خرمنِ قلب: قسط نمبر 1
’’میں آپ کی بیٹی کو پسند کرتا ہوں ۔ شادی کرنا چاہتا ہوں کیونکہ میں جانتا تھا کہ آپ یہ رشتہ ویسے نہیں ہونے دیں گے اس لیے میں اسے لینے آیا آج ادھر۔ اس میں کسی اور کا کوئی قصور نہیں ۔ ردا اور زینب دونوں ہمیں سمجھانے آئی تھیں کہ ایسے جانا مناسب نہیں ۔ ‘‘ وہ سکون سے زینب کی طرف اشارہ کرکے بولا۔ ویسے بھی سب زینب کو اس کا بازو پکڑے تو دیکھ چکے تھے اور وہ بھی کسی حد تک سمجھ گیا تھا اس کی اس حرکت سے کہ وہ یہ الزام ردا کے سر نہیں ڈالنا چاہتی بلکہ اپنے سر لینا چاہتی ہے ۔ اس لیے اس نے ردا کو دھکیل کر عمر کا بازو پکڑا تھا ۔ ردا اور عفان حیرت سے ان دونوں کو دیکھ رہے تھے جو ان کی جگہ خود کو پیش کر چکے تھے۔
’’اپنی بکواس بند کرو ۔ تم سے رشتہ کرنے سے بہتر ہے کہ ہم اسے زندہ دفن کردیں لیکن اب تو پہلے تم دفن ہوگے پھر یہ ہوگی۔‘‘ اب کہ احمد بولا تھا جو خونخوار نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
’’خاموش ہو جاؤ سب ۔‘‘ آغا جان کی آواز پر سب چپ ہوگئے تھے ۔
انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اپنے بیٹے کو گن پیچھے کرنے کا کہا ۔ خود زینب کے سامنے آکر کھڑے ہوئے جو سر جھکائے کھڑی ہونٹ چبا رہی تھی۔
’’کیا یہ لڑکا سچ کہ رہا ہے ؟ ‘‘
وہ ان کی سب سے لاڈلی پوتی تھی ۔ جتنی چھوٹ انہوں نے اس کو دی تھی کسی پوتے کو بھی نہ دی تھی اور آج وہی ان کے باغی ہو کر سامنے کھڑی تھی ۔ اپنے سے دس سال بڑے شخص کے ساتھ ۔ شخص بھی وہ جو ان کے بدترین مخالفوں میں سے ایک تھا اور اب باقاعدہ سیاست کے میدان میں ان کے خاندان کے مقابل آنے والا تھا ۔ وہ بے یقین تھے ۔انہیں زینب سے یہ امید نہیں تھی۔
’’وہ ٹھیک کہہ ر ہے ہیں آغا جان ۔ آپ نے جو بھی سزا دینی مجھے دے دیں ، مجھے قبول ہے ۔ان کو جانے دیں ۔ ‘‘ سر جھکائے وہ بولی تھی۔لہجہ البتہ مضبوط تھا۔
آغا جان کا کمزور لاغر کاتھ اٹھا تھا اور ایک زوردار تھپڑ زینب کے چہرے پر پڑا تھا ۔ وہاں موجود سب کو سانپ سونگھ گیا تھا گویا اور ردا کی ہچکیاں شروع ہوگئی تھیں ۔ سب اس کی وجہ سے ہوا تھا مگر وہ بے بس زینب کو دیکھ رہی تھی ۔ اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ کچھ بول سکے کچھ کہ سکے۔
’’صحیح کرتے تھے لوگ جو بیٹیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے ۔ ‘‘ ان کا لہجہ سن کر زینب کو لگا وہ واقعی زندہ درگور ہو گئی ہے۔
’’دل چاہ رہا ہے ادھر ہی گولی ماردوں تمہیں اسی وقت ۔‘‘وہ رکے۔
’’لیکن تم اس قابل نہیں کہ تمہارے ناپاک وجود کو ہم قتل کر کے گناہ گار ہوں ۔‘‘ ان کی آواز اب کانپ رہی تھی۔
’’تمہارا مقدر یہی شخص ہے ۔ ایسے لوگوں کے ساتھ زندگی گزارنا ہی تمہاری اصل سزا ہے ۔ آج کے بعد ہم تمہارے لیے اور تم ہمارے لیے مر گئے ۔ زوار نکاح خواں بلاؤ ۔ نکاح کے ساتھ سب اس کے وجود ہر فاتحہ بھی پڑھ لینا ساتھ ہی ۔‘‘ وہ اب کھڑے نہیں رہ سکے تھے گر گئے تھے۔
’’آغا جان ۔‘‘ وہ تڑپ کر آگے ہوئی۔
’’دور ہو جاؤ مجھ سے ، چھونا مت ۔‘‘ انہوں نے فوراََ اسے پیچھے کیا۔
’’زوار نکاح خواں کو بلاؤ فوراََ ۔‘‘ ان کا فیصلہ اٹل تھا اور وہ سب ساکت۔
کیا سوچا تھا، کیا ہو رہا تھا ۔عفان اور ردا کے لیے آئے تھے وہ دونوں اور قسمت نے ایسا کھیل کھیلا تھا کہ ان دونوں کو بچانے کے لیے انہوں نے خود کو آگے کیا تھا اور آغا جان نے یہ فیصلہ کر دیا تھا۔
٭…٭…٭
’’عمر وحید ولد ملک وحید طارق کیا آپ کو زینب فاطمہ بنت محمد زمان بعوض حق مہر سکہ رائج الوقت مبلغ ایک لاکھ روپے اپنے نکاح میں قبول ہے ؟ ‘‘
مولوی صاحب کی آواز پر اس نے پتھریلے تاثرات سے ایک نظر آغا جان کی طرف دیکھا تھا اور دوسری نظر دھواں دھواں ہوتے چہرے کی ساتھ کھڑے عفان کو جو پریشان سا اپنے بھائی کو بلی کا بکرا بنتے دیکھ رہا تھا ۔
’’ قبول ہے۔‘‘ اس کے لہجے کا شدید قسم کا سرد پن وہاں موجود سب نے محسوس کیا تھا۔
اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ اپنی زندگی کا فیصلہ اس موڑ پر لے گا اور وہ بھی ایسے ایک بالکل انجان لڑکی کے لیے جسے وہ صرف ایک حوالے سے جانتا تھا کہ وہ اس کے باپ کے قاتلوں کی بیٹی تھی ۔ اس کے باوجود وہ دل بڑا کر کے عفان کے لیے وہاں آیا تھا اور حالات نے ایسا پلٹا کھایا تھا کہ وہ کوئی احتجاج نہیں کر سکا تھا ۔ دلی حالت اس وقت بالکل خالی تھی ۔ اس نے نظروں ہی نظروں میں عفا ن کو حوصلہ دیا ۔
مولوی صاحب اب نظر جھکائے بیٹھی زینب سے دستخط کروا رہے تھے ۔ اور اس کے عقب میں کھڑی ردا اپنی دنیا کو تاریک ہوتا دیکھ رہی تھی ۔ عفان تو نہیں ملا تھا، وہ تو اپنی بہن، اپنی سب سے بڑی سپورٹ بھی کھو بیٹھی تھی ۔ سائن ہوتے ہی مولوی صاحب نے مبارکباد دی تھی مگر سب کے سرد چہروں کو دیکھ کر وہ حیران سے صرف عمر سے مل کر بیٹھ گئے تھے ۔ باقیوں میں سے صرف زوار آگے ہو کر عمر سے ملا تھا۔
’’میری بہن کا خیال رکھنا ۔ ‘‘ اس نے سرگوشی کی اور سب کی گھورتی نظروں کی پروا کیے بغیر زینب کے سر پر ہاتھ رکھا اور پیچھے ہوگیا۔
’’اس گھر اور یہاں رہنے والوں کے لیے آج سے تم مر چکی ہو زینب ۔ تمہاری وجہ سے ردا کی شادی ختم ہوئی ۔ انکار کرگئے وہ لوگ جب پتہ چلا کہ تم گھر سے بھاگ رہی تھی ۔ تمہاری وجہ سے ہمارا سر جھک گیا سب کے سامنے۔ ایسی جرات تو ہمارے بیٹوں نے کبھی نہیں کی ، تم نے آج ہمیں جیتے جی مار دیا ۔‘‘ یہ بابا جان تھے جو بول رہے تھے۔
آغا جان خاموش تھے اور وہ سر جھکائے چپ چاپ سن رہی تھی ۔ کون جانتا تھا یہاں کہ اس کے دل پر کیا گزر رہی ہے ۔ اتنے سب رشتوں کو چھوڑ کر، اپنی حکومت چھوڑ کر ایک بالکل اجنبی آدمی کے ساتھ جو دیکھنے میں ہی سخت مزاج اور اپنی منوانے والا ایک مغرور سا شخص لگتا تھا، اس کے ساتھ آگے کی زندگی گزارنا …وہ لڑکی جو کبھی اپنی پسند کے بغیر کوئی ڈریس نہیں پہنتی تھی آج زبردستی ہی کسی کی زندگی میں ایک ناپسندیدہ ترین چیز بن کر شامل ہو رہی تھی ۔ وہ جانتی تھی آگے جا کر اس کو کوئی ویلکم نہیں ملنا نہ ہی محبت ، بلکہ نفرت اور اس سب کا ذمہ دار بھی اسی کو ٹھہرایا جانا تھا، کیونکہ عفان کو بلانے والی وہی تھی ۔
اس شخص کے گھر والے وہ بھلا کیسے اپنے گھر میں ایک دشمن کی بیٹی کو برداشت کریں گے ۔ اس نے دل پر ایک پتھر رکھ کر ہر آنسو اپنے اندر اتارا تھا اور ایک الوداعی نظر ان سب پر ڈالی تھی ۔ بابا جان، آغا جان، زوار اور ردا کو دیکھ کر اس کا دل چاہا تھا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے ۔ ہر زنجیر سے نکل آئے اور ان کو بتا دے سب، معافی مانگ لے مگر اب پانی سر سے گزر چکا تھا ۔ وہ آگے بڑھ کر ردا کے گلے لگی تھی ۔
’’خیال رکھنا ، پریشان مت ہونا ۔ اب کوئی شادی نہیں ہو رہی تمہاری ۔ ‘‘ بھرائے لہجے میں اس نے اسے کہا تھا اور بنا اس کی طرف دیکھے مڑ گئی تھی ۔ اب وہ آغا جان کے پاس آکر رکی تھی ۔ انہوں نے اسے دیکھ کر منہ پھیر لیا تھا۔اس نے جھک کر ان کا ہاتھ تھام کر چومنا چاہا لیکن انہوں نے ہاتھ پیچھے کرلیا تھا ۔ وہ خاموشی سے عمر کے پاس آکر کھڑی ہوگئی تھی ۔ اس کے آتے ہی اس نے عفان کو چلنے کا اشارہ کیا اور زینب کا ہاتھ تھامے ان سب کو دیکھا۔
’’اللہ حافظ ۔‘‘ سنجیدگی سے کہتے ہوئے اس نے بھی بس زوار سے ہاتھ ملایا اور اس کا ہاتھ تھامے باہر نکل گیا تھا ۔ جبکہ زینب کو لگ رہا تھا کہ وہ واقعی مر گئی ہے ۔ وہ کبھی ان سب کو نہیں دیکھ سکتی تھی، کبھی ان سے نہیں مل سکتی تھی ۔ یہ موت ہی تو تھی اور یہ موت اس اپنے لیے نے خود چنی تھی ۔ اس کے مضبوط مردانہ ہاتھ کی گرفت میں اپنا نازک ہاتھ اسے پسینے میں بھیگتا محسوس ہو رہا تھا ۔ بس یہی چیز زندگی اور اس کی حرارت کا احساس دلا رہی تھی ورنہ تو اسے لگا تھا کہ وہ بے جان ہے۔
٭…٭…٭
چار بج چکے تھے اور آس پاس فجر کی اذانیں شروع ہو گئی تھیں ۔
گاڑی میں گھمبیر خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔ وہ تینوں نفوس ایسے چپ تھے گویا مجسمے ہوں ۔ عفان نے بولنا چاہا تھا مگر عمر نے اسے خاموش کروا دیا تھا ۔ پچھلی سیٹ پر بیٹھی زینب روتے ہوئے ایک سڑک پار اس دنیا میں داخل ہو رہی تھی جہاں ان کا داخلہ ممنوع تھا ۔
جنت پور میں جانے کا کتنا شوق تھا اس کو اور ردا کو بچپن میں ۔ وہ حویلی سے وہاں کے باغ دیکھا کرتی تھیں اور قسمت آج اسے اس گاؤں میں لے آئی تھی ۔ تھوڑی دیر بعد گاڑی سرخ قدیم اینٹوں والے اس بڑے سے گھر کے سامنے رکی تھی جو گھر کم اور کوئی ڈیرہ نما زیادہ لگ رہا تھا ۔ ان کو دیکھتے ہی اس قوی ہیکل جنگلے والے گیٹ پر بیٹھے چوکیدار نے فوراََ گیٹ کھولا تھا ۔
گاڑی اس گرے ٹف ٹائل کی بڑی سی روش پراندر داخل ہوئی تھی ۔ روش کے آخر میں بڑا سارا گیراج تھا جس میں دو گاڑیاں پہلے سے کھڑی تھیں ۔ روش کے دونوں اطراف میں وسیع و عریض لان سر سبز لان تھے جن میں سفید کرسیاں اور میز پڑے تھے ۔ گیراج کی آگے ایک براؤن کلر کا دروازہ تھا جو غالباََ گھر کے اندر کھلتا تھا ۔ دروازے کے باہر اور پوری روش کے اردگرد بڑے بڑے خوبصورت گملے پڑے تھے ۔ پھوٹتی ہوئی صبح کے ساتھ یہ منظر آنکھوں کو بہت ہی بھلا محسوس ہو رہا تھا ۔
گاڑی روک کر وہ دونوں نیچے اترے تھے ۔ عفان نے اتر کر پچھلا دروازہ کھولا تھا اور اندر بیٹھی زینب کو اترنے کے لیے کہا جبکہ عمر چوکیدار کو کچھ ہدایا ت دے رہا تھا ۔ وہ خاموشی سے نیچے اتر آئی تھی ۔ وہ تینوں آگے پیچھے چلتے اس دروازے سے گھر کے اندر داخل ہوئے تھے۔
’’آپ کسی کی بھی بات کا کوئی بھی جواب نہیں دیں گی ۔ جو بھی کہوں گا میں کہوں گا۔‘‘ پہلا حکم صادر ہوگیا تھا۔
اس آدمی کو شاید ایسے ہی بات کرنا آتی تھی ۔ لٹھ مار سرد سے لہجے میں۔زینب نے کینہ توز نظروں سے اس کی کندھے پر پڑی سیاہ چادر کو دیکھا اور پھر ہلکی بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ اس کے بھرپور مردانہ وجاہت لیے چہرے کو ۔ وہ اب ہلکا سا رخ موڑے عفان کو کچھ کہہ رہا تھا ۔ ایسے میں اس کی کھڑی مغرور ناک اور بھی نمایاں ہو رہی تھی ۔ یہ جائزہ شاید کچھ دیر اور جاری رہتا مگر وہیل چیئر کی ادھر آتی آواز پر وہ تینوں بیک وقت مڑے تھے اور پیچھے موجود دادی کو دیکھ کر ایک لمحے کے لیے وہ دونوں گھبرائے تھے ۔ البتہ زینب ٹھس سی کھڑی اس وہیل چیئر پر موجود بزرگ خاتون کو دیکھ رہی تھی جو بے یقین سی ان کو ہی دیکھ رہی تھیں۔
٭…٭…٭
ان کو سامنے دیکھ کر عمر نے بے اختیار ہی گلا کھنکارا تھا ۔ ساتھ ہی ٹشو سے ماتھے پر آیا پسینہ بھی صاف کیا تھا ۔ وہ تو پہلے ہی نالاں تھیں اس سے سیاست میں آنے کے فیصلے کی وجہ سے اور اب یہ نیا چاند چڑھا آیا تھا ۔ وہ بھی کچھ سمجھی نا سمجھی سے اس سرخ و سپید چمکتی رنگت والی لڑکی کو دیکھ رہی تھیں جو بنا کسی آرائش کے بھی بے حد حسین تھی ۔ ایسی لڑکی کا ان کے دو پوتوں کے ساتھ فجر کے وقت گھر پر آنا … خطرے کی گھنٹیاں ان کے اردگرد بجنے لگی تھیں۔
’’کون ہے یہ لڑکی؟‘‘ انہوں نے بنا کسی تمہید کے عمر سے پوچھا تھا۔
’’آپ اندر آئیں دادو میں سب بتاتا ہوں آپ کو ۔ ‘‘ عمر نے آگے بڑھ کر ان کی وہیل چیئر کو پیچھے لے جانا چاہا مگر انہوں نے روک دیا تھا۔
’’نہیں۔ مجھے ابھی بتاؤ کون ہے یہ ۔‘‘ ان کا لہجہ سرد تھا اور آنکھیں زینب پر جمی ہوئی تھیں جو بے نیازی سے وہاں کھڑی تھی۔
عفان اور عمر نے ان کے سوال پر ایک لمحے کے لیے ایک دوسرے کو دیکھا پھر سر جھکا گئے ۔ جھوٹ وہ بول نہیں سکتے تھے کیونکہ بہت جلد یہ خبر دادو کوپتہ چل ہی جانی تھی ۔ سچ بتانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی ۔ بلآخر عمر نے ہی دوبارہ گلا صاف کر کے کچھ ہمت کی تھی۔
’’دادو یہ …‘‘ اس نے تمہید باندھی۔
’’یہ بیوی ہے میری ۔‘‘ اسے بولتے ہوئے اپنے ہی الفاظ اجنبی لگے تھی اور زینب کو لفظ ’’بیوی‘‘ایسے لگا تھا جیسے آج پہلی بار یہ لفظ کانوں میں پڑا ہو ۔ بالکل نامانوس۔
جبکہ دادو ساکت سی بے یقین عمر کو دیکھ رہی تھیں ۔ کم از کم بھی یہ آخری چیز تھی جس کی وہ عمر سے امید کر سکتی تھیں ۔ ان کے چہرے پر ثبت حیرت کچھ لمحوں بعد ناگواری میں بدلی تھی۔
’’کیا کہہ رہے ہو تم ۔ ہوش میں تو ہو؟‘‘ ان کا لہجہ ہی نہیں آنکھوں میں بھی ناگواری اتر آئی تھی ۔ان کے تیور دیکھ کر زینب کچھ کنفیوژ ہوئی تھی۔
’’میں ٹھیک کہہ رہا ہوں دادو ۔ میں زینب کو پسندکرتا ہوں اور شادی کرنا چاہتا تھا مگر ان کے گھر والے ان کی شادی کہیں اور کرنا چاہتے تھے اس لیے ہمیں جلدی میں یہ قدم اٹھانا پڑا ۔‘‘ اس نے دادو کے چہرے کے بدلتے تاثرات کو مکمل نظر انداز کرتے ہوئے وہی کہانی دہرائی تھی ۔ جبکہ زینب اسے اس روانی سے جھوٹ بولتا دیکھ کر کافی حیران تھی۔
’’کون ہیں اس کے خاندان والے۔ایسا …ایسا کیسے کر سکتے ہو تم ۔ اگر ایسا کچھ تھا بھی تو تم مجھے بتاتے، اپنی ماں کو بتاتے ۔ ہم جاتے اس کے گھر، میں دیکھتی کیسے نہ مانتے اس کے گھر والے ۔‘‘ وہ اب بھی غصے میں ہی بول رہی تھیں لیکن ناگواری قدرے کم ہوئی تھی۔
’’بتاتا، ضرور بتاتا مگر جس خاندان سے یہ ہیں وہاں آپ کبھی نہ جاتیں ۔‘‘ اب وہ سکون سے کہتا دادی کے پاس بیٹھ چکا تھا ۔ وجیہہ چہرے پر پراسرار سی مسکراہٹ دوڑ رہی تھی گویا اسے اب اس سسپنس گیم کھیلنے میں مزہ آرہا تھا ۔
’’کیا مطلب، میں کیوں نہ جاتی۔‘‘ وہ غصہ بھول گئی تھیں اور پزل گیم کا حصہ بن گئی تھیں۔
’’یہ میں آپ کو بتاؤں گا تسلی سے ۔ پہلے بتائیں کیا میری پسند آپ کو پسند نہیں آئی ؟ ایمانداری سے بتائیے گا۔‘‘ وہ اب ان کی وہیل چیئر کے پیچھے سے دونوں بازو ان کے بازوؤں پر رکھ کر زینب کی طرف اشارہ کر کے بولا۔
زینب اس کی بولتی اور دادی کی اندر تک اتر جانے والی نظروں سے اچھا خاصا کنفیوژ ہوئی تھی ۔ جبکہ دادی کی گہری نظریں اس کے گھبرائے ہوئے سرخ و سفید چہرے پر تھیں جس پر واحد آرائش اس کے ناک میں نوز پن کے نام پر چمکتا ہیرے کا وہ نگ تھا جو اس کے چہرے کی تابناکی میں نہ صرف اضافہ کر رہا تھا بلکہ سامنے والے کو اس کی حیثیت بھی بتا رہا تھا ۔ وہ یقینا کسی اچھی فیملی سے تھی ۔ سادہ مگر سٹائلش انداز میں سلے ہوئے شلوار قمیض میں سیاہ چادر اوڑھے جس میں سے سنہری براؤن بال کچھ نظر آرہے تھے ۔ ان کی آنکھوں میں کچھ کچھ پسندیدگی اتری تھی ۔ ہر بات ایک طرف وہ ان کے سب سے بڑے اور سب سے عزیز پوتے کی دلہن بن کر ان کے گھر آئی تھی ۔ انہیں خودبخود اپنا دل نرم پڑتا محسوس ہوا تھا۔
’’جو بھی ہے،پسند نا پسند بعد کی بات ہے ۔ لیکن یہ طریقہ صحیح نہیں ہے ۔ تم مجھے اس کے والدین کا بتاؤ، میں خود ان سے بات کرتی ہوں ۔‘‘ ان کا لہجہ اب دھیما تھا ۔ غصہ ختم ہو چکا تھا ۔
’’حویلی والوں سے آپ بات کرنا پسند نہیں کریں گی دادو نہ ہی وہ آپ سے بات کرنا پسند کریں گے۔‘‘ عمر نے ان کے اعصاب پر بم پھوڑ دیا تھا ۔ اور توقع کے عین مطابق وہ ہکا بکا عمر کو دیکھ رہی تھیں۔
بہت اچھی کہانی ہے لیکن محبت سے شروع ہو کے سیاست پہ ختم ہو گئی رائٹر نے کہیں پہ بھی بور نہیں ہونے دیا اور الفاظ کے خوبصورت جال بنے جنہوں نے اپنے اثار میں ہمیں رکھا اینڈ والی ایک ساتھ میں سیاست کو زیادہ تھی شاید یہ کہانی کی ڈیمانڈ تھی لیکن کچھ کچھ ملک کے حالات سے بھی ملتی جلتی تھی شاید جن دنوں میں کہانی لکھی گئی ہو ان دنوں میں ملک کی حالت بھی ایسی تھی بہرحال محبت اور نفرت پر مبنی ایک بہت اچھی تخلیق تھی