سلسلہ وار ناول

خرمن قلب: قسط نمبر 6

’’کیا مطلب‘ مجھے کیا پتہ ۔ کیا وہ آپ کے ساتھ نہیں ہے ؟ ‘‘ اس کی حیرت پر ایک لمحے کے لیے عمر کنفیوز ہوا تھا۔
’’ مجھ سے جھوٹ مت بولنا سیف ۔ ‘‘ اس کاانداز ایسا تھا کہ وہ نظریں جھکا گیا۔
’’میں خود بھی آپ کو فون کرنے والا تھا لیکن اس نے دھمکیاں ہی اتنی دی تھیں ۔ وہ گھر پر ہے امی کے ساتھ ۔ ‘‘ وہ بولا تھا اور عمر کو لگا تھا تیز تپتی صحرا کی دھوپ سے جلتے پاؤں اور شل ہوتے وجود کے ساتھ جیسے وہ یکدم ہی چھاؤں میں آگیا تھا۔ اتنی راحت، اتناسکون، اتنی تسلی ہوئی تھی اسے کہ کچھ ثانیے وہ بول نہیں سکا تھا ۔ وہ اپنی خالہ کے گھر ہی تھی ۔ اپنی مرحوم ماں کی بہن کے گھر ۔وہ بے اختیار سیف کے گلے لگا تھا۔
’’تھینک یو‘تھینک یو سو مچ۔ ‘‘ اتنا پرجوش وہ آج پہلی بار ہوا تھا ۔ خوشی سے چیختا ہوا ۔ سیف نے حیرت سے اس انتہائی ڈیسنٹ سے بندے کو دیکھا تھا۔
’’وہ میرا خون پی جائے گی‘ مجھے قتل کردے گی۔ ‘‘ اسے اب دوسری طرف سے خوف لاحق ہوا تھا۔
’’ڈونٹ وری‘ایسا نہیں ہوگا ۔ بس ایڈریس دے دو ۔ مجھے ‘‘ اس کے کہنے پر سیف نے لوکیشن سمجھا دی تھی ۔
’’میں جا رہا ہوں اب دفتر‘ آپ جانیں آپ کا کام جانے۔ ‘‘ وہ مسکراتا ہوا اسے گڈ لک کہتا مڑ گیا تھا اور اسے لگا تھا کھل کر سانس ہی آج آیا ہے ۔ کیا کیا خدشے تھے جو اسے ستا رہے تھے ۔ وہ ہمیشہ اسے اپنے پیچھے بھگاتی تھی اور وہ بھاگتا تھا ۔اب تو اس کے وجود میں ان دونوں کا ایک حصہ سانس لے رہا تھا ۔ کتنا ڈر گیا تھا ۔ وہ واقعی سب تباہ کر دیتا اگر وہ نہ ملتی ۔ مسکراتے ہوئے اس نے گاڑی اب سیف کے دیئے ایڈریس کی طرف موڑی تھی۔
’’آپ جیتیں اور میں ہار گیا۔ ‘‘ اس نے اعتراف کیا۔اور گاڑی فل سپیڈ سے بھگائی تھی ۔وہ لڑکی اس کے اندر کا ہر رنگ، ہر ایموشن باہر لے آئی تھی۔ وہ خود بھی اپنے آپ کیان رنگوں سے نا واقف تھا۔
٭…٭…٭
دروازے پر ہوتی مسلسل دستک پر اس نے جھنجھلا کر کمرے سے باہر دیکھا تھا۔ خالہ شاید ساتھ والوں کے گھر گئی تھیں۔
’’اس وقت کون آگیا ہے۔ ‘‘ بڑبڑاتے ہوئے وہ دوپٹہ پھیلاتی دروازے تک آئی تھی۔
’’کون ہے۔ ‘‘ قدرے چیختے ہوئے پوچھا تھا۔ عمر نے بے اختیار کانوں پر ہاتھ رکھے‘ ایک تو اس لڑکی کا سپیکر ۔اس نے ساتھ کھڑے بچے جو ٹہوکا دیا۔
’’میں ہوں عدیل‘ کھیر بھیجی ہے اماں نے ، ساتھ والی گلی سے۔ ‘‘ وہ رٹو طوطے کی طرح بولا تھا۔
ہاتھ میں دبے پانچ سبز نوٹ ملے تھے اسے بس یہ ایک لائن بولنے کے لیے ۔ اتنا بول کر وہ بھاگ گیا تھا ۔زینب نے دروازہ کھولا تھا اور پھروہ شاکڈ ہوئی تھی ۔ سامنے کھڑا لمبا چوڑا بندہ ۔ تھکا تھکا سا لیکن مسکراتا ہوا‘ جیسے کسی مسافر کو بہت لمبی مسافت کے بعد منزل ملی تھی ۔ اسے لگا ساری کائنات رک گئی ہے ۔ وہ بس شاکڈ تھی، بے یقین۔
’’آپ۔ ‘‘ اس کے ہونٹوں سے بے آواز نکلا تھا ۔
جبکہ وہ ایسے دیکھ رہا تھا اسے جیسے صدیوں بعد کسی کو اندھیرا دیکھتے دیکھتے ہلکی ہلکی میٹھی روشنی ملی ہو اور وہ آنکھ بھی جھپکنا نہ چاہتا ہو کہ کہیں دوبارہ اندھیرا نا ہوجائے۔سرخ رنگ کی کشمیری شال میں وہ کوئی کشمیری ہی لگ رہی تھی۔ دھوپ کی تمازت سے لال لال ہوتے رخسار، حیرت سے پھیلی آنکھیں اور ہونٹ، اس پر بھرا بھرا سا اس کاوجود۔
’’اندر نہیں آنے دو گی؟‘‘ وہ بمشکل بولا تھا۔ الفاظ گم ہو رہے تھے۔
’’نہیں۔ ‘‘ تیز ہوتی دھڑکن کے ساتھ ٹرانس سے باہر آتے ہوئے وہ دھڑام دروازہ بند کرچکی تھی ۔
’’وہ کیسے آگیا تھا ادھر تک۔‘‘ زینب نے بے اختیار سوچا۔
٭…٭…٭
’’دروازہ کھولو زینب۔ ‘‘ اس کی آواز میں بے تابی، شدت، چاہت اور ڈر ہر ایک چیز موجود تھی۔ وہ قدرے تھکا ہوا اور پرجوش سا تھا ۔ لیکن تھکن ایسی تھی جو منزل دیکھ کر بھول گئی تھی ۔
جبکہ زینب کا دل گویا دل کی دیواریں توڑ کر باہر آنے کو تھا ۔ بہت کچھ یاد آیا تھا ۔ ان پانچ مہینوں میں جو اذیت اس نے کاٹی تھی ۔ وہ درد اندر ہی اندر سہا تھا ۔ ایک پل، ایک سیکنڈ کے لیے بھی وہ اسے نہیں بھلا سکی تھی ۔ وہ اس کامحبوب شوہر تھا، شوہر پہلے بنا تھا محبوب بعد میں ‘ اور اسی کی نظروں میں وہ سب سے زیادہ بے اعتبار ٹھہری تھی۔
’’اگر تم نے دروازہ نہ کھولا تو… ‘‘ وہ رکا ۔ تھکن بڑھ گئی تھی آواز میں ۔ زینب کے دل کو کچھ ہوا۔
’’یہیں رہوں گا ۔ آج، کل، پرسوں، جتنے بھی دن اس دروازے کے باہر رہنا پڑا ۔ کہیں نہیں جاؤں گا۔ ‘‘ یہ اعتراف کتنا بھلا لگ رہا تھا ۔ اس کے کان ترس گئے تھے ‘اس توجہ کے لیے، اس نرمی کے لیے ۔ وہ اسے شہزادی بنا کے رکھتا تھا ۔ ان پانچ ماہ میں وہ بس ایک داسی بن کر رہ گئی تھی ۔ آج پھر سے وہی احساس سر اٹھا رہا تھا۔
اس نے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے صحن کے اندر لگے بیسن پر شیشے میں اپنا آپ دیکھا ۔ کھلی سی سیاہ قمیض اور ٹراؤزر ساتھ سرخ پشمینہ شال … وہ الجھی ہوئی تھی۔
کچھ سوچتے ہوئے وہ دروازے تک آئی تھی۔
’’ آپ لینے کیا آئے ہیں ادھر۔ ‘‘ بند دروازے کے پیچھے سے باآواز بلند پوچھا تھا۔
’’ خود کو مکمل کرنے آیا ہوں۔ ‘‘ اس کالہجہ گھمبیر تھا ۔ اس نے آہستہ سے دروازے کی درز سے دیکھا تھا۔
گرے کلف لگی قمیض شلوار میں وہ اسے پہلے سے زیادہ اچھا لگا تھا ۔ اس کی دہلیز کو امید نا امیدی سے دیکھتا ۔ زینب کی جلتی آنکھوں کو سکون آنے لگا تھا ۔ دھوپ میں اس کے براؤن بال اور آنکھیں الگ ہی لو دے رہی تھیں، فولڈ کیے بازو اور ان پر نمایاں ہوتے بال ۔ زینب بے اختیار اس کی طرف کھچی تھی ۔ وہ بال اسے بہت اٹریکٹ کرتے تھے ۔ صاف رنگت اور ہلکی سی بڑھی شیو ۔ اس کاجی چاہا وہ ہاتھ بڑھا کر دیکھے، چھوئے ۔ ان پانچ ماہ میں اس نے تخیل میں اتنا اسے سوچا تھا، محسوس کیا تھا کہ اب وہ سامنے تھا تو وہ آنکھ نہیں جھپکنا چاہ رہی تھی۔
’’زینب۔ ‘‘ وہ باہر سے پھر سے اسے پکار رہا تھا۔
’’ میں بہت ادھورا ہوں۔ میری جنت میں‘میری حور نہیں ہے۔ ‘‘ وہ لفظوں کا بادشاہ نہیں تھا لیکن اس پر ہمیشہ ہی جادو چل جاتا تھا ۔
اس نے دروازہ کھول دیا۔ وہ بے یقین پھر حیران اور پھر بے قرار ہو کر آگے بڑھا تھا اور دوسرے ہی لمحے وہ اس کی مضبوط پناہوں میں تھی ۔ بے ساختہ اندر آتے ہی اس نے اسے اپنے اندر سمویا تھا ۔ یوں جیسے یقین کر رہا ہو ۔ یوں جیسے خود کو یقین دلا رہا ہو۔
’’میری زندگی۔ ‘‘ جزبات کی شدت میں گندھی آواز اس کے کان میں کسی سرگوشی کی طرح ٹکرائی تھی ۔
بے تحاشہ دھڑکتے دل کے ساتھ وہ سمٹی تھی ۔ الگ ہونے کی کوشش کر رہی تھی ۔ وہ بھول گیا تھا وہ کہاں کھڑا ہے اور وہ بے جان ہو رہی تھی ۔ ایسی بے اختیاری، ایسی شدت ، اتنا جنون… وہ عمر وحید ہی تھا ناں ۔ وہ گھبرا رہی تھی ، نہ چاہتے ہوئے بھی سرخ پڑ رہی تھی ، کپکپا رہی تھی۔ اور وہ بس اس کے وجود میں کھو رہا تھا ۔ کتنی لمبی مسافت تھی ۔ کیا سے کیا بنا دیا تھا اس لڑکی نے اسے ۔ اس کی بگڑی ہوئی عادت بن گئی تھی وہ جس کو وہ کسی صورت چھوڑ نہیں سکتا تھا ۔سب سے گہرا نشہ،سب سے زورآور…
’’ دروازہ … دروازہ کھلا ہے‘‘ وہ بمشکل بولی تھی ۔ وہ قدرے ہوش میں آیا ۔ پھر ہلکے سے پیچھے ہوا اور دروازہ بند کردیا۔پھر مڑ کر اسے دیکھا تھا جو اب پیچھے ہٹ کر کھڑی ہوگئی تھی۔
’’زینب عزیز۔ ‘‘ وہ دوبارہ اس کی طرف بڑھا۔
’’نہیں، میں ایک فریب ہوں بس ۔ کوئی زینب عزیز نہیں ہوں میں۔ ‘‘ اسے یاد آگئی تھی اپنی ناقدری۔
’’ ایک آپ ہی تو حقیقت ہیں عمر وحید کی دنیا میں۔ ‘‘ وہ اس کے کندھے پر جھکا تھا پیچھے سے اسے حصار میں لیے۔
’’یہ کہنا بہت آسان ہے ۔ ‘‘ اس کالہجہ نا چاہتے ہوئے بھی بھرایا تھا۔
’’وقت آنے پر کوئی بھروسہ نہیں کرتا۔ ‘‘ شکوہ لبوں سے پھسلا تھا اور وہ مدہوش ہو کر ان پر جھکا تھا ۔
مزید شکوؤں کو ٹالتا، بند کرتا۔اس کی ناک سے ناک رگڑتا‘ اس سے بھی زیادہ قریب ۔وہ کانپتی ہوئی آنکھیں بند کر چکی تھی ۔ ایک اس رات وہ ایسے قریب ہوا تھا اس کے اور پھر سب تباہ ہوگیا تھا اور ایک اب…
’’ہر شکایت کا، ہر شکوے کا ازالہ کیا جائے گا۔‘‘ وہ بنا پیے بہک رہا تھا۔
’’میں کبھی بھی تم سے نفرت نہیں کر سکا زینب ۔ کبھی بھی نہیں…‘‘ وہ بے بس سا اعتراف کر رہا تھا ۔اس کے بالوں میں منہ چھپائے ۔ سکون رگ و پے میں پھیل رہا تھا ۔ اسے لگ رہا تھا پانچ ماہ بعد شاید وہ اب کھل کر سانس لے سکا تھا۔
’’ میں اب بھی نہیں جانتا کہ تم نے وہ سب کیوں کیا تھا میرے ساتھ ۔ مجھے گلہ تھا کہ تم نے مجھ سے چھپایا ۔ اپنی فیملی کا ساتھ دیا ۔ لیکن میں کسی سے کوئی تحقیق نہیں کی اس بارے میں۔ کسی سے نہیں پوچھا ۔ جب تم نے ہی نہیں بتایا تو کسی سے میں کیا پوچھتا۔ ‘‘ وہ کہہ رہا تھا اور وہ پھر سے اس کی شرٹ بھگوتی ہوئی رو رہی تھی ۔
’’اور جو اب تم نے کیا ۔ میں وہ بھی نہیں جانتا کہ کیوں کیا ۔ لیکن میں اتنا جان گیا ہوں کہ…‘‘ وہ رکا ۔ اس کابھی لہجہ بھرا رہا تھا۔
’’ہم دونوں ایک دوسرے کے بغیربالکل ادھورے ہیں ۔ بالکل نامکمل اور اب تو ہم… ‘‘ وہ بولتے بولتے بھیگی آنکھوں کے ساتھ ہنسا۔
’’ہم ایک اور عہدے پر فائز ہونے جارہے ہیں۔ ‘ ‘ وہ اس کی بات پر روتے روتے سرخ ہوئی تھی ۔
’’وہاں حویلی والے سب سمجھ رہے کہ تم میرے پاس ہو۔ ‘‘ اب وہ مزید ہنسا تھا۔
’’آپ کے پاس ہی ہوں۔ ‘‘ وہ بہت دھیما سا بولی تھی اور وہ بے اختیار سرشار ہوا تھا۔
’’تھینک یو سو مچ۔ ‘‘ اس نے ماتھا چوما۔
’’جب آغا جان نے آپکی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا میں سمجھ گئی تھی وہ آپکو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ۔پھر وہ انٹرویو ہوا اور آپ ایجنسیوں کے خلاف بولے ۔ میں تب بھی سمجھ گئی تھی کہ یہ انٹرویو آپکے لیے رکھوایا ہی آغا جان نے ہے ۔ ان کا میڈیا میں بہت اثرو رسوخ تھا ۔ میں اس دن بہت روئی تھی، مجھے ڈر لگ رہا تھا ۔ سب آپ کے خلاف ہوگئے تھے۔ میں نے آپ کو بہت کالز کیں، آپ نے اٹینڈ نہیں کیں۔ میں نے فیصلہ کیا کہ آپ کا اس فیلڈ میں رہنا آپ کو نقصان دے گا ۔ اس لیے میں نے آغا جان سے رابطہ کیا ۔ ان کو یقین دلایا کہ میں ان کی وفادار ہوں لیکن بدلے میں…‘‘ وہ روتے روتے رکی ۔ وہ دم سادھے سن رہا تھا۔
’’ بدلے میں میں نے ان سے آپ کی جان کی حفاظت مانگی تھی کیونکہ وہ کہہ رہے تھے کہ سب آپ کے خلاف ہیں ۔ وو دو لوگ جو ہوٹل میں تھے وہ آغا جان نے بتایا کہ وہ آپ کو مروادیں گے ۔ میں نے ان کو کہا تھا کہ آپ معافی مانگ لیں گے ۔ لازمی مانگ لیں گے۔ وہ آپ کا کچھ نہ کہیں‘ میں خود ان سے ملی تھی آغا جان کے ساتھ۔ ‘‘ وہ روتے ہوئے اسے بتا رہی تھی اور وہ ایک دفعہ پھر شاکڈ تھا۔
’’ انہوں نے کہا ہمیں یقین نہیں کہ آپ معافی مانگیں گے ۔ میں بتایا کہ آپ معافی نامہ لکھ چکے ہیں ۔ انہوں نے ثبوت مانگا تو میں نے تصویر بھیج دی۔ ‘‘ وہ اب بول نہیں پا رہی تھی ۔ آنسوؤں سے اس کاپورا چہرہ گیلا ہوگیا تھااور گلا اٹک رہا تھا۔
’’مجھے نہیں پتہ تھا وہ آپ کا تماشہ لگائیں گے، رسوا کریں گے ۔ خدا کی قسم مجھے…‘‘ عمر نے اسے دوبارہ اپنے اندر بھینچا تھا ۔ اس کی آنکھیں پتھر کی ہو رہی تھیں اور اندر ابلتا لاوا، ہاتھوں کی اور بازوؤں کی رگیں بہت نمایاں ہو گئی تھیں ۔
’’بس ، اور کچھ نہیں سننا‘بس کرو۔ ‘‘ اسے تکلیف ہو رہی تھی۔غصہ آرہا تھا۔جنون سوار ہو رہا تھا۔
’’ان سب کی موت آئی ہے اسی لیے انہوں نے تمہیں استعمال کیا ۔‘‘ اس کاسر سہلاتا ہوا وہ اس قدر سرد لہجے میں بولا تھا کہ وہ بے اختیار اسے دیکھنے پر مجبور ہوئی۔
’’میں کبھی کسی کے ساتھ پرسنل نہیں ہوا۔ لیکن اب ‘ ایک ایک سے بدلہ لوں گا ۔ ایک ایک کو یاد رہے گا کہ عمر وحید کون ہے۔ ‘‘ وہ اس کے انداز اور آنکھوں میں تیرتے جنوں سے ڈری تھی ۔
’’آپ چھوڑیں ان سب کو۔ آپ کسی کو کچھ نہیں کہیں گے۔ وہ لوگ بہت طاقتور ہیں ۔ ‘‘ عمر یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا ۔ وہ اسے اس وقت اس دنیا کی سب سے معصوم لڑکی لگی تھی۔ اس کی زندگی کے لیے ڈری ہوئی ۔اس نے جھک کر ہونٹوں سے اس کاگال چھوا تھا ۔
’’اللہ کے علاوہ کوئی طاقتور نہیں ہے زینب ، ڈرو مت۔ ‘‘ دوبارہ سمیٹا تھا۔
’’ کیا مجھ سے محبت ہوگئی تھی جو میرے لیے اتنے رسک لے لیے، اکیلے اکیلے…‘‘ وہ اب شرارت سے گنگنایا۔
’’نہیں ، بس میں نہیں چاہتی تھی آپ کے خاندان کو ایک اور صدمہ جھیلنا پڑے۔ ‘‘ وہ اعتراف نہیں کر رہی تھی ۔ لیکن اس کی جھکی آنکھیں اور لال گلابی ہوتے گال ۔ ہر ہربات کا اعتراف کر رہے تھے۔
’’اچھاااا…‘‘ اس نے کافی لمبا کھینچ کر اچھا کہا تھا۔
’’چلو پیکنگ کرو ‘ پھر واپس جا کر بتاتا ہوں تمہیں۔ ‘‘ وہ اس ک چہرے کو مسلسل فوکس میں لیے ہوئے تھا۔
’’ویسے جب تم روٹھتی ہو۔ اور بھی جان لیوا ہو جاتی ہو۔ ‘‘ وہ مزید سرخ ہوئی۔
’’آپ کو تو منانا بھی نہیں آتا۔ ‘‘ اس کاایٹی ٹیوڈ پلٹ آیا تھا،اس کی نک چڑھی مغرور زینب…
’’ابھی بھی منانا نہیں آتا۔ ‘‘ وہ پھر سے جھکا۔
’’مجھے پیکنگ کرنی ہے۔ ‘‘ وہ اسے دھکیلتے ہوئے اندر بھاگی تھی ۔ اس کے جاتے ہی وہ واپس سنجیدہ ہوا تھا ۔پھر سکندر کو فون ملایا تھا۔
’’ ایک کیس تیار کرنا ہے ۔ اور کھلم کھلا دو بندوں کو نامزد کرنا ہے ۔ میری‘ عمر وحید کی بیوی کو بے جا ہراساں کرنے کے جرم میں ۔کسی کو چھوڑنا نہیں ‘ ایک ایک کا برا حشر ہونا چاہئے ۔ میں آرہا ہوں واپس ‘دل جگرا تیار رکھنا۔ ‘‘ اسے ہدایات دیتا وہ اب مطمئن سا اس کاانتظار کر رہا تھا۔
٭…٭…٭

پچھلا صفحہ 1 2 3 4

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page