خرمن قلب: قسط نمبر 6
اتنی لیٹ…عمر نے بے اختیار ٹائم دیکھا جہاں ساڑھے بارہ بج رہے تھے ۔ اس وقت وہ شہر سے آرہی تھی ۔اسے قدرے غصہ بھی آیا تھا اس بے احتیاطی پر لیکن پھر یاد آیا تھا کہ اب کوئی حق نہیں اس کے پاس ۔وہ پھر سے گاڑی ریورس کرچکا تھامگر وہ اس کے پاس آکر گاڑی روک کر نیچے اتری تھی ۔ گلاسز اتنے اندھیرے میں بھی لگے ہوئے تھے ۔ اسے اترتا دیکھ کر وہ پھر سے ساکت تھا۔
اس کی گاڑی کے پاس آکر اس نے شیشہ بجایا تھا ۔ وہ شیشہ نیچے کرنے کی بجائے خاموشی سے خود نیچے اتر آیا تھا ۔دونوں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے ۔ اس کی آنکھوں میں کیا تھا وہ نہیں جانتا تھا لیکن وہ بس اس کے چہرے کے سوا باقی ہر چیز کو دیکھ رہا تھا۔
’’مجھے کچھ بات کرنی ہے۔ ‘‘ وہ ہمیشہ کی طرح اعتماد سے بولی تھی ۔
آگے سے وہ اب بھی خاموش تھا۔
’’اس رات‘ مجھ سے آپ نے سارے قرضے وصول کر لیے تھے۔ ‘‘ وہ کیا بات کر رہی تھی ۔ عمر کو سب یاد آنے لگا تھا۔وہ کیا کہنا چاہ رہی تھی۔
اس نے شال سامنے سے ہٹائی تھے ۔ وہ اس کی طرف شاکڈ سا دیکھ رہا تھا ۔ایک بار پھر سے وہ اس کی بولتی بندکر چکی تھی ۔یک ٹک بس دیکھے جارہا تھا ۔ اسے سمجھ آگئی تھی وہ کیوں اتنا سلیقے سے شال اوڑھنے لگی ہے۔
’’ آئی ایم ایکسپیکٹنگ یور چائلڈ۔ ‘‘ اس کالہجہ ذرا بھی نہیں لڑکھڑایا تھا ۔ وہ نہ بھی بتاتی تو وہ سمجھ چکا تھا۔
’’مجھے صرف یہ بات کرنی ہے کہ… ‘‘ وہ پہلی بار رکی۔
’’ کیا واقعی وہ سب ایک تاوان تھا ؟ اگر تھا تو اس کے اس دنیا میں آنے کا کوئی حق نہیں ۔ میں اسے ختم کردوں گی۔‘‘ اس دفعہ وہ لڑکھڑائی تھی۔
’’اگر کوئی احساس تھا، کوئی جزبات تھے تو اس کی حفاظت کروں گی ۔ اور آپ کی امانت اس دنیا میں آتے ہی آپ کو سونپ دوں گی۔ ‘‘ وہ گلاسز اتار چکی تھی ۔ آنسو اس کے گالوں سے ٹپ ٹپ نیچے گر رہے تھے۔
’’میں یہ فیصلہ‘ اکیلے نہیں کر سکتی ‘ اس لیے…‘‘ اس سے آگے نہیں بولا گیا تھا ۔ وہ آنکھوں سے نکلتے پانی کی شدت کی وجہ سے سر جھکا چکی تھی ۔
’’ تم نے یہ سب‘ کیوں کیا زینب۔ ‘‘ وہ رک رک کر بولا تھا ۔ کسی ٹرانس سے باہر آتا ہوا ۔وہ پھر سے اسے جکڑ رہی تھی اور وہ اب قید نہیں ہونا چاہتا تھا۔
’’میں اب نہیں بتاؤں گی۔ ‘‘ وہ روتے ہوئے اسی کی بات لوٹا رہی تھی ۔ عمر کو تکلیف ہوئی تھی ۔ وہ بے اختیار اس کے قریب آیا تھا۔
’’ تم میرے خلاف الیکشن لڑ رہی ہو ۔ ‘‘ اس نے اس کاہاتھ پکڑ کر کھینچا تھا۔وہ سیدھی اس کے ساتھ آلگی تھی۔
ایک بار پھر اس کاسینہ اس کے آنسوؤں سے بھیگنے لگا تھا ۔وہ زاروقطار رو رہی تھی اور اسے مزید تکلیف دے رہی تھی۔
’’ میں پوری دیانتداری سے تمہارے پاس آیا تھا ۔ صرف اس رات نہیں‘ہمیشہ … میرے بچے کو کچھ نہیں ہونا چاہئے زینب‘ کچھ بھی نہیں۔ ‘‘ اس نے بمشکل اسے پیچھے ہٹایا اور سرد لہجے میں بولا تھا۔ اب وہ اس کے کسی فریب میں نہیں آئے گا۔
’’ٹھیک ہے۔ ‘‘ وہ بھی گلاسز لگا چکی تھی ۔اور واپس گاڑی کی طرف مڑگئی تھی۔
’’اتنی رات کو تم اکیلے وہ بھی اس کنڈیشن میں ۔ گھر والوں کو کوئی خیال ہے یا نہیں۔ ‘‘ وہ تلخ ہوا تھا ۔ انہی گھر والوں کے لیے وہ اس کے خلاف گئی تھی ناں۔
’’یہ آپ کا بچہ ہے ‘ گھر والے اس کی فکر کیوں کریں گے۔ ‘‘ وہ بھی تلخ ہوئی تھی۔
’’اور تم…تمہارا نہیں ہے؟‘‘ وہ دھیما ہوگیا تھا۔
’’میری بات چھوڑ دیں ۔ میں اس قصے میں کہیں نہیں ہوں۔ ‘‘ وہ اسی تلخی سے بولتی گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔ وہ بے اختیار پیچھے آیا۔
’’ میں چھوڑ دیتا ہوں گھر ۔ ‘‘ زینب کو کوئی خوش فہمی نہیں ہوئی تھی ۔ وہ جانتی تھی وہ کس کی فکر میں کہہ رہا ہے۔
’’مجھے اکیلے کرنا آگیا ہے سب۔ ‘‘ وہ شیشہ اوپر کر چکی تھی ۔ساتھ ہی گاڑی آگے بڑھ گئی تھی اور وہ پھر سے وہیں کھڑا تھا ۔ سینے پر نمی محسوس کرتا‘قدرے بے یقین، قدرے خوش، قدرے ساکن ۔اسے سمجھ نہیں آرہی تھی وہ کیا محسوس کرے ۔ اسے نوازا جا رہا تھا وہ بھی اس لڑکی کی کوکھ سے ۔وہ آنکھیں رگڑتا خود بھی گاڑی میں آبیٹھا تھا۔
٭…٭…٭
الیکشن سے ایک رات پہلے وہ پھر سے شہر آگیا تھا ۔ اور سکون سے سو رہا تھا۔ اسے اب کوئی فکر نہیں تھی ۔
چوہدری ظہور کے جیتنے کے چانسز نوے فیصد تھے‘ وہ جانتا تھا ۔ دادو بھی سمجھ گئی تھیں یہ بات اس لیے پیچھے ہٹ گئی تھیں ۔ یہ ایک طرفہ مقابلہ تھا ۔ اور بڑے اب جتوانا بھی اس سائیڈ کو ہی چاہتے تھے ۔ عمر کی وجہ سے پہلے ہی ان کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچ چکا تھا ۔ اب تو وہ کسی صورت اسے جیتنے نہیں دیں گے۔
اس لیے وہ سکون سے نیند پوری کر کے صبح آٹھ بجے اٹھا تھا اور ٹی وی آن کیا تھا لیکن نیوز چینل پر آتی خبر دیکھ کر اسے جھٹکا لگا تھا۔
’’ایم پی اے کی امیدوار زینب بلا مقابلہ شکست تسلیم کر چکی ہیں ۔ پولنگ شروع نہیں کی جا سکی ۔ آج صبح اپنے جاری کیے بیان میں انہوں نے کہا وہ یکطرفہ شکست تسلیم کرتی ہیں اور عمر وحید اس سیٹ پر بلامقابلہ جیتتے ہیں ۔ یاد رہے کہ اس سیٹ پر دو ہی امیدوار تھے ۔ سابقہ ایم پی اے اس سیٹ کو دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں‘ وہ بھی بلامقابلہ ۔ اس موضوع پر ہم اپنے تجزیہ کار…‘‘ عمر کا وجود آندھیوں کی زد میں آیا تھا ۔ اس نے موبائل اٹھا کر دیکھا جہاں تیس سے زیادہ مس کالز آئی ہوئی تھیں ۔
یہ کیا ہو رہا تھا ۔ کیسے ہوا تھا۔ وہ کیا کر رہی تھی ۔ اس نے کتنا بڑا اپ سیٹ کردیا تھا ۔ اس نے سب سے پہلی کال اسے ملائی تھی۔
’’ یہ سب‘ کیا ہے زینب…‘‘ وہ بمشکل بولا تھا۔
’’آپ نے تو قرض وصول کر لیا تھا لیکن…‘‘ وہ بہت آہستہ بول رہی تھی۔
’’لیکن مجھے پھر بھی چکانا تھا ۔ اب کوئی حساب نہیں ہمارے درمیان۔ ‘‘ وہ ایک بار پھر اس کو بے جان کر کے فون بند کر چکی تھی ۔فون پھر سے بج رہا تھا۔
سکندر، دادو، عفان اور نجانے کون کون اسے کال کر رہا تھا لیکن وہ ایسے تھا جیسے آج شاید حرکت نہیں کر سکے گا۔
٭…٭…٭
ایک زلزلہ تھا جو حویلی کے در و دیوار میں بپا تھا۔
ایک مہینہ الیکشن کمپین میں وہ ایک دفعہ بھی نہیں بولی تھی، خود کہ کر ایم پی اے کے طور پر نامزد ہوئی تھی کہ وہ اس کے خلاف لڑے گی ۔ وہ عمر وحید کے خلاف کتنا زہر اگلتی تھی ۔ وہ اسے امیدوار بنانے کے حق میں نہیں تھے لیکن پھر بہت کچھ سوچ کر بنا دیا تھا ۔ اور آخر وقت میں وہ اکیلے جا کر بیان دے آئی تھی ۔ چوہدری ظہور کو لگ رہا تھا کہ آسمان سر پر گرا ہے ۔ غصہ، بے بسی اور ایسی المناک شکست ۔ وہ بھی اپنی اولاد کے ہاتھوں ۔ وہ باقاعدہ سٹامپ پیپر جمع کروا کے آئی تھی الیکشن دفتر اپنے بیان کا تا کہ کوئی اسے چیلنج نہ کر سکے ۔ وہ تو خوش تھے، نازاں تھے ۔ انہیں فخر تھا کہ زینب نے وہ کر دکھایا جو وہ بھی نہ کر سکے ۔ وہ واپس اس گھر کی بنیادیں ہلا کر آئی تھی ۔ وہ سب اس دن ہسپتال میں کیسے ہارے ہوئے لگ رہے تھے ۔ لیکن آج وہ سب انہیں لگ رہا تھا قسمت ان کا منہ چڑا رہی ہے۔
وہ پاگلوں کی طرح ادھر ادھر سٹیک ٹیکتے چکر نکال رہے تھے۔
’’زینب کا کوئی پتہ نہیں ہے آغا جان ۔ بیان دینے کے بعد سے وہ غائب ہے ‘ ہر جگہ پتہ کرلیا ہے۔ ‘‘ مجید کی آواز پر ان کے منہ سے مغلظات کا ایک طوفان نکلا تھا۔
’’کہاں ہوگی وہ‘ کہاں ہوسکتی ہے ۔ اندھے ہو تم لوگ کیا‘ بہرے ہو کیا ۔ سنا نہیں اس نے کیا کہا ہے صبح ۔ اسی کے پاس گئی ہوگی ‘ وہ میرے ساتھ کھیل گیا ہے ۔ کیوں ڈھونڈھ رہے ہو تم لوگ اسے‘ ہمیں جیتے جی مار گئی ہے۔ ‘‘ وہ با آواز بلند چیخ رہے تھے۔
وہ بھول گئے تھے یہی کھیل انہوں نے اس کے ذریعے عمر کے ساتھ کھیلا تھا ۔ شطرنج کی اس بازی میں اس نے خود کو کوئین بنا لیا تھا اور بازی پلٹ کر کے اپنے بادشاہ کی قربانی نہیں دی تھی، خود داؤ پر لگ گئی تھی ۔سب دم سادھے ان کی بات سن رہے تھے۔
’’کیا جواب دوں گا میں ان کو‘ میں وعدہ کیا تھا جیت کر جیسے وہ کہیں گے کروں گا ۔ وہ میری جان کے دشمن بن جائیں گے ۔ ‘‘ وہ بالکل جاہلانہ انداز میں اب چلا رہے تھے ۔
زینب نے ایسے گیم پلٹی تھی کہ سارے حالات ان کے خلاف ہوگئے تھے ۔ اس کھیل کے بڑے اس وعدہ خلافی پر ان کے دشمن ہوگئے تھے ۔ وہ تو یہی سمجھ رہے تھے کہ چوہدری ظہور نے گیم کی ہے ان کے ساتھ، زینب نے نہیں ۔ کیونکہ پوری کمپین چلائی ہی خود انہوں نے تھی ۔ وہ تو ایک دن بھی آگے نہیں ہوئی تھی ۔ ایسا کاری زخم لگا تھا کہ وہ بلبلا رہے تھے۔
’’ جو بویا آپ نے میری اولاد کے زریعے‘ وہی کاٹا ہے آغا جان ۔ گندم بو کر آپ چاول تو نہیں کاٹ سکتے‘ ظاہر ہے۔ ‘‘ عزیز صاحب آج کاٹ دار لہجے میں بولے تھے ۔وہ آج ڈرے نہیں تھے ۔ ان کے سامنے طاقتور جلاد چوہدی ظہور نہیں تھے بلکہ ہارے ہوئے اور ڈرے ہوئے چوہدری ظہور تھے۔ اس لیے وہ آج بولے تھے۔
’’وہ وحید کا بیٹا ہے ۔ وہ آپ کے ساتھ بہت شرافت سے چل رہا تھا اور آپ نے اس کاناجائز فائدہ اٹھایا ۔ تو وہ کیوں نہیں وار کرے گا بھلا۔ ‘‘
’’ میری بیٹی اگر اس کے پاس واپس چلی گئی ہے تو میں بہت خوش ہوں کہ میری دونوں بیٹیاں اپنے گھر میں بس رہی ہیں ۔ باقی آپ اور آپ کے کھیل میں ہم مزید اس کاحصہ نہیں بنیں گے۔ ‘‘ وہ کہہ کر وہاں سے چلے گئے تھے ۔
پیچھے ایک سناٹا تھا ۔ آغا جان کی حالت اس زخمی بے بس شیر کے جیسی تھی جو کچھ کرنے کے قابل نہیں رہا تھا ۔ انہیں چاروں خانے چت گرایا گیا تھا ۔
٭…٭…٭
’’حویلی میں ماتم ہو رہا ہے ۔ اور زینب بی بی کا کوئی پتہ نہیں ہے ۔ ان کے اس فیصلے میں چوہدری ظہور کی کوئی رضامندی شامل نہیں ہے ۔ ‘‘ سکندر اس کے سامنے بیٹھا بتا رہا تھا ۔ وہ نہ بھی بتاتا تو وہ جانتا تھا ۔ ہاں، اتنا تو وہ جانتا تھا اسے ۔ پہلی مرتبہ لگا تھا کہ وہ اسے جانتا ہے ۔ وہ اس کی ہی زینب تھی۔
’’وہاں سب سمجھ رہے ہیں کہ وہ آپ کے پاس واپس آگئی ہیں ۔ اور آپکی شہ پر انہوں نے یہ کیا ہے۔ ‘‘ اس کی بات پر عمر نے سر اٹھایا۔
’’کیا واقعی وہ آپ کے پاس ہیں ؟ ‘‘ سکندر کون سا حویلی والوں سے کم تھا‘ اسے بھی یہی لگ رہا تھا۔
’’میرے پاس ہوتی تو شاید میں…‘‘ وہ کہتے کہتے رکا ۔ عجیب انداز تھا اس کا‘سکندر کو وہ آج بہت مختلف لگا تھا۔
’’اسے ہر قیمت پر ڈھونڈو سکندر ۔ ہر قیمت پر‘مجھے وہ واپس چاہیے۔ ورنہ ہر چیز تباہ کردوں گا‘ہر چیز…‘‘ اس کے لہجے کی جنونیت دیکھ کر سکندر کو بے اختیار اس سے خوف آیا۔
وہ آج الگ ہی لگ رہا تھا ۔ اس کی آنکھوں میں دیوانگی تھی۔
’’چوہدری ظہور کی اب موت آئی ہے ۔ وہ بھی میرے ہاتھوں سے ‘اگر وہ مجھے نہ ملی تو وہاں بھی کسی کو سکون سے نہیں رہنے دوں گا میں۔ ‘‘ اس کے لہجے کی سردی ۔ وہ بے اختیار زبان ہونٹوں پر پھیرتا کھڑا ہوا۔
’’اس کے ہاسٹل، یونیورسٹی ہر جگہ میں پتہ کر چکا ہوں ۔ وہاں وہ نہیں ہے‘ نمبر بھی آف ہے ۔ہر بس سٹیشن، وین اڈے، گاڑیاں آج جہاں بھی گئی ہیں پتہ کرو سب جگہ… پاتال سے بھی ڈھونڈنا پڑے تو ڈھونڈو۔ ‘‘ وہ واقعی پاگل ہورہا تھا۔
سکندر خاموشی سے باہر آگیا تھا ۔ کم از کم آج وہ اس کے آگے نہیں بول سکا تھا ۔ وہ کوئی اور عمر تھا‘جسے وہ جانتا تھا ۔یہ تو کوئی جنونی آدمی تھا جسے اس کی من پسند چیز ہر صورت چاہئے تھی ۔ وہ پہلی بار انتقام کی بات کر رہا تھا ۔ اور سکندر جانتا تھا اگر وہ واقعی انتقام لینے پر آگیا تو حویلی میں صدیوں اس بات کا چرچا رہے گا کیونکہ وہ ہر ایک کام بہت ہی اچھے طریقے سے کرتا تھا ۔ زینب نے جو کیا تھا جو نہیں‘ غلط صحیح ۔ وہ نہیں جانتا تھا وہ بس اتنا سمجھ گیا تھا کہ وہ عمر وحید کے لیے بہت ضروری ہے۔
اور عمر وحید ‘ وہ اس وقت پل صراط پر کھڑا تھا ۔ وہ ایک دفعہ پھر اسے گنگ کر گئی تھی ۔ اسے ہمیشہ ہی اپنی من مانیاں کرنے کی عادت تھی۔ اب بھی اس نے کی تھی۔
’’کہاں جا سکتی ہے وہ‘ آخر کہاں ۔ اسے تو راستوں کا کبھی ٹھیک سے پتہ نہیں چلتا۔ ‘‘ اس کے ذہن میں جھماکہ ہوا تھا ۔
’’ سیف،اوہ مائی گاڈ ۔ ‘‘ وہ بڑبڑایا پھر پاگلوں کی طرح باہر دوڑا۔
’’مجھے کراچی جانا ہے سکندر، فوراََ میری فلائٹ بک کروادو ۔ مجھے ابھی جانا ہے۔ ‘‘سکندر اس کے نئے حکم پر حیران سا اسے دیکھ رہا تھا۔
پھر خاموشی سے سر ہلاتا ایئر پورٹ کال کرنے لگا تھا۔
٭…٭…٭
ایئر پورٹ سے نکلتے ہی اس نے کال ملائی تھی ۔ بہت دیر تک بیل جانے کے بعد فون اٹینڈ ہوا تھا ۔اس نے جان بوجھ کر انجان نمبر سے کال ملائی تھی۔
’’السلام علیکم… ‘‘ سیف کی آواز آئی تھی۔
’’وعلیکم السلام۔ ‘‘ وہ آگے سے آہستہ سے بولا۔
’’کون؟‘‘ سیف نہیں پہچان سکا تھا۔
’’ مجھے تم سے ملنا ہے‘ اسی وقت۔ ‘‘ اب وہ پہچان گیا تھا۔
’’آپ… آپ کا نمبر ہے یہ…‘‘ وہ بوکھلایا۔
’’ہاں‘ میرا ہی ہے۔ ‘‘ عمر کا لہجہ سرد ہوا۔
’’آپ کراچی آئے ہوئے ہیں؟ زینب بھی ہے ساتھ کیا ؟ ‘‘ اس نے پوچھا۔
’’تم سوال ہی کرو گے بس یا ملو گے بھی ؟ ‘‘ اس کی بات پر دوسری طرف خاموشی چھا گئی تھی۔
’’ آپ میریٹ ہوٹل آجائیں عمر بھائی‘ میں آرہا ہوں پندرہ منٹ میں۔ ‘‘ اس کی بات پر وہ سر ہلاتا فون بند کر کے ہوٹل کی طرف نکلا تھا۔
وہاں پہنچتے ہی اسے سیف نظر آگیا تھا ۔ وہ اس سے پہلے ہی وہاں کوجود تھا۔
’’ زینب کہاں ہے؟‘‘ اس نے جاتے ہی ڈائیریکٹ پوچھا تھا۔ سیف بے اختیار اچھلا۔