خرمنِ قلب: قسط نمبر 1
’’کون ہیں آپ محترمہ؟‘‘اب کی دفعہ اس کا لہجہ روکھا تھا ۔ اسے یہ کوئی پرینک لگا تھا ۔
’’میں …دیکھیں مجھے بہت ایمرجنسی ہے پلیز ۔ آپ سوال جواب بعد میں کیجئے گا ، میں نے بہت مشکل سے آپ کی آئی ڈی سرچ کرنے کے بعد آپ سے رابطہ کیا ہے ۔ مجھے ابھی عفان سے بات کرنی ہے۔‘‘ دوسری طرف سے تیز تیز لہجے میں آتی آواز پر اب اس کے ماتھے پر لیکیریں اور شکنیں واضح ہوگئی تھیں ۔ اسے آواز سنی سنی لگ رہی تھی مگر ذہن میں نہیں آرہا تھا کہ کہاں سنی ہے ۔ شاید وہ عفان کی کوئی کلاس میٹ تھی اور وہ اکثر عفان کی یونیورسٹی جاتا رہتا تھا ۔ لیکن لڑکیوں کے چکروں میں پڑنے والا تو عفان نہیں تھا پھر یہ کون تھی جو اتنے حق سے عفان کا نام لے رہی تھی۔
’’آپ نام بتا دیں، عفان سو رہا ہے ۔ میں صبح بتا دوں گا اس کو کہ آپ کا فون ہے وہ آپ کو کال بیک کر لے۔‘‘ اب کہ اس نے کچھ شائستگی سے کہا ۔ جوابا مقابل کو گویا مرچیں ہی لگ گئی تھیں۔
’’آپ کو سمجھ نہیں آتی کیا ؟ مجھے ابھی اسی وقت عفان سے بات کرنی ہے ۔ میری بہن کی نیندیں بلکہ زندگی حرام کرکے خود آرام سے سو رہا ہے ۔‘‘ وہ اب فل غصے میں بول رہی تھی ساتھ احکامات بھی جاری کر رہی تھی ۔ عمر نے موبائل کو کان سے کچھ پیچھے کیا تھا اس کی چیختی آواز پر پھر سکرین کو گھورا تھا گویا اندر وہی ہو ۔
’’آپ کو شاید مزاق کرنے کے لیے یہی وقت ملا ہے محترمہ ۔ برائے مہربانی میرا دماغ نہ کھائیں اور فون بند کردیں ۔‘‘اس نے سختی سے کہتے ہوئے فون بند کرنا چاہا مگر دوسری طرف سے آتی آواز پر اسے محاورتا نہیں حقیقتا کرنٹ لگا تھا۔
’’آغا جان صحیح کہتے ہیں ۔ ملکوں سے امید لگانے سے بہتر ہے بندہ مرجائے زہر کھا کر ۔‘‘اس کی بات پر اسے واقعی سکتہ ہوگیا تھا ۔ تو وہ کیا حویلی سے تھی ۔ پھر یکدم ہی اس کے ذہن میں جھماکہ ہوا تھا ۔ کچھ دن پہلے ہونے والا ٹکراؤ یاد آیا تھا ۔ہاں یہ آواز اس نے وہیں سنی تھی ۔یہ وہی حویلی کی لڑکی تھی ۔
’’کیا مطلب۔کیا ہے یہ سب … آپ غالباََ وہی ہیں جو اس دن مجھ سے ٹکرائی تھیں ۔‘‘ وہ بے اختیار بولا تھا اب تا کہ وہ فون سچ میں ہی بند نہ کردے ۔
”جی ہاں بالکل ٹھیک پہچانا آپ نے ۔ اب کیونکہ آپ کی یادداشت واپس آگئی ہے تو میری عفان سے بات کروادیں پلیز ۔ ‘‘ اس کا چبھتا ہوا لہجہ عمر کو ضرورت سے زیادہ ہی چبھا تھا۔ ہونٹ بھینچے وہ ماتھے پر آئی سلوٹوں سمیت سیدھا عفان کے کمرے میں آیا تھا جہاں وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر سو رہا تھا ۔ ایک دو لمحے اسے دیکھنے کے بعد وہ کچھ کشمکش میں آگے بڑھا تھا ۔ یہ اس طرح کے غیر اخلاقی کام نہ اس نے کبھی کیے تھے نہ ہی وہ اپنے گھر میں کسی کو کرنے دیتا تھا ۔ دوسری طرف موجود لڑکی کو یہ بات وہ نہیں سمجھا سکتا تھا ۔ اس لیے بنا اجازت وہ عفان کے کمرے میں آیا تھا اور اب بازو ہلا کر اسے جگا بھی رہا تھا۔
مندی مندی آنکھوں سے عفان نے حیرت سے خود پر جھکے عمر کو دیکھا پھر اچھل کر کھڑا ہوا تھا۔
’’ب…بھائی آپ ؟اس وقت ؟ سب خیریت تو ہے۔‘‘ اس نے کئی سوال ایک ہی سانس میں پوچھے تھے ۔ جواباََ عمر نے بنا کچھ کہے فون اس کی طرف بڑھایا۔
’’تمہارا فون ہے ۔‘‘ وہ کہہ کر رکا نہیں تھا باہر چلا گیا تھا ۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اگر ایسی ویسی کوئی بات ہے بھی جو عفان نے اس سے چھپائی ہے تو اس کے سامنے بات کرتے ہوئے وہ شرمندہ ہو یا بے سکون ہو کر بات کرے ۔ اسی لیے وہ کوریڈور میں پڑی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا تھا ۔ بظاہر پرسکون تھا مگر گہری براؤن آنکھوں میں سوچ اور تفکر کے سائے اس کی ذہنی حالت کا پتہ دے رہے تھے۔
’’حویلی کی وہ لڑکی جو کم از کم اس سے دس سال چھوٹی تھی وہ کس حق سے اپنی بہن اور عفان کا زکر کر رہی تھی، کیا چل رہا تھا ۔ ‘‘ اس کے دماغ کی سوئی وہیں اٹک گئی تھی ۔
وہ چاہتا تو وہ خود بھی اس لڑکی سے پوچھ سکتا تھا سب مگر وہ عفان کے منہ سے سننا چاہتا تھا ۔ کسی بھی غیر لڑکی سے زیادہ اسے اپنے بھائی پر یقین تھا بہرحال اور حویلی والوں پر یقین … وہ استہزائیہ سا مسکرایا اور عفان کو ادھر آتا دیکھ کر سیدھا ہوگیا تھا ۔ وہ بہت جلدی میں اس طرف آرہا تھا ۔پریشان، بے حال ، گھبرایا ہوا۔ اس کی حالت دیکھ کر وہ بے اختیار کھڑا ہوا۔
’’عفان، یو اوکے۔‘‘ اس کے سفید پڑتے چہرے کو دیکھ کر وہ تیزی سے اس کی طرف آیا تھا۔
’’بب…بھائی وہ ۔‘‘اس کا سانس اکھڑ رہا تھا ۔
عمر نے اس کو کندھوں سے تھام کر کرسی پر بٹھایا تھا اور خود بھی دوزانو ہوکر اس کے سامنے بیٹھ گیا تھا ۔
’’عفان۔‘‘ عمر نے اس کے بازوؤں پر ہاتھ رکھ کر اسے نارمل کرنے کی کو شش کی ۔ وہ جانتا تھا کہ عفان کا دل بہت نرم ہے وہ بہت جلدی گھبرا جاتا تھا۔
’’ریلیکس…کیا ہوا ہے بتاؤ۔‘‘ وہ نرم لہجے میں بول رہا تھا۔
’’وہ اس کی شادی کر رہے ہیں بھائی ۔ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا ۔کبھی بھی نہیں رہ سکتا ۔‘‘ اس کے آنسو گالوں پر نکل آئے تھے ۔
عمر کو اس وقت وہ بالکل چھوٹا سا بچہ لگ رہا تھا جو بابا کی میت دیکھ کر اسی طرح رویا تھا۔
’’کس کے بغیر … پوری بات بتاؤ مجھے ۔ جو بھی تمہاری خوشی کے لیے میں کرسکا عفان ۔میں وعدہ کرتا ہوں بنا کسی کی پرواہ کیے کروں گا ۔‘‘ وہ مضبوط لہجے میں بولا تھا۔
عفان نے اس کو بغور امید اور ناامیدی کے تاثرات لیے دیکھا تھا ۔عفان نے آہستہ آہستہ اسے سب بتا دیا تھا ۔وہ بڑے تحمل سے ہر بات سن رہا تھا۔
’’نہ کبھی بھی میں اس سے کہہ سکا، نہ وہ مجھ سے ۔ میں ہمیشہ چاہتا تھا کہ ایک بار پڑھائی ختم کر کے اپنے پیروں پر کھڑا ہو کر پھر اس معاملے میں کوشش کروں گالیکن…مجھے اندازہ نہیں تھا کہ سب اتنی جلدی ہوجائے گا۔‘‘ عمر نے ایک طویل سانس لے کر خود کو نارمل کیا تھا۔
’’اب یہ اس کی بہن کیا کہتی ہے ۔اس نے کیوں فون کیا ہے۔‘‘ اس نے سنجیدہ لہجے میں پوچھا۔
’’وہ کہہ رہی تھی کہ…‘‘ عفان رکا اور قدرے ڈرتے ڈرتے عمر کی طرف دیکھا۔
’’کہ؟‘‘ عمر کو کسی انہونی کا احساس ہوا۔
’’کہ اگر میں واقعی مخلص ہوں ردا کے ساتھ تو کل رات اس کی مہندی ہے ۔ وہ مہندی کے بعد رات کو دو بجے اس کو لے کر حویلی کے پچھلے قبرستان میں آئے گی اور میں بھی تب وہاں پہنچ جاؤں اور اس کو لے جاؤں ۔‘‘ اس نے اب نظریں جھکائے جھکائے کہا۔
’’نیور …کسی کے گھر کی عزت کو اس طرح خراب کرنا تمہارے نزدیک یہ حل ہے اس مسئلے کا ؟ ان کی ساری برادری وہاں شادی میں اکٹھی ہوگی ، کتنی انسلٹ ہوگی ان کی جب سب کو پتہ چلے گا کہ ان کی بیٹی بھاگ گئی ہے ۔ کچھ اندازہ ہے تمہیں۔‘‘ توقع کے عین مطابق وہ بڑھک اٹھا تھا ۔ بے شک لاکھ دشمنی تھی ان لوگوں سے اس کی لیکن وہ اتنا نہیں گر سکتا تھا۔
’’بھائی وہ اس کی شادی زبردستی کر رہے ہیں ۔ صرف سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے ۔ اس کو مدد کی ضرورت ہے اس وقت ۔‘‘ عفان روہانسا ہوا۔
’’ جو بھی ہے ۔مدد کا یہ طریقہ نہیں ۔وہ کل کی لڑکی جسے بات کرنے کی تمیز نہیں، اس کے مشورے پر عمل کرنا سراسر بیوقوفی ہے ۔ ‘‘ وہ اب زینب پر تپا تھا جس نے اتنی رات فون کر کے یہ آگ لگائی تھی۔
’’ میں خود آغا جان سے بات کرلیتا ہوں ۔ بدلے میں وہ مجھ سے اگر کچھ بھی مانگیں چاہے سیاست سے دستبرداری ہی کیوں نہ مانگ لیں میں کرلوں گا لیکن یہ کسی کے گھر کی عزت کو بھگانے والا کام نہیں کروں گا ۔ ‘‘ وہ ٹھوس لہجے میں کہتا اٹھ کھڑا ہوا۔
’’ آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں بھائی ۔ جو ہو رہا ہونے دیں ۔ میری وجہ سے خود کو اتنی تکلیف میں مت ڈالیں ۔ آپ اور میں بہت اچھے سے جانتے ہیں کہ وہاں جا کر یہ بات کرنے کے بعد زندہ واپس نہیں آئیں گے ۔ اس لیے چھوڑیں …زندگی میں ہر چیزنہیں ملتی نہ ہی ہر خواہش پوری ہوتی۔‘‘ اس کا لہجہ آخر میں بھرایا تھا ۔
اس کے بعد وہ اٹھ کر تیزی سے وہاں سے چلا گیا تھا جبکہ عمر ہونٹ بھینچے وہیں بیٹھا تھا ۔ اپنے بھائی کے لیے تو وہ جان بھی دے سکتا تھا، اس کو وہ ایسے عزیز تھا جیسے اس کی اولاد ہو لیکن کسی کے گھر کی عزت چاہے دشمن کے گھر کی ہی ہو ۔وہاں نقب لگانا اس کے ضمیر کو گوارہ نہیں تھا مگر عفان کی حالت سنبھلے گی نہیں وہ جانتا تھا ۔
٭…٭…٭
رات کے دو بجنے والے تھے ۔ پیلے جوڑے پر سیاہ چادر پہنے سجی سنوری اور سہمی ہوئی ردا کانپتی ہوئی بمشکل خود کو سنبھالے زینب کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی ۔ اس کے برعکس زینب پر اعتماد تھی ۔ قبرستان کی گہری تاریکی میں دور دور تک کوئی زی روح کا نشان نہ تھا ۔ ہر طرف ہیبت ناک سناٹا چھایا ہوا تھا ۔گھنے درختوں کی قبروں پر پڑتی چھاؤں اور ہو کا عالم انہیں مزید ڈرا رہا تھا۔
’’زینب ۔‘‘ ردا منمنائی مگر زینب نے مڑ کر گھور کر اسے دیکھا تھا ۔ وہ ادھر ہی چپ ہوگئی تھی۔
’’دو بجنے والے ہیں یہ تو آیا نہیں اب تک ۔‘‘ زینب بڑبڑائی۔
’’کمبخت کہیں دھوکہ تو نہیں دے گا ۔‘‘ اسے نئی فکر ستائی تھی۔
’’مجھے بہت ڈر لگ رہا ہی زینب۔‘‘ ردا کے روہانسے لہجے پر اب اس نے سر پکڑا تھا۔
’’ یہ کون سی نئی بات ہے ۔ جس دن سے تم پیدا ہوئی ہو، تمہیں ڈر ہی لگتا آیا ہے آج تک۔‘‘وہ مطلوبہ جگہ پر پہنچ چکی تھیں مگر وہاں کوئی نہیں تھا ۔ زینب نے موبائل نکال کر اس کا نمبر ملایا لیکن وہ بند جارہا تھا۔
’’اگر وہ آج نہ آیا ردا تو تم نے دوبارہ کبھی اس کی وجہ سے آنسو بہائے یا روئی تو یاد رکھنا پھر…‘‘ اس کی بات سامنے سے آتے دو نفوس کو دیکھ کر منہ میں ہی رہ گئی تھی ۔ سیاہ لباس اور سیاہ چادروں میں وہ دونوں اس وقت اس سیاہ رات کا ہی حصہ معلوم ہو رہے تھے۔
’’اسلام علیکم ۔‘‘ ان کے قریب آکر انہوں نے سلام کیا تھا ۔ عفان کے ساتھ عمر بھی تھا۔
’’وعلیکم سلام ۔‘‘ زینب نے کہتے ہوئے ردا کا ہاتھ پکڑ کر آگے کیا۔
’’یہ میری بہن ہے۔‘‘ قدرے غرور سے اس نے اپنے سینے کی طرف انگلی کرتے ہوئے عفان کو گویا وارن کیا تھا۔
’’بھلے ہی مجھ سے بڑی ہے لیکن آج تک اس کی زمہ داری میں نے لی ہے ہمیشہ۔‘‘ عمر خاموشی سے اس بیس بائیس سالہ مغرور نقوش والی لڑکی کو اس بے جگری سے بولتا دیکھ رہا تھا ۔ اس کے برعکس اس کی بہن کانپ رہی تھی۔
’’اگر مرد ہو واقعی تو اپنی کمٹمنٹ پر قائم رہنا ۔ اس کو خوش رکھنا ۔ میرا خاندان جتنا بھی تمہارا پیچھا کرے اسے چھوڑنا مت ۔‘‘ آخر میں ردا کے ہاتھ پر دباؤ بڑھاتے ہوئے اس نے کہا جو اب اس کی باتوں پر رو رہی تھی ۔
’’ ان شاء اللہ آپ مجھے ثابت قدم پائیں گی ۔‘‘ وہ دم بخود سا ردا کو دیکھ رہا تھا یوں جیسے ٹرانس میں ہو ۔ اسی ٹرانس میں ہی اس نے جواب دیا تھا ۔ زینب کچھ مطمئن ہوئی تھی۔
’’چلو ردا ۔جاؤ اب ۔‘‘ اس نے اسے گلے لگایا ۔ وہ اب پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔
’’میں…‘‘ وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی لیکن زینب نے اسے خاموش کروا کے فوری پیچھے کیا۔
’’جاؤ ردا ، وقت نہیں ہے ۔جاؤ فی امان اللہ۔‘‘ اس نے اپنے آنسو چھپائے تھے ۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ زینب کو روتا دیکھ کر وہ کمزور پڑے ۔
’’آئیے ۔ ‘‘ عمر نے آگے بڑھ کر اپنا مضبوط ہاتھ اس کے سر پر رکھا تھا۔
’’پریشان مت ہوں، آپ محفوظ ہیں ہمارے پاس ۔‘‘ اس نے سنجیدگی سے اسے حوصلہ دیا ۔
زینب نے اللہ حافظ کہتے ہوئے ان کو جانے کا اشارہ کیا ۔ اس سے پہلے کے وہ مڑتے فائرنگ کی تیز آوازوں سے اردگرد کا علاقہ گونج اٹھا تھا ۔ ردا نے بے اختیار اپنا ہاتھ عفان کے ہاتھ سے چھڑوایا تھا اور خوفزدہ ہو کر مڑی تھی ۔ بھاگتے قدموں کی آوازیں چاروں طرف سے ان کی طرف ہی آرہی تھیں ۔ وہ دونوں بھی ساکت کھڑے تھے۔
’’اس راستے سے بھاگ جاؤ ۔ بھاگ جاؤ ردا ۔ جائیں آپ لوگ ۔‘‘ زینب نے چیخ کر درمیان سے درختوں کی اوڑھ میں جاتی پگڈنڈی کی طرف اشارہ کیا۔
’’نہیں میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جاؤں گی ۔‘‘ردا فوراََ اس کے پاس آئی تھی جبکہ وہ دونوں بت بنے سمجھی نا سمجھی میں ان دونوں کو دیکھ رہے تھے ۔
’’جاؤ ردا۔ ادھر میں سنبھال لوں گی۔جاؤ…‘‘اس نے اسے عمر کی طرف دھکیلا تھا ۔
’’لے جائیں اسے آپ۔‘‘ وہ بولی مگر وہ لوگ اب سر پر پہنچ چکے تھے ۔ چاروں طرف سے وہ گھر چکے تھے ۔زینب نے ایک لمحے میں ردا کو پکڑ کر کھینچا تھا اور خود عمر کا بازو پکڑ کر کھڑی ہوگئی تھی جبکہ وہ ہکا بکا اس لڑکی کواپنا بازو پکڑے دیکھ رہا تھا ۔ اسی اثنا میں سامنے پڑتی روشنی میں آغا جان ، تایا ابو اور بابا جان کے ساتھ زوار اور احمد کو دیکھ کر ان کے اوسان خطا ہوئے تھے۔
’’تم دونوں … تم دونوں کیا سمجھی تھی ہماری آنکھوں میں دھول جھونک کر، ان کے ساتھ مل کر۔‘‘ غضب کے مارے آغا جان کی آوا ز کانپ رہی تھی اور ردا اور زینب کا دل کسی خزاں رسیدہ پتے کی طرح لرز رہا تھا۔
’’آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔ ایسا کچھ نہیں ہے ۔‘‘عمر نے آگے ہو کر کچھ کہنا چاہا مگر آغا جان کی اور باقیوں کی نظریں اس کا بازو تھامے زینب پر جمی دیکھ کر وہ ہونٹ بھینچتا خاموش ہوگیا تھا ۔ آہستگی سے اس نے اس سے بازو چھڑوایا تھا ۔
’’بے غیرت باپ کی بے غیرت اولاد ۔ لڑکیوں کو استعمال کر کے انتقام لینا چاہتے تھے تم ہم سے ۔‘‘ تایا ابو نے گن عمر کے ماتھے پر رکھی تھی۔
’’میرے باپ پر مت جائیں آپ ۔‘‘ وہ آگے سے بنا ڈرے سرد لہجے میں بولا تھا ۔
’’جہاں تک تم گئے ہو وہاں تک جاؤں میں؟‘‘ وہ چیخے تھے ۔
’’بھائی کا کوئی قصور نہیں اس سب میں ۔یہ سب…‘‘عفان آگے ہوا تھا۔
’’خاموش ہوجاؤ عفان۔ یہ میرا ہی قصور ہے ۔ ‘‘ وہ اب بغور زینب کو دیکھ رہا تھا۔
بہت اچھی کہانی ہے لیکن محبت سے شروع ہو کے سیاست پہ ختم ہو گئی رائٹر نے کہیں پہ بھی بور نہیں ہونے دیا اور الفاظ کے خوبصورت جال بنے جنہوں نے اپنے اثار میں ہمیں رکھا اینڈ والی ایک ساتھ میں سیاست کو زیادہ تھی شاید یہ کہانی کی ڈیمانڈ تھی لیکن کچھ کچھ ملک کے حالات سے بھی ملتی جلتی تھی شاید جن دنوں میں کہانی لکھی گئی ہو ان دنوں میں ملک کی حالت بھی ایسی تھی بہرحال محبت اور نفرت پر مبنی ایک بہت اچھی تخلیق تھی