خرمنِ قلب: قسط نمبر 3

زندگی میں اونچ نیچ اس نے بہت قریب سے دیکھی تھیں ۔ ایک وہ وقت تھا جب وہ پانچ سال کا تھا اور اپنے باپ کی لاش کو خون میں لت پت دیکھ رہا تھا ۔ ہر طرف سے اٹھنے والی آہ و پکار سے اسے بس اتنا اندازہ ہو رہا تھا کہ کچھ غلط ہوگیا ہے ۔ آہستہ آہستہ اسے معلوم ہوا تھا کہ کیا کھو گیا ہے ان سے۔ دادی نے کسی معصوم پرندوں کی طرح ان سب کو دنیا والوں سے بچا کر اپنے پروں کے نیچے سمیٹا تھا گویا لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس کے اندر کا عمر وحید اپنے باپ کے ویژن آف لائف کو سمجھ گیا تھا ۔ سر اٹھا کر جینا ورنہ مرجانا ۔ اسے کسی پر کے نیچے رہ کر زندگی نہیں گزارنی تھی چھپ کر اور ڈر کر ، اسے کھڑے ہونا تھا اپنے پیروں پر‘ کچھ حاصل کرنا تھا ۔لوگوں کے کام آنا تھا ۔ اس کا باپ اس کے لیے آئیڈیل تھا ۔ وہ ان کے ہی نقش قدم پر چل کر سیاست میں آیا تھا۔
وہ بے حد مضبوط اعصاب کا مالک تھا ۔ بس یہی چیز اس کی اپنے باپ سے مختلف تھی ۔ ملک وحید ایک سیدھے اور کھرے لیکن اڑیل آدمی تھے ۔ انجو مائنڈ گیمز کھیلنی نہیں آتی تھی اس لیے وہ آسانی سے شکار ہوگئے تھے ۔ مگر وہ حد سے زیادہ دور اندیش اور ٹھنڈے مزاج کا انسان تھا ۔ جتنا کام اس نے خود پر پیشنس لیول بڑھانے میں کیا تھا ، کسی اور چیز پر نہیں کیا تھا ۔ سیلف کنٹرول اس حد تک تھا کہ اسے کوئی اس کی مرضی کے بغیر غصہ نہیں دلا سکتا تھا ۔ مشکل سے مشکل حالات ہو یا خوشی سے بھرپور ۔ وہ ایک ہی جیسی باڈی لینگویج کے ساتھ موجود ہوتا تھا بے تاثر چہرے کے ساتھ ۔ اس کے اندر تک پہنچنا، اس کو پڑھنا بہت مشکل تھا ۔
یہ وہ سب باتیں تھی جو اس کے بارے میں ادھر ادھر تمام مخالف حلقوں میں گردش کر رہی تھیں اور حرف بہ حرف سچ تھیں ۔ صرف بتیس سالہ عمر میں اس قدر متحمل مزاجی اور سیلف کنٹرول… مستزاد اس پر حلقے کے لوگوں کی حمایت ۔ یہ ایک خاص سیاسی جماعت کا گڑھ سمجھا جاتا تھا ۔ یہاں پہلی بار کوئی آزاد امیدوار اس قدر مقبولیت حاصل کر چکا تھا ۔ کسی کو لگتا تھا اسے اس کے باپ کی وجہ سے ہمدردی کارڈ مل رہا تھا کھیلنے کو ‘ تو کسی کو لگ رہا تھا کہ صرف سوشل میڈیا پر اس کی چرچا ہے ۔ اصل حقیقت بالکل مختلف ہے ۔ جو بھی تھا، اس بار حویلی کے حمایت یافتہ امیدوار کی جیت پہلی بار کچھ مشکل دکھائی دے رہی تھی اور وہاں موجود منجھے ہوئے لوگ جانتے تھے کہ چوہدری ظہور ایسا ہونے نہیں دیں گے چاہے جس بھی حد تک ان کو جانا پڑے ۔ دوسری طرف ایجنسیاں کس کا ساتھ دیتی ہیں یہ بھی کچھ کلیئر نہیں تھا۔
صرف ایک دن تھا اس شطرنج کی چال کا فیصلہ بہت جلد ہو جانا تھا ۔ ہر کسی نے اپنے مہرے آزمانے کے لیے میدان میں اتار دیئے تھے ۔ یہ تو کل کے غروب ہوتے سورج نے بتانا تھا کہ اصل میں سکندر کون ہے ۔ ہر طرف پھیلی بے چینی کے برعکس وہ مکمل پرسکون سا آج گاؤں میں موجود تھا ۔ یوں جیسے اس کی بجائے کل کسی اور نے الیکشن لڑنا ہو۔
٭…٭
اگلی صبح بڑی چمکیلی اور پرسکون سی صبح تھی ۔ وہ نکلنے سے پہلے دعا لینے دادو کے پاس آیا تھا ۔ وہ جانتا تھا دادو اس کے اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں مگر دعا پھر بھی دیں گی۔
اسے آتا دیکھ کر وہ بے تاثر چہرے کے ساتھ بیٹھی رہی تھیں۔
’’کیا دعا بھی نہیں دیں گی؟‘‘ان کے دونوں ہاتھ تھام کر وہ دوزانو ان کے سامنے بیٹھ گیا تھا۔
’’دوں گی‘ میری دعا ہے تم ہار جاؤ آج۔‘‘ وہ اتنی قطعیت سے بولی تھیں کہ وہ شاکڈ ان کو دیکھتا رہ گیا تھا ۔ اس حد تک سنگدلی کی اسے امید نہیں تھی ۔
’’ایک بیٹا کھو دیا میں نے‘ دوسرے کا حوصلہ نہیں ہے مجھ میں ۔ میں کبھی تمہیں جیتنے کی دعا نہیں دوں گی ۔‘‘ وہ بھی اس کی ہی دادی تھیں ۔ اپنے مؤقف پر اٹل۔
وہ مزید کچھ کہے بنا ان کے دونوں ہاتھوں کو بوسہ دیکھ کر باہر آگیا تھا ۔ دروازے پر امی کو کھڑا دیکھ کر اس نے مسکرانے کی ناکام کو شش کی تھی۔
’’اللہ تمہیں ضرور کامیاب کرے گا عمر‘ ان شاء اللہ۔‘‘ وہ ہمیشہ کی طرح اس کی بے چینی سمجھ گئی تھیں ۔ اب کہ وہ کھل کر مسکرایا تھا۔
’’ان شاء اللہ…‘‘ اس نے بھی مسکراتے ہوئے کہا تھا۔
’’بہو سے مل کر پھر ہی حلقے میں جانا ‘ بیوی بڑی خوش قسمتی ہوتی ہے ۔ آزما کر دیکھنا۔‘‘ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انہوں نے نصیحت کی تھی ۔
وہ ان کے ظرف پر مسکرایا تھا اور پھر زینب کا چہرہ یاد آتے ہی مسکراہٹ دور ہو گئی تھی ۔ کم از کم وہ لڑکی اس کا لکی چارم نہیں ہو سکتی تھی ۔ تیزی سے نکل کر وہ باہر آیا ۔ اسے آٹھ بجے سے پہلے شہر پہنچنا تھا ۔ہر جگہ پولنگ ایجنٹس بھیجنے تھے ۔ کرنے کو بہت کام تھے ۔ گو کہ سکندر سب سنبھال رہا تھا مگر اس کا جانا بے حد ضروری تھا ۔اس لیے وہ تیزی سے باہر نکلا تھا ۔ ابھی گاڑی سٹارٹ ہی کی تھی کہ فون کی بجتی بیل پر وہ متوجہ ہوا تھا۔
’’اوہ پلیز… ناٹ اگین۔‘‘ سکرین پر زینب کالنگ دیکھ کر اس نے بے اختیار ہی کہا تھا ۔ فی الحال وہ بہت ہی پر سکون رہنا چاہتا تھا لیکن یہ لڑکی…
اس نے فون بندکر دیا تھا مگر وہ بھی اپنے نام کی ایک تھی ۔ مسلسل فون کر رہی تھی بالآخر اس نے طویل سانس بھر کر فون اٹینڈ کرلیا تھا ۔ اب بگلے پڑا ڈھول بجانا تو تھا ۔
’’جی؟‘‘ اس نے مختصرا کہا تھا۔
’’اس دن شاید میری یو ایس بی آپ کی گاڑی میں گر گئی تھی ۔ میری پریزینٹیشن ہے آج ۔پلیز مجھے لازمی چاہئے … لازمی۔‘‘ دوسری طرف سے وہ شاید اس سے بھی زیادہ جلدی میں تھی ۔ بنا دعا سلام کیے تیز تیز بولی تھی۔
’’میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ میں سارے کام چھوڑ کر یو ایس بی ڈھونڈتا پھروں۔‘‘ وہ قدرے سخت لہجے میں کہ کر فون بند کرنے لگا تھا۔
’’پلیز…پلیز‘ میرے مارکس کٹ جائیں گے ۔ پلیز…‘‘ خلاف توقع اس کا منت بھرا لہجہ سن کر اس نے بے اختیار سکرین کو گھورا تھا۔
’’اوکے‘ میں دیکھتا ہوں فری ہو کر۔‘‘ وہ مان گیا تھا۔
’’نہیں فری تو پتہ نہیں کب ہوں گے آپ ۔ میری پریزینٹیشن تو دس بجے ہے ۔ پلیز ابھی دیکھ لیں تو ۔ دو منٹ کا کام ہے ۔ اور ہاں اگر مل جائے تو مجھے ہاسٹل پکڑا جائیے گا ۔‘‘ آرام سے کہتی وہ فون بند کر گئی تھی اور عمر ماتھے پر ابھرتی لکیروں کے ساتھ عجیب سی نظروں سے فون کو دیکھ رہا تھا۔
ایک دنیا اس کی منتظر تھی وہاں میڈیا، لوگ… اتنا کا م تھا اور یہ لڑکی ۔ہونٹ بھینچے اس نے سیٹ اٹھا کر ادھر ادھر دیکھا تھا اور اگلے ہی لمحے اسے سلور رنگ کی یو ایس بی نظر آگئی تھی ۔ اٹھا کر وہ سیدھا چاروناچار ہر فون کال کو نظر انداز کر کے یونیورسٹی آیا تھا ۔
تھوڑی دیر بعد وہ ٹھیک ساڑھے آٹھ ہاسٹل کے باہر تھا ۔ باہر آکر اس نے کال ملائی تھی اسے اور اب وہ فون نہیں اٹھا رہی تھی۔
کتنا مشہور تھا وہ اپنے پیشنس لیول کو لے کر اور یہ لڑکی ۔ کتنی آسانی سے اس کا صبر آزماتی تھی ۔ ایک بار پھر سے اس کا پیمانہ لبریز ہورہا تھا۔پورے پندرہ منٹ بعد اس نے فون اٹھایا تھا۔
’’اگر کوئی فون نہیں اٹھا رہا تو انسان کو سمجھ لینا چاہئے کہ اگلا بندہ بہت ہی مصروف ہے ۔ واش روم میں تھی، اب باہر آکر ہی فون اٹھانا تھا نا۔‘‘ دوسری طرف سے وہ اپنا راگ الاپ رہی تھی۔
’’ایک منٹ میں اگر تم باہر نا آئی ناں…‘‘ اس کی بات ابھی درمیان میں تھی کہ وہ فوراََ اوکے اوکے کہتی فون بند کر گئی تھی ۔ اور پھر واقعی ایک منٹ بعد وہ دوڑتی ہوئی باہر آئی تھی۔ شارٹ شرٹ اور شلوار میں ‘گلے میں لاپروائی سے جھولتا دوپٹہ اور گیٹ پر کھڑے ہاسٹل کے گارڈز … عمر کو بے اختیار ہی اپنا بلڈ پریشر ہائی ہوتا محسوس ہوا تھا ۔ وہ اتر کر گاڑی سے باہر آیا تھا۔
’’میری یو ایس بی؟‘‘وہ ہانپتے ہوئے پاس آکر بولی تھی ۔جواباََ وہ خاموشی سے اسے گھورتا رہا تھا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ اس کے ایسے دیکھنے پر وہ خود کو نارمل کرتی بولی تھی۔
’’یہ یو ایس بی۔‘‘ اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس میں یو ایس بی رکھی تھی۔
’’اور یہ…‘‘ اب دوپٹہ پکڑا تھا ۔ وہ قدرے کنفیوژسی جز بز ہوتی پیچھے ہوئی تھی۔
’’یہ اگر اس سے آپ نے خود کو کور نہیں کرنا ہوتا تو لیتی کیوں ہیں۔‘‘ اس کی بات اور اس کی نظریں… وہ ایک لمحے کو بے اختیار شرمندہ ہوئی۔
’’سوری میں…میں جلدی میں تھی میں۔‘‘ وہ اب تھوڑا دوپٹہ پھیلاتے ہوئے بولی تھی ۔
’’دیکھے ہی جارہا ہے بدتمیز…‘‘
’’جی‘ بہت زمہ داریاں ہیں آپ کے نازک کندھوں پر ۔جلدی تو ہونی ہی ہے ظاہر ہے۔‘‘ اس نے اب بھی نظریں نہیں ہٹائی تھیں ۔ ایک لمحے کو وہ بھول گیا تھا کہ پولنگ شروع ہو چکی ہوگی ۔ سارا جہان ادھر چالوں کا کھیل کھیل رہا ہے اور وہ ادھر…
’’آپ کا آج الیکشن ہے ناں ‘ ادھر جائیں ۔ سارے طنز مجھے مارنے ہوتے ۔ کچھ مخالفوں کو بھی مار لیتے تو شاید آج جیتنے کے چانسز کچھ بن ہی جاتے۔‘‘ وہ جل کر بولی تھی ۔
جبکہ وہ خاموشی سے اس کے رخساروں پر پھیلتی سرخی دیکھ رہا تھا جو شاید اس کے غصے کے سبب تھی یا شرمندگی کے سبب یا کنفیوژن کے سبب یا پھر اپنے شوہر کی ٹکٹکی باندھے نظروں کے حصار کے سبب۔
آخری آپشن اسے غیر متعلقہ سا لگا تھا ۔ایسا کچھ تھا ہی نہیں ان کے درمیان کہ سرخیوں تک بات پہنچتی۔
’’ہارنا بھی کوئی بری بات نہیں ہے میرے لیے ۔ ویسے بھی جیت تو میں چکا ہوں بہت کچھ۔‘‘ گہرے لہجے میں اسے بہت کچھ جتاتے ہوئے وہ گاڑی میں بیٹھ گیا تھا ۔ زینب وہیں کھڑی تھی یو ایس بی پکڑے۔
’’جاؤ اندر۔‘‘ اس نے شیشہ نیچے کرتے اسے اشارہ کیا ۔ جب تک وہ اندر نہ جاتی تو وہ بھلا کیسے جا سکتا تھا ۔ وہ سر ہلاتی مڑی تھی پھر رکی، پھر اس کی طرف دوبارہ مڑی تھی ۔
’’گڈ لک…‘‘ مسکراتے ہوئے وہ کہہ کر اندر بھاگ گئی تھی ۔ عمر اس کی حرکت پر بے اختیار مسکرایا تھا ۔ موڈ نجانے کیوں خوشگوار ہو گیا تھا ۔ وہ بڑے سکون سے اب حلقے میں جارہا تھا۔
٭…٭
’’تقریبا دس پولنگ سٹیشن پر گڑ بڑ کا خدشہ ہے ۔ وہاں کاؤنٹر پلان تیار کر رکھا ہے ۔ اطلاعات ہیں کہ بھگدڑ مچے گی اور عوام کو ادھر ادھر کر کے پھر دھاندلی کی جائے گی ۔ لیکن پہلے وہ دیکھیں گے کہ پلڑا کس کا بھاری ہے ۔ اگر نتیجہ ان کے حق میں نہ آرہا ہوا پھر ہی یہ بھگدڑ مچائی جائے گی۔‘‘ سکندر اس کو مکمل تفصیلات فراہم کر رہا تھا ۔ فائل بھی سامنے رکھی تھی۔
’’اور بھگدڑ کا الزام بھی آپ کے حامیوں پر لگایا جائے گا ۔ ان کے کچھ لوگ جان بوجھ کر بار بار میڈیا کے سامنے آرہے آپ کے سپورٹر بن کر تاکہ بعد میں جب یہ لوگ فسادکریں تو نام سیدھا آپ پر آئے کہ آپ ہار رہے تھے ادھر سے اس لیے آپ نے دھاندلی کی کو شش کی اور جیتی پھر بھی ان کی جماعت ۔ اس سے نہ صرف آپ کے امیج کی دھجیاں اڑائی جائیں گی بلکہ وہ آرام سے جیت بھی جائیں گے ۔‘‘ وہ اب مزید بول رہا تھا ۔ عمر سارے عرصے میں بس خاموشی سے سن رہا تھا۔
’’بیک اپ پلان یہ ہے کہ یہ خفیہ پلاننگ بہت مشکل سے ہم تک پہنچی ہے ۔ ہم ان کی چال ان کی طرح ہی ان پر الٹیں گے ۔ ہم نے بھی ان کے نقلی سپورٹر تیار کر رکھے ہیں ۔‘‘ وہ اب بیک اپ پلان بتا رہا تھا۔
’’نہیں…ہم ایسا نہیں کریں گے ۔ ہم ان حساس پولنگ سٹیشنز پر کچھ اور کریں گے سکندر۔‘‘ اس کے کہنے پر سکندر خاموش ہوگیا تھا ۔ وہ آگے سے ’’نہ‘‘ کہنے کا عادی نہیں تھا ۔
’’ہم نے یہ تاثر دینا ہے ان کو کہ ہم ہار رہے ہیں ۔ آخر تک یہ تاثر دینا ہے ۔ ناںصرف ان کو بلکہ میڈیا کو بھی تقریبا ایک اندازہ ایسا ہی دینا ہے ۔ وہ نقلی سپورٹر زیادہ مقدار میں بھیجو ووٹر بنا کر ان سب جگہ پر۔‘‘وہ چمکتی آنکھوں کے ساتھ ہدایات دے رہا تھا۔
’’اگر ہم واقعی ہار گئے تو چلو پہلے ہی ایک نیریٹو سیٹ ہوا ہوگا ۔ اور اگر ہم جیت گئے تو یہ ہی اصل جیت ہوگی ۔‘‘ اس کے کہنے پر سکندر نے متاثر ہونے والے انداز میں اس کی طرف دیکھا ۔ وہ واقعی کسی ماہر کھلاڑی کی طرح بازی کھیل رہا تھا۔
’’یہ بھگدڑ وغیرہ کی نوبت نہیں آنی چاہئے ۔ اس میں بے گناہ سپورٹرز زخمی ہوتے ہیں ۔ عام آدمی کا نقصان ہوتا ہے ۔ ہم نے لوگوں کو پروٹیکٹ کرنا ہے ۔ خود کو پروٹیکٹ کرنے کے لیے ان کو استعمال نہیں کرنا‘ اوکے؟‘‘ وہ ہمیشہ کی طرح اسے سمجھا چکا تھا اور سکند رسمجھ گیا تھا۔
’’جاؤ‘ فی الحال یہی بیانیہ بنواؤ کہ ہم ہی ہار رہے ہیں ۔ہمارے ووٹر ہر جگہ کم تعداد میں نکلے ہیں ۔ خوش ہونے دو باقیوں کو بھی…‘‘ وہ پراسرار سی مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ میں پکڑا پیپر ویٹ گھما رہا تھا ۔
’’اور ہاں‘پولنگ کے عملے کی طرف سے کوئی گڑ بڑ نہیں ہونے دینی بس ۔ ایکٹو رہنا ہے۔‘‘ آخری ہدایت سن کر سکندر باہر چلا گیا تھا ۔ جبکہ اس نے ریموٹ اٹھا کر ٹی وی آن کر لیا تھا۔
پورا دن وہ ٹی وی کے آگے بیٹھا رہا تھا ۔ نیوز اس کی منشا کے مطابق آرہی تھیں ۔ عمر وحید کا ووٹر کم آیا تھا باہر‘ زیادہ چانسز ارمان صالح کے جیتنے کے ہی لگ رہے تھے ۔ مزے کی بات یہ تھی کہ وہ بھی حویلی کا داماد بننے جارہا تھا ۔ چوہدری ظہور نے اسی شرط پر الیکشن میں ان کی حمایت کا یقین دلایا تھا کہ وہ ردا کے ساتھ ارمان کا رشتہ کردیں اور ایسا ہی ہوا تھا ۔ فی الحال یہ مقابلہ ایک طرح سے داماد بمقابلہ داماد تھا ۔
پولنگ کا عمل پانج بجے بند ہو چکا تھا ۔ سارا کام بڑے پرسکون طریقے سے ہوگیا تھا ۔ حویلی میں ایک جشن کا سماں تھا گویا ۔ حتمی تھا کہ وہ ہار جائے گا ۔ ووٹوں کی گنتی جاری تھی ۔ قسمت کیا کھیل کھیلنے والی تھی کون جانتا تھا ۔ غیر حتمی غیر سرکاری نتائج آنے شروع ہوچکے تھے ۔ صرف غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج نہیں تھے، غیر متوقع بھی تھے ۔ اب تک ہر ایک پولنگ سٹیشن سے وہ ایک بڑے مارجن سے جیت رہا تھا ۔ دھواں دھواں ہوتے چہرے کے ساتھ وہ یہ سب دیکھ رہے تھے ۔ یہ کیسے ہوگیا تھا ۔کب ہوگیا تھا ۔ کب وہ جنت پور سے نکل کر سب میں اتنا مشہور ہوگیا تھا ۔ سارا ووٹر تو ان کا باہر نکلا تھا پھر یہ کیسے ہوگیا تھا ۔ ہواؤں کے رخ بدل رہے تھے ۔ کچھ دیر پہلے جس حویلی میں جشن کا سماں تھا وہاں اب گویا مرگ ہوگئی تھی ۔ موت کا سا سناٹا ہر طرف چھایا ہوا تھا ۔ گو کہ ابھی بھی تمام پولنگ سٹیشنز کا رزلٹ نہیں آیا تھا مگر جتنا آگیا تھا، دونوں امیدواروں میں فرق اتنا تھا کہ وہ باقی پولنگ سٹیشن بھی کور نہ کر پاتے ۔ اتنی بڑی جیت ، اتنے بڑے مارجن کے ساتھ ۔ وہ بھی ایک آزاد امیدوار کی … یہاں تیس سالوں سے وہ حکمران تھے ۔ ان کا گڑھ تھا یہ علاقہ ، اس شہر کے لوگ ان کے ذہنی غلام تھے گویا مگر ایک جھٹکے میں ہی گویا سب ختم ہوگیا تھا ۔ چوہدری ظہور کو آج پہلی بار لگا تھا کہ وہ واقعی بوڑھا ہوگیا ہے ۔ جلال،بے بسی،غصہ، نفرت،ہزیمت،بے عزتی نجانے کیا کچھ تھا جو وہ اکٹھے محسوس کر رہا تھا ۔ وہ وحید نہیں تھا ۔ وہ وحید کا بیٹا تھا ۔ انتہا درجے کا شاطر‘جس طرح سے اس کی شخصیت پرسکون لگتی تھی ۔ اسی طرح سے جیتا تھا ۔ بہت سکون سے‘کوئی خاص جلسے نہیں کیے تھے ۔کوئی خاص انتخابی مہم نہیں چلائی تھی ۔ ہاں وہ لوگوں کے کام آتا تھا ۔ لیکن ان کے نزدیک یہ الیکشن جیتنے کے لیے کافی نہیں تھا ۔ کڑوڑوں روپے انہوں نے بہایا تھا پھر بھی ایسی شرمناک ہار ان کا مقدر بنی تھی ۔ پہلے ان کی جان سے پیاری پوتی کو وہ ان کے سامنے اس گھر سے لے کر گیا تھا ۔ وہ بھی ایسے ہی اچانک‘ غیر متوقع بغاوت تھی اور اب یہ… وہ غصے سے تھر تھر کانپ رہے تھے اور ان کے دونوں بیٹے اور باقی اولاد بالکل سہمی ان کے سامنے بیٹھی تھی۔