خرمنِ قلب: قسط نمبر 1
سر شام ڈھلتے سورج کی ٹھنڈی کرنیں اور سکھ چین کے درخت کی چھاؤں میں ٹیوب ویل کے ساتھ بچھی چارپائیوں پر وہ دونوں براجمان تھے۔ ان میں سے ایک خاموشی اور ادب سے بیٹھا دوسری چارپائی پر بیٹھے اس نوجوان مرد کو دیکھ رہا تھا ۔ جو بے چینی سے سڑک کے اس پار آم کے باغات کے درمیان سے نکلتی کچی پگڈنڈی پر نظریں جمائے ہوئے تھا ۔
تقریبا پچھلے پانچ گھنٹوں سے دونوں اسی پوزیشن میں وہ وہاں تھے ۔ سورج اس وقت تپ رہا تھا اور اب ٹھنڈا ہوگیا تھا مگر ان کا انتظار ختم نہیں ہوا تھا ۔ اور یہ کوئی آج کی بات نہیں تھی ۔ پچھلے پورے دو ہفتوں سے وہ صبح شام ادھر آکر بیٹھتے تھے ۔ ان میں سے ایک یونہی دیوانوں کی طرح اس پگڈنڈی کو دیکھتا رہتا تھا اور سکندر اس کے ساتھ یونہی بیٹھا رہتا تھا ۔ سوال کرنے کی نہ اس کی عادت تھی نہ مزاج ۔وہ بس حکم ماننے کا عادی تھا ۔ اب بھی وہ خاموش مؤدب بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا ۔ سامنے بیٹھے بندے کے ہر راز کا امین تھا سکندر اس لیے وہ بھی اس کو ہر وقت ساتھ رکھتا تھا ۔اور پھر انتظار رنگ لے آیا تھا۔
سڑک کے اس پار باغوں میں کوئی ہلچل ہوئی تھی ۔ تیز رفتار گاڑیوں کی آوازیں تھیں جو دور سے ہی سنائی دے رہی تھیں۔ کچھ ہی لمحوں بعد یکے بعد دیگرے چار بڑی گاڑیاں اس پگڈنڈی سے نکلی تھیں ۔ وہ بے اختیار کھڑا ہوگیا تھا اور سکندر بھی اس کے ساتھ کھڑا ہوا۔ان آندھی طوفان کی طرح گرتی گاڑیوں میں اسے بس ایک جھلک نظر آئی تھی سرخ دوپٹے میں روشنیاں بکھرتے اس چہرے کی اور دو ہفتوں کے صبر اور یکدم طویل انتظار کو گویا پھل مل گیا تھا ۔ سرشاری ہی سرشاری تھی۔ اندر باہر طرف ایک سکون تھا جو پھیل گیا تھا ۔ پورے دل سے وہ مسکرایا تھا اور پھر بیٹھ گیا تھا۔
’’بیٹھ جاؤ سکندر۔‘‘اس نے اسے کھڑا دیکھ کر اسی خوشی سے کہا۔وہ چپ چاپ بیٹھ گیا۔
’’جانتے ہوسکندر، اس ایک لمحے کی آس میں میں نے کتنی دعائیں کی ہیں۔کیا کیا منت مانگی ہے۔‘‘ وہ کھویا ہوا کہہ رہا تھا اور سکندر یک ٹک اس کے خوبرو چہرے کو دیکھ رہا تھا ۔ جہاں چھپی محبت کی چھاپ نے گویا اس کی شخصیت کی دلکشی میں مزید اضافہ کر دیا تھا ۔ اس کا بے اختیار جی چاہا تھا کہ پوچھے اس ایک جھلک سے کیا حاصل ہوگیا اس کو مگر وہ خاموشی سے یہ سوال دل میں دبائے اس کے کلف لگے کاٹن کے سیاہ سوٹ پر جگہ جگہ پسینے سے لگے سفید داغ دیکھتا رہا۔
’’نجانے کب یونیورسٹی کھلے گی اور میں واپس جاؤں گا اور روز اس کو دیکھوں گا ۔‘‘اس کے لہجے کی یاسیت پر اب سکندر چپ نہیں رہ سکا تھا ۔
’’اس راہ میں سوائے کانٹوں کے اور کچھ بھی نہیں ہے عفان ۔‘‘ وہ خادم تھا مگر دوست بھی تو تھا اور بڑا بھی تھا۔سب سے بڑی بات کہ خالص تھا ۔ اس کی وفاداری اس بندے کے لیے بے داغ تھی۔ اسے اس کھائی میں گرتا دیکھنا اس کے لیے بہت مشکل تھا ۔ سڑک کے اس پار بسنے والے لوگ بہت قریب تھے ۔ قریبی زمینوں میں بستے تھے مگر دلوں میں لاکھوں سالوں جتنا فاصلہ اور نفرت اور دشمنی کی بڑی بڑی چادریں تھیں جنہیں کوئی کبھی ختم نہیں کر سکتا تھا ۔ یہ یکطرفہ محبت کی جو کونپل عفان وحید اپنے دل میں کھلا بیٹھا تھا ۔ اس کاانجام کیا ہوگا سکندر بہت اچھے سے جانتا تھا۔ اور اس کے جنون اور دیوانگی سے بھی واقف تھا مگر اس میں سوائے بربادی کے حاصل وصول کچھ بھی نہیں تھا ۔
’’اور اس راہ کے علاوہ اور کوئی راہ ہی نہیں میرے پاس۔ ایم ہیلپ لیس۔‘‘ وہ سر جھکا کر بولا تھا۔ سکندر کو اس پر ترس کے ساتھ ساتھ پیار بھی آیا تھا۔ اس وقت وہ کسی بچے کی طرح لگ رہا تھا جو ہر صورت اپنی پسندیدہ چیز حاصل کرنا چاہتا تھا ۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور بولتا پیچھے سے ہارن کی آواز پر دونوں چونکے اور پیچھے مڑ کے دیکھا۔ سامنے بلیک مرسڈیز میں سے اترتے سفید لباس میں ملبوس دراز قامت عمر وحید کو اترتا دیکھ کر وہ دونوں کھڑے ہوگئے تھے۔ وہ سنجیدگی سے ان دونوں کو دیکھتا ادھر ہی آرہا تھا ۔ اس کے کھڑے نقوش اور چہرے پر ثبت سنجیدگی بتا رہی تھی کہ وہ زیادہ ہنسنے بولنے کا عادی نہیں ہے۔
’’تم دونوں اتنی گرمی میں ادھر کیا کر رہے ہو ۔‘‘ اس کی گہری اندر تک جھانکتی نظروں پر وہ دونوں ہی نظر چرا گئے۔ عمر سے جھوٹ بولنا بہت مشکل تھا۔ وہ بہت جلدی جانچ لیتا تھا۔
’’عفان کا دل کر رہا تھا گاؤں کی سیر کا، بس وہی کر کے ادھر آکر بیٹھ گئے ۔‘‘ سکندر نے جواب دیا ۔ عمر خاموشی سے دونوں کے پسینے کے داغوں سے بھرے لباس دیکھ رہا تھا۔
’’یہ کتنے دنوں میں ختم ہوگی سیر ویسے؟‘‘اس کا ٹھنڈا پرسکون لہجہ ان کا سکون تہہ و بالا کر رہا تھا۔ اس کی بات بتا رہی تھی کہ وہ ایک ماہ سے شہر میں تھا ضرور مگر بے خبر نہیں تھا ۔ اسے یقینا علم تھا کہ وہ دو ہفتوں سے ہر روز ادھر آتے ہیں ۔
’’جب تک یونیورسٹی نہیں کھل جاتی ۔‘‘اب کے عفان نے سچ بولا تھا مگر آدھا سچ…
’’تب تک فارغ ہوں تو ادھر بیٹھنا اچھا لگتا ہے بھائی ۔‘‘ اب کے اس کا لہجہ پر اعتماد تھا ۔عمر کی جان اس میں تھی یہ وہ جانتا تھا ۔ اور اس کی فکر میں ہی وہ اس کے ایک ایک لمحے کی خبر رکھتا تھا مگر یہ راز ابھی وہ اسے بتا کر پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔
’’چلو اب میں آگیا ہوں تو اب تم بور نہیں ہوگے۔‘‘ اس کے مسکرانے پر ان دونوں کی جان میں جان آئی۔
’’چلو آؤ میرے ساتھ ۔‘‘ان کو اشارہ کرتا وہ واپس گاڑی کی طرف بڑھا۔ وہ دونوں بھی خاموشی سے اس کے پیچھے آگئے تھے۔
٭…٭
سیڑھیوں کی ایک لمبی قطار تھی جو انہوں نے ابھی چڑھنی تھیں ۔ قدرے بے بسی سے انہوں نے مڑ کر اس لمبی قطار کو دیکھا جس کو وہ پار کر آئی تھیں اور ہانپ رہی تھیں۔ ہاتھ میں پکڑے ہینڈ کیری نے تھکاوٹ مزید بڑھا دی تھی اوپر سے وقت کی قلت کے باعث ان کے پاس ذرا سا سستانے کا وقت بھی نہ تھا۔
’’اگر تم شرافت سے کل ہی آجاتی تو اتنا ذلیل نہ ہونا پڑتا اب۔‘‘ ردا نے روہانسے لہجے میں اس کو مخاطب کیا تھا ۔ جس کی ضد کی وجہ سے وہ عین کلاس سے آدھا گھنٹہ پہلے ہوسٹل پہنچی تھیں ۔ کل سے وہ زینب کی منتیں کر رہی تھی جانے کے لیے لیکن وہ بھی اپنے نام کی ایک تھی ۔ گھر سے صبح سے پہلے نہیں نکلی تھی ۔
‘’’’سر احمد لیٹ ہی آتے ہیں ٹینشن نہ لو ۔‘‘ زینب نے سکارف سے ڈھکے سر میں ہلکی سی خارش کرتے ہوئے جواب دیا اور دوبارہ سیڑھیاں چڑھنے لگی ۔ وہ بھی تھکی ہاری اس کے پیچھے آئی تھی ۔ اس کے ساتھ ہمیشہ ہی ایسے ہوتا تھا۔ کہنے کو وہ زینب سے بڑی تھی مگر چلتی ہمیشہ زینب کی تھی۔ وہ فطرتا ایسی تھی۔ دونوں میں مثالی محبت تو تھی ہی مگر اسے شروع سے ہی زینب کی انگلی پکڑ کر چلنے کی عادت ہو گئی تھی۔ ہزار کوششوں کے باوجود بھی وہ زینب جیسی خود اعتمادی کبھی اپنے اندر نہیں لا سکی تھی۔بیگز کمرے میں تقریبا پھینک کر وہ دونوں سکارف سیٹ کرتی دوبارہ نیچے دوڑی تھیں۔ کیمپس پہنچتے پہنچتے دیر ہو ہی گئی تھی۔ تقریبا بھاگنے والے انداز میں سیڑھیاں چڑھتے ہوئے وہ کیمپس میں داخل ہوئی تھیں ۔ اور اسی وقت ہی زینب اندر سے تیزی سے نکلتے دراز قامت شخص سے بری طرح سے ٹکرائی تھی۔ اس زور دار ٹکر پر ایک لمحے کو تو اسے دن میں تارے نظر آگئے تھے ۔ مقابل کی گھڑی بہت زور سے اس کے ناک پر لگی تھی اور ہلکا سا خون رس آیا تھا ۔ آگ بگولہ ہوتے ہوئے اس نے سر اٹھا کر اس بندے کو دیکھا اور پھر ساکت ہوگئی ۔ سامنے بلیو کلف لگے کاٹن کے سوٹ میں کھڑے عمر وحید کو دیکھ کر وہ بہت کچھ کہتے کہتے رک گئی تھی ۔ یقینا وہ کیمپس اپنے بھائی کو چھوڑنے آیا ہوگا ۔ اس کے پیچھے کھڑی ردا سدا کی ڈرپوک ان دونوں کو دیکھ کر ویسے ہی سفید پڑگئی تھی۔
’’آئی ایم سوری ۔‘‘ سن گلاسز اتار کر اس نے قدرے افسوس سے اس کے ناک پر آئی چوٹ کو دیکھا اور سنجیدہ لہجے میں معذرت کی تھی۔
’’اٹس اوکے ۔ اس کی جگہ آپ کو نظر کا چشمہ استعمال کرنا چاہئے ویسے ۔‘‘ جوابا وہ اس کی سن گلاسز کی طرف اشارہ کرتی مفت مشورہ دیتی بنا اس کے سرد ہوتے تاثرات دیکھے ردا کو کھینچتے ہوئے اندر چلی گئی تھی ۔
کلاس میں داخل ہوتے ہی عفان وحید کے چہرے پر ردا کو دیکھ کر آنے والی رونق اس کی نظروں سے چھپی نہیں رہی تھی ۔ وہ کچھ بھی نہیں کہتا تھا بس دیکھتا رہتا تھا اسے اور یہ بات آہستہ آہستہ تقریبا سب ہی نوٹس کرنے لگے تھے ۔ اسی چیز سے زینب کو تکلیف تھی۔ وہ کسی صورت اپنی بہن کے بارے میں ایسی باتیں پھیلتی ہوئی برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ اس کا آج عفان کو اچھی سنانے کا ارادہ تھا ۔
’’ تم کیوں پیلی پڑ رہی ہو ۔‘‘اس نے ردا کو عفان کی طرف دیکھ کر ڈرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔
’’ نہیں تو ویسے ہی ۔ ناشتہ بھی نہیں کیا مجھے لگ رہا ہے میرا بی پی لو ہوگیا ہے ۔‘‘ ردا کو واقعی اپنا جسم بے جان سا لگ رہا تھا۔ اس شخص کی بے انتہا بولتی آنکھوں کے سامنے اسے ایسے ہی لگتا تھا۔
’’میرے بیگ میں ہے سینڈوچ ۔ چچی نے آتے ہوئے ٹفن دیا تھا، کھا لینا ۔‘‘ اسے تسلی دیتی وہ سیٹ کی طرف بڑھی۔
’’ملکوں کی تاریخ پڑھی ان چھٹیوں میں ، تاڑنا اور ذلیل ہونا ان کی فطرت میں ہے ۔‘‘ عفان وحید کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے کافی بلند آواز میں کہا تھا مگر شو ایسے کیا جیسے ردا سے بات کر رہی ہو۔ لیکن جسے سنانا تھا وہ سن چکا تھا مگر اثر کوئی نہیں ہوا تھا اس پر ۔ جواب وہ بھی دے سکتا تھا لیکن یہ اسے سکھایا ہی نہیں گیا تھا کہ کسی لڑکی سے بدتمیزی کرے یا بحث کرے۔
’’کیا بکواس کر رہی ہو۔‘‘ ردا نے ا س کا ہاتھ زور سے دبایا تھا اس خبرنامے پر اور کھینچ کر سیٹ پربٹھایا تھا۔
’’کچھ لوگ اوقات سے باہر ہوئے ہوئے آج کل ۔ وہی یاد دلا رہی ہوں ان کو۔‘‘ وہ کون سا باز آنے والی تھی۔
’’چپ ہوجاؤ زینب ۔‘‘ ارد گرد کے سٹوڈنٹس کو اس طرف متوجہ ہوتا دیکھ کر ردا دبی دبی آواز میں چلائی تھی۔ ان میں سے اکثر واقف تھے کہ وہ دو ایسے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے جو ماضی میں ایک دوسرے کے جانی دشمن رہ چکے تھے ۔ جن کا ماضی ایک دوسرے کے خون سے رنگا ہوا تھا۔
’’میں کیوں چپ ہوجاؤں ۔ اگر کوئی اپنی ذلیل حرکتوں سے باز نہیں آتا تو میں کیوں آؤں ۔‘‘ وہ تنک کر ردا کا ہاتھ پیچھے کرتی بولی تھی ۔ عفان ایک لفظ بھی کہے بغیر اٹھ کر باہر چلا گیا تھا۔
’’اب مل گیا سکون تمہیں ۔‘‘ ردا کے منہ سے بے اختیار نکلا تھا۔
’’تمہیں بہت تکلیف ہورہی ہے اس کے باہر جانے پر ؟ ‘‘زینب کی توپوں کا رخ اب ا س کی طرف ہوا تھا۔ ردا گڑبڑائی تھی۔
’’نہیں، مجھے تمہارے اس طرح کے بیلو دی بیلٹ کمینٹس پر افسوس ہورہا ہے زینب ۔‘‘ اس نے پہلی بار قدرے بڑے پن والے رعب سے کہا تھا۔
’’اور جو تمہاری بلاوجہ کہ مشہوری ہورہی ہے اس کی ٹھرکی فطرت کی وجہ سے وہ؟‘‘ وہ مزید تپی تھی۔
’’وہ کچھ بھی نہیں کہتا ہمیں زینب ۔ ایشو مت بناؤ۔‘‘ سر حیدر کو اندر آتا دیکھ کر اس نے آواز مزید آہستہ کرلی تھی۔
’’یہ بہادری اور حمایتیں تم ایک دفعہ ذرا بابا جان اور تایا ابو کے سامنے کرکے دکھا دو نہ مجھے ۔ پیر مان لوں گی تمہیں ۔‘‘ زینب نے خود کو نارمل کرتے ہوئے گہرا سانس بھرتے کہا ۔
جوابا وہ خاموش رہی ۔ وہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ اس شخص کی بولتی آنکھیں اسے واقعی بے بس کر دیتی ہیں ۔ وہ مسلسل ایک لمبے عرصے سے کیا جانے والا خاموش اظہار اس کے دل کو پتہ نہیں کب اس شخص کے لیے دھڑکنا سکھا چکا تھا مگر وہ بزدل تھی ۔ وہ کبھی اعتراف کر ہی نہیں سکتی تھی ۔ روایتوں اور دشمنیوں کی لڑی میں پرویا ہوا ، جکڑا ہوا اس کا وجود اپنے دل کی خواہش کبھی پوری کرنے کا سوچنا تو دور کی بات زبان پر بھی نہیں لاسکتا تھا ۔ اس نے رشک سے رجسٹر پر لکھتے زینب کے بے فکرے چہرے کو دیکھا ۔ کتنی خوش قسمت تھی وہ، جو اس کے دل میں ہوتا تھا ۔ فٹ اگلے کے منہ پر مارتی تھی۔ اور ردا کے لیے تو وہ گویا ڈھال تھی ۔ ہر جگہ اس کی ایسے حفاظت کرتی تھی جیسے وہ بڑی ہو ۔ اسے رشک کے ساتھ قدرے پیار بھی آیا۔ کھڑکی میں سے چھن چھن آتی سورج کی روشنی میں اس کابنا کسی آرائش کے چمکتا چہرہ اور ناک میں موجود وہ چھوٹے سے نگ والی نوز پن اسے مزید مغرور دکھاتی تھی ۔ اس کے ایسے دیکھنے پر زینب نے چونک کر اسے دیکھا ۔ وہ ابھی بھی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ زینب نے ہاتھ اس کی آنکھوں کے آگے ہلایا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ اس کو ایسے یک ٹک دیکھتا پا کر وہ وہ حیرت سے بولی تھی ۔
’’کچھ نہیں ۔‘‘ ردا نے مسکراتے ہوئے نظریں وائٹ بورڈ پر جما دی تھیں ۔
’’ تم پر بھی اس عفان کا اثر ہوگیا ہے سچ میں۔ ‘‘ زینب کی سرگوشی پر وہ ایک بار پھر ساکت ہوئی پھر ہنس پڑی تھی ۔ زینب بھی اس کے ساتھ ہنسی تھی مگر سر حیدر کی چشمیکے پیچھے سے گھورتی نظروں کو دیکھ کر ان کی ہنسی کو بریک لگی تھی۔ دونوں نے شرافت سے سر جھکا لیا تھا۔
٭…٭…٭
’’اس دفعہ الیکشن میں ملکوں کی حمایت کس امیدوار کے ساتھ ہے زوار، کوئی خبر ہے تمہیں؟‘‘ بابا جان کے پوچھنے پر چائے کے سپ لیتا زوار ان کی طرف متوجہ ہوا تھا ۔ وہ اور تایا ابو دونوں ہی اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔
’’مجھے اس بارے میں ابھی کوئی علم نہیں ۔ شاید آغا جان کے پاس خبر آگئی ہو ۔‘‘ اس نے دادا کا زکر کیا ۔ وہ سب جانتے تھے کہ وہ ہر چیز سے کتنا باخبر رہتے تھے ۔
’’ویسے آپ کو اس بات سے اتنی دلچسپی کیوں ہے؟‘‘ وہ حیران ہوا تھا ۔ ایک بابا جان ہی تو تھے جو ذرا ملکوں اور ان کے خاندان میں سب سے کم دلچسپی لیتے تھے۔
’’ویسے ہی، میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ اس دفعہ ملک وحید کے بغیر وہ کیا کرتے ہیں ۔‘‘ انہوں نے قدرے سرد لہجے میں کہا۔
’’وہ کل کے لڑکے کیا کریں گے ۔ اس دفعہ بھی شکست ہی ان کا مقدر ہے۔‘‘ تایاجان کے لہجے میں چھپی حقارت پر زوار خاموش رہا تھا ۔ ورنہ وہ کہنا چاہتا تھا کہ پانچ سال پہلے بھی شکست ان کا مقدر اس لیے بنی تھی کیونکہ ملک وحید کو ٹریپ کر کے پکڑوایا گیا تھا اور پھانسی کی پھندے تک پہنچایا گیا تھا ۔یہ کہنا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا اس لیے وہ خاموش رہا تھا۔
بہت اچھی کہانی ہے لیکن محبت سے شروع ہو کے سیاست پہ ختم ہو گئی رائٹر نے کہیں پہ بھی بور نہیں ہونے دیا اور الفاظ کے خوبصورت جال بنے جنہوں نے اپنے اثار میں ہمیں رکھا اینڈ والی ایک ساتھ میں سیاست کو زیادہ تھی شاید یہ کہانی کی ڈیمانڈ تھی لیکن کچھ کچھ ملک کے حالات سے بھی ملتی جلتی تھی شاید جن دنوں میں کہانی لکھی گئی ہو ان دنوں میں ملک کی حالت بھی ایسی تھی بہرحال محبت اور نفرت پر مبنی ایک بہت اچھی تخلیق تھی