خرمن قلب : ساتویں اور آخری قسط
’’ یہ ضد نہیں ہے زینب ، یہ بقا کی جنگ ہے ۔ وہ میری فیملی تک گئے ہیں ۔ تم تک آئے ہیں ۔ تمہاری کمزوری کو استعمال کیا ہے انہوں نے ۔ اگر آج میں نے کچھ نہ کیا تو ہمارا کل بہت خراب ہوگا ۔ وہ اس سے آگے جائیں گے ۔ کچھ بھی کرنے سے نہیں جھجکیں گے ۔ کسی کو تو پہلا قدم اٹھانا ہے ۔ وہ میں ہی کیوں نہ اٹھاؤں؟‘‘ وہ اس کے چہرے کو فوکس میں لیے آہستہ آہستہ بول رہا تھا جہاں صرف اس کی فکریں تھیں ۔
وہ جانتا تھا وہ ہر صورت اس پرخار میدان سے اسے باہر نکالنا چاہتی ہے ۔ ایک سادہ مکمل زندگی گزارنا چاہتی ہے اس کے ساتھ ۔ وہ اسے بتانا چاہتا تھا کہ وہ اسے بہت عزیز ہے سب سے عزیز ۔ یہ سب کچھ یہ اس کا مقصد تو تھا ہی کہ سب بدلے گا لیکن اس سب کی ایک سب سے بڑی وجہ وہ خو د تھی ۔ وہ برداشت نہیں کر پا رہا تھا کہ اس کی زینب کو استعمال کیا گیا ۔ اس کی جان کے تحفظ کے بدلے وہ اتنے بڑے بڑے رسک لے گئی۔
’’ جب ہم انہیں کچھ نہیں کہیں گے تو وہ بھی ہمیں کچھ نہیں کہیں گے ۔ پلیز، چھوڑ دیں یہ سب ۔ دادو کی، امی کی، گھر والوں کی، میری اور میری اولاد کی … ہم سب کی امید ہیں آپ‘ اور آپ۔ ‘‘ اس کے آنسو اب آنکھوں سے باہر آگئے تھے ۔ عمر بے بس سا اس پانی کو دیکھ رہا تھا جو اس کے رخساروں پر آڑھی ترچھی لکیریں بنا رہا تھا ۔ پھر وہیل چیئر گھسیٹتا وہ مزید
آگے آیا تھا ۔ اس کی کرسی کے بالکل پاس۔
’’ تمہیں اللہ پر یقین نہیں ہے کیا ؟ اس نے ایسے حالات میں ہمیں ملایا جب ہم ایک دوسرے کو جانتے بھی نہیں تھے ۔ پھر دور کردیا‘پھر ملادیا ۔ پھر کیوں ڈرتی ہو اتنا ۔ یہ زندگی، موت سب اس کے ہاتھ میں ہے ۔ میں یا تم کسی سے کیسے گارنٹی لے سکتے کسی کی زندگی کی۔ سب کچھ میں چھوڑ بھی دوں تو جب میری موت کا وقت آئے گا تو میں مر جاؤں گا ۔ کوئی اور وجہ بن جائے گی اس وقت۔ ‘‘وہ بنا کچھ کہے سر جھکائے خاموشی سے رو رہی تھی ۔
’’ اب اس کنڈیشن میں تم ایسے روؤگی زینب؟‘‘وہ قدرے خفا ہوا ۔
اس نے فوری سر اٹھایا ۔ کناروں سے قدرے سرخ ہوتی آنکھیں ۔ وہ یقینا پچھلے دنوں سے سو نہیں رہی تھی۔
’’ ان کا تو پتہ نہیں مگر… ‘‘وہ آہستہ سے کہتا رکا ۔ پھر ہاتھ سے اس کے آنسو صاف کیے۔
’’ یہ آنکھیں ضرور مار ڈالیں گی مجھے۔ ‘‘ اس کی بھیگی پلکیں صاف کرتا وہ اس کا ہاتھ اپنے دوسرے ہاتھ میں لیے دل پر رکھتا قدرے بے بس سا بولا تھا ۔ زینب کی آنکھیں جھکی تھیں۔
’’ کیوں اتنی سی عمر میں اتنی فکریں پال لی ہیں ، پلیز اپنا خیال رکھو۔ ‘‘
آنچ دیتا لہجہ اور یہیں وہ ہار جاتی تھی ، سب کچھ بھول جاتی تھی ۔ سامنے بیٹھا شخص اس کے لیے کیا تھا وہ کبھی لفظوں میں اس نہیں بتا سکتی تھی۔
٭…٭…٭
جن دو افراد کو اس نے نامزد کیا تھا ان کے خلاف انکوائری کمیشن بنا دیا گیا تھا ۔ وہ جانتا تھا اس کمیشن کی رپورٹ اس کے جیتے جی نہیں آنے والی ۔ نجانے ایسے کتنے کمیشن بنے تھے کتنے کیسز میں لیکن اس بار مختلف یہ تھا کہ ان کے خلاف کمیشن بنا تھا جن کے خلاف کبھی سوچا نہیں جاسکتا تھا ۔اور عمر وحید ایسا ہی بندہ تھا امید کا ایک ذرا سا سرا تھامے چلنے والا ۔ اس کے لیے اتنی پیش رفت بھی بہت تھی کہ برف پگھلی تو ہے چاہے قطرہ ہی گرا ہو ۔ یہ اور بات تھی کہ حالات اس کے لیے دوسری طرف مزید مشکل کیے جارہے تھے ۔اس کو اس کے علاقے تک محدود کیا جارہا تھا مگر وہ اس میں بھی خوش تھا ۔ محدود کرنے والے نہیں جانتے تھے کہ وہ اسے اس کی جنت میں ہی واپس بھیج رہے ہیں ۔ جہاں سے وہ نکلا تھا اور پورے ملک کی عوام اس کے ساتھ مل گئی تھی ۔ فی الحال صرف معاملہ دبایا گیا تھا کمیشن بنا کرکیونکہ اتنا تو وہ بھی جان گئے تھے کہ وہ ہارنے والا نہیں نہ ہی ڈرنے والا ہے ۔ اس کی بیوی کو ہراساں کرکے انہوں نے بہت بڑی غلطی کرلی تھی اور اس غلطی کو وہ سدھار نہیں سکتے تھے البتہ کور ضرور کرسکتے تھے۔
پھر اللہ نے ایک رات جب زینب کی کوکھ سے اس کو بیٹی دی اس رات وہ پہلی بار ڈرا ۔آج وہ واقعی کچھ لمحے کے لیے ڈر گیا تھا ۔ بیٹی کا باپ بننا سعادت تھی تو امتحان بھی تھا ۔ پہلی بار اسے زینب کے خدشات صحیح لگے تھے ۔ اس چھوٹے سے وجود کو ہاتھوں میں تھامتے ہوئے اسے بے اختیار خوف آیا تھا کہ اس کی فیملی ادھر محفوظ نہیں ہے ۔وہ اکیلا تھا ۔ اس کی کوئی جماعت نہیں تھی ۔ کوئی سپورٹ نہیں تھی ۔ پچھلی بار وہ ایکسیڈنٹ میں بچ گیا تھا اور یہ ضروری نہیں کہ ہر بار ان کا نشانہ چوک جائے یا پلان فیل ہوجائے ۔ اگر اسے کچھ ہوگیا تو پیچھے ان کا کیا ہوگا ۔ ٹھنڈ میں بھی اس کے مساموں سے پسینہ بہ نکلا تھا۔
’’ اس کا نام سوچا کوئی تم دونوں نے ۔ ‘‘
امی کی آواز پر وہ چونک کر اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر آیا تھا اور قدرے گڑبڑا کر سامنے بستر پر لیٹی زینب کو دیکھا ‘ جو بغور جانچتی گہری نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔ وہ بے اختیار نظر چرا گیا تھا ۔ کمرے میں سب لوگ موجود تھے ۔ خوش،پرجوش، وہ ننھا سا وجود ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں ہاتھوں ہاتھ لیا جارہا تھا ۔ وہ بنا کوئی جواب دیے باہر آگیا تھا ۔ وہی ہسپتال کا کمرہ تھا جہاں وہ اسے نروس بریک ڈاؤن کے بعد لے کر آیا تھا اور وہی راہداری تھی ۔ اس دن وہ دونوں الگ ہوئے تھے ۔ آج پھر سے ایک ہوگئے تھے ۔ اس تیسرے وجود نے آکر گویارشتہ مزید مضبوط کردیا تھا۔
’’ کیا ہوا ہے تمہیں؟‘‘ امی کی آواز پر وہ مڑا ۔
ماؤں کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ وہ بنا پوچھے ہی سب سمجھ جاتی ہیں۔ اپنی اولاد کے سارے خوف جان جاتی ہیں ۔ وہ بھی خاموش کھڑا ان کو دیکھ رہا تھا ۔ الفاظ گم ہوگئے تھے۔
’’جب تم پیدا ہوئے تھے بالکل ایسے ہی تھے ‘ صحت مند اور مسکراتے ہوئے ۔ ‘‘وہ بنچ پر بیٹھ گئی تھیں اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے بھی بٹھایا۔
’’ تمہارے باپ نے مجھے پوچھا تھا کہ میں کیا تحفہ لینا چاہتی ہوں ۔ جانتے ہو میں نے کیا کہا تھا؟‘‘ یہ سب وہ پہلی بار ان کے منہ سے سن رہا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا۔
اس نے آہستگی سے نفی میں سر ہلادیا۔
’’ میں نے کہا آپ سیاست چھوڑ دیں۔ ‘‘ وہ کہہ کر رکیں ۔
ان کی آنکھیں اب جھلملا رہی تھیں ۔عمر حیران ہواتھا ۔ اسے امید نہیں تھی کہ انہوں نے واقعی یہ مانگا ہوگا ۔
’’ میں ماں تھی،ڈرگئی تھی۔ اس فیلڈ میں کوئی اپنا نہیں ہوتا ۔ اور تمہارے بابا کو چالبازیاں نہیں آتی تھیں نہ ہی سیاست آتی تھی ۔ بس وہ اپنے لوگوں کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے اس لیے اس فیلڈ میں آگئے ۔ ‘‘ وہ جانتا تھا وہ صحیح کہہ رہی ہیں۔
’’ جب میں یہ تقاضا کیاان سے تو انہوں نے کہا ۔ تمہیں اللہ نے اولاد دی تو اللہ کاشکر اداکرنے کی بجائے تمہارا تو اس اللہ سے یقین ہی کم ہوگیا ۔ اللہ نے صحیح فرمایا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو اولاد اورمال سے آزماتا ہے اور بڑے بڑے برج ہل جاتے ہیں اس آزمائش سے ۔ ‘‘ وہ بول رہی تھیں اور وہ ساکت ہوگیا تھا ۔
اسے یہی سبق چاہیے تھا ، یہی مددچاہیے تھی ۔ یہی سننا چاہتا تھا وہ کہ پھرسے کھڑا ہوسکے ۔ پھرسے اٹھ سکے اپنے حوصلے جمع کرکے ۔وہ کیسے بھول گیا کہ وہ کس بہادر باپ اور کس عظیم ماں کا بیٹا ہے جنہوں نے تب سروائیو کیا جب کوئی پرسان حال نہ تھا۔
وہ مزید کچھ نہیں سن رہا تھا بس نم آنکھوں سے عقیدت سے اپنی ماں کے ہلتے ہوئے ہونٹ دیکھ رہا تھا۔وہ کیا بول رہی تھیں وہ نہیں جانتا تھا۔بس وہ یہ جان گیا تھا کہ وہ بھی ہل گیا تھا۔ اولاد چیز ہی ایسی ہے‘سب سے بڑی آزمائش ۔ ایسی آزمائش کہ انسان اس کے پیچھے واقعی صحیح غلط بھول سکتا ہے ۔ اس نے آگے ہوکر ان کے دونوں ہاتھ تھامے اور جھک کر بوسہ دیا۔
اب چپ ہونے کی باری ان کی تھی۔
’’ مجھے جب بھی مدد کی ضرورت محسوس ہوئی مجھے ہمیشہ ملی آپ کی صورت میں‘ اللہ نے آپ کا وجود میرے لیے اس دنیا کی سب سے بڑی نعمت بنا کر اتارا ہے ۔ تھینک یو‘ تھینک یو سو مچ …‘‘ اس نے پہلی بار لفظوں سے اظہار کیا تھا ورنہ کبھی اس کی نوبت ہی نہیں آئی تھی ۔ وہ روتے روتے ہنس پڑی تھیں۔
’’ زینب نے سچ میں تمہیں بدل دیا ہے۔ ‘‘ان کی بات پر وہ بھی مسکرایا۔
’’ میری زندگی میں میں جو بھی ہوں ۔ جہاں بھی ہوں ‘ جیسا بھی ہو ں ۔ آپ کے، دادو کے اور زینب کے ہی بدولت ہوں ۔ اور اب ایک چوتھی خاتون بھی آگئی ہیں خیر سے ۔ اس لسٹ میں شامل ہونے۔ ‘‘ اس کی مسکراہٹ اب جدا نہیں ہورہی تھی ہونٹوں سے‘باپ بننے کی خوشی وہ اب کھل کرمحسوس کر رہا تھا۔
’’ اور ہم تو کسی لسٹ میں ہی نہیں ؟ ‘‘عفان کی قدرے ناراض آواز پر وہ دونوں ہنستے ہوئے مڑے۔عفان کے ساتھ سکندر بھی تھا۔
’’ تم میں تو عمر وحید کی جان بستی ہے ۔ اور سکندر تو میرا شیر ہے شیر… ‘‘ وہ فخر سے دونوں کو ساتھ لگائے کہہ رہا تھا۔
’’ اس شیر کے لیے کوئی شیرنی نہیں ڈھونڈنی کیا؟‘‘ عفان آج اسے پھنسانے کے موڈ میں تھا۔
’’ مجھے تو معاف ہی رکھیں ۔ شیرنی کے آنے کے بعد پھر بندہ شیر کہاں رہتا ہے ۔ بندے کا پتر ہی بن کر رہ جاتا ہے ۔ ہمارا تو آنکھوں دیکھا تجربہ ہے۔ ‘‘ سکندر نے عمر کو دیکھتے ہوئے آخری فقرہ قدرے ہلکی آواز میں کہا ۔ پوری راہداری میں اب ان کے خوشیوں سے بھرپور قہقہے گونج رہے تھے ۔
’’ سکندر، آدھے گھنٹے تک ایک پریس کانفرنس بلاؤ ۔ ایک اعلان کرنا ہے ۔ قسم کھاتا ہوں اس کے بعد ہی اپنی بیٹی کا نام رکھوں گا۔ ‘‘
وہ پھر سے سرپرائز دینے کے لیے تیار تھا ۔ پہلے والا عمر وحید‘ وہ کمزور پڑجاتا تھا ۔ کیونکہ وہ بھی انسان تھا اس لیے اسے ریمائنڈرز کی ضرورت پڑتی رہتی تھی۔
٭…٭…٭
اس کی طرف سے اتنی ارجنٹ پریس کانفرنس کا اعلان وہ بھی اپنی بیٹی کی پیدائش کے اگلے ہی روز ۔ ہر طرف چی میگوئیاں شروع ہوگئی تھیں ۔ کسی کو تھا کہ وہ سیاست چھوڑنے والا ہے اور کسی کو تھا کہ وہ صلح صفائی کرنے والا ہے ‘ اس خوشی کے موقع پر ۔ بھانت بھانت کی بولیاں تھیں اور نجانے کتنے مائیک تھے۔ جو اس کاانتظار کر رہے تھے۔
عمر وحید کو گاڑی سے اترتے ہوئے اپنی پہلی پریس کانفرنس یاد آئی تھی ۔ جب وہ اپنے اورزینب کے تعلق کی صفائی دینے آیاتھا اور صرف علاقائی ہی میڈیا تھا ۔ اس وقت کون جانتا تھا اس کو جنت پور کے لوگوں کے علاوہ ۔ اور آج پورے ملک کامیڈیا تھا ادھر ۔ کیونکہ لوگ اسے سنناچاہتے تھے‘ دیکھنا چاہتے تھے ۔ ان لوگوں نے ہی تو بنایا تھا اسے اتنا خاص۔ اسے اب بھی ان عام لوگوں کو ہی خاص بنانا تھا ۔اس کے آتے ہی مائیکس اور کیمرے اس پر فوکس ہوگئے تھے ۔ سیاہ سوٹ میں سیاہ ویسکوٹ پہنے وہ بہت پراعتماد تھا ۔ عام دنوں سے کہیں زیادہ قد آورلگ رہا تھا ۔ آج وہ مات دینے آیا تھا۔
سب کی طرف سے بیٹی کی پیدائش پر مبارکباد وصول کر کے وہ مدعے پر آیا تھا۔
’’آج اس موقعے پر میں، عمر وحید‘ اپنے لوگوں سے، ان سب لوگوں سے جنہوں نے میرے لیے آواز اٹھائی، میرے لیے کھڑے ہوئے ۔ میں ان سب کے لیے اعلان کرتا ہوں کہ آج سے ایک نئی سیاسی پارٹی بنے گی ۔ جس کا چیئر مین انہی لوگوں سے منتخب ہوگا ۔ میں بھی اس پارٹی کاعام رکن ہوں گا ۔ اس میں کوئی وڈیرا، کوئی جاگیردار نہیں ہوگا ۔ آپ لوگ ہوں گے ، آپ کے نمائندے ہوں گے ، ہم پڑھے لکھے لوگ ساتھ مل کر چلیں گے ۔ کیونکہ یہ ہماراملک ہے ۔ہم نے رہنا ہے یہاں ۔ اسے ہم چلائیں گے ۔یہ دس فیصد اشرافیہ کا ملک نہیں ہے نہ ہی طاقتور لوگوں کا ۔ یہ نوے فیصد عام لوگوں کا ملک ہے ۔ آپ کیوں کسی کو چنیں ۔ آپ خود آگے آئیں‘ آگے بڑھیں ۔ میں اپنی بیٹی کے لیے ایسا ہی ملک چاہتا ہوں جہاں محنتی اور خوددار کی پہچان ہو ۔ جہاں پڑھے لکھے لوگ آئیڈیل مانے جاتے ہوں ۔ جہاں دولت سے زیادہ اخلاق،معاشرتی اقدار اور انسان اہم ہوں ۔ کیا آپ کو نہیں چاہئے ایسا ملک ؟ ‘‘
آخر میں وہ قدرے پرجوش ہوا تھا ۔ ہو کے عالم میں لوگ اسے سن رہے تھے ۔ پھر اٹھنے والا شور بتا رہا تھا کہ وہ جیت گیا ہے ۔ وہ ان کو جگا چکا ہے ۔وہ سمجھا چکا ہے ان کو کہ روٹی کپڑا مکان تعلیم کسی سے کیوں لیں ۔ خود کیوں نہیں۔
’’ یہ پارٹی ہوگی عام آدمی کی پارٹی ‘ عام عورت کی پارٹی ۔ آپ میں سے ہی اس کا چیئر مین ہوگا ۔ آپ ہی اس کا نام رکھیں گے ۔ آپ سب میں میں بھی شامل ہوں گا ۔ تو آئیں میرے ساتھ‘ ہم اپنا کل بدلیں ۔ ہمارے لیے نہیں تو ہمارے بچوں کے لیے ۔ کیوں ڈر کے جیئں ہم ‘ کیوں نہ خوف کے بت توڑیں ۔ موت تو برحق ہے ۔ آؤ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جیئں ۔ ‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے مخالفوں کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکی تھی ۔
اور ایک طوفان کو دعوت دیتا وہ واپس ہسپتال آگیا تھا ۔ اس میں تھی صلاحیت کہ لوگوں کو باہر لے آیا تھا ۔ ایک بار پھر اس کے نام کے جلوس تھے۔ملک ملک ، شہر شہر…
بڑوں کو اپنا تخت اندھیرے میں نظر آرہا تھا ۔اس ملک کی یوتھ کے جاگنے کا مطلب تھا ان کی موت‘ ان کے اختیارات کی موت ۔ وہ سب کو نہیں ڈرا سکتے تھے ۔ سب کو نہیں ہرا سکتے تھے ۔ اور عمر وحید یہ اسائنمنٹ بخوبی سمجھ گیا تھا۔
٭…٭…٭
ایک بار پھر وہ تھا ، اس کے لوگ تھے ۔ ہسپتال کا کمرہ تھا اور اس کے ہاتھوں میں موجود وہ ننھا وجود تھا ۔ جبکہ پورے ملک میں ایک شور تھا ۔ ہر جگہ اس کی بات ہورہی تھی ۔ اس کے تبصرے تھے ۔ سازشوں کے نئے جال بنے جارہے تھے ۔ نئے دماغ لگائے جارہے تھے اور وہ بے فکر ‘ بے نیاز اپنی جنت میں موجود تھا ۔ اسے کوئی فکر نہیں تھی ۔ سب نے جب اسے ذلیل کرنے کی کوشش کی تھی تو اس کے للہ نے اسے تب عزت دے دی تھی پھر کیسا ڈر‘ کیسا خوف ۔ یہ دنیا کے خدا اس خدا کے سامنے کیا تھے ۔
’’ اس کا نام ہے فاطمہ‘فاطمہ عمر۔ ‘‘ اس نے جھک کر اس کا ماتھا چوما اور اعلان کیا ۔ اورپھر آگے ہوکر اسے زینب کی گود میں ڈالا۔
’’ میں دنیا کا خوش قسمت ترین مردہوں کہ مجھے تمہاری کوکھ سے یہ تحفہ ملا۔ ‘‘ وہ کہتے ہوئے بالکل نہیں جھجکا تھا ۔
البتہ ’’ اہم ‘ اہم‘‘ کی آوازوں سے زینب ضرور گلنار ہوگئی تھی ۔ ردا نے دیکھا تھا ، اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ فخریہ، کھلی ہوئی،قدرے شرمیلی۔آج اس کی چھوٹی بہن کو ساری خوشیاں مل گئی تھی جس کی وہ حق دار تھی۔ وہ ردا کو خوشیاں دلانے کے لیے کھڑی ہوئی تھی اور گھر سے نکالی گئی تھی لیکن آج سب مکمل ہوگیا تھا۔ ردا نے مسکراتے ہوئے سارا منظر دیکھا تھا۔
’’ تم نے ایک مجمعے میں مجھ سے ہوچھا تھا کی تمہارا اور میرا کیا رشتہ ہے ؟ دنیا کو بتاؤں ۔ آج میں بتاتا ہوں ۔ وہ رشتہ جو اس دنیا کا سب سے پہلا رشتہ تھا ۔ انسانوں میں بننے والا سب سے پہلا رشتہ ۔ آدم اور حوا کا رشتہ‘میاں بیوی کا رشتہ ۔سب سے معتبر‘سب سے مکمل۔ ‘‘اسے سحر پھونکنا آگیا تھا ۔ وہ مکمل ساحر بن گیا تھا ۔ کم از کم اپنی آنکھوں میں آتی خوشی کی نمی چھپاتی زینب کو تو یہی لگا تھا۔
’’ میں کوشش کروں گا اچھا باپ بنوں ۔ اگر نہ بھی بن سکا تو جیسے تم ایک شوہر کی خطاؤں کومعاف کرتی رہتی ہو ۔ ایک باپ کو بھی کردینا۔ ‘‘ اس کی آواز بھی اب بوجھل ہوئی تھی ۔ وہ رو رہا تھا ۔ اب وہ اظہار سے نہیں گھبراتا تھا لیکن صرف اپنوں کے سامنے۔
آگے کیا ہونا تھا وہ نہیں جانتا تھا لیکن اس نے فیصلہ کرلیا تھا وہ اتنے لوگ تو ضرور کھڑے کرجائے گا کہ اگر عمر وحید کو گرا بھی دیں یہ لوگ تو اس کی جگہ دس عمر وحید کھڑے ہوں ۔ وہ بارش کا پہلا قطرہ بننا چاہتا تھا، مکان کی پہلی اینٹ اور وہ بن گیا تھا۔
(ختم شد)