سلسلہ وار ناول

خرمنِ قلب: قسط نمبر 3

’’کیا تم چاہتی ہو کہ میں تمہارے خاندان والوں سے صلح کرلوں؟‘‘وہ یکدم بولا تھا اور اس غیر متوقع سوال پر وہ حیران ہوئی تھی۔
’’ ایسے کیوں پوچھ رہے آپ؟‘‘اس نے جواب دینے کی بجائے الٹا سوال کیا اور سامنے پڑے صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔
’’ویسے ہی ‘تمہارا دل کرتا ہوگا نا ان سے ملنے کا ۔ سب کا دل کرتا ہے ۔پھر تمہارا تو کوئی قصور بھی نہیں اس سب میں۔‘‘ وہ بغور اس کے تاثرات کو جانچ رہا تھا۔
’’دل تو کرتا ہے مگر انہوں نے خود مجھ سے کر تعلق توڑا ہے ۔ دوسرا وہ آپ سے کبھی صلح نہیں کریں گے، کبھی بھی نہیں۔‘‘ وہ بڑی پریقین تھی۔ عمر بے اختیارمسکرایا۔
’’تمہارے آغا جان نے آج صلح کا پیغام بھیجا ہے مجھے ۔‘‘ اس کی بات پر وہ صوفے پر بیٹھے بیٹھے اچھلی۔
’’کیا؟ کیا واقعی…امپاسیبل…‘‘ اسے یقین نہیں آیا تھا۔
’’جی واقعی… کیا کہتی ہو؟ کیا کرنا چاہیے مجھے؟‘‘ عمر نے اب اس سے پوچھا تھا۔
’’یہ تو آپ اور آپ کے گھر والے ڈیسائیڈ کریں گے ۔ میرا کہنا نہ کہنا یہاں کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ میں تو ظاہر ہے اپنی خواہش کے مطابق یہی چاہوں گی کہ صلح ہوجائے لیکن آپ لوگ بہت کچھ دیکھ بھال کر ہی فیصلہ کریںگے ۔ اورکرنا بھی ایسا ہی چاہیے‘ فیئر اینف…‘‘ اس کی صاف گوئی پر وہ قدرے حیران ہوا تھا مگر شو نہیں کیا تھا۔
’’اگرہم صلح نہ کریں تو کیسا لگے گا تمہیں؟‘‘ اس نے اگلا سوال پوچھا تھا۔
جواباََ اس کے چہرے پر قدرے افسردگی چھلکی تھی ۔ وہ بے اختیار ہنس پڑا ۔ بولنے سے پہلے ہی اس کاجواب معلوم ہوگیا تھا ۔جبکہ اس کے ہنسنے پر وہ حیران سی اب اسے دیکھ رہی تھی۔
’’خودہی سوال کر کے خود ہی ہنس رہے ہیں۔‘‘وہ بڑبڑائی۔
’’میرے گھر والے سمجھتے ہیں میں تمہارے عشق میں پاگل ہوکر تمہارے گھر والوں سے صلح کر رہا ہوں۔‘‘وہ اب فریش ہوگیا تھا اس لیے مزے لے کر بتا رہا تھا۔
’’تو کس نے کہا تھا کہ ان کو عشق کی کہانیاں سنائیں ۔ ان کو تو ایسا ہی لگے گا جیسے میں پٹیاں پڑھا رہی ہوں ۔ان کو کیا پتہ حقیقت۔‘‘ اسے بے اختیار اپنے امیج کی فکر پڑگئی تھی۔
’’صحیح بات ہے ۔ ان کو کیا پتہ میں تو صلح اس لیے کر رہا ہوں تا کہ جلدی تم اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ اورمیری یہ ٹینشن ختم ہو ۔ ایک جوان جہان لڑکی کی ذمہ داری اٹھانا کوئی آسان ہے آج کے زمانے میں۔‘‘ وہ بڑے سنجیدہ لہجے میں اب کہ رہا تھا جبکہ وہ ساکت تھی۔
’’آپ کو اپنے گھر والوں کے خلاف جا کر صرف اس وجہ سے صلح کرنے کی ضرورت نہیں ۔ میں اپنا بوجھ خود اٹھا سکتی ہوں ۔ مجھے کائنڈلی آخری مرتبہ ہاسٹل چھوڑ آئیں فوراََ ۔‘‘ تھوڑی دیر بعد وہ کھڑی ہو کر بولی تھی ۔ لہجہ آخر میں بھرا گیا تھا ۔ کل سے اگر کوئی جزبہ جاگا بھی تھا تو اس کی بات پر ساتھ ہی دفن ہوگیا تھا ۔اس کی خودداری اورانا پر بات آگئی تھی۔
وہ اٹھ کر اس کے پاس آگیا تھا ۔ اورپھر کندھوں سے پکڑ کر دوبارہ اسے بٹھایا تھا ۔ خود اس کے سامنے نیچے ہی بیٹھ گیا تھا۔
’’میں مذاق کر رہا تھا۔‘‘ وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا۔
’’میں بھی۔‘‘ وہ بھی پورے دانت باہر نکال کر فوراََ کھلکھلائی تھی ۔ عمر نے بے اختیار اسے گھورا تھا ۔
’’بہت ڈرامہ باز ہو تم۔‘‘ اس نے افسوس سے سر جھٹکا ۔
’’حویلی سے جو ہوں۔‘‘ اس کی بات پر عمر نے پر زور اتفاق کیا تھا۔
’’بالکل صحیح کہا ۔ ویسے میں یہ صلح واقعی کر رہا ہوں۔‘‘ اب کہ وہ سکون سے بولا تھا۔
’’کیوں؟‘‘ وہ سنجیدہ ہوئی۔
’’عفان اور ردا کے رشتے کی شرط پر۔‘‘ اس کے بتانے پر وہ دوبارہ کھڑی ہوگئی تھی۔
’’واقعی؟‘‘ وہ بولی نہیں چیخی تھی ۔عمر نے بے اختیار دونوں کانوں پر ہاتھ رکھے۔
’’ اگر ردا بھی ایسے بولتی ہے تو ابھی بتا دو ۔ میں نظر ثانی کر لیتا ہوں ۔ مجھے میرا بھائی بہت عزیز ہے۔‘‘ وہ گھورتے ہوئے بولا تھا۔
’’کیا واقعی آپ اس شرط پر صلح کر رہے ہیں؟‘‘ وہ اس کی بات کو مکمل نظر انداز کرتے وہیں اس کے پاس بیٹھ گئی تھی ۔
’’ہمم… ایسا ہی ہے۔‘‘ اس کے کہنے پر وہ بے اختیار اس کے گلے لگی تھی۔
’’تھینک یو…تھینک یو سو مچ، ایم سو ہیپی… سو سو ہیپی۔‘‘ وہ بول رہی تھی اور وہ ایک بار پھر ساکت ہوا تھا ۔بائیں سائیڈ پر ہلکا سا درد اٹھا تھااور سینے میں ایک شور ۔ایک جھٹکے سے اس نے اسے پیچھے کیا تھا۔
’’مجھے نیند آرہی ہے ‘میں سونے جارہا ہوں ۔ ریسٹ کرو۔‘‘ اس کاسر تھپتھپا کر وہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر وہاں سے چلا گیا تھا اور وہ ہونٹ چباتی اپنی حرکت پر قدرے نادم وہیں بیٹھی تھی۔
٭…٭
اگلی صبح وہ عمر کو خاصی ریزرو لگی تھی ۔ ٹھنڈ کافی ہوگئی تھی ‘ موسم بدل گیا تھا ۔ لمبی قمیض پاجامہ اور بلیو شرگ پہنے گلاسز لگائے وہ بڑی سنجیدگی سے ناشتہ کر رہی تھی۔
’’آجاؤ،میں چھوڑ دیتا ہوں یونیورسٹی۔‘‘ اسے آخری نوالہ لیتا دیکھ کر وہ بولا تھا۔
’’نو تھینکس ۔ میں سکندر کے ساتھ چلی جاؤں گی ۔ اسے کال کردی تھی ۔ ‘‘ بڑے ایٹی ٹیوڈ سے جواب آیا تھا ۔
اس کی بات پر وہ پورا اس کی طرف گھوما ۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا باہر بیل ہوئی تھی ۔ وہ پہچان گیا تھا کہ سکندر ہی ہے ۔ اس نے دروازہ کھول دیا تھا۔
’’زینب بی بی کو بھیج دیں عمر بھائی۔‘‘ وہ سلام کرتے ہوئے بولا۔
’’یہ تم میرے تابعدار ہو یا اس کے ؟‘‘عمر نے بغور اسکو دیکھا ۔ وہ گھبرا گیا۔
’’ان کی کال آئی تھی کہ یونیورسٹی جانا ہے ۔ آپ نے ہی کہا تھا کہ ہر بات ماننی ہے۔‘‘ فوراََ جواب آیا تھا۔
’’اور ہر بات مجھے بتانا بھی ہے ۔ یہ بھی کہا تھا۔‘‘عمر نے اسے یاد دلایا تھا۔
’’آپ کو زینب بی بی نے نہیں بتایا؟‘‘ یہ زینب کی صحبت کا کمال تھا شاید کہ سکندر کو بھی بولنا آگیا تھا ۔ نہیں بھی تھا تو اسے یہی لگا تھا۔
’’بتا دیا ہے۔‘‘اس نے بے اختیار دانت پیستے ہوئے کہا ۔ اتنی دیر میں وہ بھی باہر آگئی تھی۔
باریک سا دوپٹہ سر سے بار بار ڈھلک رہا تھا۔
’’چادر کیوں نہیں پہنتی تم۔‘‘ وہ اب ڈائریکٹ اس سے مخاطب ہوا۔
’’میرے سے نہیں سنبھالی جاتی۔‘‘ کمال بے نیازی سے جواب دیتی وہ گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔
’’اوکے عمر بھائی اللہ حافظ۔‘‘ سکندر بھی کہہ کر یہ جا وہ جا اور اسے اپنا آپ ادھر کافی مس فٹ لگا تھا ۔
’’آج کل تو ہر بندہ ہی تیور دکھا رہا ہے بھئی ، گھر جاؤ تو دادو‘ ادھر آؤ تو میڈم ۔ اور تو اور سکندر کی بھی آنکھ کھل گئی ہے خیر سے دنیا میں۔‘‘ بڑبڑاتے ہوئے وہ دوبارہ اندر چلا گیا تھا۔
٭…٭
جب وہ واپس آئی تھی تو عمر بڑے سکون سے سو رہا تھا ۔ اسے اچھی خاصی حیرت ہوئی ۔ پورا دن کیا وہ سوتا رہا ہے ۔ اتنا مصروف سا بندہ اور ایسے بے فکری کی نیند۔
’’صبح تک تو ایسے فون آرہے تھے محترم کو جیسے نظام رک گیا ہو ان کے بغیر۔‘‘ وہ بڑبڑائی ۔ پھر فون اٹھا کر اس کاآف کرنے لگی تھی جب اوپر ’’زوار کالنگ ‘‘آیا تھا۔
ایک لمحے کو اس کادل اچھل کر حلق میں آیا ۔ اس سے پہلے کہ وہ اٹینڈ کرتی، وہ اٹھ کر فون اس کے ہاتھ سے پکڑ چکا تھا۔
’’یہ میرا فون ہے۔‘‘ کافی جتاتے ہوئے اس نے اٹینڈ کر کے کان سے لگایا تھا ۔ وہ بھی بنا مائنڈ کیے کان لگا کر کھڑی ہوگئی تھی ۔ اسے سننا تھا کہ زوار کیا کہہ رہا ہے۔
’’پیچھے ہٹو۔‘‘ عمر نے بازو سے پکڑ کر اسے سائیڈ پر کیا اور باہر آگیا ۔ وہ بھی پیچھے پیچھے آگئی تھی ۔جواباََ وہ بنا بات کیے فون بند کر کے اس کی طرف مڑا اور خشمگیں نظروں سے اسے گھورا۔
’’بند کیوں کردیا؟‘‘ وہ بنا پرواہ کیے بولی۔
’’مجھے میری سپیس میں مداخلت پسند نہیں ہے زینب ‘ مائنڈ اٹ۔‘‘ سنجیدہ لیکن قدرے روکھے لہجے میں اس نے باور کروایا تھا ۔وہ خاموشی سے انہی قدموں پر واپس مڑگئی ۔
اس نے دوبارہ فون ملایا تھا ۔
’’آغا جان کو رشتہ منظور ہے ۔ آپ جب مرضی آئیں ‘ سارے معاملات طے کرلیں۔‘‘ دوسری طرف سے اس کی بات پر وہ بڑے دل سے مسکرایا تھا۔
’’شیور…‘‘ یک لفظی جواب دے کر اس نے فون آف کر دیا تھا ۔ فی الحال اسے جلد از جلد گاؤں جانا تھا ۔ وہ تیزی سے وہاں سے نکلا ہی تھا کہ فون دوبارہ بج اٹھا تھا ۔دوسری طرف ایس پی تھا ۔
’’آپ کی مسز کا بیان قلمبند کرنا ہے سر‘ وہ ضروری ہے۔‘‘ اس کی درخواست پر عمر نے پرسوچ انداز میں سر ہلایا۔
’’اوکے ۔ آپ کو ایڈریس بھیج دیتا ہوں ۔ آپ ادھر آجائیں اور ریکارڈ کر لیں۔‘‘ان کو لوکیشن بھیج کر کے اس نے سکندر کو فون ملایا تھا اور اسے ساری ہدایات دی تھیں ۔ پھر زینب کو کال ملائی تھی اور وہ حسب معمول کال پک نہیں کر رہی تھی۔
’’انسان کو اگر صبر آزمانا ہے اپنا تو شادی ضرور کرنی چاہیے ۔ پتہ لگ جاتا ہے کتنے پانی میں ہیں ہم۔‘‘ اسے بہت عرصہ پہلے کی کہیں پڑھی ہوئی بات حرف بحرف سچ لگی تھی۔
کافی دیر بعد رابطہ ہوا تھا۔
’’پولیس تمہاری روم میٹ کے بارے میں تمہارا سٹیٹمنٹ لینا چاہتی ہے ۔ سکندر آرہا ہے ادھر ہی ۔ان کومکمل بیان ریکارڈ کروادینا ۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔‘‘بمشکل اپنے غصے پر قابو رکھتے وہ بہت نرمی سے بتا رہا تھا ۔
’’لیکن میرا سٹیٹمنٹ کیوں‘ مجھے نہیں دینا ایسے بیان ۔ اور میں اکیلی کیسے، آپ خود کہاں ہیں ۔ سکندر کو کیوں بھیج رہے ہیں۔‘‘ اس نے ایک ہی سانس میں کئی سوال کر دیئے تھے۔
’’مجھے ارجنٹ کہیں جانا ہے ۔ وہیں جارہا ہوں۔ اور سادہ سا ایک بیان دینا ہے کوئی مسئلے والی بات نہیں ۔‘‘ اس نے تسلی دی۔
’’دینا ہی کیوں ہے ۔ کیا فائدہ ایم پی اے ہونے کا ۔ اگر حویلی میں ہوتی میں تو کبھی کوئی پولیس کے منہ نہ لگنے دیتا مجھے۔‘‘اس کی بات پر عمر کے ماتھے پر ان گنت لکیریں ابھری تھیں۔
’’یہ حویلی نہیں ہے میڈم ۔ میرا گھر ہے ۔ جب تک یہاں ہیں میری طرح ہی چلنا ہے اور ایم پی اے ہو کر مجھے خود بھی بیان دینا پڑا تو میں دوں گا ۔ قانون سب کے لیے ایک ہے۔ آپ کے لیے بھی‘ایم پی اے کی بیوی ہیں تو اس کامطب یہ نہیں کہ آپ کو سب معاف ہے ۔ٹھیک سے بیان دیں اور بے فکر رہیں ۔ ڈرنا آپ سے چاہیے پولیس کو،آپ کو کیا ڈر۔‘‘ وہ لمبی بات کرتا نہیں تھا مگر حویلی کی بات پر وہ خود کو روک نہیں سکا تھا۔ ورنہ وہ چاہتا یہی تھا کہ پیار سے اسے کہے گا بیان دینے کے لیے لیکن وہاں رہنے والوں کی فرعونیت اسے آج پہلی بار زینب کے لہجے میں نظر آئی تھی کہ وہ کسی کے آگے جوابدہ نہیںہے۔
’’بیوقوف۔‘‘ وہ اب پھر سکندر کو فون ملا رہا تھا ۔ جانتا تھا اس نے ہنگامہ کردینا ہے ۔ اس لیے اسے خود ہی واپس جانا پڑنا تھا۔
٭…٭
بیان دلوانے کے بعد پولیس کو خدا حافظ کہ کر وہ دوبارہ اس کی طرف آیا۔
’’میں گاؤں جارہا ہوں ۔ ہوسکتا ہے دیر ہوجائے ‘ دھیان رکھنا۔‘‘ مختصر سی ہدایات دی تھیں ۔
جواباََ وہ خاموش رہی تھی ۔ جب سے وہ آیا تھا وہ خاموش ہی تھی ۔ صرف بیان دیتے وقت بولی تھی۔ یقینا اسے اس کی باتیں بری لگی تھیں مگر فی الحال وہ چاہتا بھی یہی تھا کہ وہ اس سے اٹیچ نہ ہو ۔ عفان اور ردا کی شادی کے بعد اسے اس قصے کو بھی سمیٹنا تھا ۔ بہتر تھا کہ وہ فاصلہ رکھتا ۔ وہ بڑا تھا، میچور تھا اس لیے اسے یہ اپنی ہی ذمہ داری لگی تھی کہ وہ کسی قسم کا لگائو پیدا نہ کرے ۔ وقتی طور پر ساتھ رہ کر لگاؤ ہوجاتا ہے ۔ یہ فطری بات تھی مگر اس کے سہارے ساری زندگی نہیں گزاری جاسکتی تھی ۔ ۔ وہ آگے جا کر اس کے ساتھ نہیں رہ سکے گی کیوںکہ وہ دونوں بہت مختلف تھے ۔ زینب کو اپنی چلانے کی عادت تھی ۔ وہ کسی کی سننے والا نہیں تھا۔
بہت سوچنے کے بعد ہی اس نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ دور رہے گا ۔ ہاں فی الحال وہ اس کی ذمہ داری تھی، اسے خیال رکھنا تھا ۔ وہ رکھ رہا تھا لیکن دور رہنے کی سب سے بڑی وجہ اس کااندر کا ڈر تھی ۔ عمر کو اپنا آپ اس کے سامنے بدلتا محسوس ہونے لگتا تھا ۔ وہ جذبات میں بہنے والا آدمی نہیں تھا، ان معاملات میں تو وہ ہمیشہ خود کر برف بنا کر رکھتا آیا تھا ۔ بتیس سالہ زندگی میں بہت لڑکیوں نے کوشش کی تھی اس کے قریب ہونے کی، اس کی توجہ لینے کی مگر وہ اپنے مقاصد میںڈٹ کرچل رہا تھا ۔ پہلی بار اسے وہ برف پگھلتی محسوس ہو رہی تھی ۔ شاید یہ نکاح کے دوبولوں کا کمال تھا ۔ مگر وہ کسی کو بھی اپنی کمزوری نہیں بنا سکتا تھا اس لیے اس نے وہیں خود کو روک لیا تھا۔
انہی سوچوں کے دائرے میں وہ گاؤں آگیا تھا جہاں ایک اور محاذ اس نے سر کرنا تھا ۔
جیسے ہی وہ وہاں پہنچا تھا اسے کافی کچھ مختلف محسوس ہوا تھا ۔ امی نے اسے دیکھ کر خفگی سے منہ موڑا تھا اور دادو، وہ بس اسے دیکھے جارہی تھیں۔
’’کیا ہوا ہے؟ سب ٹھیک ہے؟‘‘ وہ پریشان ہوا تھا ۔ لیکن سب خاموش رہے تھے ۔ اس نے چچی کی طرف دیکھا، جوابا انہوں نے بھی آگے سے کندھے اچکائے دیے ۔
’’کب جانا ہے حویلی؟‘‘ دادو کافی توقف کے بعد بہت سکون سے بولی تھیں۔
وہ ہونق بنا ان کی بات سن رہا تھا ۔ فی الحال اسے پہلی بار سمجھ نہیں آئی تھی کہ وہ طنز مار رہی ہیں یا واقعی مان گئی ہیں۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے