خرمنِ قلب: قسط نمبر 2
’’کیا کہا ؟ دوبارہ کہنا؟‘‘اسے اپنی سماعت پر شک ہوا تھا۔
’’عمر وحید۔‘‘ اب کی دفعہ وہ زور سے بولی تھی۔
’’آپ عمر کی مسز ہیں۔‘‘ وہ ابھی بھی شش و پنج میں تھا۔
’’اب کیا میں آپ کو نکاح نامہ دکھاؤں ۔ ‘‘اس انٹرویو پر اسے بھی غصہ آگیا تھا ۔
’’نہیں ۔ اس کی ضرورت نہیں ۔‘‘ مقابل نے فون دوبارہ ملایا تھا ساتھ ہی عجیب سی نظروں سے اس کو بھی دیکھ رہا تھا ۔
’’کہاں ہو تم اس وقت؟‘‘وہ دوسری طرف کسی سے مخاطب تھا۔
’’اوکے ادھر آجاؤ ۔ تمہاری زوجہ محترمہ یہاں اکیلے کھڑے ‘ بہت جلد اس ہوٹل کو اپنے آنسوؤں میں ڈبونے کا ارادہ رکھتی ہیں ۔ فون بھی ان کا بندہے۔‘‘ اس نے کہہ کر فون بند کردیا تھا۔
’’آپ ان کو جانتے ہیں؟‘‘ زینب کے پوچھنے پر وہ دوبارہ اس کی طرف متوجہ ہوا تھا۔اور سر اثبات میں سر ہلا کر اسے اند ر آنے کا اشارہ کیا۔
تھوڑی دیر بعد عمر آگیا تھا ۔ وہ ہوٹل کے لان میں بیٹھے تھے۔
’’گاڑی میں بیٹھو جا کر۔‘‘اس کو اشارہ کر کے وہ اب اس آدمی سے مل رہا تھا جبکہ وہ تیز تیز بھاگتی ہوئی جا کر گاڑی میں بیٹھ گئی تھی ۔ اندر بیٹھتے ہی ایک سکون اور تحفظ کا احساس ہر فکر اور خدشے پر حاوی ہوا تھا ۔ فی الحال اس کی سخت سست سننے کے لیے وہ تیار تھی ۔ اس بات سے بے خبر کہ اس کا کتنا بڑا نقصان وہ کرچکی تھی۔
٭…٭…٭
آدھے گھنٹے بعد وہ گاڑی میں آکر بیٹھا تھا اور گاڑی سٹارٹ کی تھی ۔ ابھی باہر اس آدمی کے ساتھ وہ مسکرا مسکرا کر بات کر رہا تھا پر گاڑی میں بیٹھتے ہی اس کی سرد مہری واپس لوٹ آئی تھی ۔ وہ خاموشی سے ڈرائیو کر رہا تھا ۔زینب نے دو تین بار کنکھیوں سے اس کی طرف دیکھا پھر ہلکا سا گلہ کھنکارا ۔ اسے خود ہی ہمت کرنا تھی۔
’’میں… میں کسی غلط مقصد سے وہاں نہیں آئی تھی ۔ نہ ہی میں جانتی ہوں کہ کمرے میں وہ کون لوگ تھے ۔ میں صرف…‘‘ وہ جھجھک رہی تھی ۔ وہ بالکل لاتعلق تھا گویا کچھ نہیں سن رہا۔
’’میں صرف اپنی دوست کے ساتھ باہر آئی تھی تو آپ کو دیکھ کر مجھے لگا کہ آپ کسی … کسی لڑکی وغیرہ سے ملنے آئے اس لیے میں آئی آپ کے پیچھے ۔ ‘‘ اس نے اب قدرے شرمندگی سے بتایا تھا ۔ اسے لگ رہا تھا وہ بولے گا، غصہ کرے گا مگر وہ اسی طرح سپاٹ چہرے کے ساتھ گاڑی چلا رہا تھا۔
’’ایم سوری پلیز… آئی ہوپ کہ آپ کا زیادہ کوئی نقصان نہیں ہوا ہوگا۔‘‘ اس کے کہنے پر وہ پہلی مرتبہ اس کی طرف قدرے مڑا تھا اور بغور اس کو دیکھا تھا ۔
اس کی چبھتی اندر تک اترتی نظروں سے وہ بے اختیار خائف سی ہو کر سمٹی تھی ۔سرخ رنگ کی سٹائلش سی چادر میں بھی اس کے خوبصورت نمایاں ہوتے نقوش اور دمکتی رنگت ‘ رات کے اس وقت وہ کسی کا بھی ایمان ڈگمگانے کی صلاحیت رکھتی تھی اور اب سے آدھا گھنٹہ پہلے وہ اکیلی کھڑی تھی ادھر ۔نجانے کس کس نے دیکھا ہوگا ۔ وہ لب بھینچ کر دوبارہ سیدھا ہوگیا تھا ۔ تھوڑی دیر بعد وہ اسی اپارٹمنٹ کے سامنے گاڑی روک چکا تھا جہاں اسے دو دن پہلے لے کر آیا تھا۔ گاؤں واپس نہیں گیا تھا ۔
خاموشی سے آگے پیچھے چلتے وہ اندر داخل ہوئے تھے۔۔
’’کھانا کھانا ہے؟‘‘ وہ پہلی بار اس سے مخاطب ہوا تھا ۔
اس نے نفی میں سر ہلا دیا تھا۔
’’اوکے ۔ فریش ہو کر باہر آؤ مجھے کچھ بات کرنی ہے تم سے۔‘‘ وہ آپ سے تم پر آگیا تھا ۔ لہجہ اب نارمل تھا ‘ سرد نہیں تھا ۔ وہ شرافت سے سر ہلاتی واش روم میں گھس گئی تھی۔
تھوڑی دیر بعد وہ دونوں لاؤنج میں آمنے سامنے بیٹھے تھے ۔ وہ چپ چاپ ادھر ادھر دیکھ رہی تھی جبکہ عمر تیزی سے موبائل پر کچھ ٹائپ کرنے میں مصروف تھا ۔ زینب نے ہمیشہ اس بندے کو جلدی میں ہی دیکھا تھا ۔
’’ پتہ نہیں ایسی بھی کیا جلدی ہے اس کو ۔ جیسے سارا ملک اس کے کندھوں پر ہی چل رہا ہو۔‘‘ اس نے عمر کو دیکھتے ہوئے سوچا۔
’’اور ڈریسنگ بھی ہمیشہ ایک جیسی ہوتی بس‘ قمیض شلوار … ویسے اس پر پینٹ شرٹ بھی اچھی لگے گی۔‘‘ اس کی ذہنی رو بہکی تھی ۔ بے دھیانی میں وہ اسے دیکھے جارہی تھی۔
’’شاید لڑکیوں کی طرح لڑکوں کو بھی کمپلیکس ہوتا ہے تیس سال کے ہونے کے بعد بس خود کو میچور پوز کرنا ہے لازمی۔‘‘ اب ذہن میں ایک نیا زاویہ آیا تھا ۔
’’اگر آپ کا جائزہ مکمل ہوگیا ہے تو بات کریں؟‘‘ اس کے کہنے پر وہ زور سے اچھلی تھی۔
’’جی۔جی ضرور…‘‘ ہڑبڑا کر کہتی وہ سیدھی ہوئی تھی۔
چادر ڈھلک کر کندھوں سے بھی نیچے آگئی تھی ۔ وہ فطرتاََ لاپرواہ تھی دوپٹے کے معاملے میں مگر عمر کو یہ بے پروائی کچھ زیادہ ہی کھٹک رہی تھی۔
’’آپ واقعی اتنی بے وقوف ہیں یا صرف پوز کرتی ہیں۔‘‘ اس نے انتہائی سنجیدہ لہجے میں سوال کیا تھا ۔
اور وہ جو بڑے انہماک سے آگے کو ہو کر سن رہی تھی کہ نجانے کیا بات کرنے والا ہے ۔ اس کی بات سن کر ایک جھٹکے سے پیچھے ہوئی تھی۔
’’نہ ہی میں بیوقوف ہوں اور نہ ہی مجھے ایکٹنگ کرنے کا شوق ہے۔‘‘ زینب نے بالکل اسی کے انداز میں جواب دیا تھا بس لہجہ تیکھا تھا۔
’’دیکھو، جو تمہاری ایج ہے میں سمجھ سکتا ہوں، ابھی میچور نہیں ہو تم ۔ جذباتی ہو لیکن یہ چیزیں میرے لیے اور تمہارے لیے بھی بہت مسائل کھڑے کر سکتی ہیں۔ جو لوگ سوچ سمجھ کر قدم نہیں اٹھاتے ‘ خاص طور پر ان حالات میں جس میں ہمیں بہت محتاط رہنا ہے ۔ وہ بہت نقصان اٹھاتے ہیں زینب۔‘‘ وہ آہستہ آہستہ بول رہا تھا۔
’’تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میں ایک پبلک فیگر ہوں ۔ دو دن بعد ایم پی اے کا الیکشن لڑنے والا ہوں ۔ تمہارے گھر میں بھی سب پبلک فیگرز ہیں ۔ تم بہت اچھے طریقے سے واقف ہو اس لائف سٹائل سے جہاں ہمارا واسطہ روزانہ میڈیا سے پڑتا ہے ۔ دوست کم ہیں دشمن زیادہ۔ مگر ہمیں سب سے ملنا پڑتا ہے ۔ سر عام بھی‘ چھپ کر بھی ۔ ہماری شادی جس طرح سے ہوئی ہے وہ آلریڈی اس وقت ایک کہانی بنی ہوئی ہے ۔ اس سب میں میرے لیے کچھ نیا ایشو افورڈ کرنا بہت مشکل ہے۔‘‘ اس کی آواز گھمبیر، دھیمی، بہت خوبصورت اور قائل کرنے والی تھی ۔ زینب کو پہلی بار محسوس ہوا تھا ۔
’’تو تم سے بس اتنی گزارش ہے کہ دو دن چار دن ۔ صرف یہ دو چار دن تعاون کرو میرے ساتھ۔‘‘ اس کی آخری بات اسے ریکویسٹ کم طنز زیادہ لگی تھی ۔ گویا ان کی زندگی میں ساری مصیبتیں میری وجہ سے ہی ہیں ۔
”ٹھیک ہے ۔مجھ سے آج غلطی ہوگئی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر چیز کی ذمہ دار میں ہی ہوں۔‘‘ وہ تنک کر بولی تھی ۔
عمر نے قدرے بے بسی سے لب بھینچے اس کو دیکھا تھا۔ کتنی فرمانبردار تھیں اس کے گھر کی سب خواتین ۔ جو وہ کہتا تھا سب لڑکیوں کے لیے حرف آخر ہوتا تھا ۔ اور کس قدر امیچور تھی وہ ۔ وہ جان گیا تھا کہ وہ اسے نہیں سمجھا سکتا‘ اس نے ہر چیز کو پرسنل ہی لینا ہے ۔ وہ چاہتا تو غصہ کر سکتا تھا لیکن وہ لڑکی تھی اور اسی ایک چیز کا وہ لحاظ کرتے ہوئے ہوٹل سے باہر آیا تھا اس کو بنا کچھ کہے اور اب بھی صرف اسی ایک چیز کا لحاظ کر رہا تھا ورنہ ایسی طبیعت صاف کرتا سب سمجھ آجاتا ۔
’’اوکے، فائن… مائی مسٹیک‘ ریسٹ کریں آپ ۔ صبح میں آپ کو ہاسٹل ڈراپ کردوں گا۔‘‘ وہ سرد مہری سے کہتا اٹھ کر چلا گیا تھا جبکہ وہ اس پل میں تولہ پل میں ماشہ مزاج پر ہکا بکا اسے کمرے میں جاتا دیکھ رہی تھی۔
٭…٭…٭
اگلی صبح جب وہ باہر آئی تھی تو عمر پہلے سے اس کے انتظار میں بیٹھا تھا ۔ اسے اس وقت بے انتہا بھوک لگ رہی تھی مگر مقابل کے تاثرات دیکھ کر وہ خاموشی سے اس کے پیچھے باہر آگئی تھی۔
’’یہ کیز رکھ لو۔‘‘ ہاسٹل کے سامنے اسے ڈراپ کرتے ہوئے اس نے چابیاں اس کی طرف بڑھائی تھیں ۔ وہ حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔
’’اپارٹمنٹ کی کیز ہیں ۔ آپ کی مہم جو فطرت کا باعث اکثر آپ کو رات باہر ہوجاتی ہے تو ہاسٹل والے تو اندر آنے نہیں دیتے ۔ اور میں آئے روز مجنوں بنا بھاگ بھاگ کر آپ کو جگہ جگہ سے لینے بھی نہیں آسکتا ۔ اس لیے ایسی سچوئیشن میں خود ہی اپارٹمنٹ جا سکتی ہیں آپ۔‘‘ وہ بہت ہی سنجیدہ ہو کر بھگو بھگو مار رہا تھا۔
’’تھینک یو۔‘‘ وہ بھی ڈھیٹ تھی ۔ آرام سے چابیاں پکڑتی اتر گئی ۔ ایسے تو پھر ایسے ہی سہی …
جب تک وہ ہاسٹل داخل نہیں ہوئی وہ وہیں کھڑا رہا تھا ۔ پھر اس کے جانے کے بعد اس نے سکندر کو کال ملائی تھی۔
’’زینب کی سیکیورٹی کو انشور کرنا ہے سکندر ، نظر رکھنا اس پر ۔ یہ تین چار دن ہر کوئی ہر حربہ آزمائے گا اور وہ سب کے لیے سب سے آسان شکار ہوگی ۔ سو بی کیئر فل ۔ ‘‘ اسے ہدایات دے کر وہ واپس مڑگیا تھا ۔ اپنے سے جڑے لوگوں کے لیے وہ ایسے ہی محتاط رہتا تھا ۔ اس طرح ہی خیال کرتا تھا ۔ اسی خیال کے تحت ہی اس نے زینب چابیاں دی تھیں ۔ چہرے پر ثبت پتھریلی سنجیدگی لیے اب اس کا رخ ایک اور طرف تھا ۔ ادھر بھی کچھ حساب برابر کرنے تھے ۔پھر ریلی میں بھی جانا تھا۔
زوار انٹر پرائزر کے سامنے اس نے گاڑی پارک کی تھی اور پھر کاؤنٹر پر اپنی شناخت بتا کر سیدھا اس کے دفتر آیا تھا ۔ اسے آتا دیکھ کر زوار فوراََ کھڑا ہوا تھا ۔ شاید وہ اس کے ہی انتظار میں تھا۔
’’بولو، کیابات کرنی ہے؟‘‘ زوار کو کھڑا دیکھ کر اس نے بھی کھڑے کھڑے ہی پوچھا تھا۔
’’بیٹھو پلیز۔‘‘ زوار نے صوفے کی طرف اشارہ کیا ۔ وہ خاموشی سے بیٹھ گیا۔
’’زینب ، وہ ٹھیک ہے؟‘‘ اس کے پوچھنے پر ایک زہریلی سی مسکراہٹ عمر کے ہونٹوں پر آئی تھی۔
حویلی والوں کی سب سے لاڈلی بیٹی ۔ وہ جانتا تھا زینب وہ طوطا ہے جس میں چوہدری ظہور کی جان ہے اور وہ ان کے سب سے بڑے دشمن کے بیٹے کے نکاح میں تھی ۔ وہ بھی ان کے منہ پر بول کر کہ وہ اسے پسند کرتی ہے ۔ گو کہ وہ سب جھوٹ تھا لیکن نجانے زوار کی بے بسی دیکھ کر اور یہ سب سوچ کر پہلی مرتبہ اسے عجیب سی کمینی سی خوشی ہوئی تھی ۔ الیکشن کا نتیجہ تو نجانے کیا ہوگا لیکن فی الحال ان کو وہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی شکست دے چکا تھا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے مختصر جواب دیا تھا ۔ نظریں البتہ زوار پر گڑھی ہوئی تھیں ۔وہ قدرے کنفیوز لگ رہا تھا۔
’’کیا یہی پوچھنے کے لیے بلایا ہے؟‘‘ عمر نے بھنویں اچکاتے ہوئے پوچھا ۔ گویا کہہ رہا ہو کہ یہ کال پر ہی پوچھ لیتے۔
’’نہیں، مجھے کچھ بتانا ہے تمہیں ۔ مجھے غلط مت سمجھنا ۔ دیکھو میں جانتا ہوں ۔ آغا جان، بابا سب کی طرف سے غلطیاں ہوئی ہیں ۔ مگر تم میری بہن کے شوہر ہو اب صرف اس لیے کچھ بتانا چاہتا ہوں تمہیں۔‘‘ وہ تمہید باندھ رہا تھا ۔ عمر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تھا ۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ سنجیدہ ہے۔
’’ تم … تمہارے لیے بہتر ہے کہ تم الیکشن سے دست بردار ہوجاؤ یا ہار جاؤ۔‘‘ وہ اب قدرے نظر جھکا کر کہ رہا تھا۔
عمر نے بے اختیار ایک طویل سانس لی۔
’’یہ پیغام ہے یا وارننگ؟‘‘ بولا وہ نارمل لہجے میں تھا لیکن آنکھیں گویا زوار کے اندر تک کو پڑھ رہی تھیں۔
’’یہ ریکویسٹ ہے ایک بھائی کی ۔‘‘ وہ لجاحت سے بولا تھا ۔
’’اگر میں ایسا نا کروں تو؟‘‘ اس کے کہنے پر زوار ایک لمحے کے لیے خاموش ہوگیا تھا۔
’’تو میں فورس نہیں کر سکتا تمہیں ۔ نہ ہی کھل کر کچھ کہہ سکتا ہوں ۔ بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ یہ بہت بہتر ہوگا اگر ایسا کرلو ۔ باقی تمہاری مرضی۔‘‘ وہ کچھ سوچنے کے بعد بولا تھا ۔عمر مسکرایا تھا اس کی بات پر پھر اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
’’وہ میرا باپ تھا جسے تم لوگوں نے ڈرایا اور جب وہ ڈٹ گیا تو اسے مار ڈالا۔‘‘ وہ اب میز پر جھک کر بول رہا تھا۔
’’یہ میں ہوں ۔ اس بار تاریخ دہرائی نہیں جائے گی ‘ بدلی جائے گی ۔ اپنے بڑوں کو بتا دینا جا کر ‘ کھلے عام بنا کسی سیکیورٹی کے گھومتا ہوں ۔ ان کی طرح بزدل نہیں ہوں کہ دس دس گارڈز ساتھ لے کر پھروں ۔ کریں وار جہاں سے بھی کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ وہ دوبارہ سیدھا ہوگیا تھا۔
’’اور ہاں، پہل میری طرف سے نہیں ہوگی لیکن اختتام پھر میں ہی کروں گا ان شاء للہ ۔‘‘ سخت مگر مضبوط لہجے میں کہتا وہ باہر نکل گیا تھا جبکہ زوار ہونٹ بھینچے ادھر ہی بیٹھا تھا۔
٭…٭…٭