خرمن قلب: قسط نمبر 6
’’وہ میرے ساتھ رہے گی یا نہیں ۔ میرا کیا نقصان ہوا کیا نہیں‘مجھے کچھ یاد نہیں ۔ لیکن اگر اسے کچھ ہوا تو میرا سب سے بڑا نقصان ہوجائے گا۔‘‘ وہ بچوں کی طرح رو رہا تھا ۔ بالکل ایسے جب اس کاباپ مرا تھا ۔ اور اسے وہ ہر صورت چاہیے تھے ۔ مگر نہیں ملے تھے۔
’’میں اسے معاف کرتا ہوں اللہ‘ میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں ‘میں نے اسے پورے دل سے اپنایا تھا ۔ کبھی اسے چوہدری ظہور کی پوتی سمجھ کر ٹریٹ نہیں کیا ۔ہمیشہ اسے خوش رکھنے کی کوشش کی‘ اس نے آگے سے کیا کیا، کیوں کیا ۔ میں ایک عام بشر میں نہیں جانتا ۔ لیکن میں اس کو معاف کرتا ہوں ۔ بس آپ اس کو ٹھیک کردیں ۔پلیز…‘‘ اس نے دونوں آنکھیں رگڑیں ۔ دل اندر کی بھڑاس نکال کر یکدم ہی بہت پرسکون ہوگیا تھا ۔
وہ کافی پرسکون ہوکر اندر آیا تھا لیکن کوریڈور میں اب کوئی نہیں تھا ۔ وہ حیران ہو کر آگے آیا، وہ سب زینب کے کمرے میں تھے ۔ گویا اسے ہوش آگیا تھا ۔ اس کے قدم من من کے ہونے لگے ۔ چار قدم کا فاصلہ گویا صدیوں کی مسافت لگ رہا تھا لیکن وہ چلتا رہا اور بالآخر دروازے تک آگیا تھا ۔ اس کے وہاں آتے ہی اس نے اس کی طرف دیکھا تھا۔
عمر کو ایک جھٹکالگا تھا۔ بالکل خالی اور ویران آنکھوں سے وہ اسے دیکھ رہی تھی۔وہ مکمل ہوش میں تھی۔ اسے سب یاد تھا بہت اچھی طرح۔
’’بالکل بھی پریشان مت ہو بس تم ۔ سب اچھا سوچو ۔ نجانے کیا صدمہ اتنا دل پر لے لیا میری بچی نے۔ بس ٹھیک ہو جاؤ جلدی تا کہ گھر چلیں۔‘‘ وہ یک ٹک اسے دیکھتا امی کی آواز سن رہا تھا۔
’’میں آغا جان کے ساتھ جاؤں گی گھر…‘‘ وہ بہت مضبوط لہجے میں بولی تھی ۔ نظریں اس پر سے ہٹا کر عمر نے بے اختیار دبی ہوئی سانس خارج کی ۔ اس کی بات پر وہ سب حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے۔
’’ ضرور میری بچی ۔ کچھ دن ہماری طرف رک جانا، اچھے سے آرام کرنا۔ ‘‘ آغا جان کی بات پر وہ زخمی انداز میں مسکرائی۔
’’کچھ دن نہیں، ہمیشہ کے لیے آغا جان۔‘‘ وہ اب بھی اسی طرح مضبوطی بولی تھی۔
’’کیا، کیا مطلب ۔ کیا کہہ رہی ہو بیٹا۔ ‘‘ امی گھبرائی تھیں اور وہ سب بھی ۔ ایک اس کے سوا جو خاموشی سے سر جھکائے ایک طرف کھڑا تھا ۔ امی نے فوراََ اس کی طرف دیکھا سوالیہ نظروں سے مگر وہ نجانے کہاں گم تھا۔
’’ ہم نے جو کھیل شروع کیا تھا وہ ختم ہو چکا ہے آغا جان۔‘‘ وہ اب چوہدری ظہور سے ڈائریکٹ مخاطب ہوئی تھی ۔ ان کا رنگ اڑچکا تھا۔
’’ عمر وحید سیٹ چھوڑ چکا ہے ۔ اب میرا یہاں رہنا نہیں بنتا۔ میرے اوپر جو ان کا قرض تھا وہ کل رات میرے سے وصول کر چکے ہیں۔ ‘‘ اس کالہجہ اس بات پر بھرایا تھا ۔ عمر کو تکلیف ہوئی تھی اس کے الفاظ پر لیکن یہ اس نے ہی اسے کہا تھا کہ وہ تاوان لے چکا ہے۔
’’ کیا ہورہاہے یہ سب۔ عمر،کیا کہہ رہی ہے زینب ۔ بتاؤ مجھے‘کیا ہے یہ سب۔ ‘‘ امی شاید واحد تھیں وہاں جو انجان تھیں ۔ عفان بھی بہت کچھ سمجھ گیا تھا اور زوار بھی‘ باقی تو تین مہرے جانتے ہی تھے کہ وہ کیا کہ رہی ہے۔
’’میں کسی معافی کے لائق نہیں نہ ہی میں معافی چاہتی ہوں ۔ بس میں اتنا کہوں گی کہ میری بہن ردا کا اس سب میں کوئی قصور نہیں ۔ وہ اور عفان ایک دوسرے کے ساتھ بہت مخلص ہیں۔ ‘‘ وہ جانتا تھا وہ یہ بات اس کو کہہ رہی ہے تا کہ وہ ردا کو بھی نہ واپس بھیج دے۔ وہ اسی طرح سر جھکائے کھڑا رہا ۔ ایک دفعہ بھی دوبارہ نظر ملا کر اس کی طرف نہیں دیکھا تھا ۔ اعتراف وہ کر رہی تھی اور اذیت اسے ہو رہی تھی ۔ اس طرح سے اسے ڈاؤن ہوتا دیکھنا اسے مسلسل تکلیف دے رہا تھا۔
وہ نہیں جانتا تھا وہ اب بھی سچ کہہ رہی ہے یا بس یہ بھی دکھاوا ہے ۔ اس کااعتبار اس بری طرح سے ٹوٹا تھا کہ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی ۔ صرف اعتبار ٹوٹنے کی تکلیف نہیں تھی ۔ وہ اسے کتنی عزیز تھی، کیا وہ اسے بتا نہیں پایا ۔ ہر عمل سے اس نے اسے بتایا تھا کہ وہ اس کے لیے کتنی خاص ہے۔ اس سب کے بعد یہ سب دیکھنا، سمجھنا، سہنا، اس کے لیے اس وقت ایک قیامت ہی تھی ۔وہ کوئی جواب امی کو دیئے بغیر باہر آگیا تھا اور اس کے باہر جاتے ہی زینب نے آنکھیں موند لی تھیں ۔ اس کے باہر آتے ہی امی اور عفان اس کے پیچھے آئے تھے جبکہ پیچھے کمرے میں ایک سناٹا تھا ۔ آغا جان سر جھکائے بیٹھے تھے ۔ زوار بے یقین اور عزیز صاحب سفید چہرے کے ساتھ زینب کو دیکھ رہے تھے جو اس وقت واقعی ایسا لگ رہا تھا کہ اجڑ گئی ہے۔
٭…٭…٭
اس نے صرف عفان کو بتایا تھا ۔ کیونکہ اب اور کوئی چارہ نہیں تھا اور پھر عفان نے سب کوبتا دیا تھا ۔ وہ فی الحال کسی کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا، صرف اکیلے رہنا چاہتا تھا ۔ دو دنوں میں زندگی نے ایسا پلٹا کھایا تھا کہ اس جیسا بندہ بھی ہل گیا تھا ۔کئی دن تک وہ ایسے ہی شہر میں رہا تھا ہوٹل میں، اپارٹمنٹ بھی وہ نہیں جاتا تھا ۔ وہاں جانا اب اس کے بس سے باہر تھا۔ صرف سکندر جانتا تھا کہ وہ اس وقت کہاں ہے ۔ سیٹ چھوڑ چکا تھا، اس علاقے میں سیٹ فل کرنے کے لیے دوبارہ انتخابات کا اعلان ہو چکا تھا۔
ابھی بھی وہ ناشتہ کر رہا تھا جب سکندر کا فون آیا تھا۔ اس نے اٹینڈ کیا۔
’’ کاغزات نامزدگی جمع کروانے کی آخری تاریخ پرسوں ہے۔ ‘‘ وہ بتا رہا تھا۔
’’تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے سکندر کہ میں دوبارہ الیکشن لڑوں گا وہ بھی اپنی ہی چھوڑی ہوئی سیٹ پر ؟ ‘‘ وہ تنگ آگیا تھا ۔
ہر روز وہ اس کو کہتا تھا آج اتنے دن رہ گئے، اتنے دن رہ گئے آخری تاریخ میں۔
’’ آپ کی دادو نے پیغام بھیجا ہے کہ یہ ان کا حکم ہے کہ آپ کاغذات جمع کروائیں ورنہ وہ اپنے کاغذات جمع کروادیں گی۔ ‘‘ سکندر کی بات پر وہ بے اختیار اچھلا۔
’’میں بات کرتا ہوں ان سے۔ ‘‘ اس نے کہہ کر فون رکھنا چاہا۔
’’ وہ بات نہیں کریں گی آپ سے جب تک آپ کاغذات جمع نہیں کرواتے۔ ‘‘ عمر نے فون کو گھورا تھا۔
’’میں اس سب سے باہر آچکا ہوں سکندر، میں کبھی بھی دوبارہ اس سب میں پڑنا نہیں چاہتا ۔ ‘‘ وہ اب تھک کر بولا تھا۔
’’میں آپ کا پیغام ان تک پہنچا دیتا ہوں کہ آپ ان کا حکم نہیں مان سکتے۔ ‘‘ سکندر اور اس کے بیانات ۔ عمر کو یقین تھا وہ اس کاوفادار نہیں صرف دادو کا چمچہ ہے ۔
’’ اوکے کروادو جمع ۔ کوئی کسی قسم کی کمپین نہیں چلانی بس‘ خاموشی سے جمع کروادو ۔ خود ہی ہار جائیں گے ہم۔ ‘‘ اس نے ہار مان لی تھی۔
جانتا تھا دادو ضد پر ہیں ۔ وہ اب ہر صورت چوہدری ظہور کو ہرانا چاہتی ہیں ۔ جو کچھ وہ دوبارہ اس کے خاندان کے ساتھ کر چکے تھے ، وہ اس کو قطعاََ بھولنے والی نہیں تھیں ۔ اور رہی اس کی بات‘وہ پہلے والا عمر نہیں رہا تھا ۔ بس اپنی چلانے والا، اٹل فیصلے کرنے والا ۔ وہ بس ہارا ہوا ‘پیچھے ہٹا ہوا عمر تھا ۔
’’ آپ جانتے ہیں اس طرف سے کون نامزد ہوا ہے۔ ‘‘ سکندر نے ’’اس طرف’’ پر کافی زور دیا تھا۔ وہ اسے ہرٹ کرنا نہیں چاہتا تھا لیکن یہ اس کو بتانا ضروری تھا ۔
’’نہیں اور مجھے جاننا بھی نہیں ہے۔ ‘‘ وہ اب سپاٹ لہجے میں بولا تھا ۔
’’ زینب بی بی الیکشن لڑ رہی ہیں آپ کے خلاف۔ ‘‘ سکندر نے دھماکہ کیا تھا اور وہ پھر سے ساکت ہوگیا ۔
’’میں آغا جان کے ساتھ مل کر آپ کے خلاف الیکشن لڑوں گی۔ ‘‘ مزاح میں اس نے یہ بات کی تھی ۔عمر نے بے اختیار کرسی کو تھاما ۔
’’اوکے۔ ‘‘ بس اتنا کہہ کر وہ فون بند کر چکا تھا ۔
وہ پچیس سال کی لڑکی‘اس کاخاندان ۔ عمر کادماغ اب خراب ہونے لگا تھا ۔ کیا تماشہ لگایا ہوا ہے ‘ وہ کیسے لڑسکتی ہے ۔ وہ اتنی چھوٹی ہے ۔نجانے کیا کچھ سوچتا وہ آج دو مہینے بعد گاؤں جانے کے لیے نکلا تھا ۔ جنت پور کی سڑک پر اس کی گاڑی کے سامنے چوہدری ظہور کے گاؤں کے دوسرے روڈ سے گاڑی آئی تھی ۔ دونوں گاڑیوں کا ٹکراؤ ہوتے ہوتے بچا تھا۔
عمر نے بے اختیار سر سٹیرنگ سے ٹکراتے ٹکراتے بچایا تھا اور پھر سر اٹھا کر غصے سے سامنے دیکھا تھا ۔ ہاں اب وہ شانت نہیں رہتا تھا ۔ اسے بہت غصہ آنے لگ گیا تھا ۔ اس کاذہنی سکون تباہ ہوگیا تھا دو ماہ پہلے سے۔لیکن سامنے دیکھ کر اسے لگا تھا وہ غصہ تو کیا شاید بول بھی نہیں سکے گا ۔ گاڑی میں اگلی سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ زینب بیٹھی تھی۔
آنکھوں پر ٹکے گلاسز ، نیلا دوپٹہ اچھے طریقے سے سر پر جما تھا، اور کندھوں پر باقاعدہ ایک شیشوں والی شال موجود تھی ۔اور وہ پھسل بھی نہیں رہی تھی ۔ وہ زینب عزیز‘وہ واقعی وہی تھی لیکن بالکل مختلف حلیے میں ۔ انتہائی ڈیسنٹ اور میچور‘ وہ واقعی الیکشن لڑسکتی تھی ۔ وہ اس کی چہکتی ہوئی‘نازک زینب نہیں تھی‘ جس سے دوپٹہ ہی نہیں سنبھلتا تھا۔
بائیں طرف اٹھتی درد پھر سے ہونے لگی تھی ۔ اس نے خاموشی سے گاڑی ریورس کر کے اسے راستہ دیا تھا ۔ یہ تو طے تھا کہ ظرف اسے ہی دکھانا تھا ہر بار ۔ دوسری طرف اس کی آنکھوں کی سرخی اور نمی ان سن گلاسز کے پیچھے ہی چھپی تھی۔ بہت تیزی سے اس کی گاڑی وہاں سے گزر گئی تھی۔
٭…٭…٭
زندگی کے سارے نشیب و فراز میں سے یہ مرحلہ اسے سب سے کٹھن لگ رہا تھا ۔ دو ماہ میں وہ بمشکل سنبھلا تھا اور آج وہ پھر سے اسے نظر آگئی تھی ۔ ایک بار پھر سے اس کے لیے وقت رکنے لگا تھا ۔ وہ وقت رکنے کی دعا مانگا کرتا تھا جب وہ اس کے ساتھ ہوتی تھی اور دعا اب قبول ہوئی تھی جب وہ وہاں نہیں تھی ۔ وہ اب بھی اس سے نفرت نہیں کر سکا تھا ۔ پتہ نہیں اس کاظرف اتنا بڑا ہوگیا تھا کہ وہ اسے مارجن دے رہا تھا کہ اپنی فیملی کی ہمدردی میں اس نے سب کیا ہوگا ۔ شاید کوئی بھی بیٹی کرلیتی‘ لیکن نفرت وہ نہیں کر سکا تھا۔
ایک بار پھر وہ تھکا ہوا دادو کے سامنے گھر آیا تھا ۔ ہر بندہ ہی گھر پر اس سے نظریں چرا رہا تھا۔
’’ کاغذات جمع کروا دیئے ہیں سکندر نے ۔ ‘‘ انہوں نے کچھ نہیں پوچھا تھا اس سے‘ بس اتنا ہی کہا تھا ۔ اسی اثناء میں ردا چائے لے آئی تھی ۔ عمر نے بے اختیار سر اور جھکایا تھا ۔ اس سے جڑے ہر رشتے سے اسے وہ یاد آتی تھی۔
’’کمپین میں خود چلاؤں گی اس مرتبہ… ‘‘ ان کے لہجے پر وہ سر اٹھا کر دیکھنے پر مجبور ہوا ۔ ان کا ناتواں وجود اسے یوں دیکھ کر یکدم ہی مضبوط ہوگیا تھا ۔
’’آپ یہ سب کیوں کر کر ہی ہیں ؟ ‘‘ وہ بس اتنا ہی بولا تھا۔
’’ تم کچھ بتاتے ہو جو میں تمہیں بتاؤں ؟ مجھے میرا پوتا ہی واپس اس سیٹ پر چاہئے ۔ وہ کل کی آئی لڑکی نے تمہارا کیا حال کردیا ۔ اسے اس کی اوقات میں بتاؤں گی ۔ نفیسہ بیگم کو جانتے نہیں وہ لوگ‘ ایک بیٹا تو میں نے کھو دیا ۔ دوسرا اپنی نظروں کے سامنے برباد ہوتا دیکھوں کیا ؟ ‘‘ وہ جلال میں آگئی تھیں۔
’’ ایسا سازشی خاندان ۔ خاندان کہنا بھی توہین ہے ۔ خاندانی لوگ ایسے ہوتے ہیں؟ بیٹیوں کو بیچ بیچ کرسیاں بچاتے ہیں۔ ‘‘ انہیں آج موقع ملا تھا بھڑاس نکالنے کا‘ عمر نے ان کی بات پر ردا کا پیلا پڑتا رنگ دیکھا تھا ۔
’’دادو…‘‘ وہ بے بس سا بولا ۔ ساتھ ہی ردا کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا۔ وہ خاموشی سے باہر چلی گئی۔
’’اس کے سامنے تو مت کہیں یہ سب یار ۔ ‘‘ اس کے باہر جاتے ہی وہ بولا۔
’’ کیوں ؟ کیوں نہ کہوں؟ ہم کیا لحاظ مروت نبھانے کے لیے ہی رہ گئے ہیں بس ۔ میرے پوتے کا گھر اجڑ گیا، ہمارے ساتھ اس کی بہن کھیل کھیلتی رہی اور ابھی بھی میں ہی لحاظ کروں۔ ‘‘ وہ کسی معافی کے موڈ میں نہیں تھیں ۔ عمر کو اندازہ ہو رہا تھا کہ پچھلے دو ماہ میں ردا کو یقینابہت کچھ سننا پڑا ہوگا ۔
اپنے ساتھ وہ اپنی بہن کی زندگی بھی داؤ پر لگا گئی تھی۔
’’آج ہی کہا ہے اس کے سامنے یہ سب‘ فکر مت کرو ۔ تمہاری ماں ہے نا مہان‘ ایک لفظ نہیں کہنے دیتی اس کو۔ ‘‘ دادو گویا اس کے تاثرات پڑھ چکی تھیں ۔ وہ ان کی قیافہ شناسی پر بے اختیار مسکرایا ۔ وہ جانتا تھا امی نے ایسا ہی کیا ہوگا ۔ ان کا تو خمیر ہی پتہ نہیں محبت کی کس مٹی سے اٹھایا گیا تھا۔
’’تمہاری مسکراہٹ دیکھنے کے لیے ترس گئے ہیں ہم عمر۔ ‘‘ اس کو مسکراتا دیکھ کر ان کا لہجہ گلوگیر تھا ۔ عمر اب کھل کر مسکرایا۔
’’ایسے ہی خوش رہو۔ میں کہتی ہوں کس چیز کا روگ لیا ہے تم نے ۔ میرے شہزادے کو کوئی لڑکیوں کی کمی ہے کیا؟ طلاق بھیجو اسے اور فارغ کرو۔ ‘‘ ان کی بات پر اس کادل ایک بار پھر کئی لمحوں کے لیے رک گیا تھا۔
بے اختیار سانس لینے کی کوشش میں وہ زور سے کھانسا تھا۔
’’کیا ہوا۔ ‘‘ وہ پریشان ہوئیں ۔ وہ بول نہیں سکا‘ پسینہ اس کے مساموں سے پھوٹ پڑا تھا۔
’’ میں آتا ہوں‘ تھوڑی دیر تک۔ ‘‘ وہ بائیں بازو پر ہاتھ رکھے تیزی سے کہتا وہاں سے نکلا تھا ۔
طلاق… اسے لگا تھا آج دوبارہ اس کی جان نکل رہی ہے ۔وہ زینب کو کیسے الگ کر سکتا ہے ۔ ایسے کہ دوبارہ کوئی رشتہ ہی نہ رہے‘ کیسے ہوسکتا ہے ۔ اس کی سچ میں سانسیں اٹکنے لگی تھیں ۔ وہ جانتا تھا آج دادو نے یہ بات کی ہے تو کل کو ادھر سے بھی یہ مطالبہ آئے گا ۔وہ کیسے برداشت کرے گا ۔
’’میں اتنا کمزور تو نہیں تھا۔ ‘‘ اسے حیرت ہوئی تھی۔ آنکھیں پھر سے بھرنے لگی تھیں۔
وہ وہیں سے واپس شہر کی طرف نکل آیا تھا ۔ ایک بار اسے ہر شے اپنے گلے کا پھندا لگ رہی تھی ۔ وہ دوبارہ یہ لفظ ہی نہیں سننا چاہتا تھا اس لیے دامن بچا کر وہاں سے بھاگا تھا لیکن کب تک بھاگ سکتا تھا ۔
٭…٭…٭
ایک بار پھر وہ شہر میں مصروف ہوگیا تھا۔ دادو ایک بھرپور کمپین چلا رہی تھیں ۔ وہ گاہے بگاہے سوشل میڈیا پر دیکھتا تھا ۔ دوسری طرف زینب کی کمپین بھی اس کے آغا جان چلا رہے تھے ۔ وہ بس ہر جلسے میں بہت ہی اچھی طرح چادر اپنے وجود کے گرد لپیٹے گلاسز لگائے بیٹھی ہوتی تھی ۔ وہ ہر دفعہ روکتا تھا خود کو اور ہر دفعہ دیکھنے پر مجبور ہوجاتا تھا ۔ دونوں خاندان ہر کمپین میں ایک دوسرے کو خوب برا بھلا کہتے تھے ۔ الیکشن نزدیک آرہا تھا ۔ چند ہی دن بچے تھے جب ایک دن وہ بہت لیٹ نائٹ شہر سے گاؤں جا رہا تھا ‘جب سکندر کی اسے کال آئی تھی۔
’’کیا ہوا سکندر ؟ ‘‘ اس نے کچھ پریشان ہو کر فوری پوچھا ۔ اب تو ہر گھڑی دل ڈرتا رہتا تھا ۔ کسی انہونی کے احساس سے ۔اس نے گاڑی روک دی تھی۔
’’آپ کی دادو نے کل ایک پریس کانفرنس بلانے کا کہا ہے۔ کیا بلا لوں ؟ ‘‘ اس کی بات پر اس نے گہرا سانس لیا۔
’’بلانی تو تم نے ہے ہی‘ کون سامیرے منع کردینے سے رک جانا ہے۔ ‘‘ وہ سکون سے بولتا اسے شرمندہ کرنا چاہ رہا تھا ۔ لیکن وہ ہوا نہیں تھا۔
’’یہ بھی ٹھیک ہے ۔ ویسے تو میں بلا چکا ہوں‘ میں نے کہا انفارم کردوں۔‘‘ وہ بھی آرام سے کہتا فون بند کرچکا تھا ۔ عمر نے دوبارہ گاڑی سٹارٹ کی لیکن پھر رکا تھا ۔ دوسری طرف سے گاڑی آرہی تھی۔ اور ڈرائیو بھی وہ خود کر رہی تھی۔