خرمنِ قلب: قسط نمبر 1
’’کک… کیا…کیا کہا تم نے۔‘‘ انہیں اپنی سماعتوں پر گویا شک ہوا تھا ۔
’’وہی جو آپ نے سنا ۔‘‘ وہ اپنی سنجیدگی کے خول میں واپس جا چکا تھا۔
’’یہ کیا بکواس ہے ۔ کیا تماشہ لگایا ہوا ہے۔‘‘ اب کہ وہ بولی نہیں دھاڑی تھیں۔
’’دادو بھائی کا اس سب میں کوئی قصور نہیں اصل میں۔‘‘ عفان نے ان کو رام کرنا چاہا مگر عمر نے اشارے سے روک دیا تھا ۔
’’تم زینب کو اندر لے جاؤ عفان ۔دادو سے میں بات کرتا ہوں۔‘‘ اس کے کہنے پر وہ خاموشی سے عفان کے ساتھ اندر چلی گئی تھی ۔ اندرونی طرف بڑے سے ہال کے بعد قطار در قطار کمرے تھے ۔ جن کے دروازے ان کے آگے بنے ہوئے برآمدے میں کھلتے تھے ۔ پھولوں کی جابجا کیاریاں پورے بڑے آنگن میں لگی ہوئی تھیں ۔ اتنا تو اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہاں کے مکینوں کو پھولوں اور رنگوں سے بہت محبت ہے ۔ عفان اس کے آنگن کے پار برآمدے میں لے آیا تھا ۔ جہاں بچھے بڑے سے تخت پر تین خواتین ان کی طرف پشت کیے چھالیہ نکال رہی تھیں۔
’’امی۔‘‘ اس نے ان میں سے کسی ایک کو پکارا لیکن تینوں بیک وقت مڑی تھیں ۔ اس کی طرف اور اس کے ساتھ کھڑی زینب کو دیکھ کر تینوں نے حیران آنکھوں کے ساتھ عفان کو دیکھا تھا۔
’’یہ کون ہے۔‘‘ ان میں سے ایک سفید دوپٹے والی نرم خو خاتون نے پوچھا تھا ۔ ان کے نقوش کو دیکھ کر زینب کو اندازہ ہوگیا تھا کہ وہی عمر کی امی ہیں۔
’’ میں بتاتا ہوں سب، پہلے آپ عینی سے کہیں ان کو اندر لے جائیں ۔‘‘ اس نے کہنے کے ساتھ ساتھ آنکھوں ہی آنکھوں میں ان کو مزید سوال زینب کے سامنے پوچھنے سے منع کیا ۔ وہ بھی سمجھ گئی تھیں ۔اس لیے اندر سے آواز دے کر عینی کو بلایا تھا جو تقریباََ زینب کی ہی ہم عمر لگ رہی تھی ۔
’’ عینی بیٹا ان کو اندر لے کر جاؤ ۔ ‘‘ انہوں نے حیران کھڑی عینی کو کہا جو حیرت اور اشتیاق سے زینب کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ ان کے کہنے پر اس کو ساتھ لے کر اندر چلی گئی تھی۔
٭…٭…٭
’’یہ ہمارے گھر میں صبح ہی صبح آخر چل کیا رہا ہے ۔‘‘عالیہ کی آواز پر وہ سب جو ہلکی آواز میں چہ میگوئیاں کر رہی تھیں سب چونکی تھیں۔
’’آہستہ بولو، بڑے کمرے میں دادو سمیت سب جمع ہیں ۔ ہماری آوازیں وہاں تک جارہی ہیں ۔‘‘ رحمہ نے اسے لتاڑا تھا ۔ جواباََ اسے گھورتی ہوئی وہ بھی ان تینوں کے پاس بیٹھ گئی تھی۔
’’کیا چل رہا ہے، کون ہے یہ لڑکی ۔‘‘ اب کہ اس نے عینی سے پوچھا جو کافی ایکسائیٹڈ نظر آرہی تھی۔
’’عمر وحید صاحب کی بیوی ہے ۔ سنا ہے ایک عدد دھواں دار عشق فرمانے کے بعد محترم بھگا کر لائے ہیں ۔ وہ بھی کہیں اور سے نہیں، حویلی سے۔‘‘ طنز میں ڈوبی یہ آواز ملائکہ کی تھی جو ابھی کمرے میں آئی تھی ۔بات مکمل کر کے وہ ہلکا سا ہنسی تھی۔
اس کی بات پر وہ تینوں لب بھینچے جبکہ عالیہ پورا منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔
’’منہ بند کرلو ۔ ‘‘ اس نے بیٹھتے ہوئے اپنے مخصوص طنزیہ لہجے میں ایک مفت مشورہ بھی دیا تھا ۔ عالیہ نے جھٹکے سے منہ بند کیا تھا۔
’’عمر بھائی اور محبت؟وہ بھی، وہ بھی…بھاگ کر شادی۔ وہ بھی حویلی کی لڑکی سے ناممکن ۔‘‘ اس کی بات پر ان سب کو اتفاق تھا ۔
عمر جیسا ریزرو سنجیدہ شخص جس کے رعب سے ان کی ویسے جان جاتی تھی ۔ وہ کیسے کسی صنف نازک میں دلچسپی لے سکتا ہے ۔ وہ بھی اس حد تک دلچسپی کہ بھاگ کر شادی ہی کر لی۔ وہ بھی حویلی کی لڑکی سے ، جن کے وہ خون کے پیاسے تھے ۔ یہ سب باتیں کسی کو بھی ہضم نہیں ہو رہی تھیں ۔ نہ اندر لگی بڑوں کی بیٹھک میں کسی کو سمجھ آرہی تھیں نہ باہر ان سب کو ۔ اور محبت بھی اس لڑکی سے جو کم از کم بھی ان سے نو دس سال چھوٹی تھی ۔ آج تک اپنے انتہا کے لیے دیے انداز اور شادی کے ذکر پر ہمیشہ خار کھانے والے عمر وحید کی یہ اچانک کی محبت کسی کو بھی سمجھ نہیں آرہی تھی ۔ بڑے کمرے میں سب کی ڈانٹ سنتا عمر خاموشی سے اس محبت کے جھوٹ کو حقیقت بنتا دیکھ رہا تھا ۔ جو اس نے پہلے حویلی میں اور اب یہاں بولا تھا ۔ وہ چاہتا تو حقیقت بتا سکتا تھا لیکن اس کے بعد وہ جانتا تھا کہ اس لڑکی کی یہاں کوئی عزت نہیں کرے گا جو پہلے عفان کے ساتھ اپنی بہن کو بھگانے والی تھی اور اب اس کی وجہ سے ان کا دوسرا بیٹا قربانی کا بکرا بنا تھا ۔ کوئی انسیت، لگاؤ، آشنائی نہ ہونے کا باوجود بھی بہرحال اب وہ اس کی زمہ داری تھی، اس کی عزت تھی ۔ وہ ویسے بھی خواتین کی عزت والے معاملے میں ضرورت سے زیادہ حساس واقع ہوا تھا ۔ اس لیے اسے اس محبت کے جھوٹ کو سچ ہی بنانا تھا ۔ اور بالآخر ایک لمبے ہنگامے کے بعد وہ اس میں کامیاب بھی رہا تھا ۔ ایک لمبی بحث، نفع ، نقصان ، دشمنی سب پر بات کرنے کے بعد بالآخر سب نے اس بات کو تسلیم کر ہی لیا تھا کہ جب حویلی والوں نے خود ہی رخصت کر دیا اور عمر کی پسند ہے تو پھر قبول کرنے کے علاوہ کوئی حرج نہیں ۔ گو کہ کچھ لوگ تھے جو اندر ہی اندر جل رہے تھے مگر وہ مطمئن تھا ۔ اسے صرف دادو اور امی کی فکر تھی، وہ مان گئی تھیں تو سب سیٹ تھا ۔
٭…٭…٭
سادہ سے سفید پینٹ والے بڑے کمرے کے بیچوں بیچ پڑے لکڑی کے قدیم طرز کے بنے ہوئے بیڈ پر وہ اکیلی پچھلے دو گھنٹوں سے ایسے ہی بیٹھی تھی ۔ ابھی تک اس لڑکی عینی کے علاوہ جو اسے کھانا دے کر گئی تھی کو ئی ادھر نہیں آیا تھا ۔ الجھن، بے چینی، بے بسی نجانے کیا کیا تھا جو اس وقت وہ محسوس کر رہی تھی ۔ گھروالوں کو یاد کر کے، آنسو بہا کر اس نے کو شش کی تھی ردا سے رابطہ کرنے کی لیکن اس کا فون ادھر ہی رہ گیا تھا ۔ اس گھر سے وہ اس ایک جوڑے کے علاوہ جو اس نے پہنا تھا اور ناک میں چمکتی نوز پن کے علاوہ کچھ نہیں لائی تھی ۔ دربدر ہونا، اکیلے ہونا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے یہ اندازہ اسے آج پہلی مرتبہ اس شدت کے ساتھ ہوا تھا ۔ یہاں وہ کسی کو نہیں جانتی تھی سوائے عفان کے وہ بھی صرف اس حد تک کہ وہ اس کا یونیورسٹی فیلو تھا ۔ عمر وحید جس کو اس کے شوہر کے منصب پر بٹھایا گیا تھا ۔ اس انسان کے بارے میں وہ بس اتنا جانتی تھی کہ وہ ایک انتہا کا گھمنڈی اور سیلف سینٹرڈ بندہ ہے ۔ اور ایسے بندے کے ساتھ وہ کتنی دیر گزارا کر پائے گی ۔ خاص طور پر اس کی دادی کے تیور دیکھ کر وہ سمجھ گئی تھی کہ یہاں اسے کبھی کوئی عزت نہیں ملے گی ۔ وہ ان کے بدترین دشمنوں کی اولاد تھی، وہ کیسے بھلا اسے قبول کر سکتی تھیں ۔ انہی سوچوں میں مگن وہ دروازہ بجنے کی آواز پر چونکی تھی اور دروازے میں کھڑے عمر وحید کو دیکھ کر بے اختیار کھڑی ہوئی تھی ۔ وہ اندر آگیا تھا ۔ کچھ لمحے یونہی ایک معنی خیز سی خاموشی کی نذر ہوئے تھے۔
’’بیٹھ جائیے۔‘‘ اس کے سنجیدہ گھمبیر لہجے پر وہ خاموشی سے بیڈ پر ٹک گئی تھی ۔ اسے اعتراف ہوا تھا کہ اس بندے میں کوئی تو بات ایسی ہے کو اگلا خوامخواہ ہی اس کے رعب میں آجاتا ہے ۔ وہ بھی اپنے آپ کو اس وقت بہت دبا دبا محسوس کر رہی تھی ۔اوپر سے اس کی اندر تک اترتی براؤن آنکھیں یوں جیسے اسے اندر تک پڑھ رہی تھیں۔
وہ اپنی کنفیوژن چھپانے کے لیے بلاوجہ ہی ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کی انگلیاں مسلنے لگی تھی ۔ جتنی وہ بولڈ اور کانفیڈنٹ تھی اتنا ہی خود کو ڈاؤن فیل کر رہی تھی۔
’’میرے گھر والے اور آپ کے گھروالے … آپ اچھے سے جانتی ہیں کہ وہ کس طرح کے ٹرمز رکھتے ہیں آپس میں ۔‘‘ وہ اب اس کو کنفیوژ ہوتا دیکھ کر نگاہوں کا زاویہ بدل چکا تھا ۔
’’اس کے بعد یہ خبر ادھر سب کے لیے بہت شاکنگ ہے ۔ لیکن اب آپ اس گھر کا ایک فرد ہیں ۔ سب آپ کو حویلی کی فرد کے ناطے نہیں بلکہ اسی گھر کا فرد مان کر آپ کے ساتھ رہیں گے ۔ اور میں آپ سے بھی یہی امید کرتا ہوں کہ آپ بھی ایسے ہی رہیں گی ان کے ساتھ ۔‘‘ اس کے لہجے میں ساتھ ہلکی سی تنبیہہ تھی ۔
’’یہ رشتہ جیسے بھی بنا ہے،جس بھی طرح ۔ ابھی اس کے مستقبل کے بارے میں بات کرنا بالکل ایک الگ بات ہے ۔ ہم حالات کو کچھ بہتر ہونے پر ہی سوچیں گے کہ اس رشتے کا کیا انجام ہوسکتا ۔ تب تک آپ ایزی ہو کر اسے اپنا گھر سمجھ کر رہیں۔‘‘
وہ کندھے پر پڑی سیاہ چادر اتار کر بیڈ پر رکھتا کھڑا ہوگیا تھا ۔ اب تک وہ ایک لفظ بھی نہیں بولی تھی ۔
’’ اور ہاں ، یہاں سب یہی جانتے ہیں کہ آپ میری پسند سے اس گھر میں آئی ہیں ۔ سب کو یہی علم رہے تو بہتر رہے گا ۔ کسی کو بھی غصے یا اچھے موڈ میں سچائی بتانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ یہی آپ کے لیے بہتر رہے گا ۔‘‘ اب کہ اس کا لہجہ وارن کرتا ہوا ، سخت تھا ۔ اپنی بات کو جھوٹا پڑتا دیکھنا اس کی عادت نہیں تھی ۔ اسی لیے سختی سے تنبیہہ کی تھی اور باہر چلا گیا تھا جبکہ اس کے جاتے ہی اس نے کب کی دبی ہوئی ایک طویل سانس خارج کی تھی اور خود کو قدرے ریلیکس کیا تھا ۔ زندگی فی الحال ایک پہیلی بن گئی تھی اور اس نے حالات کے مطابق چلنے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔ خود کو عقل کل سمجھنے کے بعد ہی وہ اس سب حالات میں گرفتار تھی ۔ سب اپنی غلطی مانتے ہوئے وہ اب کوئی بھی غلطی نہیں کرنا چاہتی تھی۔
٭…٭…٭
یہ دن ایک نیا طوفان لے کر آیا تھا ۔
حلقے میں ایم پی اے کے امید وار عمر وحید کی اپنے سیاسی حریف خاندان کی لڑکی سے بھاگ کر کی جانے والی شادی کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی تھی ۔ الیکشن سے صرف ایک ہفتہ پہلے یہ شادی اور پھر میڈیا میں یہ خبر اس کو اچھا خاصا سکینڈلائز کرچکی تھی ۔ وہ لب بھینچے ضبط کی آخری انتہا پر ٹی وی سکرین پر چلتی یہ خبر دیکھ رہا تھا ۔ میڈیا میں یہ خبر کیسے پہنچی تھی اسے سب علم تھا ۔
مقابل اپنے مقاصد کے لیے اپنی ہی بیٹی کو بڑی خوبی سے استعمال کر رہے تھے۔
’’بے غیرت۔‘‘ وہ دانت پیستے ہوئے بڑبڑایا تھا ۔
مجبوری میں اور اپنے بھائی کی جان بچانے کے لیے لیا جانے والا یہ فیصلہ اس کو اعصابی طور پر جہاں توڑ کر رکھ گیا تھا وہیں اس کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہا تھا ۔ صوبائی اسمبلی کا سب سے کم عمر امید وار اس سے اس حرکت کی امید کی جاسکتی تھی ۔ چند گھنٹے قبل ملنے والی لڑکی ، جو نہ صرف اس خاندان سے تعلق رکھتی تھی جس سے شاید لفظ ’’نفرت ‘‘بھی اس کی نفرت بیان نہیں کرسکتا تھا ۔ اس کے باپ کے قاتل اور ان کی بیٹی کی ساتھ رشتہ ازدواج میں بندھ کر اسی کے ساتھ اپنے عشق کے مشہور ہوتے قصے دیکھنا اس وقت اس جیسے مضبوط اعصاب بندے کو بھی ہلا کر رکھ گیا تھا۔
’’ سر ، نیوز والے آپ کا موقف جاننے کے لیے بار بار رابطہ کر رہے ہیں۔‘‘ اسسٹنٹ کے کہنے پر اس نے بمشکل خود کو نارمل کیا ۔ چاہتا تو وہ بھی انہیں ان کی زبان میں جواب دے سکتا تھا لیکن اس کی تربیت میں نہیں تھا کہ وہ اس دھندے میں عورتوں کو شامل کرے اور وہ لڑکی جو بھی تھا اب اس کی بیوی تھی۔
’’ کل شام تین بجے ایک پریس کانفرنس رکھ لو ۔ میں اپنا موقف وہیں پیش کروں گا۔‘‘ اس کا لہجہ چہرے کے تاثرات کے برعکس پرسکون تھا۔
’’اوکے سر۔‘‘ وہ اثبات میں سر ہلاتا باہر چلا گیا تھا جبکہ عمر پرسوچ نظریں کسی غیر مرئی نقطے پر جمائے گہری سوچ میں ڈوبا تھا۔
٭…٭…٭
بہت اچھی کہانی ہے لیکن محبت سے شروع ہو کے سیاست پہ ختم ہو گئی رائٹر نے کہیں پہ بھی بور نہیں ہونے دیا اور الفاظ کے خوبصورت جال بنے جنہوں نے اپنے اثار میں ہمیں رکھا اینڈ والی ایک ساتھ میں سیاست کو زیادہ تھی شاید یہ کہانی کی ڈیمانڈ تھی لیکن کچھ کچھ ملک کے حالات سے بھی ملتی جلتی تھی شاید جن دنوں میں کہانی لکھی گئی ہو ان دنوں میں ملک کی حالت بھی ایسی تھی بہرحال محبت اور نفرت پر مبنی ایک بہت اچھی تخلیق تھی