ۔ جس کے سفید میلے آنچل پر جا بجا چھید تھے ۔ وہ ہر چھید کو اپنی موٹی موٹی پیلی آنکھوں سے گن رہا تھا۔
اس عمل کے بعد اس نے پھر کروٹ بھری اور رخ موڑ لیا ۔ چند ہی لمحوں بعد وہ پنکھے کی غٹرغوں سے جھنجھلا گیا اور پھر سے اسی سمت ہو گیا ۔ مگر ادھر بھی کوئی آسودہ نظارہ نہیں تھا۔
پچھلے بارہ روز میں وہ آمدنی کے تمام حربے آزما چکا تھا ۔ ٹیوشن والے بچے بھی کم ہوتے ہوتے مکمل طور پر ختم ہو گئے تھے ۔ گھر کا کاٹھ کبار بھی بک چکا تھا ۔ جو جمع پونجی تھی وہ اس مہینے کے کرائے کی نذر ہو گئی تھی۔
آج رات جیسے اسے یقین ہو گیا تھا کہ بعد اب اسے اپنے بخت بدلے جانے کے خواب توڑ دینے چاہیں ۔ پھر وہ اس بوڑھے وجود کو تکنے لگا ۔ اس نے چوبیس سال تک اس کو کھلایا تھا مگر اس نے فاقوں کے سوا اپنی ماں کو کیا دیا تھا۔
وہ بے ساختہ اٹھ بیٹھا ۔ پنکھے کی غٹرغوں رک چکی تھی‘بجلی بند ہو گئی تھی ۔ اور شاید اب اگلے دو چار گھنٹے پنکھے کو سفر کی صعوبت نہیں جھیلنی تھی ۔وہ اونگھتی ماں کے پیشگی جنازے کو تصور میں دیکھنے لگا ۔بیماری سے نہیں فاقوں سے مگر پھر وہ کیا کرے گا ؟
وہ اٹھا اور کباڑ خانے کی مانند کمرے میں گھوم پھر کر دیا سلائی جلائے کچھ ڈھونڈنے لگا۔
اسے کوئی تیز دھار چھری نہ ملی تو اپنے باپ کی آری اس کی نظروں میں گھوم گئی۔ جسے اس کی ماں نہایت احتیاط سے یادگار کے طور پر سنبھال کے رکھتی تھی۔
بنا کچھ سوچے اس نے وہ آری آگے بڑھ کر دونوں ہاتھوں سے اس جھریوں زدہ بوڑھی گردن پر چلا دی تھی ۔ اور چند گھنٹوں بعد خود کو قانون کے حوالے کر دیا تھا ۔ وہاں اسے دو وقت کی روٹی تو ضرور ہی مل جانی تھی ۔ پھانسی اور عمر قید اس کے مقدر کا فیصلہ تھا ۔ اور اب وہ قدرے پر سکون تو تھا۔
اس کی اگلی خالی سی نظر دیوار پر پڑنے والے سلاخوں کے سائے پر جا ٹھہری ۔ اس اثنا میں اس کی انگلی سالن میں بھیگ کر تپش کھانے لگی تو اس نے پھر سے توجہ کھانے پر مرکوز کردی۔ اس کی انگلی پر لگا خون سالن میں حل ہو رہا تھا ۔ انگلی باہر نکالنے پر وہ مکمل طور پر صاف تھی ۔ وہاں سالن تو تھا مگر خشک خون کا نشان نہیں تھا۔
نوالے پر اس کی گرفت مکمل طور پر کمزور ہو چکی تھی اور وہ بھاری ہو کر سالن کی سطح پر رک گیا تھا۔
ختم شد