خرمنِ قلب: قسط نمبر 4
رات کے قریب گیارہ بجے وہ گھر پہنچا تھا اور ہر طرف ہوئی لائٹنگ دیکھ کر کافی حیران ہوا تھا ۔ نکاح تو پرسوں تھا ۔ بڑے عرصے بعد یہ گھر اس طرح خوشیوں سے بھرا نظر آرہا تھا۔ پورے دن کا تھکا وہ اس وقت صرف آرام کرنا چاہتا تھا مگر اندر سے آتی آوازوں سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ کوئی تقریب ہو رہی ہے ۔ وہ مسکراہٹ سجائے اندر آیا تھا ۔اسے آتا دیکھ کر ایک منٹ میں خاموشی چھا گئی تھی ۔یہ صرف احتراماََ ہوا تھا۔ جیسے ہی وہ سب سے ملا،وہ پھر سے شروع ہوچکی تھیں ۔ اس نے بے اختیار ہی ادھر ادھر نظریں گھمائیں۔ وہ کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔
’’زویا سے کہو کھانا لگائے عمر کے لیے۔‘‘ دادو کی ہدایت پر اس نے فوری منع کردیا ۔ سب لڑکیاں انجوائے کر رہی تھیں۔
’’میں خود لے لیتا ہوں ۔‘‘ وہ وہاں سے اٹھ گیا تھا ۔
’’چلو علیزے کچن میں ہی ہوگی‘ اسے کہنا۔‘‘ امی کے کہنے پر وہ سر ہلاتا کچن کی طرف بڑھ گیا۔
کچن میں کھڑی علیزے کو دیکھ کر بس ایک سیکنڈ کے لیے حیران ہوا تھا ۔ پیلے جوڑے میں ملبوس اس کی طرف رخ موڑے ۔ یہ علیزے اتنی سمارٹ ہوگئی اور بال… دوسرے ہی لمحے وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ زینب ہے علیزے نہیں۔ بے اختیار ہی ایک اپنائیت کا احساس اندر بڑی شدت سے اٹھا تھا ۔ وہ یوں کچن میں کھڑی ۔ کتنا مکمل منظر تھا ۔ اس کی تھکن اترنے لگی تھی ۔
’’السلام علیکم۔‘‘وہ دھیمی مگر گھمبیر آواز میں بولا تھا۔
اور اس کے تیزی سے ٹرے میں گجرے رکھتے ہاتھ ساکت ہوئے تھے ۔پھر وہ بے یقین مڑی تھی ۔ دل یکدم ہی دھڑ دھڑ کرنے لگا تھا ۔ اتنا غیر متوقع سرپرائز ۔ وہ تو پرسوں آنے والا تھا۔
’’حویلی میں کیا سلام کا جواب نہیں دیا جاتا۔‘‘ وہ قدرے شگفتگی سے کہتا اس کے دلکش سراپے سے نظر نہیں ہٹا پا رہا تھا ۔ فی الوقت اسے یہ سب سے مشکل لگا تھا۔
’’وعلیکم السلام ۔ ‘‘وہ بہت آہستہ سے کہتی اس کی پرتپش نظروں سے بچتی دوبارہ رخ موڑ گئی تھی ۔ ٹرے میں رکھے ہاتھ ٹھنڈ میں بھی پسینے سے تر ہوگئے تھے ۔ اسے خود بھی سمجھ نہیں آئی تھی کہ وہ یکدم اتنی کنفیوژ کیوں ہوگئی ہے۔
’’آپ تو پرسوں آنے والے تھے۔‘‘رخ موڑے موڑے ہی اس نے گویا اپنا کانفیڈنس بحال کرنا چاہا۔
’’واپس چلا جاؤں۔‘‘ جذبات کی شدت سے بھرپور آواز بالکل اس کے کان کے قریب سے آئی تھی ۔ اتنے قریب کہ وہ مڑتی تو اس سے ٹکرا جاتی۔ اس کادل اچھل کر گویا حلق میں آگیا تھا۔
’’آپ کی مرضی۔‘‘ وہ مشکل بولی تھی ۔ ہاتھ خوامخواہ ہی پہلے سے ٹرے میں سیٹ گجروں کو سیٹ کرنے لگے تھے۔
’’پھر نہ کہنا کہ میں مانتا نہیں کوئی بات۔‘‘ وہ اب ٹھوڑی کندھے پر رکھ چکا تھا ۔ زینب کا سانس سینے میں اٹکنے لگا تھا ۔ کیا جان لیوا لمحہ ہے ۔یہ تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا کہ وہ اتنا مہربان ہوجائے گا ۔ سارے خدشے کہیں اندر سونے لگے تھے۔
’’پہلے بھی کبھی نہیں کہا ۔ ‘‘ اس کی آواز مزید آہستہ ہوگئی تھی ۔وہ ہاتھ بڑھا کر گجرے اس کے دونوں بازو میں باندھنے لگا تھا اور وہ تپتے رخساروں کے ساتھ سانس روکے کھڑی تھی ۔
’’مجھے کوئی فون نہیں کیا تم نے، یہ بھی یاد رکھنا۔‘‘ وہ اب نوٹ کروا رہا تھا ۔ جھک کر گجرے باندھتے ہوئے۔
’’فون کرنے کی کوئی کمٹمنٹ نہیں ہوئی تھی۔‘‘ وہ اب قدرے بے نیازی سے بولی۔
’’بنا کمٹمنٹ بھی تو کچھ کام کیے جاتے ہیں۔‘‘ وہ اب دونوں ہاتھ اس کے ہاتھوں پر رکھ کر پوری طرح اسے حصار میں لے چکا تھا۔
’’آپ کرتے ہوں گے ،ہم نہیں کرتے۔‘‘ اس کا غرور اس کے لہجے میں واپس آیا تھا ۔ بے اختیار ہی خود پر فخر ہونے لگا تھا ۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتا، قدموں کی قریب آتی آہٹ پر وہ فوری پیچھے ہٹا تھا اور گویا ہوش میں آیا تھا ۔اپنی بے اختیاری پر بے اختیار ہی شرمندہ ہوا تھا ۔
’’میںکھانا لینے آیا تھا۔‘‘ اس نے شاید زندگی میں پہلی بار وضاحت دی۔
’’میں لگا دیتی ہوں کھانا۔‘‘وہ بھی سنبھل گئی تھی ۔ کباب تلنے کے لیے گجرے اتارنے چاہے مگر وہ ہاتھ پکڑ چکا تھا۔
’’مت اتارو ۔ میں خود لے لیتا ہوں کھانا۔‘‘ وہ نرمی سے اسے سائیڈ پر کر کے بولا۔
جبکہ وہ حیران سی اسے دیکھے گئی ۔وہ ایم پی اے کہیں سے بھی نہیں لگتا تھا۔
’’میں لگا دیتی ہوں ۔‘‘ وہ فوراََ آگے ہوئی اور نتیجتناََ اس کے ساتھ زور سے ٹکرائی تھی ۔
’’آرام سے۔‘‘ عمر نے بے اختیار سنبھالا۔
’’ جاؤ شاباش ، میں لگا لیتا ہوں ۔ انجوائے کرو۔‘‘ اس کاگال تھپتھپاتے ہوئے وہ بولا ۔
وہ کسی جادو کے زیر اثر بندھی کھڑی تھی ۔ ہر بار وہ اسے پہلے سے زیادہ اچھا لگتا تھا، بہت اچھا…
’’یہاں ایسی کوئی روایت نہیں کہ یہ کام بس لڑکیاں ہی کریں گی ۔ ہم سب اپنے سب کام شروع سے کرنے کے عادی ہیں ۔‘‘اسے کھڑا دیکھ کر وہ نارمل لہجے میں بولا تھا ۔ وہ امپریس ہوئی۔
’’واہ۔‘‘بے اختیار ہی اس کے منہ سے نکلا ۔اس کے انداز پر وہ بے اختیار ہنسا تھا۔
’’اب میرے سر پر کھڑی رہنا تا کہ میں کوئی کام دھیان سے نہ کرسکوں۔‘‘ وہ قدرے بے بس سا بولا تھا۔ وہ اس کے حواسوں پر سوار ہو رہی تھی ۔
’’توبہ کمپنی دینے کے لیے کھڑی تھی ورنہ میں اتنی بھی فارغ نہیں، ہونہہ ۔‘‘ وہ تنک کر کہتی باہر چلی گئی تھی جبکہ اس کے جاتے ہی عمر نے دوبارہ ایک طویل سانس لیا ۔ تھکاوٹ تو اب ذرا بھی نہیں تھی۔ ہاں بائیں سائیڈ پر ہلکا ہلکا درد اٹھا تھا جو اب اکثر اس کے سامنے اس کو دیکھ کر اٹھنے لگا تھا۔
٭…٭…٭
آج نکاح تھا ۔
وہ دن جس کا خواب عفان وحید نے دو سال پہلے دیکھا تھا اور اسے لگتا تھا کہ اس کی تعبیر ممکن نہیں لیکن اس کی خاموش دعائیں مستعجاب ہوئی تھیں۔
سفید شیروانی میں کلا پہنے وہ واقعی کوئی شہزادہ لگ رہا تھا ۔ دادو اور امی نے بھرائی آنکھوں سے اس کی نظر اتاری اور گاڑی میں بٹھایا۔ نکاح کے لیے صرف عمر، عفان اور دادو جا رہے تھے ۔ لڑکیاں گھر پر تھیں اور زینب ، اس نے خود منع کیا تھا ۔ اس جگہ سے اس کے لوگوں نے اسے نکالا تھا ۔ ہر تعلق توڑا تھا اس لیے اس نے بھی فیصلہ کیا تھا وہ نہیں جائے گی ۔اور کسی نے بھی اس کے اس فیصلے سے اعتراض نہیں کیا تھا ۔ زینب کو سب سے زیادہ کمفرٹیبل چیز اس گھر میں یہ لگی تھی یہاں کوئی کسی پر کچھ بھی تھوپتا نہیں تھا ۔ باقاعدہ طور پر عمر کو گھر کا سربراہ مانا جاتا تھا کیونکہ وہی واحد سب سے بڑا مرد تھا ۔ لیکن نہ ہی وہ فیصلے تھوپتا تھا نہ کوئی اور ۔ ہر کسی کا احترام کیا جاتا تھا ۔ ہر کسی کی بات سنی جاتی تھی اور دل آزاری سے پرہیز کیا جاتا تھا ۔ وہ سب گویا ایک لڑی میں پروئے ہوئے تھے ۔ جس کی ڈور دادو نے عمر کے ہاتھ میں تھمائی تھی۔ اور وہ بالکل بھی سخت گیر سربراہ نہیں تھا ۔ یہاں ہر کسی کو طریقے سے بات کرنے کی عادت تھی۔ پوزیٹویٹی بہت تھی اور کسی کو کوئی جج نہیں کرتا تھا ۔ماضی کی تکلیفوں اور مصیبتوں نے ان سب کو یکجا کردیا تھا ۔
تقریبا تین بجے وہ حویلی پہنچے تھے ۔ ان کا استقبال چوہدری ظہور نے خود کیا تھا اپنی اولاد کے ساتھ ۔ جبکہ حویلی کی عورتوں نے پردوں کے پیچھے سے آنے والوں کو دیکھا تھا حیرت سے ۔ آج تو سورج کہیں اور سے نکلا تھا ۔
ملک وحید کی اولاد آئی تھی اس چوکھٹ پر ‘پوری شان کے ساتھ ۔ اپنی دادی کے پیچھے چلتے وہ دونوں‘ نظریں جھکائے اور سر اٹھائے ۔ انہوں نے یہی سیکھا تھا۔
چوہدری ظہور نے بڑی گرمجوشی سے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا جسے دادو نے کوئی اہمیت نہیں دی تھی مگر عمر وحید… وہ اسے گرمجوشی سے ملا تھا ان سے‘ مسکراتا ہوا ۔ وہ کبھی کسی کو مایوس نہیں کرتا تھا، دوست ہو یا دشمن ۔اس کی گرمجوشی پر ان کی آنکھیں چمکی تھیں ۔ گویا دانہ جو ڈالا تھا وہ چگ رہا تھا ۔ وہ مزید خوش ہوئے۔
آگے بڑھ کر وہ چوہدری عزیز سے اور بھی گرمجوشی سے ملا تھا ۔ ان سے ایسے ملنے کی ایک اور وجہ بھی تھی ۔ وہ زینب کے والد تھے ۔ اور وہ لڑکی اس کے گھر والوں سے بہت اچھے طریقے سے پیش آتی تھی ۔ اس لیے اس نے بھی ایسے ملنا فرض سمجھا تھا ۔ اور وہ کافی مطمئن ہوئے تھے اس سے ایسے مل کر ۔ آخر کو ان کی دوسری بیٹی بھی اس گھر میں جارہی تھی۔
’’کیا آپ لوگ کوئی شرط رکھنا چاہتے ہیں نکاح پر؟ کوئی ڈیمانڈ؟‘‘ چوہدری ظہور عمر سے مخاطب ہوا تھا۔
’’ہم شرطوں پر رشتے نہیں بناتے ظہور صاحب۔‘‘ جواب اس کی جگہ دادو نے دیا تھا۔
’’یہ تو اور بھی اچھی بات ہے ۔ اب جب رشتہ داری بن ہی گئی ہے تو کیا شرطیں اور کیسی باتیں ۔ ماضی کو ساتھ لے کر کیوں چلنا پھر۔‘‘ اب کہ زینب کے تایا بولے تھے۔
’’بالکل۔‘‘ عمر نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’ ہم تو بات کرنے والے ہیں اوپر کہ ہمارے داماد کو کوئی وزارت ملنی چاہئے ۔ آخر اتنی بڑی جیت اپنے نام کی ہے ۔ کوئی عام بات نہیں۔‘‘ چوہدری ظہور اب شگفتگی سے بولے تھے ۔ ان کی بات پر وہ ہلکے سے مسکرایا۔
’’میں اتنی جلدی کا عادی نہیں ہوں ۔ ابھی میں صرف اپنے علاقے میں کام کرنا چاہتا ہوں ۔ تھینک یو سو مچ۔‘‘ وہ اب بھی سنجیدگی سے مگر آہستہ سے بولا تھا اور اس کے لہجے میں ایسا اٹل انداز تھا کہ وہ مزید کچھ کہہ نہیں سکے تھے۔
اس کے بعد بہت سادگی سے نکاح کی تقریب ہوئی تھی اور پھر رخصتی ۔ سرخ چادر میں لپٹا ردا کا وجود عفان کی گاڑی میں بٹھایا تھا ۔ دوسری گاڑی میں وہ اور دادو بیٹھے تھے ۔ تبھی عزیز صاحب اور زوار اس کے پاس چل کر آئے تھے۔
’’زینب کو ہمارا بہت پیار دینا۔‘‘ وہ شکست خوردہ تھکے تھکے سے بولے ۔ عمر کو بے اختیار ترس آیا تھا ان پر اور زینب پر غصہ ۔ پتہ نہیں کیوں اسے وہ چوہدری ظہور کی فیملی سے کچھ مختلف لگے تھے ۔ آخر تھے تو بیٹیوں کے باپ ۔ وہ گاڑی سے اترا تھا اور پھر دوبارہ ان سے ملا۔
’’آپ جب چاہیں آسکتے ہیں زینب سے ملنے ۔ آپ کی دو بیٹیوں کا گھر ہے وہ۔‘‘ وہ کسی کا مان نہیں توڑ سکتا تھا ۔اس نے یہ آفر اس حویلی کے پہلے فرد کو کی تھی ۔
جواباََ اب ان کی مسکراہٹ قدرے تازہ دم ہوگئی تھی ۔ انہوں نے فخر سے اپنے سامنے کھڑے قد آور داماد کو دیکھا۔
’’ان شاء اللہ۔‘‘ وہ اب تسلی سے بولے اور دعا دے کر رخصت کیا تھا ۔
پھر اندر آئے تھے جہاں ایک بار پھر چوہدری ظہور غیض و غضب میں بھرے بیٹھے تھے۔
’’اکڑ دیکھی تھی اس عورت کی ‘جیسے ہم کوئی… ہم کوئی مزارع ہیں ان کے۔‘‘ وہ گرجے تھے۔
’’صلح کا فیصلہ آپ کا ہی تھا بابا جان۔‘‘ عزیز صاحب ایسے شاید پہلی مرتبہ بولے تھے ۔
’’تو تم کیا سمجھ رہے ہو۔ غلط فیصلہ تھا میرا ؟ ‘‘ وہ اب ان پر بھڑکے۔
’’نہیں، غلط تھا یا صحیح لیکن آگے آپ نے جو بھی کرنا ہے اس سے پہلے یہ سوچ لیجیئے گا کہ وہاں میری دونوں بیٹیاں ہیں ۔ ان کو میں کسی صورت داؤپر نہیں لگاؤں گا۔‘‘ وہ قطعیت سے کہتے ہر ایک کو دنگ چھوڑتے وہاں سے چلے گئے تھے ۔ جبکہ ہر بندہ اس ہمت پر حیران تھا لیکن زوار خوش تھا۔
٭…٭…٭
واپسی پر ان سب نے شاندار استقبال کیا تھا ان سب کا اور زینب تو جو گلے لگی تھی ردا کے تو پیچھے ہی نہیں ہٹ رہی تھی ۔ نجانے کب کب کے آنسو تھے جو بہہ رہے تھے۔
’’بس کرو اب ۔ آتے ہی اسے پریشان کردیا ہے۔‘‘ امی نے زینب کو پیچھے ہٹایا اور پھر ردا کی منہ دکھائی کی تھی جو سرخ جوڑے میں قدرے سہمی ہوئی لگ رہی تھی ۔لیکن اسے دیکھ کر ان سب کو سمجھ آگئی تھی کہ عفان نے کیوں پسند کیا تھا ۔ وہ بہت خوبصورت تھی ۔ زینب سے بڑی تھی لیکن زینب سے الگ ۔ زینب کو دیکھتے ہی پتہ لگ جاتا تھا کہ وہ ایک کانفیڈنٹ لڑکی ہے ۔ سادہ لباس میں بھی اس کاسٹائل نظر آتا تھا ۔ وہ پہلی بار جن حالات میں آئی تھی ادھر، اس سب کے باوجود بھی بہت کانفیڈنٹ تھی ۔ اس کے برعکس وہ بہت معصوم لگ رہی تھی۔
’’ماشاء اللہ۔‘‘ دادو نے بے اختیار نظر اتاری۔
ضروری رسموں کے بعد اسے وہ عفان کے کمرے میں لے گئی تھی۔
’’زینب، یہ سب… مجھے بہت ڈر لگ رہاہے۔‘‘ کمرے میں آتے ہی وہ بولی تھی۔
’’یہ کون سی نئی بات ہے ۔تم تو جب پیدا ہوئی تھی تب بھی تھر تھر ڈر سے کانپ رہی تھی۔‘‘ زینب نے بہت سنجیدگی سے اسے بیڈ پر بٹھایا۔
’’ڈرنے کی کوئی بات نہیں ۔ یہاں سب بہت اچھے ہیں ۔ عفان بھی بہت اچھا ہے ۔ کبھی خوش بھی ہوجایا کرو۔‘‘ اسے تنبیہ کرتے ہوئے وہ بولی ۔ ساتھ ہی بہت ساری نصیحتیں بھی کی تھیں۔
’’چلو باقی باتیں بعد میں ۔ عفان مجھے گالیاں دے رہا ہوگا باہر‘ اب ریسٹ کرو۔‘‘ کچھ دیر بعد خیال آتے ہی وہ سر پر ہاتھ مار کر اٹھی ۔ اور اسے پرسکون کرتی باہر آئی جہاں واقعی عفان اسے گھور رہا تھا۔
’’جارہی ہوں بھائی‘ جا رہی ہوں۔‘‘ وہ دانت نکالتی بھاگی تھی اور راہداری میں آتے عمر سے ٹکرائی تھی۔
’’جس دن میں آپکو لفٹ نہ کرواؤں تو آپ ایسے ٹکریں مارنے لگتی ہیں مجھے آ آکر۔‘‘ اسے بازو سے پکڑ کر سنبھالتے ہوئے وہ بہت سنجیدگی سے بولا تھا۔
’’لفٹ؟ وہ بھی میں مانگوں گی؟ وہ بھی آپ سے۔‘‘ وہ پوری آنکھیں پھیلائے حیرت سے باآواز بلند بولتی پیچھے ہوئی۔
’’بالکل اپنے دادا پر گئی ہو تم خیر سے ۔ آواز بھی ان کے جیسی ‘ بلند۔‘‘ عمر نے اسے کمرے میں کھینچ کر دروازہ بند کیا اور گھورا تھا۔
’’یہ آپ مردوں کو ہم عورتوں کی بلند آواز اتنی کیوں چبھتی ہے۔‘‘ وہ مزید تپی۔
’’نہیں، مجھے تو مردوں کی بھی اتنی ہی چبھتی ہے ۔ اسی لیے تمہارے دادا کی مثال دی ہے۔‘‘ وہ سکون سے کہتا کوٹ اتارتا الماری کی طرف بڑھا۔
’’آغا جان کہتے ہیں ان کو سب۔‘‘ وہ اب خفگی سے بولی تھی۔
’’واہ، لیکن میں بھیڑ میں نہیں چلتا نا اس لیے میں انہیں تمہارے دادا ہی کہوں گا۔‘‘ الماری بند کر کے وہ اب بیڈ پر جوتے اتارنے بیٹھ گیا تھا ۔
’’دنیا کا سب سے مصروف شخص۔‘‘ زینب نے جل کر سوچا ۔ ایک نظر اس پر نہیں ڈالی تھی بدتمیز نے‘ خوامخواہ ہی اتنا تیار ہوئی ۔ اسے افسوس ہوا۔
”ویسے تم کافی… میرا مطلب تمہیں جانا چاہیے تھا ۔ تمہارے بابا تمہارا ویٹ کر رہے تھے۔‘‘ وہ کچھ کچھ کہتے بات بدل گیا تھا۔
’’مجھے جب جانا ہوگا چلی جاؤں گی ۔ ابھی میرا دل صاف نہیں ہوا اور میں لوگوں کی طرح اچھا بننے کی ایکٹنگ نہیں کرسکتی۔‘‘ وہ صاف گوئی سے بولی ۔
اس قدر صاف گوئی پر وہ سر اٹھا کر دیکھنے پر مجبور ہوا تھا ۔سیاہ پیروں تک آتی فراک میں وہ پیروں پر مہندی لگائے ابھی تک دروازے پر ہی کھڑی تھی ۔ دوپٹہ اسی لاپروائی سے ایک سائیڈ پر جھول رہا تھا ۔عمر کو کسی ناراض شہزادی کا گمان ہوا تھا ۔
’’اپنوں سے اچھے سے ملنا ‘ ایکٹنگ نہیں ہوتا‘‘ وہ جانتا تھا اسے سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں مگر پھر بھی اس نے کو شش کی تھی۔
’’یہ آپ کی سوچ ہے اور میرا اس سے اتفاق کرنا ضروری نہیں ہے۔‘‘ پتہ نہیں اتنا غصہ اسے کس بات پر آرہا تھا ۔ شاید اس کے نظرانداز کرنے پر یاکوئی اور وجہ تھی۔