سلسلہ وار ناول

خرمن قلب : ساتویں اور آخری قسط

عمر وحید کے ایکسیڈنٹ کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی تھی ۔اس پر فائر کا یا حملے کا کام نہیں کیا گیا تھا ۔ سب جانتے تھے کہ وہ پھر پکڑے جائیں گے اس لیے بہت ہی فطری موت چنی گئی تھی ۔ اس کی گاڑی کے بریکس بدلے گئے تھے ۔ اور جاننے والے جانتے تھے کہ وہ اس روز سکندر کے ساتھ جانے والا ہے ۔ اس لیے اس کے ایک ملازم کو خریدا گیا تھا ۔ سکندر کو کھانے میں نیند کی گولیاں دی گئی تھیں ۔ وہ ہائیکورٹ جارہے تھے مقدمہ فائنل کرنے جب وہ نیند کی وجہ سے گاڑی کھائی میں گرا بیٹھا تھا ۔ ایک سنسان روڈ پر ہونے والا یہ حادثہ پورے ملک کو ہلا چکا تھا ۔ لاکھ اس کو فطری رنگ دیا گیا تھا مگر عوام سڑکوں پر تھی ۔ عمر وحید کا بیانیہ مقبول ہوچکا تھا ۔ وہ جگانا چاہتا تھا اور لوگ جاگ گئے تھے۔
حادثے کے بعد بہت سیریئس کنڈیشن میں وہ ہسپتال میں تھا ۔ ہر نیوز چینل پر ایک ہی خبر چل رہی تھی کہ اس کا بچنا ناممکن ہے ۔ اس کی حمایت میں بڑوں کے خلاف بولنے والوں کو گرفتار کیا جا رہا تھا ۔ وجہ یہ بتائی جارہی تھی کہ وہ تو ایک ایکسیڈنٹ تھا تو عمر وحید کے شر پسند سپورٹرز بڑوں کو الزام کیوں دے رہے ہیں ۔ اس ملک کی اشرافیہ کو کیوں رگڑ رہے ہیں ۔ وہ تو فرشتے تھے، ان سے غلطی ہونا ناممکن تھی ۔ ان کا نام کیسے لے سکتا ہے کوئی ۔ لیکن ان گرفتاریوں کے باوجود‘ وہ اس جوش کو ٹھنڈا کرنے میں ناکام رہے تھے ۔ اس خلوص کو ختم کرنے میں ہار گئے تھے ۔ ہر حربہ اور کوشش کے باوجود وہ اس کی مقبولیت کم نہیں کر سکے تھے ۔
٭…٭…٭
ہسپتال کے ٹھنڈے کوریڈور میں اس وقت وہ تین مجسمے تھے ۔
جیتے جاگتے سانس لیتے آنکھ جھپکتے مگر ساکت … رو رو کر، تڑپ تڑپ کر ان کی آنکھیں بھی پتھر کی ہوگئی تھیں ۔ انتہائی ہائی سیکورٹی اور میڈیا کی بھیڑ میں وہ گویا بے جان لوگ تھے جن کے اندر شاید اس کی آنکھ کھلنے سے ہی جان پڑنی تھی۔
زینب…امی… عفان اور شیشے کے اس پار موجود پٹیوں میں جکڑا عمر وحید اور سکندر کا وجود ۔
اذیت، تکلیف، قیامت، بے بسی، غصہ اور نفرت ۔ ہر چیز ان کے اندر گڈ مڈ ہورہی تھی ۔
سفید پڑتے چہرے کے ساتھ زینب اس شیشے کو دیکھ رہی تھی ۔ جس میں وہ شخص آنکھیں بند کیے لیٹا تھا جس کی آنکھوں سے اسے دنیا دیکھنے کی عادت ہوگئی تھی ۔ وہ اس کی پوری کائنات تھا۔ ہر شے اس سے شروع ہو کر اس پر ختم ہوتی تھی ۔ اور ظالموں نے ایک پل نہیں لگایا تھا اس کائنات کو اجاڑنے میں ۔ وہ اسی چیز سے، اسی لمحے سے ڈرتی تھی۔ اسی بات کاخوف تھا اس کو مگر وہ نہیں مانا تھا ۔ آنسو بہت خاموشی سے دوبارہ اس کے گالوں پر پھسل رہے تھے ۔ اتنا بھی نہیں سوچا تھا اس نے کہ اس کے بعد وہ اور اس کے اندر پرورش پاتا وجود کیا کریں گے ۔
وہ ساکت سی اپنی ساس کو دیکھ رہی تھی جو آج بھی تسبیح ہاتھ میں پکڑے صبر و استقامت کی مثال بنی ہوئی تھیں ۔ اپنی سارے جوانی بیوگی میں گزار کر، شوہر کے قتل کے اٹھائیس سال بعد بیٹے کو اس حال میں دیکھ کر بھی ان کا صبر نہیں ٹوٹا تھا ۔ اس کا دل پھٹنے لگا تھا۔
امیدی ناامیدی اور انتظار … اس قدر جاں گسل انتظار ۔ اس کی ہمت ٹوٹ رہی تھی ۔ وہ بلکنا چاہتی تھی، چیخنا چاہتی تھی ،رونا چاہتی تھی ۔ بس کوئی اسے اتنا کہہ دے کہ وہ ٹھیک ہے ۔ کوئی ایک بار کہہ دے… اس کے کان ترس گئے تھے ۔ دو دن گزر چکے تھے ۔ وہ ابھی بھی کریٹیکل کنڈیشن میں تھا اور سکندر بھی ۔ اس نے ثابت کردیا تھا کہ وہ اس کا ہی وفادار ہے ۔ عمر چاہے جس کا بھی سمجھتا رہے ‘ وہ اس کا ہی تھا ۔وہ ادھر بھی دونوں ساتھ تھے ۔
’’ کچھ کھا لو زینب، اس حالت میں ایسے بیٹھنا ٹھیک نہیں ہے۔ ‘‘وہ حیرت سے ان کو دیکھ رہی تھی ۔ کیا عورت تھیں ‘ اتنا صبر… اگر یہ صبر پڑجاتا کسی پر تو یہاں کچھ نہ بچتا ۔ اس کا اپنا صبر ٹوٹنے لگا تھا ۔ وہ بلک کر ان کے ساتھ لپٹی تھی۔
’’ مجھے وہ چاہئیں‘ امی… مجھے وہ چاہئیں ۔ میرا سانس بند ہورہا ہے، میرا دم گھٹ رہا ہے ۔ میں کیسے دیکھوں یہ سب‘کیسے سہوں۔ ‘‘ وہ اب چیخی تھی ۔ عفان نے آگے ہو کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔
’’ ایسے مت روؤ ۔ عمر بھائی کبھی بھی نہیں پسند کریں گے کہ آپ ایسے روئیں۔ ‘‘اس کی بات پر وہ مزید پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی ۔ اس کا دل پھٹ رہا تھا ۔اس کا کیا حال تھا‘ کوئی اس سے پوچھتا ۔ اسے لگ رہا تھا اس کے وجود کا ایک حصہ آری سے آہستہ آہستہ کٹ رہا ہے ۔ مسلسل اذیت تھی‘ مسلسل تکلیف۔
‘‘اسے کہو اٹھے پھر‘ دیکھے مجھے ۔ اسے کہو عفان… اسے بتاؤ۔‘‘اس کی آواز گھٹ رہی تھی۔
’’ عمر وحید کو ہوش آگیا ہے۔ ‘‘
آواز تھی یا کوئی جادو ان سب کے کانوں میں پھونکا گیا تھا ۔ وہ سب بے یقین مڑے تھے ۔ ڈاکٹر ان کو ہی مسکراتے ہوئے دیکھ رہے تھے ۔
’’ بے حد مضبوط قوت ارادی کے مالک ہیں وہ۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے بتا رہا تھا۔
’’ سکندر؟‘‘ عفان کے ہونٹوں سے بے آواز نکلا۔
’’ ان کی بھی حالت خطرے سے باہر ہے۔ ‘‘
وہ بے اختیار وہیں سجدے میں گرا تھا ۔ اور زینب ایک بار پھر ساکت ہوگئی تھی ۔ کبھی کبھی زندگی کتنی مہربان لگتی ہے ۔ اسے لگا تھا وہ بال جتنے پل صراط پر چلتی رہی ہے دو دن اور آج ابھی منزل پر پہنچی ہے ۔ بے دم سے وہ کرسی پر گری تھی ۔ خوشی، مسرت ،بے یقینی اور غصہ ہاں… وہ اس سے بہت لڑے گی ۔ اسے ہر صورت یہ فیلڈ چھوڑنا ہوگی ۔ وہ ہر روز ایک رسک میں نہیں جی سکتی تھی۔
’’ آپ لوگ چاہیں تو ان سے مل سکتے ہیں ۔ میں باہر میڈیا کو انفارم کردوں۔ ‘‘ ڈاکٹر عفان کو اٹھاتے ہوئے اس کا کندھا سہلاتا باہر چلا گیا تھا ۔ اور وہ پاگلوں کی طرح کمرے کی جانب بھاگے ۔ مجسموں میں جان آگئی تھی۔
٭…٭…٭
باہر ایک الگ ہی دنیا تھی ۔ اس قدر غصہ لوگوں کا‘ وہ بوکھلا گئے تھے ۔ درمیانی راہ نکالنے پر مجبور ہوئے تھے ۔ اس سے رابطہ کرنے کے لیے لوگ ڈھونڈھ رہے تھے تا کہ کوئی مصالحت کی جا سکے ۔ انہوں نے شکر ادا کیا تھا کہ وہ بچ گیا ورنہ جو انارکی پھیلتی شاید اس دفعہ وہ سنبھال نہ پاتے ۔اس کے لیے مختلف آفرز تیار کی جا رہی تھیں ۔ پارٹی بنانے کی آفر، مشہور لوگوں کو اس میں شامل کروانے کی آفرز، سپورٹ کی آفرز ۔ بہت بڑے بڑے پیکجز تھے۔دوسری طرف وہ اس کمرے میں لیٹا پورا چہرہ پٹیوں میں لپیٹے بس اپنے سامنے موجود تینوں نفوس کو دیکھ رہا تھا ۔ صرف اس کی آنکھیں نظر آرہی تھیں جس کے آگے آتے جالوں کے باعث اسے وہ تینوں دھندلے دکھائی دے رہے تھے ۔ اور یہی دھند ان تینوں کی آنکھوں میں بھی تھی مگر وہاں آنسوؤں کی وجہ سے تھی۔
’’س…سکندر؟‘‘ اس کا جبڑا بری طرح درد ہوا تھا ۔ وہ بول نہیں سکا تھا۔
’’ وہ ٹھیک ہے۔ ‘‘ عفان نے فوراََ کہا ۔
اس نے بے اختیار ایک سکون کی سانس لی تھی ۔ امی نے آگے بڑھ کر ہاتھ اس کی آنکھوں پر رکھا تھا پھر نرمی سے ان کو ہلکا سا صاف کیا ۔ ماؤں کو پتہ نہیں کیسے سب پتہ لگ جاتا ہے ۔ دھند چھٹ گئی تھی ۔ اسے اب صاف نظر آرہا تھا ۔عفان ، امی اور زینب ۔ اس کے عزیز ترین لوگ۔
بے اختیار ہی اس نے شکر ادا کیا تھا ۔وہ پھر سے واپس تھا ان کے پاس ۔ اس کھائی میں گرتے ہی گاڑی کو آگ لگ گئی تھی اور سکندر نے اسے باہر دھکیل دیا تھا ۔ اس امید پر کہ شاید وہ کسی طرح بچ جائے ۔ اور خود کو آگ کے حوالے کیا تھا مگر گاڑی اس طرح سے لڑھکی تھی کہ وہ خود بھی تھوڑا سا جلا تھا بس اور پھر باہر گر گیا تھا ۔اس قدر خوفناک ایکسیڈنٹ تھا کہ یادآتے ہی اس کے دوبارہ رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔
وہ زینب کو دیکھتا ہوا کچھ بولنا چاہتا تھا ۔ عفان سکندر کو دیکھنے کا کہہ کر باہر آگیا تھا اور امی نوافل ادا کرنے ۔ وہ اب دونوں اکیلے تھے ۔ عمر کی بجھی آنکھیں اب قدرے چمک رہی تھیں ۔ اور زینب کی آنکھیں نمی سے بھرپور…
’’ زینب عزیز، قسم دیتی ہے آپ کو‘ اگر یہ فیلڈ آپ نے نہ چھوڑی تو میں آ پ کوچھوڑدوں گی۔‘‘
اس کا لہجہ بھیگا ہوا تھا چہرے کی طرح مگر اٹل تھا ۔ وہ پٹیوں میں لپٹے چہرے کے ساتھ ہی ہلکے سے مسکرایا ۔پھر آہستہ سے ہاتھ بڑھا کر اس کا ہاتھ تھامنا چاہا مگر وہ زیادہ ہلا نہیں سکا ۔ وہ وہیں بیٹھ گئی تھی اس کے پاس اس کا ہاتھ اپنی گود میں دھرے ۔آنسو اب گالوں سے ہوتے ہوئے اس کے ہاتھ پر گر رہے تھے ۔ کتنی تکلیف کے دو دن تھے جو اس نے کاٹے تھے ۔ اس کے لیے وقت رک گیا تھا ۔بڑی مشکل سے یہ تاریکی چھٹی تھی ۔وہ کسی صورت اس تاریکی میں واپس نہیں جانا چاہتی تھی ۔ اسے ان اندھی راہوں کا نا خود حصہ بننا تھا نہ عمر کو بننے دینا تھا ۔ وہ بے بس سا اسے روتے دیکھ رہا تھا ۔ وہ جانتی تھی کہ اسے روتا دیکھ کر اسے تکلیف ہوتی ہے ۔ پھر بھی رو رہی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ اسے ہو تکلیف اسے پتہ چلے کہ وہ کس قدر تکلیف میں رہا ہے۔ اور اس سے زیادہ تکلیف میں اس سے جڑے لوگ رہے تھے ۔ ایک ایک پل اذیت میں کاٹتے ہوئے۔
’’ وہ لوگ بہت طاقتور ہیں اور یہ فیلڈ اگرآپ کے لیے ‘ ہم سب سے زیادہ عزیز ہے تو ہم سب کو چھوڑدیں ۔ ‘‘ وہ اب پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔
اتنے مختصر سے ساتھ میں ایک بار پہلے وہ اس سے جدا ہونے کی تکلیف اٹھا چکی تھی اور اب … اس واقعے نے تو اسے اندر تک ہلا دیا تھا ۔ اگر کچھ ہوجاتاتو؟ وہ عمر کے بغیر شاید سانس نہ لے پاتی ۔ وہ اس کی ماں کی طرح بہادر اور صبر والی نہیں تھی ۔ وہ اس معاملے میں دنیا کی کسی بھی عورت سے کم ہمت تھی ۔ شاید سب جی لیتے ہوں ۔ لیکن وہ نہیں جی سکتی تھی ۔ اسے تو لگا تھا اسے سانس ہی اسے سانس لیتا دیکھ کر آرہا ہے ۔ وہ کسی صورت اسے ان راہوں کا شکار نہیں ہونے دے گی ۔اسے عمر کے ساتھ مکمل زندگی گزارنی تھی ۔
خوب صورت‘چھوٹی سی دنیا جس میں بس وہ ہو اور اس کی فیملی ۔ لیکن سامنے سٹریچر پر لیٹا وجود کیا سوچ رہا تھا وہ نہیں جانتی تھی ۔ وہ تو تب نہیں سمجھ پاتی تھی اسے جب وہ اس کے سب سے قریب ہوتا تھا ۔ آج تو پھر اس کا چہرہ پٹیوں میں جکڑا تھا ۔ نجانے وہ کیا فیصلہ لے گا ۔ لیکن ایک بات تو طے تھی۔ اسے زینب عزیز چننی ہوگی یا یہ برزخ…
کچھ دیر اپنا دل ہلکا کر کے وہ باہر گئی ۔ ہسپتال کے کوریڈورز میں سخت سیکیورٹی تھی ۔ سامنے دیوار میں لگی ایل ای ڈی پر اس کے ایکسیڈنٹ پر لوگوں کا ردعمل ، جلسے جلوس، احتجاج اور ریلیاں دکھائی جارہی تھیں ۔ یوں جیسے لوگ جاگ گئے تھے ۔ یا پھر یہ قوم شاید ہمیشہ ہی کسی رہنما کے انتظار میں رہی ‘ جاگتی ہوئی ۔ جو بھی ان کو رہبر لگا اس کے لیے ایسے ہی نکلی لیکن کوئی رہبری کے وعدے کو وفا نہ کر پایا ۔کیا عمر وحید‘ اتنے لوگوں کی امید کو توڑ دے گا؟
اسے پہلی بار اپنا پلڑا کمزور لگا تھا ۔ مقابل بہت لوگ تھے‘ ان کی محبتیں تھیں۔
وہ جو کہتا تھا میں ایک انسان کو بھی بدل سکا تو میری یہی کامیابی ہوگی ۔ ایک دنیا بدل دی تھی اس نے ۔ یہ سب وہ کیسے چھوڑے گا ۔اس کا سر کسی پھوڑے کی طرح دکھنے لگا تھا ۔ایک طرف اس کے تحفظ اور سلامتی کی دعا کرتی وہ جان بوجھ کر سیلفش ہونا چاہتی تھی ۔ صرف چاہتی تھی کہ وہ یہ سب چھوڑ دے ۔ ایک طرف اس جم غفیر کو دیکھ کر اس کا دل کچھ اور دہائیاں دے رہا تھا ۔ سمجھی نا سمجھی کی کیفیت میں وہ صوفے پر گر سی گئی ۔نجانے آگے آنے والا وقت کیسا ہوگا۔
٭…٭…٭
اور پھر ایک رسم ٹوٹی تھی ۔ اس سرزمین کی فضاؤں نے اپنی پچھتر سالہ تاریخ میں ایک نیا منظر دیکھا تھا ۔ طاقتور کے جھکنے کا منظر، خلق خدا کے اٹھنے کا منظر ۔ بڑے بڑے بت پاش ہوئے تھے ۔ ہر گلی، ہر آنگن میں اس کا چرچہ تھا ۔ عوام کا یہ سمندر گویا سب بہا کے لے جانے کو تیار تھا۔ طاقتور بے بس تھے ۔ ان کے پاس عمر کے خلاف کوئی ریکارڈ نہ تھا ، کوئی بلیک میلنگ نہیں تھی ، کوئی ویڈیو نہیں تھی ۔ پہلی بار ان کے مقابل ایک کھرا بندہ اترا تھا ۔ جس نے اس میدان میں اپنے باپ کی لاش اٹھائی تھی اور وہ سمجھ گئے تھے کہ وہ ہر طرح کا نقصان اٹھانے کی ہمت رکھتا ہے لیکن پیچھے نہیں ہٹے گا۔
اور پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ وہ جھک گئے تھے ۔ جس کے خلاف ایف آئی آر وہ کروانا چاہتا تھا اپنی محبوب بیوی کو ہراساں کرنے کے جرم میں‘ اس کے خلاف دائر ہوگئی تھی ۔ ادارے نے اس کا کورٹ مارشل شروع کردیا تھا ۔ وہ سمجھ گئے تھے اس شکار کو ایسے شکار نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کو پہلے کچھ دانہ ڈالنا ہی پڑے گا ورنہ جو موت کے منہ سے آکر بھی اپنے موقف پر قائم تھا وہ کیونکر پیچھے ہٹتا ۔ اس حقیقت سے وہ بھی واقف تھے کہ جلد یا بدیر عمر کو ان کی ضرورت تو پڑنی ہی پڑنی تھی ۔
٭…٭…٭
’’تمہیں کیا لگتا ہے اس ایف آئی آر کے بعد کیا ہوگا۔ چیزیں ٹھیک نہیں ہوں گی؟ نہیں مزید خراب ہوں گی ۔ تمہارا بھائی اپنے آپ کو مزید خطروں میں ڈال رہا ہے ۔ اس کے دشمن بڑھ رہے ہیں ۔ تم دیکھنا جب میں بیان دینے جاؤں گی میں جا کر کہہ دوں گی کہ میں معاف کر رہی ہوں سب کو۔‘‘وہ با آواز بلند تشویش بھرے لہجے میں عفان سے کہہ رہی تھی ۔ کمرے میں اس وقت وہ اور عفان ہی موجود تھے ۔ عمر وحید ہسپتال سے گھر شفٹ ہوگیا تھا۔
’’ تم ایسا کوئی بیان مت دینا زینب ، بھائی جو بھی کرتے ہیں بہت سوچ سمجھ کر کرتے ہیں ۔ جیسے وہ کہتے ہیں ویسے ہی کرو تم۔ ‘‘ عفان ہر ممکن کوشش کر رہا تھا اسے سمجھانے کی ۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ ناممکن ہے ۔ اسے تو عمر کبھی نہیں سمجھا سکا تھا ۔
’’ اللہ نے خیر سے ایک واحد سمجھدار اس دنیا میں تمہارا بھائی ہی پیدا کیا ہے ۔ اتنی بھی بھائی کی چمچہ گیری اچھی نہیں ہوتی اور معاملہ میرا ہے ۔ مجھے انہوں نے ہراس کیا، میں نے معافی نامہ لیک کیا ۔ میں ہی اس معاملے کو ختم کردوں گی۔ اس میں اتنی ٹھا پاہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے آخر۔ ‘‘
اس کا پارا اس وقت سوا نیزے پر تھا ۔جتنا وہ چاہتی تھی معاملہ جلدی ختم ہو، اتنا ہی مزید بڑھ رہا تھا ۔ اسے عزیز تھا تو صرف عمر وحید … اسے اور کچھ نہیں چاہیئے تھا بس اس کی جان بخشی چاہیئے تھی ۔ وہ نہیں چاہتی تھی وہ اس چکر میں مزید دشمن بنائے اور مزید کام بگاڑے۔
’’ ویسے بھی اگر تمہارے بھائی نے سیاست نہ چھوڑی تو میں اسے چھوڑ دوں گی۔ ‘‘ وہ اٹل لہجے میں بولی ۔
عفان نے بے اختیار ہی ہاتھ اپنے سر پر رکھا تھا۔
’’اسے عمر بھائی ہی ہینڈل کرسکتے ہیں۔ ‘‘ عفان نے بے اختیار سوچا ۔
ورنہ اس لڑکی کا نہ تو کوئی فل سٹاپ تھا نہ کومہ ۔ وہ بولتی جاتی تھی، بنا سوچے سمجھے فیصلے سناتی جاتی تھی ۔ اور وہ عمر وحید ہی تھا جو بنا ماتھے پر شکن ڈالے اس کی ہر بے سروپا بات سنتا تھا اور مانتا بھی تھا۔
’’نہ تو میں سیاست چھوڑ رہا ہوں ۔ نہ ہی تم مجھے چھوڑ رہی ہو۔ ‘‘ عمر کی بھاری آواز پر وہ دونوں چونک کر مڑے۔ وہ وہیل چیئر پر اندر آیا تھا۔
’’ اور نہ ہی آپ اپنی ضد چھوڑ رہے ہیں۔ نہ ہی کوئی مائی کا لعل اس ضد کو چھڑوا سکتا ہے … ہے ناں؟‘‘
زینب کی توپوں کا رخ اب اس کی طرف ہوگیا تھا ۔ عفان مسکراہٹ دباتا وہاں سے کھسکا۔

پچھلا صفحہ 1 2 3اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے