خرمنِ قلب: قسط نمبر 3

تیس سال کا پرانا تخت ان سے چھینا گیا تھا ۔ ورنہ کس کی جرات تھی کی اس علاقے میں ان کی حمایت کے بغیر جیت جائے لیکن اب ان کو لگ رہا تھا کہ وہ کسی خوش فہمی میں جی رہے تھے ۔ زینب پر بھی تو ایسا ہی مان تھا ان کو کہ وہ کبھی ان کے حکم کے خلاف نہیں جا سکتی ۔ وہ بھی غلط نکلا اور اب یہ بھی…
’’دفعہ…دفعہ ہو جاؤ سب کے سب ۔ دفعہ ہو جاؤ یہاں سے ۔ ‘‘ان کی نحیف آواز تھرا رہی تھی۔
’’مجھے کہیں سے کوئی زہر لادو عزیز ، زہر لا کر دو مجھے ‘ ایسی ذلت میں برداشت نہیں کر سکتا ۔یہ جو لوگ آرہے تعزیت کرنے‘ ان سے کہو میرا جنازہ بھی پڑھ کر جائیں آج۔‘‘ وہ سرخ آنکھوں کے ساتھ باہر اپنے ڈیرے پر آنے والے لوگوں کو دیکھ کر غرا رہے تھے۔
’’آغا جان… آغا جان کیا کر رہے ہیں۔‘‘ زوار ان کے قریب ہوا تھا مگر انہوں نے پوری قوت سے اسے پیچھے دھکیلا تھا۔
’’خبردار‘کوئی میرے پاس نہ آئے ۔ دفعہ ہوجاؤ۔‘‘ وہ دھاڑے تھے ۔ ان سے ان کا سب چھن گیا تھا ۔حکمرانی کا نشہ سب سے گندا نشہ ہوتاہے ۔ انسان سے اگر چھین لیا جائے تو وہ اسے واپس لینے کے لیے اپنا سب داؤ پر لگاتا ہے ۔ پھر بھی نہ ملے تو ایسے ہی بن پانی کے مچھلی کی طرح تڑپتا ہے ۔ ان کا بھی اس وقت یہی حال تھا ۔ وہ سب مل کر بھی اس دکھ کا مداوا نہیں کر سکتے تھے ۔ ہر ہمدردی کا لفظ والا اس وقت ان کو بے عزتی لگ رہا تھا اور ہر نظر چبھ رہی تھی ۔ رہ رہ کر اس لڑکے کی چمکتی بھوری آنکھیں یاد آرہی تھیں ۔کس شان سے وہ آیا تھا اس دن‘ کس شان سے جیت گیا تھا ۔ کس سے سیکھا تھا آخر اس نے سب۔
٭…٭
دوسری طرف جنت پور میں گویا آج کی رات ساری روشنیاں اتر آئی تھیں ۔ ہر طرف بس رنگ ہی رنگ تھے اور پکوان کی خوشبوئیں تھیں ۔ ہر کسی کے لیے دعوت عام تھی ۔ رات کے بارہ بج رہے تھے اور عمر ہر کسی سے پچھلے پانچ گھنٹوں سے اسی مسکراہٹ کے ساتھ مبارک باد وصول کررہا تھا ۔ نہ ہی وہ اوور ایکسائیٹڈ تھا نہ مغرور … وہ عاجز تھا ، شکر گزار تھا اور آج تو شکر گزاری اس پر واجب تھی ۔ اس نے دنیا کے سارے خداؤں کو چھوڑ کر صرف اس ایک اللہ پر بھروسہ کیا تھا ۔ اس کی نیت صاف تھی اور اسے نوازا گیا تھا ۔ ساری دنیا بظاہر خلاف تھی پھر بھی وہ فاتح ٹھہرا تھا ۔ اسے اس میں اپنا کوئی کمال نظر نہیں آرہا تھا بس اس کی قدرت نظر آرہی تھی ورنہ وہ شکست اور جیت دونوں کے لیے تیار تھا ۔ لیکن اللہ نے اسے اتنا نواز دیا تھا کہ اس کا سر شکر گزاری سے سر مزید جھک گیا تھا ۔ تقریباََ بارہ بجے کے بعد وہ اندر آیا تھا جہاں وہ سب اس کے انتظار میں بیٹھے تھے ۔ باوجود ناراضگی کے دادو نے بھرائی آنکھوں کے ساتھ اس کا ماتھا چوما تھا ۔یہ تو اس کے باپ کا خواب تھا جو آج برسوں بعد مکمل ہوا تھا۔
’’اس زمہ داری کو نبھانا آسان نہیں ہے عمر ، اس راستے میں راہوں کا شکار مت ہوجانا ۔ یہاں بڑے دلفریب دھوکے ہیں اور بڑی خوشنما باتیں ۔ یاد رکھنا تمہیں چنا گیا ہے ۔ یہ ذمہ داری ہے، اسے پورا کرنا ہے ۔‘‘ امی نے ہمیشہ کی طرح اسے وہ مقصد یاد دلایا تھا ۔ وہ کبھی بھولنے نہیں دیتی تھیں ۔ وہ مسکرایا‘ اللہ نے ان کا وجود اس کے لیے ایک یاددہانی کے طورپر بنایا تھا ۔
’’اتنی خوشی کے موقع پر یہ اپنی من پسند بیوی کو گھر نہیں لے کر آئے حیرت ہے۔‘‘ملائکہ نے علیزے کے کان میں طنز سے بھرپور سرگوشی کی تھی ۔ ان چاروں کزنز نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا تھا۔
’’کبھی تو خوش ہوجایا کرو یار ملائکہ ۔ یہ عمر بھائی اور زینب کاپرسنل ایشو ہے۔‘‘ زویا نے اسے لتاڑا تھا اور پھر آگے بڑھ کر اس سے مل کر مبارکباد دی تھی۔
’’بہو کو بھی لے آتے۔‘‘چچی کے کہنے پرامی نے بھی فوری ان کی ہاں میں ملائی تھی اور ملائکہ نے طنزیہ زویا کو دیکھا تھا ۔ جیسے کہہ رہی ہوان کو بھی چپ کرواؤ اب۔
’’ادھر تو آج ماتم ہوگا بھئی ۔ آخران کی فیملی بڑی بری طرح ہاری ہے آج۔‘‘ وہ پھر بھی باز نہیں آئی تھی ۔ اس کی بات پر ایک لمحے کے لیے خاموشی چھا گئی تھی ۔چچی نے کڑے تیوروں سے اسے گھورا تھا۔
’’اس کی فیملی اب یہ ہے ملائکہ ۔‘‘ وہ ٹھوس لہجے میں بولا تھا۔
اور اب مزید کسی بات کی گنجائش نہیں تھی ۔ اسے تو زینب کی حمایت میں بولنا ہی تھا ۔ وہاں موجود ایک ایک فرد صرف یہ جانتا تھا کہ اپنے بدترین دشمن کی اولاد سے اس نے محبت کی شادی کی ہے ۔اس کی بات آخری بات ہوتی تھی ۔ وہ اندر عفان کے پاس آگیا تھا ۔ تھوڑی دیر اس کے پاس بیٹھنے کے بعد وہ سونے کے لیے اندر آیا تھا پھر بے ارادہ ہی فون دیکھا تھا ۔ شاید وہ زینب کی طرف سے میسج آنے کا سوچ رہا تھا لیکن شاید اس کو علم بھی نہ ہو کہ وہ جیت گیا ہے۔
اس سے پہلے کے وہ فون رکھتا، فون بجنے لگا تھا ۔ زینب کالنگ دیکھ کر وہ واقعی حیران ہوا تھا ۔ وہ رات کو ایک بجے اسے فون کر رہی تھی وہ بھی مبارکباد دینے کے لیے ۔اس نے فوری فون اٹھایا۔
’’آپ،آپ کہاں ہیں ۔ پلیز ہاسٹل آجائیں فوری…پلیز۔‘‘آگے سے اس کی روتی آواز پر وہ ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اٹھ کر بیٹھا تھا۔
’’کیاہوا ہے؟ آر یو اوکے۔ایوری تھنگ اوکے؟‘‘ وہ اپنی تشویش چھپا نہیں سکا تھا ۔پہلا دھیان حویلی والوں کی طرف گیا تھا۔
’’نتھنگ از اوکے ۔ میری روم میٹ… اس کی، اس کا…اس کا مرڈر ہوگیا ہے،اس کا۔‘‘ وہ رونے کے باعث بات مکمل نہیں کر پارہی تھی۔
’’واٹ؟‘‘ حیرت کی زیادتی سے اس کے منہ سے بس اتنا ہی نکلا تھا۔
’’ادھر بہت میس کریٹ ہوگیا ہے ۔ وہ آج شام واپس نہیں آئی تھی ہاسٹل ۔ باہر کچھ دیر پہلے کوئی‘کوئی اس کی ڈیڈ باڈی پھینک گیا ہے ۔ پولیس …سب ہم سب سے خاص طور پر مجھ سے بھی تفشیش کر رہے ہیں ۔ آپ آجائیں پلیز۔‘‘ اس نے ٹوٹے پھوٹے لہجے میں بات مکمل کی تھی۔
’’ریلیکس زینب ، میں آرہا ہوں ۔ ڈونٹ وری کال پر رہو میرے ساتھ ۔کچھ نہیں ہوگا۔‘‘ وہ تیزی سے باہر آیا تھا ۔ وہ سب ابھی بھی وہیں بیٹھے تھے رات کے دو بجے سیلیبریٹ کر رہے تھے ۔ اس کو باہر آتا دیکھ کر چونکے تھے۔
’’کیا ہوا عمر۔‘‘امی نے پوچھا تھا۔
’’مجھے شہر جانا ہے ۔کچھ ایمرجنسی ہے۔‘‘ وہ جلدی جلدی بولتا بھاگا تھا۔
ایسی جلد بازی، اتنی بے صبری وہ سب حیران پریشان اسے جاتا دیکھ رہے تھے ۔ یہ اس کی فطرت نہیں تھی ۔ وہ بہت دھیمے مزاج کا بندہ تھا ۔ ایسا کیا ہوگیا تھا …
’’یا اللہ سب خیر رکھنا ۔‘‘ انہوں نے دعا کی تھی ۔ جانتی تھیں جب تک وہ خود نہیں بتائے گا پوچھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔اس لیے بس دعا کر رہی تھیں۔
٭…٭
ہاسٹل میں ایک ہنگامہ بھرپا تھا ۔ اس کو آتا دیکھ کر وہ سب حیران ہوئے تھے ۔ وہ آج ہی جیتا تھا اور آج ہی ادھر آگیا تھا۔
’’سر ، آپ ادھر؟‘‘ پولیس والا اسے دیکھ کر پیچھے ہوا تھا ۔ لیکن اس کی نظریں فی الحال اس کو تلاش کر رہی تھیں۔
’’میری وائف… زینب عزیز، ان کو بلائیں پلیز ۔ ‘‘اس کی بات پر وارڈن پورا منہ کھولے اس کو دیکھ رہی تھی اور باقی سب حیرت سے ۔ اس سے پہلے کے وہ کسی کو بلاتی، وہ خود ہی آگئی تھی اور آکر سیدھی اس کے گلے لگی تھی ۔ اب کہ شاکڈ ہونے کی باری اس کی تھی۔ اسے لگا تھا شاید اس کا سانس رک گیا ہے ۔ پہلی مرتبہ کوئی اس حق سے اس کے اتنے قریب ہوا تھا ۔ وہ بری طرح رو رہی تھی ۔ خوف سے اس کا پورا وجود لرز رہا تھا ۔فیملی سے دور ایک چوبیس گھنٹے ساتھ رہنے والی لڑکی کی مسخ شدہ لاش اور پھر تفشیش … اس سب نے اسے بری طرح خوفزدہ کر دیا تھا۔
عمر نے بمشکل اپنا ہاتھ اٹھا کر اس کے سر پر رکھا تھا۔
’’ریلیکس، جسٹ ریلیکس ‘ایم ہیئر…‘‘ اس کا لہجہ دھیما ہوگیا تھا ۔
وہ مضبوطی سے اس کی شرٹ دونوں ہاتھوں میں جکڑے بالکل اس کے ساتھ لگ کر کھڑی تھی ۔ وہ جانتا تھا وہ اس وقت خوف کی کیفیت میں تھی ۔ سب کی خود پر جمی کچھ معنی خیز نظروں اور اوپر سے اخبار والے بھی ادھر پہنچ گئے تھے ۔ وہ اسے پیچھے کرنا چاہتا تھا مگر وہ نہیں ہو رہی تھی ۔ بمشکل اسے ایک بازو کے حصار میں لیے وہ پولیس والے کی طرف ڈیٹیل پوچھنے کے لیے متوجہ ہوا تھا۔
’’ابتدائی تحقیق کے مطابق لڑکی اپنی مرضی سے ہاسٹل سے گئی تھی سر، بابر نامی ایک لڑکے سے وہ ریلیشن شپ میں تھی ۔ اسے اس کے ساتھ ہی جاتے دیکھا گیا تھا ۔ اس کے بعد کیا ہوا کچھ علم نہیں ۔ پھر یہ لاش سیکیورٹی گارڈ کو باہر نظر آئی ۔ پوسٹ مارٹم سے ہی اصل رپورٹ سامنے آئے گی ۔ فی الحال ایسا لگ رہا کے کہ شاید زیادتی کے بعد مارا گیا ہے لڑکی کو۔‘‘ انسپکٹر نے تفصیل بتائی ۔ اس نے بے اختیار دکھ اور اذیت سے ہونٹ بھینچے تھے ۔ میڈیا والے دھڑا دھڑ تصویریں اور ویڈیو بنا رہے تھے۔
’’ڈیڈ باڈی ہاسپٹل پہنچ گئی ہے؟‘‘ اس کے پوچھنے پر پولیس والے نے زور سے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
’’لڑکی کے گھر اطلاع کی گئی ہے کیا؟‘‘وہ اب وارڈن سے مخاطب تھا۔
’’اس کے گھر رابطہ نہیں ہورہا‘ وہ ادھر ماسٹرز کرنے رحیم یار خان سے آئی ہے ۔‘‘ وارڈن کے بتانے پر اسے لگا تھا وہ دکھ سے کچھ بول نہیں سکے گا ۔ اتنی دور وہ نجانے کیا کیا خواب لے کر آئی تھی تعلیم کے، کیریئر کے اور کیا انجام ہوا تھا ۔ غیر ارادی طور پر اس کی گرفت بے اختیار زینب کے کندھے پر مضبوط ہوئی تھی۔
’’اس لڑکے بابر کا کچھ پتہ چلا؟‘‘ اس کالہجہ اب بوجھل تھا۔
’’اب تک نہیں‘ اسے ٹریس کیا جا رہا ہے۔‘‘ پولیس والے نے بتایا تھا۔
’’فکر مت کرو صاب، ایسی لڑکیوں کا انجام یہی ہوتا ہے ۔‘‘ پولیس والے کی بات پر اس کا چہرہ سرخ ہوا تھا۔
’’شٹ اپ…جسٹ شٹ اپ ۔‘‘ وہ شاید اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ ایسے بھڑکا تھا۔
’’بی ہیو یور سیلف۔‘‘ بمشکل وہ ضبط کرکے بولا تھا۔
’’جلد از جلد اس کے گھر میسج پہنچائیں ۔ میں خود اس کیس کی رپورٹ لوں گا ۔ ایس پی کا نمبر دو مجھے ۔‘‘ میڈیا کو مکمل نظر انداز کرتا وہ نمبر لے کر وہاں سے اسے بازو کے گھیرے میں کے کر نکلا تھا جو کسی سہمے بچے کی طرح اپنی واحد پناہ گاہ میں موجود تھی ۔ مرد ہو کر اس کے اعصاب ہل گئے تھے وہ تو ایک چھوٹی سی لڑکی تھی ۔ اس کے لیے یہ واقعی شاکنگ تھا۔
جبکہ ایک آگ حویلی میں اور لگی تھی ۔ خبر کے ساتھ ساتھ ان دونوں کی تصویر بھی خوب وائرل ہو رہی تھی۔
٭…٭
زینب کو لے کر وہ سیدھا اپارٹمنٹ آیا تھا ۔ وہ اب بھی اس سے الگ ہونے کو تیار نہیں تھی ۔ یوں جیسے کسی ٹراما کے زیر اثر آگئی تھی ۔ اسے بے اختیار ہی تشویش ہوئی تھی۔
’’ایوری تھنگ از فائن ناؤ زینب… ایوری تھنگ۔‘‘ اس کے بال سہلاتے ہوئے اس نے گویا بہلایا تھا ۔
ساڑھے تین بج رہے تھے ۔ گھنٹے ڈیڑھ تک فجر ہوجانی تھی ۔ تھکاوٹ کے مارے اس کا اپنا برا حال تھا مگر نہ وہ پیچھے ہونے کو تیار تھی نہ ہی بہلنے کو ۔ عمر کو فی الحال الیکشن سے بھی زیادہ یہ کام مشکل لگا تھا ۔ عجیب سے احساسات تھے جو شاید اس نے خود بھی پہلی بارمحسوس کیے تھے ۔ ایک اس لڑکی کی وجہ سے طرف عجیب سا بوجھل پن تھا ۔ وہ شروع سے خواتین کے بیچ رہا تھا ۔ ایک دادی اور ایک امی نے اسے پالا تھا ۔ اپنے گھر کی بہت ساری عورتوں کا فی الحال وہی سب سے بڑا مرد تھا ۔ اس صنف کے لیے شروع سے ہی وہ اپنی تربیت کے باعث بہت نان ججمینٹل اور حساس تھا ۔ رہ رہ کر اس لڑکی کے گھر والوں کا خیال اسے مزید ستا رہا تھا کہ ان پر یہ سب جاننے کے بعد کیا گزرے گی۔
دوسری طرف ایک انتہائی لطیف سا جزبہ تھا جو یکا یک ہی نجانے کہاں سے بیدار ہوگیا تھا ۔ شاید اس کی قربت کا وقتی اثر تھا، فسوں تھا یا جو بھی تھالیکن بالکل نیا تھا۔
وہ سو گئی تھی ایک بازو اس کے گرد لپیٹے اور وہ جانتا تھا وہ آج سو نہیں سکے گا ۔ فی الحال وہ صرف ان احساسات کو جھٹلانا چاہتا تھا مگر ناکام ہو رہا تھا ۔ گہری سانس بھر کر وہ قدرے اس پر جھکا تھا اسے پیچھے ہٹانے کے لیے مگر اس کی مٹھی میں دبی اپنی شرٹ دیکھ کر وہ تیز ہوتی دھڑکن کے ساتھ سیدھا ہوگیا تھا ۔ نیند میں بھی بڑی مضبوط گرفت تھی گویا اسے خدشہ تھا کی وہ کہیں اس کو چھوڑ نہ دے ۔
قدرے بے بسی سے اس نے اس کے نیند میں بے ڈوبے بے فکرے چہرے کو دیکھا تھا ۔ وہی بے فکرا پن جو ہمیں اپنا سب سے بڑا سہارا ساتھ پا کر نصیب ہوتا ہے ۔ کوئی ڈر کوئی خوف ساتھ نہیں رہتا ‘ بس یہ یقین ہوتا ہے کہ سب ٹھیک ہوجائے گا ۔ وہ بھی ایسے ہی کسی احساس کے ساتھ سو رہی تھی ساری فکریں اسے سونپ کر ۔ اور فی الحال اس کی ہوش ربا قربت ہی اس کے لیے سب سے بڑی فکر تھی ۔ وہ کوئی عام مرد نہیں تھا ۔ اس کے مضبوط اعصاب کی ایک دنیا گواہ تھی لیکن وہ اس کی بیوی تھی ۔ وہ اس معاملے میں پہلی بار خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا ۔ دل بے اختیار ہی اس کی طرف کھچا جا رہا تھا ۔ ایک مہینہ پہلے وہ جانتا بھی نہیں تھا اس لڑکی کو اور آج وہ سب چھوڑ چھاڑ کر اس کے پاس بیٹھا تھا ۔ شاید یہ وقتی ہے۔ شاید یہ رشتے کا تقاضہ ہے یا شاید مجھے بھی سکون چاہیے ۔ ہر حیلے بہانے کے ساتھ خود کو بہلاتے اس کی رات آنکھوں میں ہی کٹ گئی تھی ۔ صبح چھ بجے کے قریب نجانے انہی سوچوں کے دائرے میں کب اس کی آنکھ لگی اسے کوئی خبر نہیں ہوئی تھی ۔ وہ اپنی جگہ سے ایک انچ نہیں ہلا تھا ۔اسی طرح سیدھے لیٹے لیٹے سوگیا تھا۔
تقریباََ ساڑھے سات بجے فون بجنے کی آواز پر وہ اٹھی تھی ۔ مندی مندی آنکھوں سے اس نے ادھر ادھر دیکھا تھا پھر اپنا ہاتھ کسی مضبوط گرفت کے نیچے محسوس کر کے سر اٹھایا تھا ۔ رات کا سارا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرح گھوما تھا ۔کچھ دیر خالی خالی نظروں کے ساتھ اسے دیکھتی رہی تھی ۔
پھر بہت آہستگی سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ کے نیچے سے نکالا تھا اور اس کا فون اٹھا کر آف کر دیا تھا ۔ کچھ دیر اس کے وجیہہ چہرے کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھا تھا ۔ کتنا شاندار سا مرد تھا ۔ کیا بتیس سالہ زندگی میں اس کو کوئی لڑکی اچھی نہیں لگی ہوگی ؟ بنا اس کے آرام میں خلل ڈالے وہ سوچوں کی رو میں بہنے لگی تھی ۔ نیند میں اس کے کھڑے نقوش اور نمایاں ہورہے تھے ۔ اور پرسکون چہرہ … سوتے جاگتے وہ ایک ہی جیسے ایکسپریشن دیتا تھا ۔ کچھ دیر دیکھنے کے بعد وہ اٹھی تھی، کمبل سیدھا کر کے اس پر اوڑھایا تھا اور لائٹ آف کرکے باہر چلی گئی تھی۔ فی الحال وہ صرف یہ چاہتی تھی کہ وہ سکون سے سو جائے ۔ پوری رات وہ اس کے پیچھے خوار ہوتا رہا تھا اور اب صبح ہی صبح فون بجنے سے اس نے پھر جاگ جانا تھا ۔ اسی لیے وہ فون آف کر آئی تھی ۔
٭…٭