سلسلہ وار ناول

خرمنِ قلب: قسط نمبر 3

’’عفان، پتہ تو کرو ۔ وہ اب تک واپس نہیں آیا ۔ فون بھی بند جارہا ہے ۔دن کے دو بج گئے ہیں ۔ لوگ آرہے مبارکباد کے لیے‘میرا تو دل ہول رہا ہے عفان ۔ پتہ کرو ناپلیز۔‘‘امی اور دادی کے بار بار کہنے پر اسے سکندر کو فون ملایا تھا ۔ جواباََ سکندر نے رات والے واقعے کا تفصیل سے اسے بتا دیا تھا ۔
جاننے کے بعد اس نے بے اختیار ہی سکون کا سانس لیا تھا ۔ دل کو کچھ تسلی ہوئی تھی ۔ وہ تیزی سے امی کو اندر بتانے آیا تھا لیکن رک گیا تھا ۔ اندر وہ سب باجماعت ٹی وی پر وہی خبر دیکھ رہے تھے ۔ اس کے بتانے کی ضرورت نہیں تھی ۔ سب کو خود ہی معلوم ہوگیا تھا کہ وہ رات سے کہاں تھا ۔ٹی وی پر اس کی اور زینب کی تصویر بھی خوب وائرل ہورہی تھی۔
’’مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا یہ عمر بھائی ہیں۔‘‘ علیزے خوامخواہ ہی پرجوش ہوئی تھی۔
’’حالانکہ اپنی بھابھی دیکھ کر یقین آجانا چاہیے تمہیں کہ یہ تمہارے عمر بھائی ہی ہیں ۔ کیسے چپک کر کھڑی ہے ، بے شرم۔‘‘ ملائکہ کی آواز پر ان چاروں نے بے اختیار ہی سر پر ہاتھ رکھا تھا۔
’’عفان، بکرے لے آنا صدقے کے لازمی ۔میرا بچہ تو سب کی نظروں میں آگیا ہے پہلے ہی دن ۔ اللہ بری نظر سے بچائے ۔ ‘‘امی کی بات پر وہ بے اختیار اس تصویر سے باہر آیا تھا اور باہر نکل گیا تھا ۔ اندر کہیں ہلکی سی تکلیف اٹھی تھی ۔
’’ کاش ردا ہوتی آج ادھر، کاش کچھ ایسا ہوجائے وہ مجھے مل جائے ‘ کاش۔‘‘ وہ عجیب سی مایوسی میں گھر گیا تھا ۔ لیکن کوئی گھڑی قبولیت کی بھی ہوتی ہے اور یہ شاید وہی گھڑی تھی ۔کون جانتا تھا قسمت ان کو کس طرف لے کر جارہی ہے ۔
دوسری طرف حویلی میں ایک بار پھر آغا جان کے پاس سب بیٹھے تھے بس فرق صرف یہ تھا کہ اس بار انہوں نے خود ان سب کو بلایا تھا ۔ کل رات سے اس تصویر نے جو ان سب کے دلوں پر الگ الگ خنجر چلائے تھے ۔ ان کا خون‘ان کا غرور تھی وہ اور کہاں تھی ۔ ان کے بدترین دشمن کے ساتھ۔
’’عمر کو پیغام بھجواؤ…‘‘ انہوں نے پہلی بار ’’وہ لڑکا ‘‘کہنے کی بجائے اس کا نام لیا تھا ۔ سب چونکے تھے۔
’’کیسا پیغام آغا جان۔‘‘ تایا ابو بولے تھے۔
’’میں صلح کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ انہوں نے گویا بم پھوڑا تھا ۔ تیس سالوں کے بت واقعی ٹوٹ رہے تھے ۔وہ سب شاکڈ تھے ۔ آغا جان اور صلح…
’’جو میں نے کہا ہے وہ کرو ۔ ہماری پوتی اس کے ساتھ ہے ۔ اس کے بغیر نہیں رہ سکتا میں۔‘‘ان کا لہجہ ہارا ہوا تھا۔
’’اور اگر وہ صلح کے لیے نہ مانا؟‘‘ زوار نے سوال کیا تھا۔
’’ہم اس کی ہر شرط مانیں گے صلح کے لیے ۔بتادو اس کو اور پیغام بھیجو زوار تم جانا اس کے پاس ۔‘‘ انہوں نے اگلی ہدایت دی تھی ۔ کیونکہ وہ ہی اس صلح کی بات پر سب سے زیادہ خوش تھا ۔
’’ٹھیک ہے آغا جان…‘‘ وہ پرجوش سا اٹھ کر باہر چلا گیا تھا۔
’’یہ کھیل کیا ٹھیک رہے گا آغا جان۔‘‘اس کے جاتے ہی عزیز صاب بولے تھے ۔ وہ اپنے باپ کی رگ رگ سے واقف تھے۔
’’صرف یہی کھیل ہی کامیاب رہے گا ۔ اس کو باپ بنا کر گدھا بناؤں گا ۔ دیکھتا ہوں کہاں تک بھاگتا ہے۔‘‘ وہ مضبوط لہجے میں کہتے لیٹ گئے تھے ۔ان دونوں کے لیے اشارہ تھا کہ وہ اب جائیں اور وہ سمجھ گئے تھے مگر پریشان تھے ۔اپنی اپنی جگہ الجھے ہوئے تھے۔
مہرے بدل رہے تھے ۔ چال بدلی گئی تھی ۔ سانپ اپنی کینچلی میں چھپ کر وارکرنا چاہتا تھا ۔ دوست بن کر دشمنی اس کھیل کا سب سے خطرناک حصہ تھا ۔ اور وہ کھیل اب شروع ہوگیا تھا۔
٭…٭
ایک بھرپور نیند کے بعد تقریباََ دو بجے وہ جاگا تھا ۔ کچھ دیر اندھیرے کمرے میں لیٹے رہنے کے بعد اس نے ٹائم دیکھنے کے لیے موبائل ادھر ادھر تلاشا تھا لیکن نہیں ملا تھا ۔ وہ کچھ دیر بعد باہر آیا تھا اور گھڑی ہر نظر پڑتے ہی آنکھیں ملی تھیں ۔گویا غلط ٹائم دیکھ لیا ہو ۔پھر دوبارہ غور سے دیکھا تھا ۔
’’اوہ گاڈ، اتنی دیر سوتا رہا میں ۔میرا فون کہاں ہے۔‘‘وہ بڑبڑایا۔
’’فون میں نے آف کردیا تھا ۔‘‘ کسی بہار کے جھونکے کی طرح زینب اندر آئی تھی ۔ وہ بے اختیار مڑا تھا۔
’’کیوں؟‘‘ اسے نظروں کے فوکس میں لیتے ہوئے اس نے پوچھا تھا ۔دونوں ہاتھ سینے پر باندھے وہ اب صرف اس کی طرف متوجہ تھا۔
’’آپ سو رہے تھے اور فون بار بار بج رہا تھا اس لیے …‘‘ وہ خوامخواہ ہی خود کو مصروف ظاہر کر رہی تھی مگر ہاتھوں کی کپکپاہٹ بتا رہی تھی کہ وہ اسے فیس نہیں کر پارہی ۔ وہ نظر کا زاویہ بدل چکا تھا ۔ بہرحال اسے وہ بے سکون نہیں کرنا چاہتا تھا ۔
’’میرا خیال کے کچھ دن تم اپارٹمنٹ میں ہی رہو ہاسٹل جانے کی ضرورت نہیں۔‘‘ اس کے ہاتھ سے فون پکڑتے ہوئے اس نے کہا تھا۔
’[میں اکیلی کیسے رہوں گی؟‘‘ وہ الجھی ہوئی تھی ۔ چاہتی وہ بھی یہی تھی مگر وہ اکیلے بھی کیسے رہ سکتی تھی۔
’’اکیلے کیوں، میں بھی تو ساتھ رہوں گا۔‘‘ وہ سنجیدہ تھا ۔
’’آپ … آپ کیسے ۔مطلب آپ نے تو گاؤں جانا ہوتا۔‘‘ اس کی بات پر وہ مسکرایا تھا۔
’’آئی ول مینج۔‘‘ اس کے کہنے پر زینب نے بھی بے اختیار سکون کا سانس لیا تھا ۔ سن کر کتنی تسلی ہوئی تھی ۔
’’بشرطیکہ میرے ساتھ رات والا سلوک نہ کیا جائے ۔‘‘ بہت مدھم گھمبیر لہجے میں اس کے کان میں کہتا وہ سکون سے کچن کی طرف چلا گیا تھا اور وہ بے اختیار تیز ہوتی دھڑکن کے ساتھ وہیں بیٹھ گئی تھی۔
’’ابھی مجھے جانا ہے تھوڑی دیر کے لیے ۔ میں جلدی آجاؤں گا ۔ فون آن رکھنا، کھانا میں لے آؤں گا ۔ پڑھو بیٹھ کر تم …‘‘ وہ اب دوبارہ نارمل ہوچکا تھا ۔ جلدی جلدی ہدایات جاری کر کے وہ باہر نکل گیا تھا اور وہ وہیں کھڑی اپنے ہاتھوں کو مسل رہی تھی۔
٭…٭
زندگی میں ہر موڑ پر اس نے کچھ نہ کچھ سیکھا تھا ۔ وہ سیکھنے کا عادی تھا ۔ اس نے کبھی کسی چیز کے لیے خود کو پرفیکٹ نہیں مانا تھا، اس کے اندر کی یہی بات تھی جس نے کبھی اسے خود پر فخر نہیں کرنے دیا تھا ۔ اس شاندار جیت کے بعد بھی اس کی آنکھوں میں کوئی غرور نہیں تھا ، کوئی اکڑ نہیں تھا ۔ وہ کبھی بھی ایک خودسر آدمی نہیں رہا تھا ۔ حلف برداری کی تقریب کے لیے اسے دودن بعد لاہور جانا تھا اس کے بعد ہی باقاعدہ آفس جوائن کرنا تھا ۔ابھی وہ صرف لوگوں سے مل رہا تھا اپنے الیکشن آفس میں ‘ مبارکبادیں وصول کر رہاتھا۔
مگر ایک عجیب سی عاجزی تھی جو اس کے ہر ہر انداز سے جھلک رہی تھی ۔ وہ خود کو ان سب کے سامنے یکدم ہی جوابدہ پانے لگا تھا ۔ اسے اب احساس ہورہا تھا کہ کتنی بڑی زمہ داری ہے جو اس کے کندھوں پر آگئی ہے ۔ سب سے ملنے کے بعد اس نے ایک چھوٹی سی پریس کانفرنس کر کے سب کا شکریہ ادا کیا تھا ۔ اس کے بعد وہ گاؤں کے لیے نکلا تھا لیکن جنت پور کی سڑک پر پہلے سے کھڑے زوار کو دیکھ کر اسے بے اختیار بریک لگانی پڑی تھی ۔ کیونکہ وہ راستے میں کھڑا تھا اور وہ اسے دیکھتے ہی سمجھ گیا تھا کہ وہ اس سے ہی ملنا چاہتا ہے ۔ ورنہ اس پگڈنڈی پر ہمیشہ خون ہی بہا تھا ۔گاڑی سے اتر کر وہ اس کے طرف بڑھا۔
’’میں کافی دیر سے تمہارا انتظار کر رہا تھا’۔‘‘ زوار نے اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
’’مجھے اس بات کا علم نہیں تھا ۔ ہوتا تو شاید تمہیں یہ زحمت نہ اٹھانی پڑتی۔‘‘ جواباََ اس نے نپے تلے لہجے میں جواب دیا تھا۔
’’آغا جان کا ایک پیغام دینا ہے تمہیں۔‘‘ وہ پرجوش سا لگ رہا تھا ۔ اس کے برعکس وہ مکمل شانت تھا۔
’’بولو۔‘‘ اسے گویا کوئی حیرت نہیں ہوئی تھی۔
’’وہ صلح کرنا چاہتے ہیں ۔ ہر شرط پر…‘‘ اس کے کہنے پر ایک ثانیے کو اس کے ہونٹوں پر جاندار قسم کی مسکراہٹ آئی تھی اور فوری غائب ہوگئی تھی۔
’’ردا کا ہاتھ عفان کے لیے مانگتا ہوں میں ‘ صلح ہوجائے گی ۔ ‘‘ ایک لمحہ سوچے بغیر وہ سیکنڈز میں بولا تھا جوابا زوار شاکڈ اسے دیکھ رہا تھا ۔ اسے امید نہیں تھی کہ وہ اتنی جلدی مان جائے گا ۔ اسے تھا کہ عمر وقت لے گا، گھر مشورہ کرے گا، بہت کچھ منوائے گا، معافی نامہ ہوگا مگر یہاں تو سب اس کی توقع کے بالکل برعکس تھا ۔
’’میرا یہ پیغام اپنے آغا جان تک پہنچا دینا۔‘‘ مضبوط لہجے میں وہ کہتا ہوا واپس گاڑی میں آگیا تھا البتہ آنکھیں کسی احساس کے تحت جگر جگر چمک رہی تھیں ۔
باغوں کے بیچ گاڑی گاڑی موڑتے ہوئے وہ مسلسل مسکرا رہا تھا ۔ وہ جانتا تھا سب جا ری ایکشن بہت زیادہ ہوگا اس فیصلے پر بالخصوص دادی کا لیکن وہ یہ سب ہینڈل کرسکتا تھا۔ عفان میں اس کی جان بستی تھی ۔ اگر اس کی خوشی کے لیے وہ ہر رسک لے کر چوہدری ظہور کی زمین پر چلا گیا تھا ردا کو لینے تو اب تو اس کے پاس سنہری موقع تھا۔ وہ بہت اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ ایک غیر فطری اتحاد ہوگا ۔ دو تلواریں ایک میان میں کتنی دیر تک رہ سکتی ہیں اس لیے اسے اس کے شروع میں ہی سب کچھ منوانا تھا۔ بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔
گھر پہنچ کر وہی ہوا تھا ۔ حسب توقع دادو اس کی بات پر بھڑک اٹھی تھیںاور باقی سب بھی۔
’’رشتہ تو دور کی بات ۔ صلح ہی نہیں ہوگی کسی صورت ‘ کیا ہوگیا ہے تمہیں عمر ۔ کیا تم…کیا تم بھول گئے ہو وہ کون لوگ ہیں ۔ تمہیں یتیم کردیا تھا انہوں نے سات سال کی عمر میں۔‘‘ دادو زاروقطار رو رہی تھیں ۔ عمر نے بڑے لمبے عرصے بعد ان کو ایسے ٹوٹتا دیکھا تھا ۔وہ جانتا تھا کئی دنوں کا غبار ہے وہ ایسے ہی نکلے گا۔
’’ہر رات،ہر دن کیسے گزارا ہم نے ‘ کس عالم میں ۔ کیسے سینت سینت کر ان کی نظر سے بچا کر پالا تم لوگوں کو اور تم… تم ان سے رشتہ داریاں جوڑ رہے ہو ۔ ٹھیک ہے تمہیں پسند آگئی ‘ کرلی تم نے شادی ۔ مان لیا ہم نے ‘اس کایہ مطلب نہیں کہ ہم سب بھول گئے ہیں ۔ اگر تمہیں کرنی ہے صلح تو جاؤ کرلو ۔ وہیں شہر میں آنا جانا رکھو ان کے ساتھ ۔ خوش کرو بیوی کو مگر یہاں‘ جنت پور کی زمین پر میں ان کا پیر بھی نہیں پڑنے دوں گی ۔‘‘ وہ روتے روتے جلال میں آگئی تھیں ۔ ورنہ وہ کبھی عمر سے ایسے بات نہیں کرتی تھیں ۔ انہوں نے خود اسے اس گھر کا بڑا بنایا تھا اور اس کے ہر فیصلے کو آخری فیصلہ قرار دیا تھا ۔ مگر آج وہ گرج رہی تھیںاور وہ سر جھکائے سن رہا تھا۔
’’اور عفان کے لیے گھر کی لڑکیاں مر نہیں گئی ہیں کہ میں حویلی سے بہو لے کر آؤں ۔ اس کی شادی وہیں ہوگی جہاں میں کہوں گی۔‘‘ وہ کہہ کر کھڑی ہوگئی تھیں ۔ وہ بھی احتراماََ کھڑا ہوگیا تھا۔
’’چلے جاؤ عمر یہاں سے ۔ مجھے امید نہ تھی کہ اس لڑکی کو تم اتنا چاہتے ہو کہ باپ کے قاتلوں کو گلے لگانے کے لیے تیار ہو۔‘‘ ان کی بات پر اس نے بے اختیار ہونٹ بھینچے تھے۔
’’آپ کیا چاہتی ہیں ؟ آگ اور خون کا کھیل کھیلا جاتا رہے ہمیشہ یہاں؟ کبھی امن نہ ہو؟‘‘ وہ پہلی بار بولا تھا مگر دھیمی آواز میں۔
’’یہ کھیل میں نے نہیں انہوں نے شروع کیا تھا ۔ اور امن کی خواہش کمزور لوگ کرتے ہیں ۔ ان کی فطرت میں کمینگی ہے ۔ وہ صلح کرکے بھی تمہیں نقصان پہنچائیں گے ۔ سانپ کو دودھ بھی پلاؤ پھر بھی ڈنگ مارتا ہے ۔ جتنے مرضی بڑے ہوجاؤ تم‘مجھ سے بڑے نہیں ہو، آئی سمجھ۔‘‘ آج تو وہ بالکل بھی اسے بخشنے کے موڈ میں نہیں تھیں ۔ اس نے امی کی طرف دیکھا تھا جو دونوں کو ایسے دیکھ کر تذبذب کا شکار تھیں ۔
’’ابھی میں جارہا ہوں دادو، آپ سوچ لیں ایک بار مزید کیونکہ یہ میں واقعی کرنا چاہتا ہوں ۔ زینب کی وجہ سے نہیں‘ وجہ آپ کو جلد سمجھ آجائے گی ۔ ٹھنڈے دماغ سے سوچیں پلیز‘ اتنا تو بھروسہ رکھیں ۔ آج تک کبھی آپ کوشرمندہ نہیں ہونے دیا ۔ یقین کریں آگے بھی نہیں ہوگا۔‘‘وہ ان کے قریب آکر ان کے دونوں ہاتھوں کو بوسہ دے کر آنکھوں سے لگاتے ہوئے بولا تھا۔
’’میں اپنے فیصلے نہیں بدلتی ۔ تم یہ جانتے ہو بہت اچھی طرح ۔ جتنا بھی میں سوچ لوں‘ میرا یہی فیصلہ رہے گا۔‘‘ وہ اڑ گئی تھیں ۔ اور وہ جانتا تھا وہ صحیح کہ رہی ہیں۔
’’معاف کیجئے گا مگر اپنے فیصلوں پر اٹل رہنے کو میں سمجھداری نہیں مانتا‘ حالات کے مطابق چلنا دانشمندی ہے ۔ جب تک معاملات آپ کے ہاتھ میں تھے ۔ میں نے کبھی انٹر فیئر نہیں کیا ،ہر چیز کو ریسپیکٹ کیا ۔ پھپھو کی ناکام شادی کے فیصلے کو بھی سب سے زیادہ دفاع کیا آپ کا ۔ اب میرے ہاتھ میں ہے سب تو بھی میں بڑا مانتا ہوں آپ کو اور ریکویسٹ کرتا ہوں کہ اس چیز کو سمجھیں۔‘‘وہ اب بہت سنجیدہ لہجے میں بہت کچھ جتاتا باہر چلا گیا تھا جبکہ وہ کرسی پر ڈھے گئی تھیں ۔
’’امی آپ پانی پیئں ۔‘‘ چچی فوری ساس کے پاس آئی تھیں۔
’’آج میں واقعی بوڑھی ہوگئی ہوں۔دیکھو مجھے ایک لڑکی… وہ ایک چھوٹی سی لڑکی کے لیے ۔ ہر چیز داؤپر لگا رہا ہے۔‘‘وہ پھر سے رونے لگی تھیں۔
’’ایسا کچھ نہیں ہے ۔ وہ کہہ تو رہا ہے کہ کوئی اور وجہ ہے ۔ اپنا عمر ایسا نہیں ہے ۔ پلیز آپ ناروئیں۔ بھابھی آپ بھی مت روئیں۔‘‘وہ اب جیٹھانی کے پاس آئی تھیں جن کے گالوں پر بے آواز آنسو بہ رہے تھے ۔ ماحول یکدم ہی بہت بوجھل ہوگیا تھا ۔ خدشے،وہم، ڈر اور اندیشے نئے سرے سے ان سب جو ستانے لگے تھے۔
’’سکندر کو بلاوا بھجو حمیدہ ۔ مجھے اس سے ضروری بات کرنی ہے۔‘‘ وہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گئی تھیں لاٹھی ٹیکتے ہوئے۔
٭…٭
اپارٹمنٹ پہنچتے پہنچتے اسے رات کے گیارہ بج گئے تھے ۔ لیکن وہ بے فکر تھا کیونکہ کھانے وغیرہ کا ذمہ وہ سکندر کو دے گیا تھا کہ انتظام کردے ۔پورے دن کی تھکاوٹ اور بوجھل پن کے بعد وہ واپس آیا تھا ۔ ذہن میں بار بار دادو کی روتی آنکھیں آرہی تھیں۔
لاکھ وہ ظاہر کرلیتا کہ وہ بہت مضبوط اعصاب کا ہے مگر آج برسوں بعد دادو کو روتا دیکھ کر وہ اچھا خاصا ڈسٹرب ہوگیا تھا ۔ خواتین کے لیے وہ ویسے ہی بہت حساس واقع ہوا تھا ۔ بہت کچھ عرصے بعد یاد آیا تھا ۔ سرخ ہوتی آنکھوں کے ساتھ اس نے اندر آکر جیکٹ اتار کر صوفے پر رکھی تھی اور وہیں بیٹھ گیا تھا ۔ آہٹ سن کر وہ بھی فوراََ باہر آئی پھر اسے دیکھ کر ادھر ہی آگئی تھی۔
’’آپ نے تو کہا تھا میں تھوڑی دیر تک آجاتا ہوں ۔ پورے دس گھنٹوں بعد آئے ہیں۔‘‘ اس کی بات پر عمر نے بمشکل بھاری ہوتا سر اٹھایا تھا ۔ایک لمحے کو اس کی نظر اس کی پیشانی پر ٹکی تھی۔ اسے لگا تھا سامنے زینب نہیں چوہدری ظہور کھڑا ہے۔ اس کی آنکھیں مزید سرخ ہوئی تھیں۔
’’کیا…کیا ہوا آپ کو ۔ ایوری تھنگ فائن…‘‘وہ اس کی خود پر جمی سرخ آنکھوں سے گھبرا گئی تھی۔
’’جی سوری، کچھ تھکاوٹ کی وجہ سے میرے سر میں درد ہے ۔‘‘ وہ فوری سنبھلا تھا ۔ پھر ہلکے سے مسکرایا بھی تھا ۔زینب کو اس کی اس کی مسکراہٹ عجیب زخمی سی لگی تھی ۔
’’کیا…بہت زیادہ درد ہے؟‘‘اسے تشویش ہوئی تھی ۔ ایسے تو اس نے کبھی بھی عمر کو ری ایکٹ کرتے نہیں دیکھا تھا ۔
’’نہیں… کچھ نہیں میں ٹھیک ہوں ۔ کھانا دے گیا تھا سکندر؟‘‘اس نے اب زینب سے سوال کیا تھا۔
’’جی دے گیا تھا ۔ لگاؤں کھانا آپ کے لیے؟‘‘ وہ زیادہ کیئرنگ ہو رہی تھی یا اسے لگ رہا تھا ۔ قدرے حیرت سے اس نے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا تھا جو بڑی فکرمندی سے اس کی طرف متوجہ تھی۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے