خرمنِ قلب: قسط نمبر 4
’’بالکل ضروری نہیں ہے ۔ ہر کسی کو آزادی اظہار رائے کا پورا حق ہے ۔ اور تم جتنی کلیئر ہو اپنے فیصلوں میں ۔ تمہیں تو کوئی حقوق نسواں کا فورم جوائن کرنا چاہیے۔‘‘ وہ سادہ لہجے میں بول رہا تھا مگر اسے لگ رہا تھا کہ طنز کر رہا ہے۔
’’فورم کیوں جب میری تعلیم مکمل ہوجائے گی ۔ میں بھی الیکشن لڑوں گی وہ بھی آغا جان کے ساتھ مل کر آپ کے خلاف اور جیت جاؤں گی۔‘‘ وہ سلگی تھی ۔ البتہ اس کی بچگانہ بات پر وہ کھل کر ہنسا پھر اس کے پاس آیا تھا ۔یہ جانے بغیر کہ کبھی کبھی تقدیر منہ سے نکلی ہر بات سچ کر دیتی ہے۔
’’میرے مقابلے کے لیے تمہیں کسی کے ساتھ ملنے کی ضرورت نہیں ‘ میں ویسے ہی جیتنے دوں گا ۔ ڈونٹ وری۔‘‘ مسکراتی آنکھوں کے ساتھ وہ اس کے سامنے آکھڑا ہوا تھا ۔
’’دیکھتے ہیں ۔ ‘‘ وہ فوراََ نظروں کا زاویہ بدلتی کمرے میں موجود کسی بھی چیز کو فوکس کرنے لگی تھی ۔ وہ سامنے آگیا تھا تو ‘ اس کاغصہ خود ہی کم ہوگیا تھا۔
’’کتنا پیارا مسکراتا ہے ۔ ضرور اسی وجہ سے ووٹ ملے ہوں گے ۔‘‘ وہ دل ہی دل میں کڑھی۔
’’نظر نہ لگا دینا ۔‘‘وہ گویا اس کادماغ پڑھ رہا تھا ۔ زینب زور سے اچھلی۔
’’یہ منہ اور مسور کی دال، ہونہہ۔‘‘ اگلے ہی لمحے وہ ماتھے پر تیوریاں سجائے کہتی سائیڈ سے گزری تھی مگر وہ بازو پکڑ چکا تھا۔
’’اچھی لگ رہی ہو ۔ چلو اب غصہ ختم کردو۔‘‘ اس کی مسکراتی آواز‘ وہ سب سمجھ رہا تھا ۔
’’آئی نو اور کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ۔ میں ہمیشہ اچھی لگتی ہوں۔‘‘ وہ بازو چھڑوا کر بولی۔لیکن غصہ تو واقعی اب بالکل ختم ہوگیا تھا ۔کوئی سحر پھونکتا تھا وہ اور سب ٹھیک کردیتا تھا۔
’’ہاتھوں پر بھی لگا لینی تھی مہندی۔‘‘ وہ دوبارہ ہاتھ پکڑ چکا تھا ۔ اور اس کادل گویا بلیوں اچھلنے لگا تھا ۔ اس نے نوٹ کیا تھا کہ صرف پیروں پر لگی ہے۔
’’مجھے ہاتھوں پر لگانا پسند نہیں۔‘‘ وہ اب بے نیازی سے بولی ۔ عمر زیر لب مسکرایا ۔ ایک تو میڈم کی پسند نا پسند…
’’اور اگر میں کہوں مجھے پسند ہے تو۔‘‘ وہ ایک بازو اس کے کندھے پر رکھتا اسے ایک سائیڈ سے ساتھ لگاتے ہوئے بولا تھا۔
’’تو آپ لگا لیں، میں نے کب روکا۔‘‘ اس کی بات پر وہ زور سے ہنسا۔
’’اس بیچارے کو کبھی سر پر بھی پہن لیا کریں۔‘‘ اب وہ اس کادوپٹہ زمین سے اٹھاتے ہوئے بولا۔
’’آپ کے سامنے بھی اب سر پر پہنوں کیا؟‘‘ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا تھا اور پھر احساس ہوتے ہی اس نے زبان دانتوں تلے دبائی تھی۔
’’نہیں میرے سامنے تو نہیں۔‘‘ اس کی آواز بوجھل ہوئی تھی اور زینب کی دھڑکن تیز…
وہ آہستہ سے پیچھے ہٹتی بیڈ پر بیٹھ گئی تھی اور وہ پھر سے اس کے سامنے نیچے زمین پر آبیٹھا تھا ۔پھر ہاتھ بڑھا کر اس کاپاؤں تھاما تھا۔
’’یہ آئی تھنک اس کو پائل کہتے ہیں۔‘‘ اس نے جیب سے چاندی کی پائل نکالی تھی ۔ وہ دنگ رہ گئی۔
’’یہ … یہ میرے لیے لی آپ نے ۔‘‘ اسے یقین نہیں آیا تھا۔
’’ہاں ، کیا تمہیں پسند نہیں؟‘‘ اس کے سوال سے زیادہ وہ اس کی گہری ہوتی نظروں سے گھبرائی تھی۔
’’پسند ہے۔‘‘ بمشکل جواب دیتے اس نے دوپٹہ ٹھیک کیا ۔ وہ بے اختیار مسکرایا تھا ۔وہ لڑکی اس کے لیے کتنا ضروری ہوگئی تھی یہ وہ سمجھ گیا تھا ۔اس کے لیے اس کاسٹریس ریلیور بن گئی تھی ۔
’’میں پہنا دوں؟‘‘ اجازت مانگی گئی تھی ۔زینب کا دل چاہا تھا اپنا آپ وار دے اس پر۔
’’شیور۔‘‘ وہ بس یہی کہہ سکی تھی۔
’’مائی پلیژر۔‘‘ وہ اسی جان لیوا مسکراہٹ کے ساتھ اس کے پیروں میں اپنی زنجیر باندھ رہا تھا ۔
’’چلیں ریسٹ کریں اب ۔ میں ذرا امی کے پاس جارہا ہوں۔‘‘ پائل پہنا کر وہ جذبات پر بند باندھتا فوری اٹھا تھا اور باہر چلا گیا تھا ۔ جبکہ وہ خوشی، مسرت، یقین، بے یقینی اور حیرت میں گھری دھڑ دھڑ کرتے دل کے ساتھ ادھر ہی بیٹھی تھی۔
٭…٭…٭
جب تک وہ واپس کمرے میں آیا تھا وہ گہری نیند میں جاچکی تھی ۔عمر کی نظریں بھٹک بھٹک کر اس کے کمبل سے باہر نکلے پیروں پر جارہی تھیں ۔اس نے پائل اتاری نہیں تھی۔ کمبل منہ پر بھی اوڑھا ہوا تھا مگر پاؤں باہر نکال کر سوتی تھی ۔اس نے جھک کر کمبل پیروں کے اوپر بھی کردیا تھا ۔اپنے آپ کو قابو میں رکھنے کے لیے۔ لیکن دوسرے ہی لمحے وہ پھر سے ہٹا چکی تھی۔ بے اختیار طویل سانس لیتا وہ لائٹ آف کرکے صوفے پر آگیا تھا ۔ نیند میں بھی اسے اپنی ہی من مانی کرنی تھی مگر نیند فی الحال کوسوں دور تھی۔
وہ خوش تھا، مطمئن تھا مگر پھر بھی سو نہیں پا رہا تھا ۔ بہت کچھ ذہن میں بیک وقت چل رہا تھا۔بالآخر اس نے موبائل نکال لیا تھا دھیان بٹانے کو ۔یونہی سکرولنگ کرتے کرتے نجانے کتنا وقت گزرا تھا بے مقصد اور نجانے کتنا گزر جاتا مگر آہٹ کی آواز پر وہ مڑا ۔ وہ جاگ گئی تھی۔
’’کیا ہوا۔‘‘ اسے بیڈ سے اترتا دیکھ کر وہ بھی بیٹھ گیا تھا۔
’’پانی پینا ہے۔‘‘ وہ بیڈ کی دوسری سائیڈ پر پڑے جگ کی طرف بڑھی۔
’’آپ ابھی تک جاگ رہے ہیں۔‘‘ گلاس ہاتھ میں پکڑے اب عمر کی طرف مڑی پھر ٹائم دیکھا تھا جہاں ساڑھے تین بج رہے تھے۔
’’ہاں بس،نیند نہیں آرہی تھی۔‘‘ اس نے بنا دوپٹے کے وجود سے آنکھیں ہٹائیں ۔ ڈھیلے سے سفید کرتے میں وہ مکمل اسے اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی اوپر سے پیروں پر لگی سرخ مہندی۔
’’اتنی کم نیند کیوں آتی ہے آپ کو۔‘‘وہ اب اس کے پاس صوفے پر ہی آگئی تھی ۔
وہ فورا پیچھے کھسکا۔
’’آئی ڈونٹ نو ۔ میں شروع سے ہی کم سوتا ہوں ۔‘‘ وہ آہستہ سے بولا سر جھکائے۔
’’حالانکہ نیند تو سنا ہے ان کو نہیں آتی جو عشق وغیرہ کرتے ہوں۔‘‘ وہ کہہ کر خود ہی ہنسی ۔ اب کی بار وہ روک نہیں سکا تھا خود کو‘ بے اختیار دیکھنے پر مجبور ہوا۔
زیرو لائٹ کے بلب میں وہ گویا نیند پوری کر کے بڑی فریش تھی ۔ اس نے ہاتھ بڑھا کے اسے کھینچا تھا اور ساتھ لگایا تھا ۔ زینب کی ہنسی وہیں رک گئی تھی ۔ بے تحاشہ دھڑکتے دل کے ساتھ اس کے سینے پر سر رکھے وہ اس کی دھڑکنوں کا شور بھی سن رہی تھی ۔ٹھنڈ تھی مگر پھر بھی اسے گھبراہٹ ہورہی تھی۔
’’سو جائیں جا کر …‘ ‘اس کالہجہ خودبخود خمارآلود ہوا تھا ۔ دونوں ہاتھوں سے اس کے بال پیچھے کمر پر سمیٹتے ہوئے اس نے ان پر لب رکھے تھے اور زینب کی جان پر بن آئی تھی۔
’’مج…مجھے نیند آرہی ہے پلیز۔‘‘ پسندیدہ مرد کی قربت کس قدر جان لیوا ہوتی ہے اسے آج اندزہ ہوا تھا ۔ لگ رہا تھا کچھ پل بھی ایسے اور رہی تو وہیں پگھل کر موم ہوجائے گی ۔ اوپر سے رات کا فسوں سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
’’تو سوجائیں، میںنے کب روکا۔‘‘ اسے مزید قریب کیا تھا۔ بالکل جیسے اپنے اندر سمونے کا ارادہ ہو۔
جواباََ وہ کچھ نہیں بول سکی تھی۔
’’میں، میں چاہتا ہوں آپ تعلیم مکمل کریں ۔ اس رشتے کے بارے میں فیصلہ کریں لیکن…‘‘ اس کی گھمبیر آواز مزید بوجھل ہو رہی تھی۔
’’لیکن؟‘‘ وہ بے چینی سے بولی۔
’’عاشقی صبر طلب، تمنا بے تاب۔‘‘ بے بس سا وہ کہتا اس کی آنکھوں پر جھکا تھا ۔ عرق آلود ہوتی پیشانی کے ساتھ اس نے آنکھیں موندی تھیں ۔ وہ دونوں آنکھوں کو باری باری چوم رہا تھا۔
’’فیصلہ یہی کرنا ہے آپ نے کہ آپ میرے ساتھ ہی رہیں گی بس، ٹھیک ہے؟‘‘ ٹھوڑی اوپر کرتے ہوئے وہ مان سے بولا تھا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ وہ فوراَ َآنکھیں موندے موندے ہی ایک لمحہ بھی سوچے بغیر مان گئی تھی ۔
وہ مسکراتے ہوئے اب ٹھوڑی پر جھکا تھا۔
’’چلیں اب سو جائیں شاباش ۔ صحیح امتحان لیتی ہیں میرے آپ۔‘‘ آہستگی سے پیچھے ہوتا وہ قدرے بیچارگی سے بولا ۔ ایک فخریہ مسکراہٹ زینب کے ہونٹوں پر آئی تھی۔
اسے خود کے لیے ایسے دیکھ کر کتنا اچھا لگ رہا تھا ۔ الجھی سانسوں کے ساتھ وہ اٹھی تھی اور پھر کھڑی ہو کر سامنے آئی تھی ۔ نظریں اس کی کھڑی ناک پر جمی ہوئی تھیں ۔پھر وہ قدرے جھکی، ہاتھ سے اس کے ماتھے پر آئے بال پیچھے کیے اور ہونٹ ماتھے پر رکھے۔
اب کے بار ساکت وہ ہوا تھا ۔ ایک لمحے کے لیے اسے لگا تھا اس کادل رک گیا ہے ۔ ساتھ ہی بازو میں اٹھتی درد شدید ہوئی تھی۔
’’گڈ نائٹ۔‘‘ بہت آہستہ سے کہہ کر وہ بیڈ پر چلی گئی تھی جبکہ اسے لگ رہا تھا وہ ہل نہیں سکے گا۔
اظہار تھا، اقرار تھاجو بھی تھا ۔ وہ اندر تک شانت ہوا تھا ۔ لیٹتے ہی نیند آگئی تھی ۔
٭…٭…٭
اگلی صبح وہ بہت لیٹ اٹھا تھا مگر بہت فریش تھا ۔ اٹھتے ہی وہ چینج کر کے باہر آیا تھا جہاں سب شرمائی سی ردا کو گھیر کر بیٹھی تھیں ۔ ساتھ وہ دشمن جان بھی بیٹھی تھی ۔ اسے آتا دیکھ کر سب خاموش ہوگئی تھیں اور وہ بالکل ردا کے پیچھے چھپ گئی ۔ یعنی وہ اب سامنا نہیں کرنا چاہ رہی تھی ۔ وہ خاموشی سے دادو کے کمرے میں آگیا جہاں گاؤں کی عورتوں کا جھگمٹا لگا ہوا تھا۔ ولیمہ ابھی نہیں تھا، صرف گاؤں والوں کے لیے آج دعوت عام تھی ۔ عورتوں کو دیکھ کر وہ بور سا وہاں سے بھی لوٹ آیا تھا ۔ سوچا عفان کے پاس جاتا ہے مگر وہ بھی لمبی تان کر سو رہا تھا ۔
’’آج تو کوئی لفٹ ہی نہیں کروارہا۔‘‘ بے اختیار ہی سر پر ہاتھ پھیرتا وہ واپس کمرے کی طرف بڑھا۔
کمرے میں آتے ہی واٹس ایپ میسج ٹون پر اس نے فون آن کیا۔
’’لوگوں کا ناشتہ تیار ہے وہ کچن سے لے لیں۔‘‘ اس کے میسج پر وہ بے اختیار مسکرایا مگر اس کی ڈی پی دیکھ کر مسکراہٹ سمٹ گئی تھی ۔ ہاتھ بڑھا کر اس نے پروفائل پکچر زوم کی تھی جس میں وہ بلیو کلر کے ڈریس میں بال بڑے سٹائل سے آگے کیے مسکرا رہی تھی۔
’’ڈی پی ریموو کریں فوری۔‘‘ اس نے جوابا میسج کیا۔
’’کیوں؟‘‘ترنت جواب آیا تھا۔
’’کیونکہ اچھی نہیں ذرا بھی۔‘‘اس کے کہنے پر آگے سے غصے والی ایموجی آئی تھی۔
’’یار ہٹا دیں ۔ نہیں مناسب لگتا پتہ نہیں کون کون دیکھتا ہوگا۔‘‘ وہ اب ڈائریکٹ ہوا۔
’’جسٹ گرلز ایڈ ہیں میرے ساتھ ۔ ہر کوئی آپ کی طرح نہیں ہوتا۔‘‘ اس کے جواب پر وہ قدرے مطمئن سا مسکرایا۔
اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتا، ایک انجان نمبر سے کال آنے لگی تھی۔ اس نے فوری کال پک کی ۔فون ایک ٹی وی چینل کی طرف سے تھا جس میں اسے ایک ٹاک شو میں بلایا گیا تھا ۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے حامی بھر لی تھی ۔کل ہی اسے شرکت کرنا تھی ۔ وہ سب چھوڑ چھاڑ کر لاہور کے لیے نکلنے کی تیاری کرنے لگا ۔ زینب کو بھی جلدی میں رپلائی بھی نہیں کر سکا تھا ۔
٭…٭…٭
اپنے پہلے آن ایئر انٹرویو وہ بھی ایک مشہور ترین فیمیل اینکر ہوسٹ کے ساتھ ‘ اس پر دنیا نئے دروازے کھول رہی تھی ۔ جنت پور کے باہر دنیا بہت بڑی تھی ۔ سامنے بیٹھی ہوسٹ اپنے تیکھے سوالوں کو لے کر مشہور تھی ۔ ویسے بھی اسے حکومتی حلقوں کی سپورٹر مانا جاتا تھا ۔ سامنے بیٹھے بندے کو پہلے تو وہ کچھ سمجھ نہیں رہی تھی مگر اس کی وجیہہ شخصیت سے متاثر لگ رہی تھی ۔آن ایئر ہوتے ہی اس نے سٹائل سے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائی تھی اور پھر سوالات کا سلسلہ شروع کیا ۔شروع میں وہ اپنے مخصوص دھیمے انداز میں جواب دیتا رہا تھا مگر وہ مسلسل اسے ٹیڑھے سوالوں سے پھنسانے کی کوشش کر رہی تھی۔
’’ویسے آپ کیوں حکومت کے ساتھ اتحاد کے حامی نہیں ہیں؟‘‘ وہ گھما پھرا کر وہی سوال کوئی دسویں بار پھر سے کر رہی تھی ۔
’’آئی تھنک میں کافی دفعہ اس کاجواب دے چکا ہوں ۔ یہاں اس سیٹ پر بٹھا کر آپ مجھ پر کچھ امپوز نہیں کر سکتی ہیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے یا کیا نہیں ۔ آئی ڈونٹ تھنک سو کہ میں بار بار ریزن بتانے کا پابند ہوں آپ کو۔‘‘ وہ اس بار بھی بولا سنجیدگی سے تھا لیکن اس قدر روڈ سا انداز تھا کہ وہ بس دیکھتی رہ گئی تھی۔
’’آپ لگتا پہلی بار ٹی وی پر آئے ہیں۔‘‘ اب کے وہ کچھ غصے سے بولی تھی ۔ آج تک کسی کی ہمت نہیں ہوئی تھی اسے ایسے باتیں سنانے کی۔
’’نہیں،لیکن مجھے ضرور یہ لگ رہا ہے کہ آپ پہلی بار انٹرویو کر رہی ہیں آج۔‘‘ وہ دوبدو جواب دینے کا عادی نہیں تھا مگر اب دے کر اسے مزہ آیا تھا ۔جواباََ وہ لال پیلی ہو رہی تھی بالکل اپنے کپڑوں جیسی ۔پھر ایئر فون پر شاید اسے کول رہنے کے لیے کہا گیا تھا اس لیے وہ بمشکل خود کو سنبھال کر نارمل ہوئی تھی ۔
’’اسٹیبلشمنٹ کا کتنا رول آپ کے مطابق اس وقت سیاست میں ہے اور کتنا ہونا چاہیئے۔‘‘ اپنی طرف سے اس نے اب سب سے پھنسانے والا سوال کیا تھا ۔ جانتی تھی یہاں بیٹھ کر بڑی بڑی باتیں کرنے والے بھی کبھی بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نہیں جاتے تھے ۔ یہ ہمت تو وزیراعظم بھی نہیں کرتا تھا نہ کوئی اپوزیشن لیڈر…
’’آپ اور ہر وہ بندہ جو یہ سوال کرتا ہے بہت ہی اچھے طریقے سے جانتا ہے کہ ان کا رول کتنا ہے ۔ ہر کوئی ہر چیز کے لیے ان کا محتاج ہے ۔ سیاست تو کرتے ہی وہ ہیں۔‘‘ الفاظ نہیں وہ ہتھوڑے تھے جو وہاں برسے تھے اور اس دن گھر پہنچنے سے پہلے وہ سوشل میڈیا پر اس قدر وائرل ہوچکا تھا کہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
ہر طرف سے آتی کالز نے اس کے ناک میں دم کردیا تھا ۔ اس چینل پر یہ انٹرویو آن ایئر کرنے کے تحت پورے دس دن کی پابندی لگ گئی تھی ۔ جن بڑوں کے خلاف وہ بول کر آیا تھا، ان کو کافی برا لگا تھا ۔کھیل شروع ہو چکا تھا۔
عجیب سے سٹریس کے ساتھ اس نے زینب کو کچھ سکون کے لیے کال ملائی تھی ۔ کیونکہ اس کی پورا دن کالز آتی رہی تھیں مگر وہ اٹینڈ نہیں کرسکا تھا۔
’’آپ کی مصروف ترین زندگی میں جہاں آپ اتنے مشہور ہیں میری جگہ بہت کم ہے عمر وحید صاحب۔‘‘ آگے سے وہ بولی نہیں گویا پھٹ پڑی تھی۔
’’آئی ایم سوری پلیز زینب۔‘‘ وہ بے اختیار شرمندہ ہوا۔
’’نہیں، آئی ایم سوری ۔ میں کسی ایسے بندے کے ساتھ نہیں رہ سکتی جہاں مجھے میری جگہ کے لیے انتظار کرنا پڑے ۔ اور میں اس کی فرسٹ پرائرٹی نہ بن سکوں۔‘‘ وہ اب رو رہی تھی ۔ یہیں پر آ کے وہ ہار جاتا تھا ۔ اسے ہر صورت آج گاؤں پہنچنا تھا ۔ جا کر منانا تھا ‘ وہ اس کی فرسٹ پرائرٹی ہی تھی ۔لیکن یہ بتانا ضروری تھا ۔ اسی ارادے سے وہ جلدی جلدی نکلا تھا۔
٭…٭…٭