خرمن قلب : ساتویں اور آخری قسط
’’کیا ہم گاؤں نہیں جا رہے ؟ ‘‘ اسے اپارٹمنٹ کی طرف گاڑی موڑتا دیکھ کر وہ چونکی۔
’’ ابھی نہیں‘ کافی تھک گئی ہو تم بھی ۔ پہلے فلائٹ پھر ٹریول اتنا ۔ اس کنڈیشن میں ٹھیک نہیں ۔ آج ادھر ریسٹ کر کے کل جائیں گے۔ ‘‘ اس کی فکر پر زینب کا شہابی رنگ مزید چمکنے لگا تھا۔
’’ اور ابھی میں نے … میں کچھ ٹائم اکیلے تمہارے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔ ‘‘اس کا لہجہ اب گھمبیر ہوا تھا۔
’’ میں نے تو جی بھر کر دیکھا بھی نہیں۔ ‘‘ زینب کنفیوژ سی ، انگلیاں مروڑنے لگی تھی۔
اس کی آنکھیں اسے گھبرانے پر مجبور کر رہی تھیں ۔
’’ آئیے میڈم… ‘‘ وہ گاڑی روک کر دروازہ کھولنے دوسری طرف سے آیا تھا ۔ پھر ایک ہاتھ سے اسے اتارا تھا نیچے اور گاڑی بند کر کے اپارٹمنٹ میں آگئے تھے۔
دروازہ کھلتے ہی وہ شاکڈ ہوئی تھی ۔ راہداری میں سجے سفید گلابوں کی راہ گزر … وہ کب جان گیا تھا کہ اسے سفید گلاب بہت پسند تھے ۔
’’ یہ… ‘‘ وہ گنگ تھی۔
’’ یہ اس لڑکی کے لیے جو عمر وحید کی زندگی میں سب سے خاص ہے ۔ اتنی خاص کہ اس کے بغیر، میرا وجود نامکمل ہے ۔ میرا ہونا بے معنی ہے۔ ‘‘ وہ اسے کسی اور ہی دیس لے گیا تھا ۔ خوابوں کے دیس ۔ جہاں شہزادہ ہوتا ہے، شہزادی ہوتی ہے اور ہر چیز خوبصورت ہوتی ہے۔
وہ آگے بڑھی تھی۔
لاؤنج میں صوفوں پر، دروازوں پر ہر جگہ بہت نفاست سے سرخ گلاب لگے تھے۔
’’ اور یہ اس لڑکی کے لیے جو ان کے ہی جیسی ہے ۔ اندر سے کومل‘ نرم… ‘‘ وہ پھر سے اسے بازوؤں میں سمو چکا تھا ۔ زینب کی آنکھیں بھرنے لگی تھیں۔
’’ بالکل … سرخ گلاب جیسی ہو تم ۔ دلکش،پرکشش اور جان لیوا۔‘‘اس کی نظریں بہک رہی تھیں ۔زینب کے ایک ایک نقش سے پھسل رہی تھیں۔
’’ آپ…‘‘ اسے شرم آئی تھی ۔ وہ اب اسے اٹھا چکا تھا۔
’’ کافی وزنی ہوگئی ہو۔ ‘‘ اس کی بات پر وہ مزید سرخ ہوئی ۔ وہ کمرے میں آگئے تھے ۔ کمرہ سادہ ہی تھا۔
’’ کمرہ نہیں سجایا؟‘‘ وہ کہے بنا نہیں رہ سکی۔
’’ نہیں ۔اس نے تو تمہارے آنے سے سجنا تھا ۔ اس کی سجاوٹ تم ہو ۔ دیکھو روشنیاں بھر گئی ہیں اس میں ہرطرف۔ ‘‘زینب نے حیرت سے اسے دیکھا تھا ۔ وہ اتنا ایکسپریسو نہیں تھا ۔ اس وقت وہ بالکل مختلف لگ رہا تھا ۔ اس کا سویٹ پرنس چارمنگ۔
وہ اس کے پیروں میں سجی وہ چاندی کی پائل دیکھ رہا تھا جو اس نے کسی وقت پہنائی تھی ۔ وہ جھک کر اتارنے لگا ۔ زینب نے فوراََ ٹانگ سمیٹی۔
’’ اسے نہیں اتارنا میں نے۔ ‘‘ اس کی بات عمر نے سنی ان سنی کی تھی اور اتار دی تھی ۔ پھر جیب سے ایک اور پائل نکالی تھی۔
’’ گو کہ یہ اتنی قیمتی نہیں ہے لیکن ادھر آکر اس کی قیمت ہر شے سے بڑھ جائے گی ۔‘‘
وہ بہت نفیس تھی ۔ سونے کے باریک ڈیزائن کی بنی ہوئی ۔ اس کے سفید ٹخنوں پر آتے ہی وہ واقعی سج گئی تھی ۔ باریک ڈیزائن کے اند ر جڑے ہوئے چھوٹے چھوٹے ہیرے تھے ۔ جن کی چمک آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی ۔ وہ پھر سے گنگ ہوگئی تھی۔
’’ یہ بہت خوبصورت ہے۔ ‘‘وہ ہیپناٹائز ہوکر بولی۔
’’ خود ڈیزائن کی اور پھر بنوایا اس کو ۔‘‘وہ اس کے قریب نیم دراز ہو کر بتا رہا تھا ۔
’’ ہاتھ تو نہیں کٹوادیئے بنانے والے کے۔ ‘‘اس کے طنز پر وہ بے اختیار کھلکھلا کر ہنسا۔
’’ نہیں، بس اس کو کہا کہ کسی اور کو ڈیزائن نہیں دینا یہ۔‘‘ وہ معصومیت سے بولا۔
’’ ہاں جیسے وہ تو مان ہی جائے گا۔ ‘‘زینب کو ایک فیصد بھروسہ نہیں تھا ۔ وہ ہاتھ لگا لگا کر اب اس کو چھو کر محسوس کر رہی تھی ۔
’’ میں نے اب تک کوئی تحفہ ہی نہیں دیا آپ کو۔‘‘ اسے یاد آیا تھا۔
’’ جو تحفہ تم دے رہی ہو اس کے آگے کوئی اور تحفہ معنی نہیں رکھتا ۔ باپ بننے سے بھی زیادہ خوشی اس بات کی ہے ۔ ‘‘ وہ اس پر جھک رہا تھا اور اس کی سانسیں تھم رہی تھی۔
’’ کہ تمہاری کوکھ سے مجھے مل رہا یہ تحفہ…‘‘
اس نے نے ماتھا چوما تھا اور سائیڈ پر لگے سوئچ پر ہاتھ مار کر لائٹ آف کر دی تھی ۔ وہاں صرف محبت کا راج تھا ۔ بدگمانیاں ہٹ چکی تھیں۔۔ ہر چیز کلیئر ہوگئی تھی۔۔
٭…٭…٭
اگلی صبح جب وہ اٹھ کر باہر آئی تھی تو وہ اسے کہیں نظر نہیں آیا تھا ۔ میز پر البتہ ایک شاندار سا ناشتہ سجا تھا ۔وہ حیرت سے اس پہلوانی قسم کے ناشتے کو دیکھتی میز کے قریب آئی ۔ ناشتے کی سائیڈ پر ایک چٹ پڑی تھی ۔ اس نے اٹھائی تھی۔
’’ ہیو آ گڈ ڈے سویٹ ہارٹ۔‘‘ آگے ایک دل والی ایموجی تھی۔
بے ساختہ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر ابھری ۔وہ کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی اور ہاتھ بڑھا کر ٹی وی آن کیا ۔پھر نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے ایک سرسری نظر ٹی وی پر ڈالی اور وہیں رک گئی تھی۔
’’ ملک عمر وحید یہ کیس اپنی بیوی کو بے جا ہراساں کرنے کے جرم کے خلاف فائل کر رہے ہیں ۔ زرائع کے مطابق انتہائی طاقتور لوگوں کے خلاف یہ مقدمہ دائر کیا جارہا ہے اور کوئی بھی پولیس سٹیشن اس کی ایف آئی آر کاٹنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ عمر وحید کا دعویٰ ہے کہ وہ اس وقت تک ایم پی اے کا حلف نہیں اٹھائیں گے جب تک یہ مقدمہ دائر نہیں ہوتا۔ ‘‘
خبر سن کر اس کا نوالہ منہ میں جا ہی نہیں سکا تھا ۔ بھوک بھی فورا غائب ہوگئی تھی ۔ یہ آدمی کیا کررہا تھا ۔ ہر وقت اپنی جان عذاب میں ڈالنے کا شوق رہتا ہے اس کو ۔ وہ نیپکن سے ہاتھ صاف کرتی فون کی طرف بڑھی اور نمبر ملایا ۔فوراََ اٹینڈ کیا گیا تھا۔
’’ جی بولیے۔ ‘‘ بڑا فرمانبردارانہ جواب آیا تھا۔
’’ یہ سب کیا ہے اب۔ ‘‘ وہ چاہتے ہوئے بھی سختی سے نہیں بول سکی تھی ۔ کمبخت بولنے ہی نہیں دیتا تھا۔
’’ ناشتہ ہے اور کیا۔ ‘‘ وہ مزے سے بولا۔
’’ کیا پسند نہیں آیا۔ ‘‘اب فکرمندی سے پوچھا۔
’’ میں کیس کی بات کر رہی ہوں ۔ کیا ضرورت ہے اس سب کی…‘‘ اب کہ وہ سختی سے بولی تھی ۔
’’ ضروری ہے زینب ، ورنہ یہ بار بار ہوگا ۔ بار بار میرے خاندان کو پریشان کیا جائے گا ۔ ان کو ان کی زبان میں جواب دینا ضروری ہے۔ ‘‘ وہ بنا ڈرے بہت سکون سے بول رہا تھا ۔
’’ یہ مقدمہ کبھی دائر نہیں ہوگا ‘ لکھ لیں۔‘‘ وہ جانتی تھی۔
’’ میں جانتا ہوں لیکن جو میں کر رہا ہوں میں وہ بھی جانتا ہوں ۔ تم اپنی جان ان فکروں میں ہلکان نہ کرو ۔ بس خوش رہو اور مجھے مس کرو۔ ‘‘اینڈ میں وہ شرارتی ہوا۔
’’میں اتنی بھی فارغ نہیں ہوں‘‘زینب نے منہ بنایا۔
’’ ہاں بہت مصروف ہو تم‘ مجھے پاگل کرنے میں۔ ‘‘وہ اب پٹری سے اتر رہاتھا۔
زینب نے فوراََ فون بند کردیا ۔ مسکراہٹ اب ہونٹوں سے جدا ہی نہیں ہو رہی تھی۔
٭…٭…٭
پانی سر سے گزر رہا تھا ۔ اب یہ لڑائی دو قوتوں کی بن چکی تھی ۔ ایک طرف انا تھی، ضد تھی، دوسری طرف وہ حق پرست تھا ۔ اس کا عہد تھا کہ وہ یہ جنگ جیتے گا ۔ مگر آقاؤں کو یہ منظور نہیں تھا ۔ اور اس دفعہ وہ بھی غلط تھے ۔ انہوں نے عوام کو بہت کمزور سمجھ لیا تھا ۔ سمجھا تھا کہ شاید ڈرا دھمکا کر چپ کروالیں گے ۔ اس لیے فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس باغی کو راستے سے ہی ہٹا دیا جائے ۔ کم از کم اس کا خاندان دوبارہ اٹھنے کی جرات نہیں کرسکے گا ۔ اس لیے بڑی سازش رچائی گئی تھی ۔ بڑے مہرے استعمال کیے گئے تھے ۔ ہر شے داؤ پر لگائی گئی تھی کیونکہ ہر طرف اس جنت پور کے باسی کا بیانیہ چل رہا تھا ۔ اس کی بیوی کو ہراساں کیا گیا تھا ۔ اس کو کرسی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا ۔اور وہ مزید طاقتور ہو کر واپس آیا تھا اپنی سیٹ پر۔ ان بڑوں کو بھی اندازہ ہوگیا تھا کہ کرسی اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ وہ بس کچھ نہ کچھ بدلنا چاہتا ہے۔
چوہدری ظہور سے ایک بار پھر رابطے کیے گئے تھے ۔ اس دفعہ ان کو آخری موقع دیا گیا تھا کیونکہ پچھلی بار بھی ان کی پوتی نے سارا معاملہ بگاڑ دیا تھا ۔ اس لیے اب یہ آخری موقع تھا ان کے پاس وفاداری دکھانے کا۔ اور وہ بھی یہ بات جانتے تھے کہ اب اگر کامیاب نہ ہوئے تو راستے سے وہ خود بھی ہٹائے جا سکتے ہیں۔
٭…٭…٭