خرمنِ قلب: قسط نمبر 4
جیسے ہی وہ وہاں پہنچا تھا اسے کافی کچھ مختلف محسوس ہوا تھا ۔ امی نے اسے دیکھ کر خفگی سے منہ موڑا تھا اور دادو، وہ بس اسے دیکھے جارہی تھیں۔
’’کیا ہوا ہے؟ سب ٹھیک ہے؟‘‘ وہ پریشان ہوا تھا ۔ لیکن سب خاموش رہے تھے ۔ اس نے چچی کی طرف دیکھا، جوابا انہوں نے بھی آگے سے کندھے اچکائے دیے ۔
’’کب جانا ہے حویلی؟‘‘ دادو کافی توقف کے بعد بہت سکون سے بولی تھیں۔
وہ ہونق بنا ان کی بات سن رہا تھا ۔ فی الحال اسے پہلی بار سمجھ نہیں آئی تھی کہ وہ طنز مار رہی ہیں یا واقعی مان گئی ہیں۔
’’بتاؤ۔‘‘ اسے خاموش دیکھ کر وہ دوبارہ بولی تھیں۔
’’آپ جائیں گی میرے ساتھ؟‘‘ وہ اب سنجیدہ ہوگیا تھا۔
’’ظاہر ہے ‘جاؤں گی ۔ اپنی دفعہ تو نہیں لے کر گئے ۔ اب کیا عفان کی دفعہ بھی نہیں لے کر جاؤ گے؟‘‘ ان کی بات پر وہ مزید شاکڈ ہوا تھا۔
’’آپ مذاق کر رہی ہیں؟ ‘‘ وہ پوچھے بنا نہیں رہ سکا ۔
’’نہیں، میں سنجیدہ ہوں ۔ پوچھو اپنی ماں سے، ہم نے تو شگن بھی تیار کر لیا ہے۔‘‘ وہ بڑی نارمل تھیں ۔ وہ بے اختیار امی کی طرف مڑا جو ہمیشہ کی طرح دادو کی بات پر اثبات میں سر ہلا رہی تھیں ۔
’’یہ کیسے ہوگیا ۔ اتنی آسانی سے کیسے مان گئیں آپ؟‘‘ وہ اب قدرے حیرت سے باہر آگیا تھا۔
’’تمہیں بتانا میں ضروری نہیں سمجھتی کیونکہ تم بھی ہمیں کچھ بتانا ضروری نہیں سمجھتے عمر۔‘‘ اب کے ان کا لہجہ بہت کچھ کہہ رہا تھا ۔ وہ ہونٹ بھینچے دوبارہ امی کی طرف مڑا ۔ صرف وہی اسے اس الجھن سے نکال سکتی تھیں ورنہ اس کاتو سر چکرا گیا تھا کہ ایک دن کے اندر آخر ہو کیا گیا تھا ۔
’’عفان نے۔‘‘ امی ہلکا سا بول کر رکی تھیں۔
’’عفان نے ہمیں سب بتا دیا ہے عمر۔‘‘ ان کے کہنے پر اس نے بے اختیار ایک طویل سانس لی تھی۔
آگے اسے پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی کہ کیا بتایا ہے ۔ یقینا اس کی اور زینب کی شادی کا سچ، اس رات جو بھی ہوا وہ سب اور اپنی ردا کے لیے پسندیدگی سب بتا دی تھی۔ وہ خاموشی سے بیٹھ گیا تھا ۔ عفان سے اسے اس بیوقوفی کی امید نہیں تھی۔
’’اب تم اتنے بڑے ہوگئے ہو کہ ہر جگہ اپنی قربانی پیش کردیتے ہو۔‘‘ وہ اس کو سر جھکائے بیٹھا دیکھ کر بولی تھیں ۔ لہجہ اب نرم تھا ۔ وہ پھر بھی کچھ نہیں بولا تھا۔
’’یہ تو میں اول دن سے جانتی تھی کہ تم جس عشق کا دعوی کر رہے ہو وہ صرف دعوی ہی ہے ۔ کوئی پیار محبت، میاں بیوی والی بات مجھے نظر نہیں آئی ۔ آخر عمر کے بیاسی سال گزارے ہیں ہم نے‘دھوپ میں بال سفید نہیں کیے ۔ لیکن مجھے امید تھی کہ ایک نہ ایک دن حقیقت سامنے آہی جائے گی۔‘‘وہ اب مفصل گفتگو کر رہی تھیں لیکن وہ بالکل خاموش تھا۔
’’ بہرحال، مجھے ردا کے رشتے پر کوئی اعتراض نہیں۔ اتنی قربانی تو میں بھی دے سکتی ہوں اپنے پوتے کے لیے۔‘‘ آخر میں ان کی آواز میں نمی آگئی تھی ۔ اور وہ سر اٹھانے پر مجبور ہوا تھا۔ یہی اس کی کمزوری تھی بس۔
’’بہت جلد سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ میں کچھ نہیں بھولا ‘ کچھ بھی نہیں۔‘‘
’’مجھے صرف عفان کی خوشی عزیز ہے، صرف اس کے لیے میں یہ جوا کھیل رہا ہوںاور آپ بھی ۔‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے ان کوساتھ لگا کر تسلی دی البتہ آنکھیں نہیں مسکرا رہی تھیں۔
’’اللہ تمہیں ہر نیک مقصد میں کامیاب کرے ۔‘‘انہوں نے اس کاسر اور ماتھا چوما۔ وہ جیسے سرشار ہوگیا تھا ۔
’’اور زینب کا کیا کرنا ہے؟‘‘انہوں نے پہلی بار ’’اس لڑکی‘‘ کی بجائے زینب کا نام لیا تھا۔
’’زینب جو چاہے گی‘ وہی ہوگا۔‘‘ وہ مضبوط لہجے میں بولا۔
’’اگر اس نے کہا وہ ساتھ رہنا چاہتی ہے‘پھر؟‘‘ ان کے سوال پر وہ ایک ثانیے کو خاموش ہوا۔
’’تو پھر وہ ساتھ ہی رہے گی ۔ ظاہر ہے۔ ‘‘ بڑے سکون سے اس کی بجائے جواب امی نے دیا تھا ۔اور پھر بعد میں اس کی طرف ایسے دیکھا تھا جیسے کہہ رہی ہوں ’’صحیح کہا نا میں نے‘‘ وہ بنا کوئی جواب دیئے کھڑا ہوگیا۔
’’تو پھر تیاری کریں ۔ اگلے ہفتے ہم ڈائریکٹ نکاح کرنے جائیں گے ۔ میں ان کو تاریخ دے دیتا ہوں ۔‘‘ وہ مسکرا کر ان کو بتاتا باہر چلا گیا تھا ۔ فی الحال اسے عفان کی کلاس بھی لینا تھی اور مبارکباد بھی دینی تھی ۔بہرحال چیزیں اس کے لیے کچھ آسان ہوگئی تھیں۔
٭…٭…٭
اپارٹمنٹ میں دو لوگوں کے ہونے کے باوجود اتنی خاموشی تھی جیسے وہاں کوئی وجود نہ ہو ۔ وہ خاموشی سے صوفے پر بیٹھ کر پڑھ رہی تھی اور وہ ایک سائیڈ پر نیم دراز موبائل پر خود کو مصروف ظاہر کر رہا تھا ۔
’’اگلے ہفتے نکاح کے عفان اور ردا کا۔‘‘ عمر نے ہی بات شروع کی تھی ۔بہرحال ایسے اسے بالکل چپ دیکھ کر اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔
سیاہ سادہ سی قمیض شلوار میں آج وہ بہت طریقے سے دوپٹہ پھیلا کر بیٹھی تھی ۔ بار بار اس کادھیان اس کی طرف جارہا تھا۔
’’اچھی بات ہے۔‘‘ بڑا مختصر لاپرواہ سا جواب آیا تھا ۔
وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’تم ناراض ہو؟‘‘ بے اختیار پوچھا۔
’’نہیں،کیوں؟‘‘ وہ اس قدر اجنبیت سے بولی تھی کہ وہ بے ساختہ چپ کر گیا۔
’’ویسے ہی پوچھا۔‘‘ کچھ دیر بعد وہ بھی سنجیدہ لہجے میں بولا تھا اور اٹھ کر اندر چلا گیا تھا ۔ کتنی دیر سونے کی ناکام کوشش کرنے کے بعد وہ دوبارہ باہر آیا تھا اور ساکت ہوگیا تھا۔ صوفے پر بیٹھے بیٹھے وہ سوگئی تھی ۔ لیکن وہ ساکت اس کے گالوں پر بنی لکیروں سے ہوا تھا ۔یقینا وہ رو کر سوئی تھی ۔وہ بے اختیار سا ہو کر جھکا تھا۔
’’زینب۔‘‘اس کاسر سیدھا کر کے صوفے کی بیک سے ٹکایا ۔ وہ ذرا ساکسمسائی تھی۔
’’اندر آکر سو جاؤ ۔اٹھو شاباش…‘‘ اسے کندھوں سے پکڑ کر اس نے اٹھایا مگر وہ تیزی سے اس کے ہاتھ جھٹک کر تیر کی طرح سیدھی ہوئی تھی ۔
’’شکریہ ، میں خود چلی جاؤں گی۔‘‘ وہ کہتی ہوئی اندر چلی گئی تھی ۔
’’طبیعت ٹھیک ہے؟‘‘ وہ اس کے پیچھے آیا ۔ اسے لیٹتا دیکھ کر وہ پھر اس کے قریب آیا تھا۔
’’جی، الحمد للہ۔‘‘ وہ رخ موڑ گئی تھی۔
’’اچھا اگر میری کوئی بات بری لگی ہے تو ایم سوری۔‘‘
بہرحال وہ اسے رلانا تو بالکل بھی نہیں چاہتا تھا ۔عجیب سی تکلیف تھی جو اسے ایسے دیکھ کر وہ محسوس کر رہا تھا ۔ مگر اسے خود پر بند باندھنا تھا ۔ وہ جانتا تھا وہ اس کی توجہ چاہتی ہے ۔ وہ تو اتنی میچور نہیں تھی، کچھ دن میں اٹیچ ہوگئی تھی مگر وہ امیچور نہیں تھا ۔ جانتا تھا یہ وقتی جذباتیت ہے ۔ اس میں بہہ کر وہ دونوں کی زندگی خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔
’’مجھے نیند آرہی ہے پلیز۔‘‘اس نے جواباََ بس اتنا کہا تھا ۔ ایک نظر اس کے کندھوں ہر بکھرے سنہرے جال کو دیکھتا وہ خاموشی سے لائٹ آف کر کے دوسری طرف آگیا تھا۔
آدھے گھنٹے بعد وہ پھر بے چین سا اس کی سوں سوں کی آواز پر مڑا تھا۔وہ اس وقت سے رو رہی تھی ۔آگے ہو کر تکیہ اس کے منہ سے ہٹایا ۔ اس کابھیگا چہرہ اور آنکھیں…وہ رخ موڑنا چاہتی تھی۔
’’کیوں ظلم کر رہی ہیں خود پر بھی اور میرے پر بھی۔‘‘ وہ بے بس ہو کر جھکا اور بے اختیار اس کے ماتھے سے ماتھا ٹکایا تھا ۔ وہ زور سے آنکھیں بند کر چکی تھی ۔آنسو پھر بھی سائیڈوں سے نکل رہے تھے۔
’’زینب،پلیز۔‘‘ وہ ملتجی ہوا ۔ ساتھ ہی ہاتھ سے اس کے آنسو بھی نرمی سے پونچھے تھے ۔
’’آپ سو جائیں جا کر ۔‘‘ وہ اسی طرح آنکھیں بند کیے بھیگے لہجے میں بولی تھی۔
وہ ایک طویل سانس بھرتا دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بہت زور سے بند کیے گویا تمام منہ زور جذبات پر بند باندھ کر پیچھے ہوا اور فوری باہر چلا گیا تھا۔
پیچھے وہ مزید پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی۔ ردا کے لیے قربانی دی تھی اس نے لیکن اب… اب اسے لگ رہا تھا وہ کبھی اس سے الگ نہیں ہو سکتی ۔ یہ تصور ہی جان لیوا تھا ۔ وہ اس کی زندگی میں آنے والا پہلا اور آخری مرد تھا جو اس حق سے آیا تھا ۔ مگر وہ جانتی تھی وہ اسے پسند نہیں کرتا ۔ وہ ایک بچی کی طرح ٹریٹ کرتا ہے اسے اور اس کادل… اس کادل اس کے معاملے میں کب بغاوت کرگیا تھا اسے تو خبر ہی نہیں ہوئی تھی ۔ کتنا مضبوط سمجھتی تھی وہ خود کو اور پل میں کسی موم کی طرح پگھل گئی تھی ۔ وہ سوچ رہی تھی ‘صبح اٹھتے ہی ہاسٹل چلی جائے گی ۔ اسے دیکھے گی نہیں تو شاید جذبات پر قابو پاس کے ورنہ اس کو دیکھ دیکھ کر وہ سنبھل نہیں پارہی تھی اورمزید اس کی عادی ہوتی جارہی تھی ۔ ہر جگہ، ہر چیز کے لیے اسے وہ چاہئے تھا ۔ اتناضروری تو کبھی اسے کوئی نہیں لگا تھا جتنا یہ سردمزاج سا دھوپ چھاؤں جیسا شخص لگنے لگا تھا ۔
٭…٭…٭
’’مجھے ہاسٹل میں رہنا ہے ۔ میں آج وہاں واپس شفٹ ہو رہی ہوں ۔‘‘ وہ صوفے پر بیٹھا تھا جب زینب صبح صبح اٹیچی سمیت کمرے سے باہر آئی تھی۔
اس کی بات پر عمر نے بھاری ہوتے سر کے ساتھ اس کو دیکھا ۔ پوری رات وہ سو نہیں سکا تھا ۔بے چینی، خیالات، جذبات ہر شے سے لڑتے لڑتے صبح ہوگئی تھی اور صبح ہی صبح وہ پھر سے آگئی تھی ۔ لیکن اس کی بھی چمکتی بھوری آنکھوں کے پپوٹے سوجے ہوئے تھے ۔یقینا وہ بھی بہت دیر تک روتی رہی تھی ۔وہ عمر سے بہت نارمل لہجے میں آکر بولی تھی یوں جیسے رات کو کچھ ہوا ہی نہیں تھا لیکن اسے دیکھ کر ایک لمحے کے لیے عمر کے دل کو کچھ ہوا تھا ۔اس کے چہرے پر کتنی تھکن تھی ۔ وہ تو بڑی ایکٹو سی لڑکی تھی ۔ اسے بے اختیار وہ یونیورسٹی میں اس سے ہوئی پہلی ملاقات یاد آئی تھی ۔ کتنا فرق تھا اب میں اور تب میں…
’’یونیورسٹی تو آگے آف ہے کچھ دن ، سمسٹر تو اینڈ ہوگیا پھر ہاسٹل کیوں جانا۔‘‘وہ بھی کھڑا ہوگیا تھا ۔ نظریں اس کے چہرے پر جمی تھیں ۔ جبکہ وہ اس کی اس قدر باخبری پر حیران نہیں ہوئی تھی ۔ جانتی تھی عفان کی وجہ سے اسے پتہ ہوگا۔
’’میں یہاں نہیں رہنا چاہتی۔‘‘ وہ تھکی تھکی بولی تھی ۔ عمر بے اختیار مسکرایا ۔ وہ بہت خالص تھی ۔ اندر سے باہر سے ایک جیس، اسے کچھ چھپانا نہیں آتا تھا ۔ جتنا وہ ماہر تھا اپنے آپ کو چھپانے میں ۔ کوئی اس کے اندر کبھی پہنچ نہیں پاتا تھا اتنا ہی وہ کھلی کتاب تھی ۔دشمنی، غصہ، ناراضگی، دوستی، رشتے ہر چیز میں بہت ایکسپریسو۔
’’گھر چلو پھر، ایک ہفتے تک نکاح ہے عفان اور ردا کا ۔ سب تیاری کر رہے ہیں‘ تم بھی چلو۔‘‘ وہ اب دوستانہ لہجے میں بولا تھا ۔ساتھ ہی نکاح کی نیوز بھی دی تھی ۔ اسے امید تھی کہ وہ شاید خوش ہوجائے اس خبر سے مگر وہ ویسے ہی تھی۔
’’نہیں، میں بس ہاسٹل جاؤں گی ۔ مجھے وہیں رہنا ہے۔‘‘ وہ اب ضدی انداز میں بولی تھی ۔ لیکن اس سے نظریں نہیں ملا رہی تھی۔
’’حویلی جانا چاہتی ہو واپس تو میں وہاں چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ وہ ہر قیمت پر اسے خوش کرنا چاہتا تھا مگر وہ نہیں کرنا چاہتا تھا جو وہ چاہتی تھی ۔ اس بات پر اس کابھی اتفاق تھا کہ ان دونوں کو دور رہنا چاہیے ۔ لیکن دور بھی کسی ایسی جگہ پر تو وہ ہو جہاں وہ خوش رہے ۔ ہاسٹل میں اکیلی جب سب گھروں کو جا چکے تھے وہ کیا کرتی بھلا سوائے اداس ہونے کے ۔
’’کبھی نہیں، وہاں نہیں جانا مجھے ۔‘‘وہ قطعیت سے بولی فوراََ۔
’’کیا نکاح میں بھی نہیں جاؤ گی ؟ تم تو اس صلح سے بہت خوش تھی ۔‘‘ وہ اب قریب آگیا تھا ۔
’’مجھے فی الحال کسی بات کا جواب نہیں دینا ۔ مجھے ہاسٹل چھوڑ آئیں آپ۔‘‘وہ کندھوں سے پھسلتی سیاہ شیشوں والی چادر کو دوبارہ سر پر ٹکاتے ہوئے بولی ۔ لہجہ بہت سنجیدہ تھا ۔
’’ ہاسٹل کوئی نہیں ہوگا زینب ۔ وہاں جانا ٹھیک نہیں ہے ۔‘‘اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اس نے چادر کو گویا مزید پھسلنے سے روکا تھا ۔ وہ جھٹکے سے پیچھے ہوئی تھی ۔
’’آپ مت چھوڑ کر آئیں ۔ میں خود چلی جاؤں گی۔‘‘ وہ سخت لہجے میں کہتی دروازے کی طرف بڑھی مگر اس نے بازو پکڑ کر روکا تھا۔
’’کیوں ضد کر رہی ہیں یار۔‘‘ وہ پھر بے بس ہوا تھا ۔ اس لڑکی کے آگے وہ واقعی بے بس ہونے لگا تھا۔
’’میں ضد نہیں کر رہی ۔ مجھے واپس جانا ہے۔‘‘ اب کے زینب کے لہجے میں نمی گھل آئی تھی ۔ آخر وہ کیوں نہیں کہہ سکتا کہ ادھر ہی رہو ۔ میرے ساتھ، ہمیشہ… وہ اس قربت سے بھاگنا چاہتی تھی ۔ صرف یہی ایک ذریعہ تھا کہ وہ اپنے دل کو سمجھا پاتی ۔ دوسری طرف وہ گویا سب جان کر بھی انجان تھا ۔
وہ رونا نہیں چاہتی تھی نہ ہی وہ اتنی کمزور تھی مگر بات بے بات رونا آرہا تھا ۔ عمرنے بازوپکڑا تھا اور اس کی ساری جان ہاتھوں میں سمٹ آئی تھی ۔اس سے پہلے کہ وہ مزید روتی وہ مہربان ہوا تھا اور آہستہ سے اسے خود میں سمیٹتا ساتھ لگا گیا تھا۔
زینب کی جان حلق میں آ گئی تھی اور آنسو بے اختیار… وہ بھی گویا تھک گیا تھا اس جنگ سے ۔ اتنا سخت دل وہ تھا اور اس لڑکی کے معاملے میں اس کادل مزید نرم پڑ جاتا تھا ۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کیوں ایسے کر گیا مگر وہ واقعی اسے ہرٹ نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ اس لیے خاموشی سے اپنی بھیگتی شرٹ محسوس کر رہا تھا ۔ دونوں نے کوئی اقرار نہیں کیا تھا نہ اظہار ۔ اس کی شاید ضرورت ہی نہیں تھی ۔ اپنی اپنی جگہ وہ دونوں جانتے تھے ۔ وہ بے آواز رو رہی تھی ۔ اتنا تو وہ حویلی سے آتے ہوئے سب کو چھوڑتے ہوئے بھی نہیں روئی تھی جتنا ان دو دنوں میں رو چکی تھی۔
’’بس کریں ۔ میرے پاس اور کوئی ڈریس نہیں ہے ادھر…‘‘ وہ اس کے کان میں بولا تھا ۔ کچھ دیر بعد وہ سرخ ناک اور آنکھوں کے ساتھ خاموشی سے پیچھے ہوئی تھی ۔
پھر شرمندگی سے اس کی بھیگی شرٹ کو دیکھا تھا۔
’’آئی ایم سوری ۔ ‘‘ اس کے ہاتھ سے ٹشو پیپر پکڑتے ہوئے وہ جھکی آنکھوں کے ساتھ بولی تھی جبکہ عمر کو لگا تھا وہ شاید نظر نہیں ہٹا سکے گا ۔ بڑا دلفریب منظر تھا ۔ بھیگی جھکی پلکوں کے ساتھ وہ شرمندہ شرمندہ سرخ ہوتی ناک اور آنکھیں صاف کر رہی تھی اس کی طرف دیکھنے سے مکمل گریز کرتے ہوئے۔