خرمنِ قلب: قسط نمبر 1
’’جب پتہ ہے کہ ہار ہی ان کا مقدر ہے تو فائدہ جاننے کا ۔‘‘ اس نے پھر بھی کہ ہی دیا تھا۔
’’باخبر تو رہنا چاہیئے ۔‘‘ تایا ابو کی بھی اپنی ہی لاجک تھی۔
’’اس دفعہ وہ کسی کی حمایت نہیں کر رہے ۔‘‘ یہ آواز تایا ابو کے بیٹے احمد کی تھی۔
اندر داخل ہوتے ہوئے اس نے گویا بریکنگ نیوز دی تھی ۔ وہ سب چونک گئے تھے۔
’’کیونکہ وہ خود اس دفعہ الیکشن لڑنے والے ہیں ایم پی اے کا…‘‘ اس کی اگلی بات پر تایا ابو بے اختیار کھڑے ہوئے تھے۔
’’یہ کس نے کہا تم سے؟‘‘ وہ شاکڈ پوچھ رہے تھے۔
’’ یہ پکی خبر ہے ۔ آغا جان تک ویسے بھی پہنچ چکی ہے ۔ ‘‘ وہ مزے سے کہتا ہوا کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔
’’ عمر وحید آج یا کل میں کاغزات نامزدگی جمع کروانے والا ہے۔‘‘ اس نے بسکٹ اٹھاتے ہوئے مزید تڑکا لگایا اور کامیاب بھی رہا تھا ۔ تایا ابو کے سرخ چہرے کو دیکھ کر ان کے غصے کا بخوبی اندازہ ہو رہا تھا ۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے اندر آتے آغا جان کو دیکھ کر وہ سب احتراما کھڑے ہوگئے تھے۔
’’ردا کے لیے جو پرپوزل آیا ہوا ہے عبدالرحمان کی فیملی سے ۔ ان کو ہاں کا پیغام بھجوادو صالح۔‘‘ انہوں نے اندر آتے ہی اپنے چھوٹے بیٹے سے کہا تھا اور ان کی بات پر زوار بابا جان کو ہاں میں سر ہلاتا دیکھ کر پریشان ہوا تھا ۔ وہاں موجود سب لوگ سمجھ گئے تھے کہ یہ اتنی جلدی ہاں کیوں کی جارہی ہے ۔ کل تک جو ، ردا کا رشتہ احمد کے ساتھ کرنا چاہتے تھے اب اتنی جلدی ہاں صرف اس لیے کر رہے تھے کیونکہ عبدالرحمان صاحب خود الیکشن میں کھڑے ہو رہے تھے ۔ اور وہ سیاست کے بے حد منجھے ہوئے کھلاڑی تھے ۔ عمر وحید کے الیکشن میں آنے کی خبر سن کر وہ ہر قیمت پر عبدالرحمان کو جتوانا چاہتے تھے ۔ اسی مد میں وہ عبدالرحمان کے بیٹے کے ساتھ رشتہ کرنے پر رضامند ہوئے تھے کیونکہ اس سے نہ صرف انہیں عبدالرحمان کا اعتماد ملتا بلکہ ان کی ساری چوہدری برادری بھی رشتہ داری ڈلنے پر سارے اختلاف بھلا کر عبدالرحمان کو ووٹ دیتی۔
’’لیکن ردا سے تو ایک بار پوچھ لیں ۔‘‘ وہ بے اختیار بولا تھا اسے یہ ملکوں کو نیچا دکھانے کے لیے کی جانے والی اپنی بہن کی سودے بازی اچھی نہیں لگی تھی۔
اس کی بات پر آغا جان نے خشمگیں نظروں سے اس گستاخی پر اسے گھورا تھا ۔
’’جا کے اپنی ماں سے پوچھو کہ اس گھر میں اسے بھیجنے سے پہلے اس کے ماں باپ نے پوچھا تھا اس سے؟‘‘ وہ کڑک لہجے میں بولے تھے۔
زوار خاموشی سے نظر جھکا گیا تھا مگر اس کے اندر ایک آگ لگ گئی تھی ۔ یہ اس کی بہن کی زندگی تھی کسی بے زبان جانور کی نہیں مگر وہاں کوئی سمجھنے کو تیار نہ تھا ۔ اس نے آخری پر امید نظر بابا جان کی طرف دیکھا مگر وہ ہمیشہ کی طرح خاموش تھے۔
فیصلہ ہو چکا تھا اور کسی کی مجال نہیں تھی کہ کچھ بول سکے۔
٭…٭…٭
’’اس ملک کی آبادی کا دو فیصد اشرافیہ طبقہ برسوں سے اس ملک کے مستقبل کا فیصلہ کر رہا ہے ۔ یہاں کے قانون، قواعد سب ان کے بنائے ہوئے ہیں ۔ یہ محلوں میں رہنے والے، برینڈڈ کپڑے ، جوتے اور گھڑیاں پہن کر ایئر کنڈیشنر اور ہیٹر میں گرمی سردی نکالنے والے ان کو کیا معلوم کہ ایک عام سیمنٹ کے دو کمروں والے تنگ سیلن زدہ گھروں میں بچوں کے تعلیم ، روزگار اور رزق کی پریشانیاں لیے دن کے پانچ سو کما کر روز خرچ کر کے ، ہر اگلے دن کی خالی جیب ابتداء کرنے والے کیسی زندگی گزارتے ہیں ۔ جن کے بوسیدہ لباس سے گرمی میں پسینے اور سردی میں ہاتھ اور پاؤں کی ٹھٹھرتی سرد ہو کر نیلی ہوتی ہاتھ پاؤں کی انگلیاں جواب دے جاتی ہیں ۔ لیکن اپنے بچوں کی آس لیے چہرے اپنی آنکھوں کے سامنے گھومتے دیکھ کر وہ ہر موسم بھول جاتے ہیں ۔ زمینی حقائق سے کوسوں دور ، بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے، یہ کیا جانیں ہمارے سرکاری سکول میں آج بھی نصاب میں پیاسا کوا اور چالاک لومڑی سے ہم بچوں کو آگے نہیں لے کے آسکے ۔ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو کبھی کسی نے ابھارنے کی کو شش ہی نہیں کی ۔ لوگ اپنا کل سنوارتے ہیں اور ہم تباہ کر رہے ہیں عفان ۔ کسی کو تو آگے آنا ہے ۔ کسی کو تو ہمت کرنا ہے ۔ کوئی تو پہلا قطرہ بنے ۔ بہت لوگ اپنی اپنی جگہ کوشش کر رہے۔ہم کیوں ان کوشش کرنے والوں کے ساتھ شامل نہ ہوں ۔ جتنا اس فیلڈ میں آکر کرسکتے اتنا تو کریں ۔ ‘‘ عفان نے پہلی بار اس کو اتنا تفصیل سے بات کرتے دیکھا تھا ورنہ تو وہ بڑی نپی تلی بات کرتا تھا۔
اب بھی جب سے عفان نے اس کے الیکشن میں حصہ لینے کا سنا تھا تب سے وہ پریشان تھا ۔ وہ جانتا تھا کہ چوہدریوں کو مقابلے میں وہ کچھ بھی نہیں ہیں ۔ بابا کی وفات اور ان کے اثاثے ضبط ہونے کے بعد بھی ورثہ اتنا تھا ان کے نام کہ وہ ایک پرسکون زندگی گذار سکتے تھے ۔ دو گاؤں میں ان کی حکومت اب بھی تھی جو کبھی پچاس پر ہوا کرتی تھی ، اب محدود تھی۔ کوئی بہت خاص شہرت بھی نہ تھی کیونکہ بابا ایکٹو تھے اس سب معاملات میں ۔ ان کے جانے کے بعد نہ چچا نے اتنی دلچسپی لی تھی نہ ان دونوں نے مگر عمر کی باتوں پر وہ قدرے قائل ہوا تھا لیکن پریشانی اپنی جگہ تھی۔
’’ یہاں کا نظام … یہ کبھی بھی آپ کو آگے آنے نہیں دیں گے بھائی ۔ آپ چوہدری خاندان کی پہنچ سے واقف ہیں پھر بھی ؟ آپ جانتے ہیں ہار جائیں گے ۔ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ کوئی کامیاب انتخابی مہم چلا سکیں ۔ ایسے میں ایک آزاد امیدوار بن کر سامنے آنا اور اس اشرافیہ سے ٹکر لینا بیوقوفی ہے ۔ آپ شہر آکر کوئی سکول کھول لیں مفت بچوں کے لیے ، کوئی اور فلاحی کام کر لیں اس سب میں تو آپ کی جان کو بھی خطرہ ہے اور ویسے بھی نقصان ہی ہے ۔‘‘ وہ ابھی بھی بضد تھا کہ عمر اپنی ضد چھوڑ دے ۔ سکندر دونوں کے بیچ ہمیشہ کی طرح خاموش سامع کا کردار ادا کر رہا تھا ۔
’’ تم اپنی جگہ ٹھیک ہو عفان لیکن مجھے یہ کرنا ہے۔ ہار جیت اہم نہیں کرتی، کوشش میٹر کرتی ہے ۔ میری دلچسپی بھی ہے اس میں اور میں یہ ضرور کروں گا۔ ‘‘ وہ بازو فولڈ کرتا کھڑا ہوگیا تھا گویا بات ختم ہوگئی تھی۔
’’چھوڑ دو عفان اس کو اس کے حال پر ۔ یہاں جو بھی نیا نیا سیاست میں آتا ہے وہ ایسے ہی دعوے کرتا ہے ۔ تمہارے باپ نے صاف ستھرے طریقے سے چلنا چاہا مگر مارا گیا۔ معصوموں کی ادھر کوئی جگہ نہیں ۔‘‘ دادی نجانے کب اندر آگئی تھیں ۔ عفان ان کی بات سن کر تیزی سے ان کی طرف بڑھا اور ان کی وہیل چیئر دھکیلتا ہوا اندر لے آ یا ۔ ان کو آتا دیکھ کر عمر بھی مؤدب طریقے سے بیٹھ گیا تھا ۔ انہوں نے نگاہ غلط بھی اس پر نہیں ڈالی تھی ۔عمر کے ساتھ اکثر ہی ان کی ناراضگی اور منانے کا عمل چلتا رہتا تھا لیکن اس دفعہ وہ سخت ناراض لگ رہی تھیں ۔ ان کاجھریوں زدہ سفید چہرہ اس وقت فکر میں مزید بوڑھا لگ رہا تھا ۔
’’دادو آپ سمجھنے کی کو شش کریں پلیز ۔ پڑھے لکھے لوگوں کی ، نیک نیت لوگوں کی ضرورت ہے اس فیلڈ کو۔ ‘‘ عمر ان کے قدموں میں آکر ان کا گھٹنہ تھام کر دھیمے لہجے میں بولا تھا ۔
وہ خاموش اپنی بوڑھی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھیں ۔ ان کی قریب کی نظر بالکل ختم ہوگئی تھی تقریباََ لیکن اپنے پوتے کا چہرہ اور اس کی سیاہ آنکھوں میں چمکتا ارادہ انہیں صاف نظر آرہا تھا ۔ یہ ان کی آنکھیں نہیں ان کا تجربہ تھا جو سب دیکھ رہا تھا ۔اس جنگ میں انہوں نے سب ہی گنوا دیا تھا ۔ وہ بالکل اپنے باپ کی طرح تھا ۔ اپنا بیٹا بھی ایسے ہی کھویا تھا انہوں نے۔ اس کی پھانسی زدہ جوان لاش دیکھ کر وہ اپنی بینائی کھو بیٹھی تھیں۔
اس کے بعد اپنے چھوٹے بیٹے کو انہوں نے اس سب سے بہت دور کرلیا تھا اور اپنا سارا خاندان سمیٹے بس خاموشی سی یہ پچیس سال گزارے تھے ۔ اس عرصے میں شہر کے بڑے بڑے سیاستدان ان کے پاس آتے تھے حمایت کے لیے، ان کا ایک نام تھا لیکن وہ کسی کی حمایت پر رضامند نہیں ہوتی تھیں ۔ ہاں ان کو اپنے علاقے میں مہم چلانے کی بخوشی اجازت دیتی تھیں ۔ آج برسوں بعد ان کا تیس سالہ پوتا پھر سے وہی راہ پر آ کھڑا ہوا تھا ۔ وہ سب دشمنیاں، خون خرابہ جس سے انہوں نے بیوگی کی چادر اوڑھی تھی، پھر جوان بیٹے کی موت دیکھ کر آنکھیں کھوئی تھیں ، ان سے جان چھڑوا کر انہوں نے بہت باوقار طریقے سے یہ پچیس سال گزارے تھے ۔ پورے رعب سے بھی اور ہمت سے بھی لیکن ماضی ایک بار پھر ان کے سامنے آکھڑا ہوا تھا۔
’’اس سب میں ہمارا نقصان ہوگا عمر… اور کچھ نہیں ۔‘‘ وہ رک رک کر بولی تھیں ۔ لہجے میں ہزار سوچیں اور لاکھوں اندیشے تھے ۔
’’میں کچھ بہتر کرنا چاہتا ہوں دادوکوئی کو شش ،میرے لوگوں کے لیے…پلیز۔‘‘ وہ اب منت کر رہا تھا۔
’’میں نقصان نفع نہیں دیکھ رہا ۔ میں بس کچھ ایسا کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے یہ گلٹ نہ رہے کہ میں کرسکتا تھا اور میں نے کیا نہیں استطاعت کے باوجود ۔ میرا نقصان ہوگا یا فائدہ میں نہیں جانتا ۔ آپ ہمیں حضرت عثمانؓ کا قصہ سناتی تھیں ۔ جنہوں نے کنواں خرید کر اللہ کی راہ میں وقف کردیا اور جنت کی بشارت لی ۔ سارا مدینہ اور ضرورت مند لوگ مفت وہاں سے پانی پیتے تھے اور حضرت عثمانؓ کو شہادت کے وقت پانی نہ مل سکا ۔ ان کو پیاسا شہید کیا گیا ۔ انہوں نے کیا اپنا نفع نقصان دیکھا تھا ؟ایسی مثالوں سے ہمارے تاریخ بھری پڑی ہے دادو ۔ میں ان کی خاک کے برابر بھی نہیں مگر کیا میں کوشش بھی نہیں کرسکتا؟‘‘ اس کی لاء کی ڈگری آج کام آرہی تھی ۔ کم از کم سکندر اور عفان کو یہی لگا تھا ۔ وہ اگر اتنی چھوٹی عمر میں زمینوں کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب وکیل تھا تو کسی وجہ سے ہی تھا ۔ اس نے دادو کو منا کر ہی دم لیا تھا ۔ جنہوں نے لرزتے کانپتے ہونٹوں سے اس پر دل میں نجانے کتنی دعائیں پڑھ کر پھو کی تھیں۔ اس کمرے میں موجود چاروں نفوس جو خونی رشتوں کے سااتھ احترام اور عزت کے رشتوں میں بندھے تھے، اپنی اپنی جگہ ایک دوسرے کے لیے فکرمند اپنی اپنی سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔
٭…٭…٭
’’تم انکار کردو بابا جان کو سیدھی طرح ، اگر انکار نہیں کر سکتی تو پھر چپ چاپ جا کر شادی کرلو ۔ کوئی ایک کام کرو اور رونا بند کرو ۔‘‘ زینب اس کو پچھلے دو گھنٹوں سے روتا دیکھ کو اب زچ ہوئی تھی ۔ تب سے وہ اسے سمجھا رہی تھی، ہر حل بتا چکی تھی ۔ لیکن وہ نہ ہی اس کی کچھ سننے کو تیار تھی نہ ہی شادی کرنے کو تیار تھی ۔
’’میں…میں…میں بہت بزدل ہوں اور میرے جیسے کم ہمت، احساس کمتری کا شکار لوگ…صرف…صرف رو سکتے ہیں اپنی قسمت پر ۔‘‘ وہ ہچکیاں لے رہی تھی اب باقاعدہ ۔ زینب خاموشی سے اس کے معصوم چہرے کو آنسوؤں سے بھیگتا دیکھ رہی تھی۔
’’ردا۔‘‘ زینب نے اسے ساتھ لگایا ۔
’’دیکھو اگر تم اس فیصلے کے خلاف نہیں جانا چاہتی بقول تمہارے تو پھر اس کے بارے میں اچھی چیزیں سوچو ۔ وہ لڑکا پڑھا لکھا ہے، امیر ہے، دکھنے میں بھی اچھا ہے ۔ خوش رہ لو گی تم۔ ایسے رو رو کر کیسے کمپرومائز کرو گی تم یار۔‘‘ زینب نے اب اس کا سر سہلاتے ہوئے اس کو سمجھانے کی آخری کو شش کی تھی ۔
’’جب تمہیں کوئی اور پسند ہی نہیں تو پھر اتنا رونا کس بات کا ہے آخر، جب بھی کرنی ہے ۔ کرنی تو ارینج میرج ہی ہے ناں، ابھی کرلو پھر ۔ ‘‘ زینب کو اس کے رونے کی منطق بالکل بھی سمجھ نہیں آرہی تھی۔
اس کی بات پر ردا کا رونا اور تیز ہوگیا تھا ۔ ذہن کے پردے پر دو یک ٹک دیکھتی آنکھیں ابھری تھیں۔
’’پسند ہو بھی تو کون ساہوجائے گی ادھر ۔‘‘روتے روتے اس کے منہ سے بے اختیار نکلا تھا ۔ زینب ایک لمحے کو سن ہوئی پھر پیچھے ہوئی تھی۔
’’کیا مطلب ہے اس بات کا؟‘‘ وہ بغور اب اس کی طرف دیکھ رہی تھی جانچتی نظروں سے لیکن ردا آنکھ نہیں ملا رہی تھی۔
’’بولو ردا ۔‘‘ زینب نے اسے ہلکا سا جھنجھوڑا مگر وہ اسی طرح چپ تھی۔
’’ تم … تم کہیں اس عفان سے؟‘‘ بے تحاشہ دھڑکتے دل کے ساتھ زینب دل کا خدشہ زبان پر لے کر آئی تھی اور جواباََ ردا اس سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی ۔ زینب کو واقعی لگا کہ اس کے پیروں کی نیچے زمین نہیں ہے۔
’’اف خدایا۔‘‘ اس نے اسے ساتھ لگائے سر تھاما تھا۔
’’یہ ناممکن ہے ردا۔اور تم جانتی ہو یہ بات ۔ اس سے بہتر تمہیں آغا جان گولی مارنا پسند کریں گے۔‘‘ وہ فطرتا صاف گو تھی اس لیے اس نے ردا کو کوئی امید نہیں دی تھی ۔
’’میری زندگی میں سب ناممکن ہی رہا ہے ہمیشہ … ہر خواہش، ہر آرزو ادھوری رہی ۔ کبھی بھی آج تک میں کھل کر نہیں بول سکی کسی بھی بات میں۔ اس لیے تو قربانی کا بکرا بنا دی جاتی ہوں ۔ آج تک جیتی آئی ہوں، آگے بھی جی لوں گی ۔ میں تم سے کوئی فیور نہیں مانگ رہی اس سلسلے میں ، لیکن اپنے دل کی موت پر مجھے رو تو لینے دو کم از کم۔‘‘ اس کے تلخ بھیگے لہجے پر زینب ہونٹ چباتے پیچھے ہوئی تھی۔
اسے پوچھے بغیر ہی وہ سمجھ گئی تھی کہ ردا کا کتنا بڑا نقصان ہوگیا ہے ۔ اس کے آنسو، اس کا حلیہ، اس کی ویران خالی آنکھیں ۔ پتہ نہیں کب وہ عفان وحید کی اسیر ہوگئی ۔ اسے وہ واقعی کوئی زندہ لاش لگی تھی اس وقت اور اپنی بہن کو ایسے دیکھنا کتنا تکلیف دہ تھا کوئی اس سے پوچھتا۔
’’کیا اس نے کوئی امید دی ہے تمہیں؟‘‘ زینب نے پوچھا تھا ۔ اس کا دماغ بڑی تیزی سے تانے بانے بن رہا تھا۔
’’نہیں اور وہ اس بارے میں کچھ نہیں جانتا کہ میری کوئی ایسی فیلنگز ہیں۔‘‘ اس نے سر جھکائے ہوئے کہا۔
’’رو لو پھر ایک ہی دفعہ کیونکہ اور کوئی آپشن نہیں تمہارے پاس۔‘‘ زینب جانتی تھی کہ اس وقت ردا کو وہ کتنی بری لگ رہی ہوگی ۔ جب اس کو تسلی کی ضرورت تھی تو وہ اس کو یہ سب کہہ رہی تھی لیکن وہ اسے جلد از جلد حقیقت کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرنا چاہتی تھی ۔ اس کے حق میں یہی بہتر تھا ۔ آج جمعرات تھی ، کل انہیں واپس جانا تھا گاؤں اور اتوار کو شادی تھی۔ اس مختصر ترین عرصے میں وہ اس کی کوئی بھی مدد نہیں کر سکتی تھی ۔ عفان وحید کے علاوہ کوئی بھی شخص ہوتا تو پھر بھی شاید کوئی مدد ممکن ہوتی لیکن یہاں ناممکن تھا ۔ سوچوں کے گرداب میں پھنسی وہ اسے روتا چھوڑ کر باہر آگئی تھی اور بہت دیر تک وہاں ہر زاویے پر سوچنے کے بعد جب وہ اندر آئی تھی تو ردا تب بھی جائے نماز پر بیٹھی رو رہی تھی ۔ ایک لمحے کو زینب کو لگا کہ اس کا دل پھٹ جائے گا مگر پھر وہ فیصلہ جو وہ گھنٹوں باہر کھڑی نہیں کر سکی تھی اس نے ایک پل میں کرلیا تھا ۔ جھٹکے سے موبائل اٹھا کر وہ باہر نکل گئی تھی۔
٭…٭…٭
اندھیرے کی چادر مکمل طور پر ہر شے کو ڈھانپ چکی تھی ۔ ہر طرف ایک سناٹا تھا جو ایک آدھ لمحے کے لیے کسی جانور کی آواز پر ٹوٹتا تھا مگر پھر سے پھیل جاتا تھا ۔ اس سناٹے اور اندھیرے میں وہ سیاہ لباس میں ملبوس اسی تاریکی کا حصہ بنا ہوا چھت پر بچھی کرسی میں بیٹھا کسی گہری سوچ میں گم تھا ۔ آگے کیا ہونا تھا، اس کا فیصلہ غلط تھا یا صحیح ۔ یہ وقت ہی بتانے والا تھا مگر وہ رسک لینے کا عادی تھا ۔ اپنے بے حد مضبوط اعصاب کے ساتھ اسے یقین تھا کہ اگر یہ فیصلہ غلط بھی ثابت ہوا تو بھی وہ سہہ لے گا ۔ اپنے گھر والوں کے کنسرن دیکھ کر وہ بھی پریشان تھا مگر پرسکون تھا ۔ اس کی نیت صاف تھی ، اس کا باپ معصوم تھا اس لیے دھوکے میں آگیا اور اس میدان کے منجھے ہوئے کھلاڑیوں نے اسے آرام سے استعمال کے بعد ٹریپ کروا دیا تھا مگر وہ معصوم نہیں تھا ۔ بے شک وہ ایک اچھے دل اور نیت کے ساتھ جا رہا تھا لیکن وہ بیوقوف نہیں تھا ۔ موقعے کی مناسبت سے فائدہ اٹھانا ، اپنی تیز حسیات کی بنا پر خطرے کو بھانپ لینا اور انسان سے ایک بار مل کر وہ اس کے اندر تک کھوج لیتا تھا ۔ اس لیے یہ اعتماد تو اسے تھا کہ وہ کوئی ترنوالہ نہیں ثابت ہوگا کم ازکم ۔ پانچ سالہ وکالت نے اتنا بھروسہ اسے خود پر کروا دیا تھا ۔ نجانے کب تک وہ ان خیالوں میں ڈوبا رہتا لیکن موبائل کی بیل پر وہ چونکا تھا ۔ اور اس سے بھی زیادہ وہ چونکا اس بات پر تھا کہ کال فیس بک میسنجر پر آرہی تھی۔ وہ بھی رات کے تین بجے۔
اس نے حیرت سے کالر آئی ڈی کا نام دیکھا جہاں’’گھوسٹ ‘‘ لکھا آرہا تھا۔
’’وقت تو واقعی بھوتوں کی کال کا ہی ہے ۔‘‘ اس نے بڑبڑاتے ہوئے اندھیرے کو دیکھا اور کال اٹینڈ کی تھی۔
’’السلام علیکم ۔‘‘ عادتاََ اس نے فون اٹھاتے ہی اپنے مخصوص سنجیدہ اور گھمبیر لہجے میں کہا۔
جوابا کچھ لمحے دوسری طرف خاموشی چھائی رہی۔
’’مسٹر بھوت؟‘‘ اس نے خود ہی پکارا ۔ انداز طنزیہ تھا ۔ جیسے کہہ رہا ہو فون کیا ہے تو بات بھی کرلو اب۔
’’مجھے آپ کے بھائی عفان سے بات کرنی ہے ۔ اس کا فون مسلسل آف جا رہا ہے، یا تو اس کا کوئی دوسرا نمبر مجھے دے دیں یا اس سے میری بات کروا دیں ۔ کیونکہ میرے پاس اس کا ایک ہی نمبر ہے جو کلاس کے واٹس ایپ گروپ میں ایڈ ہے۔‘‘دوسری طرف سے آتی نسوانی آواز اور بات پر وہ حیران ہوتا کھڑا ہوگیا تھا۔
بہت اچھی کہانی ہے لیکن محبت سے شروع ہو کے سیاست پہ ختم ہو گئی رائٹر نے کہیں پہ بھی بور نہیں ہونے دیا اور الفاظ کے خوبصورت جال بنے جنہوں نے اپنے اثار میں ہمیں رکھا اینڈ والی ایک ساتھ میں سیاست کو زیادہ تھی شاید یہ کہانی کی ڈیمانڈ تھی لیکن کچھ کچھ ملک کے حالات سے بھی ملتی جلتی تھی شاید جن دنوں میں کہانی لکھی گئی ہو ان دنوں میں ملک کی حالت بھی ایسی تھی بہرحال محبت اور نفرت پر مبنی ایک بہت اچھی تخلیق تھی