خلیل اللہ سے نسبت کیسے؟
حضرت ابراہیم علیہ السلام جن سے ہماری جان پہچان بچپن سے ہی ہوجاتی ہے ۔ عیدالاضحٰی پر قربانی کرتے وقت ان کو یاد کریں یا نہ کریں (تب صرف گوشت کی فکر ہو) مگر ہم دن میں کئی بار ان کا نام عقیدت سے لیتے ہیں بھلے ہم ان کو تفصیلی طور پر جانتے ہوں یا ناں ۔
ہر نماز کے تشہد میں درودِ ابراہیمی پڑھتے وقت ،نماز اور اس کے علاوہ دن رات کے کسی بھی حصے میں اپنا پسندیدہ درود، درودِ ابراہیمی پڑھتے وقت …
اتنا ہم سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کو جانتے نہیں ہیں جتنا ہم ان کا نام کثرت سے لیتے رہتے ہیں۔
’’کسی سے محبت اور نسبت اس وقت تک ہو نہیں سکتی جب تک اس کو اچھی طرح جان نہ لیں۔‘‘
ہم اللہ سے محبت کریں یا رسول اللہﷺ سے ‘جب تک ہم ان کو جان نہ لیں، ہماری محبت خالی خولی ہوتی ہے ۔ اللہ کا تعارف اللہ کی کتاب سے، رسول اللہﷺ کا تعارف قرآن و سنت اور احادیث سے لیکن ہم سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کو کہاں سے جانیں ؟
قرآن نے ایک دو بار نہیں، کئی بار سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کا ذکر مختلف انداز اور مختلف خوبیوں کے ساتھ کیا ہے ۔ہم ان کو ’’خلیل اللہ‘‘ کے لقب سے جانتے ہیں ۔ اللہ نے ان کو اپنا خلیل بنایا ۔
خلیل کس کو کہتے ہیں؟
دوست؟ دوست تو کوئی بھی ہو سکتا ہے؟
خاص دوست؟
وہ تو کافی سارے ہو سکتے ہیں لیکن خلیل؟ خلیل خاص الخاص دوست کو کہتے ہیں، جو دوستی کا بلند ترین درجہ ہوتا ہے۔
خلیل سے مراد:
محبت کا وہ آخری درجہ ہے جو بندہ مومن صرف اللہ ہی کے ساتھ رکھ سکتا ہے ۔ ابراہیم کا خلیل کون؟ یعنی ان کی محبت سب سے زیادہ کس کے ساتھ تھی؟ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ۔
مقامِ خِلت: وفاداری اور دوستی کا سب سے اونچا مقام ہے ۔خلیل سے مراد ایسا دوست جس کی دوستی اور وفاشعاری میں کسی قسم کا کوئی خلل نہ ہو ۔ خلیل سے مراد ایسا دوست جس کی دوستی جسم کے تمام رگ ریشہ، روح، ہڈیوں اور ان کے گودے تک میں متحلل یعنی سرایت کر چکی ہو۔
اللہ نے صرف دو ہستیوں کو اپنا خلیل قرار دیا ہے، ایک سیّدنا محمد رسول اللہ ﷺ اور دوسرے سیّدنا ابراہیم علیہ السلام ۔ ان دو کے علاوہ کسی کے لیے مقامِ خِلت ثابت نہیں ۔
یہ مقامِ خِلت کب ملتا ہے؟ اس کے لیے کیا کام کرنے پڑتے ہیں؟
ایک خلیل یعنی سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کے کچھ واقعات کو دیکھتے ہیں کہ انہیں یہ مقام کن قربانیوں کے بعد ملا ۔اللہ کسی کو یونہی اپنا خلیل تو کیا دوست بھی نہیں بناتا ۔ اللہ قرعہ اندازی پر کسی کی قسمت کا فیصلہ نہیں فرماتا ۔ اللہ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا۔
تو سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کی کیا محنت بلکہ ’’محنتیں‘‘ تھیں جن کی وجہ سے اللہ نے ان کو اپنا خلیل بنایا۔
ان کے لیے قرآن میں ایک لفظ آتا ہے ’’اُمَّۃً‘‘ ایک امت … امت کا لفظ عربی میں چار معانی میں آتا ہے۔
1…امام
2… گروہ
3… وقت،مدت
4… طریقہ
لیکن اکثر اس کا مطلب کیا لیا جاتا ہے؟ امت، گروہ، ایک بڑی جماعت۔
تو ہم بھی سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کے لیے لفظ امت بہ معنی امت یعنی ایک جماعت لیتے ہیں ۔ہم سب کسی نہ کسی تعلیمی ادارے یا گھر میں یا آس پاس کسی ایک بندے کو دیکھتے ہیں جو بہت زیادہ محنت کرتا ہے ۔ جب دیکھو وہ مفید کام میں مصروف ہوتا ہے۔ کوئی اس کے کام میں مدد کرے یا نہ کرے، کوئی اس کی تعریف کرے یا نہ کرے، وہ بس اپنا کام کرتا رہتا ہے ۔ سب کہتے ہیں کہ ماشاء اللہ وہ دس بندوں کا کام کرتا ہے، یعنی دس بندے مل کر جتنا کام کریں، اتنا وہ اکیلا بندہ کرتا ہے ۔لیکن سیّدنا ابراہیم علیہ السلام نے کتنے کام کیے؟ ایک امت جتنے ۔ ایک بہت بڑی جماعت جتنے ۔ جتنے کام امتِ مسلمہ کی ایک کثیر تعداد کرسکتی ہے اتنے انہوں نے اکیلے کیے۔
سیّدنا ابراہیم علیہ السلام نے ایک امت جتنے کیا کیا کام کیے؟
ایک معاشرہ جس میں سب لوگ ایک ہی سمت میں چل رہے ہیں، صحیح یا غلط بس اندھی تقلید کی جا رہی ہے ۔ وہ اپنے حا ل میں خوش ہیں ۔ مثلاً برصغیر میں سب غلامی کو قبول کر چکے ہیں لیکن اس غلام ماحول میں ایک آزاد ذہن پیدا ہوتا ہے ۔ وہ آزادی کی بات کرتا ہے جس کے دور دور تک کوئی آثار ہی نہیں ہیں۔ اور اس کی خاطر وہ لکھ کر کام کر تا ہے ۔اس معاشرے میں آزادی اور وہ بھی ایک مسلم کی آزادی… ناممکن! لیکن انھوں نے کر دکھایا اور پاکستان کا خواب دیکھا اور اس کے تعبیر کی کوشش کی اور کروائی۔
اب آتے ہیں سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کی طرف…
وہ ایک شرک کی غلاظت سے بھرے معاشت میں پیدا ہوتے ہیں جہاں کوئی بندہ بھی مسلمان نہیں ہے۔ کوئی ایک بھی نہیں ۔ ان کے لیے وہ بُت پُر کشش نہ تھے ۔ خود ہی اپنے ہاتھوں سے بناتے ہیں اور خود ہی ان کو پوج رہے ہیں ۔ وہ کچھ مانگتے بھی نہیں پھر بھی ان کے سامنے کھانوں کے ڈھیر جمع کیے جارہے ہیں ۔ ان کے دل کو یہ بات نہ لگی۔ پھر وہ سوچنے لگے کہ اگر یہ بت خدا نہیں ہیں تو پھر کون ہے معبودِ برحق ؟ کائنات میں غور و فکر کیا، عقل کو استعمال کیا،سوچ بچار کی۔
’’تو جب اس پر رات چھا گئی تو اس نے ایک ستارہ دیکھا، کہنے لگا یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ غروب ہوگیا تو اس نے کہا میں غروب ہونے والوں سے محبت نہیں کرتا۔ پھر جب اس نے چاند کو چمکتا ہوا دیکھا، کہا یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ غروب ہوگیا تو اس نے کہا یقینا اگر میرے رب نے مجھے ہدایت نہ دی تو یقینا میں ضرور گمراہ لوگوں میں سے ہوجاؤں گا۔ پھر جب اس نے سورج چمکتا ہوا دیکھا، کہا یہ میرا رب ہے، یہ سب سے بڑا ہے۔ پھر جب وہ غروب ہوگیا کہنے لگا اے میری قوم! بیشک میں اس سے بری ہوں جو تم شریک بناتے ہو۔ بیشک میں نے اپنا چہرہ اس کی طرف متوجہ کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، ایک (اللہ کی) طرف ہو کر اور میں مشرکوں سے نہیں۔ ‘‘
(الأنعام: 76-79)
ستارہ، چاند، سورج وہ سب تو اپنا اپنا کام کر رہے تھے، انھیں تو کسی کے پوجنے سے کوئی غرض نہ تھی۔
سیّدنا ابراہیم علیہ السلام نے شرک سے بھرے معاشرے میں توحید کی بات کی اور اس کے قیام کے لیے ہر قربانی دی ۔ اپنے بیوی بچوں کو اس کام پر لگایا اور بیت اللہ کی تعمیر کرکے پوری دنیا میں حج کی منادی کی ۔سیّدنا ابراہیم علیہ السلام اس وقت توحید کی بنیاد رکھنے والے واحد انسان تھے جب ہر طرف شرک ہی شرک تھا۔ توحید کی بات ہی عجیب لگتی۔ جیسے ایک امت یعنی بہت بڑی جماعت شرک کے خلاف توحید کا کلمہ بلند کرے ویسے ان اکیلے انسان نے کیا۔ ایک امت کا کام اکیلے سیّدنا ابراہیم علیہ السلام نے کیا۔
شرک کے اندھیرے سے گھرے ماحول میں ان کا دل حق کا متلاشی تھا جو اللہ نے ان کو دے دیا مگر حق یونہی نہیں مل جایا کرتا ۔ قربانی شرط ہے‘ ہر بڑا کام قربانی مانگتا ہے۔
والد سے تعلقات میں خرابی، قوم کی دشمنی، بادشاہِ وقت نمرود کا غیظ و غضب اور پھر جلا وطنی…
ایک معاشرے میں تنِ تنہا وہ توحید کی بات کر رہے ہیں بغیر کسی کی مدد کے لیکن خوف کے بغیر حق پر جمے ہوئے ہیں ۔ ایک مضبوط چٹان کی طرح جمے ہیں جیسے ان کی پشت پر ایک بہت بڑی جماعت ہو۔ مگر وہ تنِ تنہا یہ کام کر رہے ہیں ۔آگ میں ڈالے گئے تو پرسکون رہے، بغیر یہ جانے آگ میں ہیں کہ یہ آگ ان کے لیے گل و گلزار بن جائے گی ۔ ساتھ کوئی دوست نہیں جو ہمت دے مگر وہ اپنے ’’خلیل‘‘کے بھروسے اس آگ میں رہے۔
انہوں نے اپنے لیے صرف ایک کلمہ کافی سمجھا اور اس پر یقین کرلیا، یقین اعتماد کا آخری درجہ ہوتا ہے یعنی مکمل اعتبار۔
حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ
اللہ ہمیں کافی ہے اور وہی بہترین کار ساز ہے۔ (صحیح البخاری: 4563)
اللہ نے بڑھاپے میں بیٹا دیا مگر اللہ کے حکم سے اس بیٹے اور بیوی کو بھی ایک ویران صحرا میں چھوڑ آئے ۔ پھر وہ بیٹا کام کرنے کی عمر کو پہنچا تو اس کو ذبح کرنے کا حکم ملا ۔بیٹا جوان ہوا تو اس کے ساتھ ’’بیت اللہ‘‘تعمیر کرنے لگے ۔ دور پہاڑ سے پتھر کاٹ کاٹ کر لاتے، دیوار میں رکھتے ، ہر تھوڑی دیر بعد ایک پتھر پر کھڑے ہوکر اس دیوار کو دیکھتے جس پر بار بار کھڑے ہونے سے اس جگہ قدموں کے نشان بن گئے تو آج تک ’’مقامِ ابراہیم‘‘ کے نام سے اپنی جگہ محفوظ ہے ۔اور اللہ سے کئی دعائیں کی۔ ہر موقع پر مختلف دعا کی۔
دنیا کے تین بڑے ادیان کے پیروکار ان کو اپنا پیشوا مانتے ہیں۔
یہود، نصاریٰ اور مسلمان مگر اللہ نے مسلمانوں کو ان کی قریبی نسبت عطا کی‘ بھلا کیوں؟ کیوں کہ مسلمان ان کے طریقہء توحید پر رہتے ہیں ۔ قرآن و سنت کو تھام کر اور حق پر رہ کر۔
مگر یہ نسبت حاصل کیسے ہوگی؟
ان کی زندگی کے ہر واقعہ سے ایک خاص سبق لینے سے…
انہوں نے مشرکانہ ماحو ل میں توحید کو اختیار کیا ۔ اگر میرے اردگرد سارا زمانہ بھی شرک کی بیماری میں مبتلا ہو جائے تو مجھے طریقہء ابراہیم پر چلنا ہے ۔اگر میرے اپنے گھر والے، رشتہ دا ر، پوری قوم اور بادشاہ بھی مجھے میرے دین ِ حق سے ہٹانا چاہے تو میں ان کے آگے نہ جھکوں ۔ بھلے اس کے لیے مجھے اپنے عزیز وطن پاکستان کو ہی کیوں نہ چھوڑنا پڑے۔ مگر اپنی آخری حد تک توحید کی دعوت دوں ۔ اور توحید کی دعوت کیسے دوں؟
پھر طریقہء ابراہیم سے۔ ان کے وہ دلائل جو انھوں نے نمرود کے سامنے پیش کیے اور قوم کے سامنے رکھے ۔پوری دنیا سے کسی بھی زمانے میں شرک کی بیماری کو ختم کرنے اور توحید کی دعوت دینے کے لیے سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کے توحید پر دیے گئے دلائل بہترین ہیں۔
اگر کسی وجہ سے مجھے اپنے شوہر یا بیوی بچوں سے دوری اختیار کرنی پڑے تب میں ان کی یاد میں خود کو روگ لگانے کے بجائے اپنے لیے بڑے مقاصد کا انتخاب کرکے ان پر کام کروں۔
صرف دس ذوالحجۃ کو ایک بکرا ذبح کرنے سے ان سے نسبت نہیں ہوسکتی، ان کے وہ طریقے، وہ کام جو ہماری شریعت میں بھی موجود ہیں، ان کو اختیار کرنا ہے ۔ شریعت ہمارے نبیﷺ کی آخری ہے مگر سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کی جن خوبیوں کا ذکر کیا گیا ان کو اپنانا ہے۔
انھوں نے اپنا بیٹا قربان کیا جو انہیں بڑھاپے میں ملا اور انھیں اس بیٹے کی بہت زیادہ ضرورت تھی ۔اگر ہمیں اللہ کوئی نعمت بہت سالوں بعد عطا کرے اور پھر اسے قربان کرنے کا اشارہ ملے تو اس کو اللہ کی خاطر قربان کرلینا ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر اللہ کی خاطر اپنی انا اور اپنے نفس کی قربانی ہے۔
ان کی کچھ اور خوبیوں کو دیکھتے ہیں:
اِنَّ اِبۡرٰهِيۡمَ لَحَـلِيۡمٌ اَوَّاهٌ مُّنِيۡبٌ ۞
بیشک ابراہیم تو نہایت بردبار، بہت آہ وزاری کرنے والا، رجوع کرنے والا ہے۔(ھود:75)
حلیم: تحمل کرنے والا۔ بردبار۔ غصہ کو قابو میں رکھنے والا۔
اواہ: نرم دل۔ اللہ کے آگے گڑگڑانے والا۔
منیب: رخ/رجوع کرنے والا۔ یعنی اللہ کی معرفت، محبت اور اطاعت کی طرف توجہ کے ساتھ رجوع کرنے والا۔
حَنِيۡفًا مُّسۡلِمًا…
ایک طرف والا فرمانبردار۔ (آل عمران:67)
حنیف: ہر طرف سے کٹ کر کسی ایک سمت میں یکسو ہوجانے والا۔ ہمیشہ اور ہر حال میں یکسو۔
مسلم: فرمانبرداری قبول کرنے والا۔
سیّدنا ابراہیم علیہ السلام حَنِيۡفًا مُّسۡلِمًا تھے۔
یعنی ہر چیز سے کٹ کر، بے نیاز ہوکر، پوری یکسوئی کے ساتھ اللہ کی فرمانبرداری کرتے تھے ۔ اس یکسوئی اور کٹ ہونے کا مطلب رہبانیت ہرگز نہیں ۔ ہمارے دین میں تو رہبانیت ہے ہی نہیں ۔ہر کام کو اچھی طرح کرنا ہے،ہر شے کو اس کا حق دینا ہے ،ہر ذمہ داری کو پورا کرنا ہے ۔ لیکن ہر کام اللہ کی حدود کے اندر رہ کر کرنا ہے ۔ کسی ایک کام میں بھی مشغول ہو کر دوسرے کو بھول نہیں جانا ۔اور اس کی سب سے بڑی مثال ہمارے پیارے نبی آخرالزمان حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی سنت میں موجود ہے۔ وہ ہر کام بہت خوب صورتی سے کرتے‘ہر ایک کاحق ادا کرتے۔
اور سب سے بڑھ کر اللہ کی عبادت میں یکسوئی ۔ اللہ جن کاموں کے کرنے کا حکم دے ان کو پوری توجہ اور ایمانداری کے ساتھ کرنا، ہر حال میں اللہ سے رجوع کرنا ۔ اگر ایک ڈاکٹر ہے تو وہ اپنے مریض کا علاج کرتے وقت بھی اللہ کو یاد رکھے اور اللہ کے احکامات کے مطابق اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے انجام دے ۔ ایک استاد ہے تو وہ اپنے طلباء کو پڑھاتے وقت بس وقت گزاری سے کام نہ لے بلکہ اپنی ذمہ پوری کرے۔
سیّدنا ابراہیم علیہ السلام نے دعائیں بھی کی۔ ان کی ایک دعا ہم انہی کے نام سے منسوب درودِ ابراہیمی کے بعد ہر نماز میں پڑھتے ہیں ۔ اور ان کی ایک اور خوب صورت دعا ہے۔
رَبِّ هَبْ لِیْ حُكْمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصَّالِحِيْنَ وَاجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِيْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيْمِ …وَلَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ
اے میرے رب! مجھے قوتِ فیصلہ عطا فرما اور مجھے نیک لوگوں سے ملا دیاور بعد میں آنے والوں میں میری سچی ناموری باقی رکھ اور مجھے نعمتوں بھری جنت کے وارثوں میں سے بنا دے اور مجھے رسوا نہ کرنا جس دن وہ (لوگ) اٹھائے جائیں گے۔
(الشعراء: 87,85-83)
اور اپنے ہر عمل کو اللہ کے لیے خالص کرنے کے بعد سیّدنا ابراہیم علیہ السلام ہی کی طرح اللہ سے ان کی قبولیت کی دعا بھی کرنی ہے۔
رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ؕ اِنَّكَ اَنۡتَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ ۞ رَبَّنَا وَاجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَيۡنِ لَـكَ وَ مِنۡ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّةً مُّسۡلِمَةً لَّكَ وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبۡ عَلَيۡنَا ۚ اِنَّكَ اَنۡتَ التَّوَّابُ الرَّحِيۡمُ ۞
اے ہمارے رب! ہم سے قبول فرما، بیشک تو ہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ اے ہمارے رب! اور ہمیں اپنے لیے فرماں بردار بنا اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک امت اپنے لیے فرماں بردار بنا اور ہمیں ہمارے عبادت کے طریقے دکھا اور ہماری توبہ قبول فرما، بیشک تو ہی نہایت توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
(البقرۃ:127-128)
اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ سچی نسبت عطا فرمائے اور ہمارا خلیل صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی ہو۔
آمین یارب العالمین!
آرٹیکل : افق