خرمنِ قلب: قسط نمبر 4
’’اٹس اوکے…‘‘ وہ نرمی سے مسکرایا اور بمشکل نظر چرائی تھی اس کے جگمگ کرتے چہرے سے‘ ایک منٹ میں ہی گویا وہاں رنگوں کی دھنک بکھر گئی تھی ۔ وہ کچھ دیر پہلے کتنا اداس تھی ۔
’’مجھے آج حلف اٹھانے کے لیے جانا ہے ۔ آپ کو گھر چھوڑ دوں گا ۔ وہاں سب کو سب پتہ ہے اب ۔ پریشانی کی کوئی بات نہیں ۔ ایک رات کی بات ہے ۔ کل واپس لے آؤں گا‘ٹھیک ہے؟‘‘ اس کی بات پر اس نے جھکی آنکھوں کے ساتھ سر ہلایا تھا۔
’’گڈ گرل۔‘‘عمر نے سراہا۔
’’چلو شاباش آجاؤ ۔گاؤں چھوڑ دیتا ہوں تمہیں اور ایک اچھا سا ناشتہ کرواتا ہوں۔‘‘ اس کاسر تھپتھپاتے ہوئے وہ جیکٹ پہنتا باہر چلا گیا تھا جبکہ وہ بے قابو ہوتی دل کی دھڑکن کو سنبھالتی سرخ چہرے کے ساتھ اس کے پیچھے بھاگی تھی ۔ کبھی کبھی تو ہم پر زندگی بہت ہی مہربان ہوجاتی ہے ۔ اسے بھی بے اختیار ہی ہر چیز اچھی لگنے لگی تھی ۔ کچھ بھی تو نہیں کہا تھا اس نے لیکن اس کی جھولی میں ڈھیروں خوشیاں آگئی تھیں۔
٭…٭…٭
گاؤں میں ان کا استقبال اس دفعہ بہت گرمجوشی سے ہوا تھا ۔ دادو نے بھی اس کاماتھا چوما تھا ۔ وہ واقعی حیران ہوئی تھی اس محبت پر مگر خوش بھی بہت ہوئی تھی۔
عمر کی امی تو ویسے ہی ایک واحد کمفرٹ زون تھیں اس کاجب وہ اس گھر میں تھی، آج تو پھر ان کی خوشی ہی مثالی تھی ۔ پہلی بار اس نے باقی لڑکیوں سے بھی گھلنے ملنے کی کوشش کی تھی ۔ یہ شاید صبح والی خوشی تھی جو اس کے ہر انداز سے نظر آرہی تھی ۔ صرف اسے نہیں باقی سب کو بھی ۔ اس وقت بھی وہ علیزے اور باقی لڑکیوں کے ساتھ بیٹھی تھی جب وہ آیا تھا دروازے پر ۔ اسے کھڑا دیکھ کر وہ سب ایکدم سیدھی ہوگئی تھیں اور وہ کھڑی ہوگئی تھی۔
’’میں لاہور جارہا ہوں ۔ کوئی پریشانی ہوئی تو کال کرلینا ‘ ٹھیک ہے؟‘‘ وہ ڈائریکٹ اس سے مخاطب تھا اور باقی سب ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھ رہی تھیں ۔ پہلے کہتے تھے محبت کی شادی ہے تو بات تک نہیں کرتے تھے ایک دوسرے سے ۔ اب سنا تھا کہ مجبوری کی شادی ہے تو اب اتنا خیال کہ عمر وحید جیسا ریزرو بندہ خود چل کر آیا تھا ۔
’’اوکے۔‘‘ وہ اس کی آنکھوں سے پزل ہوئی تھی ۔
’’گڈ لک عمر بھائی۔‘‘ علیزے کے کہنے پر اس نے مسکرا کر اس کاشکریہ ادا کیا ۔ پھر سب کو خدا حافظ کہتا چلا گیا تھا جبکہ وہ یکدم ہی خود کو سب میں معتبر محسوس کرنے لگی تھی ۔ اس کارہا سہا کانفیڈنس بھی لوٹ آیا تھا ۔ اب وہ بہت سکون سے ان سب سے باتیں کر رہی تھی ۔ ان کو یونیورسٹی کی باتیں بتا رہی تھی۔
کچھ ہی دیر میں ایک ملائکہ کے علاوہ وہ سب آپس میں گھل مل گئی تھیں ۔ قریباََ ایک بجے علیزے نے شور مچادیا تھا کہ ٹی وی پر حلف برداری کی تقریب لائیو آرہی ہے ۔وہ سب دادو کے کمرے میں اکٹھے ہوگئے تھے۔
وہ سب میں نمایاں لگ رہا تھا یا وہ واقعی نمایاں تھا ۔ زینب کو سمجھ نہیں آئی تھی ۔ وہ اس اسمبلی کا سب سے کم عمر ایم پی اے تھا ۔ وہ یک ٹک اسے دیکھے جارہی تھی ۔ گرے قمیض شلوار میں اس کی وجیہہ شخصیت وہاں ہر چیز پر حاوی تھی ۔ زینب کو پہلی بار پتہ چلا تھا کہ وہ بہت سادہ سا انسان ہے بالکل اپنے گھر والوں کی طرح ۔ نہ کوئی شو شا تھی، نہ کوئی اکڑ، نہ فخر‘ نہ بے وجہ کی بناوٹ اور نہ ہی فضول قسم کی ہیروگیری ۔ یہ سب حویلی میں ہوتا تھا ۔ دکھاوا، ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ۔ بظاہر بہت محبت اور اندر سے ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنا۔ مگر یہاں صرف مخلصی تھی ۔ وہ بھی ایسا ہی تھا ۔ مخلص اور سادہ مگر ریزرو اور نرم دل ۔ ہاں وہ خود کو پڑھنے نہیں دیتا تھا کسی کو لیکن اتنا وہ جان گئی تھی کہ وہ ایک نرم دل مگر مشکل انسان ہے لیکن انا پرست نہیں ہے ۔ وہ اپنے اردگرد سب کو کمفرٹیبل رکھتا تھا۔ خوش رکھتا تھا ۔ سخت مزاج نہیں تھا۔
پتہ نہیں جب ہمیں کوئی پیارا لگتا ہے تو اس کی ہر بات ہی پیاری لگتی ہے۔ اسے بھی اس وقت ایسے ہی لگا تھا ۔ وہ بھول گئی تھی کہ وہ سب کے درمیان بیٹھی ہے اور بہت لوگوں نے اس کی اس بے اختیاری کو نوٹ کیا تھا۔
’’زینب۔‘‘ دادو کی آواز پر وہ ہوش میں آئی تھی ۔
’’جی۔‘‘ وہ مڑی ۔ سب باہرجا چکے تھے ۔وہ حیران سی خالی کمرے کو دیکھ رہی تھی۔
’’ادھر آؤ۔‘‘ ان کے بلانے پر وہ پزل سی ہو کر ان کے پاس آگئی تھی۔
’’بیٹھ جاؤ۔‘‘وہ بیٹھ گئی تھی۔
’’ظہور کے کس بیٹے کی بیٹی ہو تم۔‘‘انہوں نے پہلی بار پوچھا تھا۔
’’میرے بابا کا نام عزیز ہے۔‘‘ وہ آہستہ سے بولی۔
’’اور ماں؟‘‘ وہ شاید سب کو جانتی تھیں۔
’’ان کا نام طاہرہ تھا مگر وہ حیات نہیں ہیں۔‘‘ وہ اب قدرے افسردہ ہو کر بولی تھی۔
’’اللہ مغفرت فرمائے۔‘‘ دادو نے بے اختیار کہا۔
’’تم چھوٹی بیٹی ہو عزیز کی؟‘‘
’’جی۔‘‘
’’ردا بڑی ہے؟‘‘
’’سب سے بڑے زوار بھائی ہیں ‘ اس کے بعد ردا پھر میں ۔ ‘‘اس نے تفصیل سے جواب دیا۔
’’ردا کی فطرت بھی تمہارے جیسی ہے کیا؟‘‘ان کی بات پر وہ کچھ سمجھی نا سمجھی سے ان کو دیکھنے لگی تھی۔
’’تم کافی سمجھدار لگتی ہو مجھے۔‘‘ ان کا لہجہ سنجیدہ تھا ۔
وہ بے اختیار خوش ہوئی ‘ شکر کسی کو تو وہ سمجھدار لگی تھی ۔ اگر وہ اپنے پوتے سے پوچھتیں تو بالکل مختلف رائے ہوتی ۔
’’وہ مجھ سے کہیں زیادہ سمجھدار اور اچھی طبیعت کی ہے۔‘‘ اس نے بالکل سچ بولا تھا ۔ دادو خاصی مطمئن ہوگئی تھیں ۔
’’ہمم… رنگ کون سا پسند ہے اس کو ‘ تم بازار چلی جانا عفان کے ساتھ شام کو‘ نکاح کا جوڑا لے آنا ۔ تم بہن ہو زیادہ پتہ ہوگا اس کی پسند کا۔‘‘ ان کی بات پر وہ ان کے ظرف پر حیران رہ گئی تھی ۔ وہ ان کے بدترین دشمنوں کی اولاد تھیں اور اس قدر خیال کیا جارہا تھا۔
’’جی ٹھیک ہے ۔‘‘اسے بے اختیار رداپر رشک آیا ۔ وہ کتنی خوش ہوگی ۔ کتنی خوش قسمت ہے ۔ اس کو عفان بہت چاہتا ہے ۔بہت خوش رکھے گا ۔ یہی سب سوچتی وہ باہر آرہی تھی جب فون کی بیل پر وہ خیالوں سے باہر آئی تھی ۔ دوسری طرف عمر تھا۔اس نے فوری فون اٹھایا۔
’’کیا کر رہی ہو‘ میں نکل رہا ہوں یہاں سے ۔ رات تک پہنچ جاؤں گا ۔ عفان سے کہہ دیتا ہوں کہ تمہیں شہر چھوڑ دے ۔‘‘ اسے یہی فکر تھی بس کہ وہ وہاں شاید کمفرٹیبل نہیں ہے۔
’’نہیں، میں نکاح تک ادھر ہی رہوں گی ۔ ویسے بھی مجھے بازار جانا ہے کچھ شاپنگ کرنے ردا کی عفان کے ساتھ۔‘‘ وہ بڑی بے نیازی سے بولی تھی ۔ اور وہ حیران سا فون دیکھنے لگا تھا۔
’’اوکے ۔ دیٹس گریٹ۔‘‘وہ مطمئن ہوگیا تھا۔
’’اپنے لیے بھی لے لینا کچھ۔‘‘ بڑی عام سے بات تھی مگر اسے اتنی خاص لگی تھی کہ وہ ہل نہیں سکی تھی اپنی جگہ سے‘ خوشی سے پاؤں ادھر ہی جم گئے تھے۔
’’کیا لوں۔‘‘وہ ایکسائیٹڈ ہوئی۔
’’ایک عدد عبایا‘ کیونکہ چادر آپ سے سنبھالی نہیں جاتی۔‘‘ بڑے سنجیدہ لہجے میں جواب آیا تھا ۔ اس کی بار فون کو زینب نے گھورا تھا۔
’’اوکے پھرانجوا ئے کریں آپ ۔ میں کل سے بہت مصروف ہونے والا ہوں ۔ نکاح پر ہی آؤں گا‘ انشا اللہ۔‘‘ وہ کہہ کر فون بند کر گیا تھا اور وہ خاموش کھڑی نئی فکر میں مبتلا ہوگئی تھی۔ گویا وہ یہی چاہتا ہے کہ میں دور رہوں اس سے ‘اس لیے ہفتے بعد ہی آئے گا ۔دل یکدم ہی اداس ہوگیا تھا ۔ کاش وہ کہہ دیتی کہ میں آجاؤں گی عفان کے ساتھ مگر ہر بار میں ہی کیوں ظاہر کروں ۔ انا آڑے آگئی تھی ۔
’’رہ لوں گی میں۔‘‘وہ خود کوسمجھاتی اندرآگئی تھی۔
٭…٭…٭
ایک قدرے نیم اندھیرے کمرے میں وہ ایک بار پھر کرسی پر ان دو لوگوں کے سامنے بیٹھا تھا جو الیکشن سے پہلے اس کے پاس آئے تھے ۔ اس دفعہ اسے وزارت تعلیم آفر کی گئی تھی بشرطیکہ وہ حکمران جماعت سے اتحاد کرلے ۔ اس کے دل و دماغ میں اس وقت ایک جنگ چھڑی ہوئی تھی ۔ وہ واقعی یہ صوبائی وزارت لینا چاہتا تھا اور کام کرنا چاہتا تھا لیکن کسی کے ساتھ اتحاد بھی نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ وہ اپنے اندر ایک جماعت تھا ۔ اور حکمران جماعت کے ساتھ اس کے بہت اختلافات تھے ۔ اس اتحاد سے تو اس کی جیت کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ۔ انہی لوگوں کے خلاف جا کر تو وہ جیتا تھا ۔ پھر انہی سے اتحاد… ایک طرف بڑا عہدہ تھا ۔ ویسا ہی جیسا وہ چاہتا تھا ۔ اسے کام کرنا تھا، سنوارنا تھا بہت کچھ مگر ایسے نہیں…
’’میں اپنی سیٹ پر ہی کام کروں گا ۔ میں یہ وزارت نہیں لینا چاہتا ۔‘‘ اس نے اب مضبوط لہجے میں جواب دیا تھا ۔
اس کی بات پر وہ دونوں ایک ثانیے کے لیے ایک دوسرے کو دیکھنے پر مجبور ہوئے ۔ بہت بڑی آفر تھی جو وہ لے کر آئے تھے ۔ بہت بڑا دانہ… اتنی اہم وزارت وہ بھی پہلی جیت پر مگر وہ دام میں نہیں آیا تھا ۔ اس کاغیرمتزلزل چہرہ گواہ تھا کہ وہ بہت پر اعتماد ہے ۔اور بہت مضبوط اعصاب کا مالک ۔ ایسے فریب میں وہ نہیں آنے والا تھا ۔بظاہر وہ ناتجربہ کار تھا لیکن اس کی باتوں سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ اناڑی نہیں ہے۔
’’اوکے ینگ مین… نائس ٹو میٹ یو۔‘‘ اس میں سے ایک نے قدرے پراسرار سی مسکراہٹ کے ساتھ اس سے مصافحہ کیا ۔ جوابا اس نے مسکرانے کی بھی زحمت نہیں کی تھی، صرف مصافحہ کیا تھا ۔ اس کے بعد وہ دونوں باہر آگئے تھے۔
’’جب تک ہمارے لیے نقصان دہ ثابت نہیں ہوتا وہ، لیٹ ہم ڈو وٹ ہی وانٹس ٹو ڈو(اسے کرنے دو جو کرنا چاہتا ہے)۔‘‘ وہ دوسرے کو ہدایت دیتے ہوئے بولا ۔ صاف لگ رہا تھا کہ وہ ہائی رینک کا آفیسر ہے۔
’’آپ کو شاید پسند آگیا ہے۔‘‘ دوسرا اس ہدایت پر حیران ہوا تھا ۔
’’ڈونٹ نو۔ بٹ یس، ہی از دی مین ود نروز آف سٹیل (پتہ نہیں، لیکن وہ بہت مضبوط نروز والا بندہ ہے)‘‘ گول مول سا جواب دے کر وہ اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا تھا۔
اندر بیٹھے عمر نے ایک لمبی سانس لی تھی ۔ ایک فیصلہ وہ کرچکا تھا اب اسے اس پر مطمئن رہنا تھا ۔ وہ جانتا تھا وہ اپوزیشن میں ہی سمجھا جائے گا۔ ناکافی فنڈز ملیں گے جس سے وہ کوئی خاطر خواہ کام نہیں کر سکے گا علاقے میں لیکن اسے مشکل کام کرنے کی عادت تھی ۔ اگر وہ حکومت کے ساتھ مل کر اپنے اصولوں کے خلاف جا کر فنڈز لے بھی لیتا، ایجنسیوں کی ہمدردیاں بھی لے لیتا، کام بھی کروالیتا تو بھی اپنے ضمیر کے آگے کبھی سرخرو نہ ہو پاتا ۔ اور وہ اگر اتنے مضبوط اعصاب کا تھا تو اس کی وجہ صرف اس کے اندر کا ذہنی سکون تھا ۔ وہ اپنے ہر ہر عمل کو جج کرتا تھا، درست کرتا تھا ۔ اس لیے ابھی بھی اس نے اپنی سوچ کو آگے رکھا تھا ۔ اسے کوئی جلدی نہیں تھی ۔ آہستہ آہستہ قدم جمانے تھے اور اسے یقین تھا کہ وہ جما لے گا ۔ کچھ بھی نا کرسکا تو یہ ملال تو نہیں ہوگا کہ کوشش نہیں کی۔
٭…٭…٭
’’ڈریس تو بہت خوبصورت پسند کیا ہے عفان نے۔‘‘ وہ سب دھوپ میں بیٹھی ردا کی شاپنگ جو ڈسکس کر رہی تھیں۔
’’عفان کا تو نام ہے بس۔‘‘ ملائکہ کی طنزیہ ہنسی ۔ زینب نے اب قدرے کوفت سے اسے دیکھا۔
یہ لڑکی ہر وقت ہی طنز کرتی رہتی تھی ۔
’’اسے چھوڑو زینب، اس کی نیچر ہی ایسی ہے۔‘‘ زویا اس کے ایکسپریشن دیکھ چکی تھی۔
’’ہاں، میں بے غیرت نہیں ہوں ۔ تم سب تو سب بھول گئے ہو جو جو اس حویلی والوں نے کیا ۔ میں نہیں بھول سکتی۔‘‘ ملائکہ اس کی بات پر بھڑک اٹھی تھی ۔
’’ملائکہ۔‘‘ چچی نے اس کی بات پر کچن سے ہی غصے سے ہنکارا بھرا تھا ۔ وہ لب بھینچے خاموش ہوگئی ۔ زینب بھی اس کی بات پر چپ ہوگئی تھی ۔ پرسوں بارات لے کر جانا تھا انہوں نے‘ نجانے حویلی میں کیا ہو رہا ہوگا ۔ کیا کیا تیاریاں چل رہی ہوں گی۔ بے اختیار ہی وہ سوچنے لگی ۔ اور وہ کیا کر رہا ہوگا ۔ تین دنوں میں بس تین دفعہ ہی بات ہو سکی تھی اس سے ‘ صرف ایک دو منٹ کی ۔ وہ بھی اس نے خود ہی کال کی تھی، زینب نے اپنی انا کا پرچم بلند ہی رکھا تھا ۔ وہی کال کرتا تھا، حال چال پوچھتا اور وہ بڑا خوش خوش بتاتی بلکہ جتاتی کہ وہ اس کے بغیر بہت خوش ہے پھر اندر سے کڑھتی بھی تھی ۔ یہ لاشعوری طور پر وہ اس دن کی اپنی اندر کی کمزوری عیاں ہونے کو اس کے سامنے ایسے کور کر رہی تھی ۔ جیسے ہی فون بند ہوتا وہ الٹا مزید اسے مس کرنے لگتی۔
پتہ نہیں آگے کیا ہوگا، وہ کیا فیصلہ کرے گا ۔ کیابنے گا اس رشتے کا‘ الگ تو وہ اس سے نہیں ہوگی ۔ یہ تو اس نے فائنل کر لیا تھا ۔ باقی وقت آنے پر وہ دیکھ لے گی۔
ہر روز یہی سوچ سوچ کر وہ خود کو مطمئن کرتی رہتی تھی ۔ آج ان کا ارادہ تھا رات کو عفان کی ڈھولکی رکھنے کا اور مایوں کرنے کا۔ اس لیے ایک سادہ سا فنکشن ارینج کیا ہوا تھا ۔ اور اس کے پاس کوئی ایسے فنکشن میں پہننے والے کپڑے نہیں تھے ۔ وہ عفان کے ساتھ جا کر نکاح کے لیے بس ایک جوڑا لے کر آئی تھی۔ یہ مایوں کا تو اچانک ہی پروگرام بن گیا تھا۔
’’اگر تم مائنڈ نہ کرو تو تم میرا جوڑا پہن لینا کوئی۔‘‘ علیزے نے بہت مخلصی سے اسے آفر کی۔
’’اس میں مائنڈ کرنے کی کیا بات‘ میں پہن لوں گی ۔ تھینک یو سو مچ۔‘‘ اس نے فوری شکریہ ادا کیا۔
’’ نہیں ، تم کافی سٹائلش کپڑے پہنتی ہو، اس لیے مجھے لگا کہ شاید تمہیں اچھا نہ لگے۔‘‘علیزے کی وضاحت پر وہ ہنسی۔
’’میں ہر طرح کا ڈریس پہن لیتی ہوں ۔ ڈونٹ وری۔‘‘ اس کو تسلی دیتے ہوئے وہ اس کالایا ڈریس دیکھنے لگی تھی ۔ کھلتے ہوئے پیلے رنگ کی بنارسی لمبی قمیض اور چوڑی دار پاجامہ تھا ۔ ساتھ ویسا ہی بڑا سا دوپٹہ تھا ۔ بالکل جیسا عمر وحید چاہتا تھا کہ وہ اوڑھا کرے ۔ اس کی یاد آتے ہی وہ مسکرا دی تھی۔
پھر علیزے کے ہی کہنے پر اس نے اپنے لیئر کٹ بالوں کی چٹیا بنائی تھی جو کافی ناکام تجربہ رہی تھی کیونکہ آگے سے بہت ساری لٹیں باہر آگئی تھیں ۔ ان کو کانوں کے پیچھے اڑستی وہ سب کے ساتھ فل انجوائے کر رہی تھی ۔
’’تمہاری بھابھی بہت پیاری ہیں ویسے۔‘‘ زویا کی دوست اس کے کان میں بولی تھی مگر زینب کو سن گیا تھا۔
’’زویا کا بھائی بھی بہت پیارا ہے ۔‘‘ وہ کھلکھلا کر بولی تھی ۔ زویا کو رشک ہوا تھا اس کی پراعتمادی پر ۔
وہ جانتی تھی وہ واقعی بہت پیاری لگ رہی ہے لیکن کیا فائدہ …کوئی دیکھنے والا ہی نہیں تھا ۔پھر بھی وہ خوش تھی ۔ اس کادل لگ گیا تھا ادھر ۔ اس بندے سے جڑے لوگ تھے ‘ اس لیے اسے خود بخود ہی پیارے لگنے لگے تھے۔
٭…٭…٭