خرمنِ قلب: قسط نمبر 2
’’بہت جلد مجھے جاب مل جائے گی ۔ صرف تب تک‘ صرف تب تک یہ طوق پہنوں گی ۔ اس کے بعد آپ کبھی مجھ پر کوئی حق نہیں جتا سکیں گے۔‘‘
وہ اب چیخ نہیں رہی تھی ۔ بے بسی سے کہہ رہی تھی اور عمر نے اعتراف کیا کہ اس پر بے بسی کچھ سج نہیں رہی تھی ۔ اس پر وہ طنطنہ ہی اچھا لگتا تھا ۔ وہ حکم دیتی آواز جب اس نے پہلی بار سنی تھی ۔ وہی اس پر اچھی لگتی تھی لیکن اس وقت اس کی یہ تربیت بھی ضروری تھی ۔ ورنہ وہ شاید اسے اس طرح سے ہرٹ نا کرتا۔
’’اوکے ، ایز یو وش…‘‘ وہ کندھے اچکاتا اسے پیچھے آنے کا اشارہ کرتا باہر آگیا تھا ۔ وہ بھی دانت پیستی اس کے پیچھے آگئی تھی ۔گلے پڑا ڈھول بجانا تو تھا ہی…
٭…٭…٭
ایک ہفتہ تھا الیکشن میں اور صرف تین دن انتخابی مہم کو فائنل کرنے کے لیے تھے۔ عمر کی مصروفیت بھی یکدم بڑھ گئی تھی ۔ بہت سوں کا خیال تھا کہ وہ نیا ہے، اس میدان کے داؤپیچ نہیں جانتا ، پیچھے کسی مضبوط پارٹی کی سپورٹ نہیں ، آزاد امیدوار ہے ۔ آرام سے ہار جائے گا ۔ اس کے باپ ملک وحید کے برسوں پہلے قتل ہونے کے بعد وہ پورا خاندان اس میدان سے لاتعلق ہوگیا تھا اور برسوں بعد اس کے بیٹے کی اس میدان میں واپسی سب کو عجیب لگ رہی تھی مگر وہ غیر معمولی مقبولیت حاصل کر رہا تھا ۔ پھر بھی امید رکھنے والوں کو امید تھی کی الیکشن بہرحال وہ کبھی بھی نہیں جیتے گا ۔ اس حلقے میں وہی جیتتا تھا جس کو حویلی والے سپورٹ کرتے تھے اور وہ تو ان کے اولین دشمن کا بیٹا تھا ۔ مگر وہ اردگرد کی باتوں اور کھیلوں سے بے خبر خاموشی سے اپنا کام کر رہا تھا ۔ اسے کامیابی سے پہلے دعوے کرنے اور شور مچانے کی عادت نہیں تھی ۔ وہ بتیس سال کی عمر میں چھ سال کامیاب وکالت کرنے کے بعد سیاست میں آرہا تھا تو نیک مقاصد کے ساتھ آرہا تھا ۔ لیکن اس کے دل میں بہت اچھے طریقے سے یہ بات موجود تھی کہ یہ فیلڈ اسے نگل بھی سکتی ہے مگر وہ تیار تھا ۔ اب بھی وہ ایک پر امن ریلی میں خطاب کی تیاری کر رہا تھا جب اسے ایک پرائیویٹ نمبر سے فون موصول ہوا تھا۔
وہ بے اختیار مسکرایا ۔ بھلا ہماری ایجنسیاں کسی بھی سیاسی بندے تک نہ پہنچیں، یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔ وہ بڑے دنوں سے اس کال کے انتظار میں تھا ۔ اس نے آہستگی سے فون اٹینڈ کیا تھا ۔
’’ریلی میں سیکیورٹی ایشوز ہیں ۔ بہتر ہے اس کو ملتوی کیا جائے اور کوئی آپ سے ایک خصوصی ملاقات چاہتا ہے ۔ شام چھے بجے اروما ہوٹل ، کمرہ نمبر ستانوے۔‘‘
فون بند ہوگیا تھا جبکہ وہ ایک لمحے کے لیے ساکت ہوا تھا ۔ کھیل شروع ہوچکا تھا ۔ اس نے کچھ سوچنے کے بعد ریلی ملتوی کر دی تھی ۔ وہ ڈرا نہیں تھا ۔ وہ جانتا تھا کہ سیکیورٹی ایشو ہو بھی سکتا ہے ۔ نا بھی ہوا تو بنایا بھی جاسکتا ہے اگر اس نے تابعداری نہ کی تو ۔ اور اس پہلی سیڑھی پر وہ فی الحال وہ نافرمانی کر کے اپنے لوگوں کو خطرے میں نہیں ڈال سکتا تھا ۔ اسے یہ کھیل ان کی طرح کی کھیلنا تھا ۔ وہ جانتا تھا ایسی ملاقاتیں اس وقت سب جگہ ہی جاری ہیں ۔ ان دنوں جوڑ توڑ، ضمیروں کے سودے، انسانوں کی قیمت کے گھناؤنے کھیل عروج پر ہوتے تھے ۔ اس نے سکندر کو اندر بلایا تھا ۔ اس وقت عمر صرف اس پر بھروسہ کر سکتا تھا ۔ وہ نظریں جھکائے اس کے سامنے کھڑا تھا۔۔
’’شام چھے بجے ۔ مجھے مکمل آبزرو کرنا ہے ۔مکمل…‘‘ اس کی بات پر اس نے ہمیشہ کی طرح سر ہلایا تھا۔
’’لیکن یاد رکھنا ۔تمہارے اپنے فرشتوں کو بھی پتہ نہیں چلنا چاہئے کہ تم یہ کر رہے ہو ۔ کیونکہ ان کو بھی پتہ لگ گیا تو مقابل جو ہیں ان کو فوری خبر ہوجائے گی۔‘‘ مظبوط لہجے میں ہدایات جاری کرتا وہ باہر نکل گیا تھا جبکہ سکندر کے چہرے ہر پہلی مرتبہ شش و پنج کے آثار ابھرے تھے لیکن وہ بنا کچھ بولے اس کے پیچھے ہی باہر آگیا تھا ۔ وہ جانتا تھا وہ آگ میں کود رہا ہے اور چاہ رہا ہے کہ جلے بھی ناں۔
٭…٭…٭
’’تمہیں یہ سب مجھ سے پہلے شیئر کرنا چاہیے تھا زینب ۔ میں شہیر بھائی سے کہہ کر فوری تمہاری جاب کا بندوبست کرتی ہوں۔‘‘ فائزہ نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے تسلی دی تھی ۔ وہ دونوں اس وقت باہر آؤٹنگ کے لیے آئی تھیں اور کھانا کھانے جب وہ بیٹھی تھیں تو زینب نے ساری بات اس سے شیئر کی تھی ۔ تب سے وہ مسلسل اسی بارے میں ڈسکس کر رہی تھیں۔
’’ایک بار جاب ہوجائے تو بہت کچھ میرے لیے آسان ہوجائے گافائزہ۔‘‘ اس کی آواز بہت بجھی بجھی تھی۔
’’ڈونٹ وری ۔ اس بات کی بس اب تم ٹینشن ہی چھوڑ دو ۔ چلو اب اٹھو، تمہیں ہاسٹل ڈراپ کر دیتی ہوں ۔ زیادہ لیٹ نہ ہوجائے۔‘‘ اس کے کہنے پر وہ سر ہلاتی کھڑی ہوگئی لیکن اس سے پہلے کہ وہ باہر کی طرف بڑھتی، ہوٹل کی اینٹرینس سے سیاہ کلف لگی قمیض شلوار میں داخل ہوتے عمر کو دیکھ کر وہ وہیں ساکت ہوگئی تھی ۔ وہ کاؤنٹر کی طرف جارہا تھا ۔ اور اس کی ادھر کھڑے کھڑے ہی سانس چڑھ گئی تھی ۔ لاشعوری طور پر ہی اس بندے کا ڈر اس کے دماغ میں بیٹھ گیا تھا۔
’’کیا ہوا زینب؟‘‘ فائزہ نے حیرت سے اس کے پیلے پڑتے رنگ کو دیکھا تھا پھر اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تھا جو اسی درازقد وجیہ شخصیت والے ایک شاندار سے مرد پر جمی تھیں۔
’’یہ تو عمر وحید ہے ناں ؟ ‘‘ فائزہ نے تصدیق چاہی تھی ۔اس نے آہستہ سے سر ہلایا تھا۔
’’واہ ، ٹی وی پر اتنا ہینڈسم نہیں لگتا، اصل میں زیادہ ہے ۔ ‘‘اس کے بولنے پر زینب کو اس کی دماغی حالت پر شبہ ہوا تھا ۔ ابھی کچھ دیر پہلے وہ اس سے بڑے دل سے اظہار ہمدردی کر رہی تھی۔
’’یہ جا کدھر رہا ہے۔‘‘ اسے ہوٹل کے سٹے پورشن کی طرف بڑھتا دیکھ کر زینب کا ماتھا ٹھنکا تھا ۔
ان ہوٹل کے کمروں میں کیا عیاشیاں ہوتی ہیں ۔ کون نہیں جانتا تھا ۔ ایک زہریلی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر ابھری تھی ۔ بڑا پارسا بن رہا تھا اس کے سامنے اور خود اس عام سے ہوٹل میں ڈھلتی شام میں ‘ دماغ میں ایک کوندا سا لپکا تھا ۔ یہی تو موقع تھا پکڑنے کا‘ یہی موقع تھا بالکل ۔ فائزہ کو اس نے کہا تھا کہ وہ خود ہاسٹل چلی جائے گی۔
اس کو بھیج کر اس نے چادر سے منہ پر نقاب پہنا تھا اور خاموشی سے اس طرف بڑھی تھی جدھر وہ گیا تھا ۔ وہ راہداری میں بنے آخری کمرے میں داخل ہوا تھا ۔ اس کے داخل ہوتے ہی وہ کچھ دیر ادھر ہی کھڑی رہی ۔ پھر تقریبا آدھے گھنٹے کے بعد وہ دبے قدموں اس کمرے کی طرف بڑھی تھی ۔ ہاتھ میں پکڑا موبائل کیمرہ اس نے آن کرلیا تھا ۔ آج اسے اس کا اصل چہرہ سب کو دکھانا تھا ۔ آغا جان صحیح کہتے تھے ان سب کے بارے میں‘ اور پہلی بار اسے یہ دشمنی جائز لگی تھی۔
٭…٭…٭
کمرے میں موجود وہ دونوں سوبر سے آدمی بغور اس کی آمد کے بعد سے اس کا جائزہ لے رہے تھے۔
’’ وحید صاب میرے بہت اچھے دوست تھے ۔ ان سے بہت قریبی تعلق تھا ۔ ان کی موت کے بعد آپ کی دادی سے ایک عرصے تک رابطہ رہا مگر وہ واپس حلقے میں آنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔‘‘ ان میں سے ایک گلاسز اتار کر بات شروع کر چکا تھا ۔ عمر نے بے تاثر چہرے کے ساتھ ان کی طرف دیکھا ۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ دوست ہیں یا دشمن، سچ کہ رہے ہیں یا جھوٹ۔ فی الحال وہ صرف انہیں سننا چاہتا تھا ۔ اگر وہ اس کے باپ کا نام لے کر کوئی حوالہ چاہ رہے تھے تو وہ ایسے موڈ کے ساتھ بالکل بھی نہیں آیا تھا۔
’’آپ کے جیتنے کے چانسز ہمارے اندازے کے مطابق یقینا نوے فیصد ہیں ۔ گو کہ آپ کی اچانک شادی کی اطلاع کے بعد ان میں کچھ کمی آئی تھی مگر کچھ ہم نے اور کچھ آپ نے سنبھال لیا۔‘‘ وہ اب مسکرائے تھے۔
’’کیوں کہ ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ جیت آپ کی ہو ۔ وحید صاب کا قرض ہے ہم پر‘ وہ اتارنے کا وقت آگیا ہے ۔‘‘ وہ مسلسل مسکرا رہے تھے ۔ وہ پوچھنا چاہتا تھا کہ جیتنے کے بعد وہ اس سے کیا چاہیں گے ۔مگر فی الحال اس نے اس بات کو اندر ہی دبا لیا تھا ۔ وہ جانتا تھا اس سے زیادہ اس کی باڈی لینگویج آبزرو کی جارہی ہوگی۔
’’کیا جیتنے کے بعد کسی پارٹی کی حمایت کا ارادہ ہے؟‘‘ وہ اصل مدعے پر آگئے تھے ۔ اب کی بار وہ اپنی مسکراہٹ چھپا نہیں سکا۔
’’آپ کس پارٹی کی حمایت چاہتے ہیں جیتنے کے بدلے؟‘‘ اس کی بات پر وہ دونوں ایک لمحے کو خاموش ہوئے تھے ۔ شاید وہ اس قدر ڈائریکٹ جواب کی امید نہیں رکھتے تھے۔ ان کو سوالوں کی نہیں ‘ جی حضوری کی عادت تھی ۔
’’تم واقعی وحید صاب کے بیٹے ہو ۔‘‘ ایک نے اب قدرے پرجوش ہوکر کہا تھا ۔ شاید اسے عمر کی یہ دلیری اچھی لگی تھی ۔ اس کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی۔
’’تم یہ بتاؤ‘ تم واقعی جیتنا چاہتے ہو؟‘‘ دوسرے نے اس سے پوچھا تھا۔
اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتا،باہر ہوتی ہلکی سی آہٹ پر وہ دونوں چونکے تھے ۔ جبکہ عمر نے بے اختیار ہونٹ بھینچے تھے ۔ سکندر غلطی کر بیٹھا تھا ۔ دوسرے ہی لمحے دروازہ کھلا تھا اور گارڈ ایک لڑکی کو پکڑے اندر داخل ہوا تھا جسے دیکھ کر جہاں عمر شاکڈ ہوا تھا وہیں وہ بھی گھبرائی ہوئی شاکڈ سی ان تینوں کو دیکھ رہی تھی ۔
’’ یہ خاتون باہر کیمرہ آن کیے اندر آنے کی کوشش کر رہی تھیں۔‘‘ گارڈ کے کہنے پر ان دونوں کے ماتھے پر بے شمار لیکیریں ابھری تھیں۔
جبکہ وہ شاید زندگی میں پہلی بار اس قدر شاکڈ تھا کہ کچھ بول ہی نہیں پارہا تھا ۔ بس ساکت کھڑا سر سے پھسلی چادر کے ساتھ اس گھبرائے اور سہمے وجود کو دیکھ رہا تھا پھر گارڈ کے ہاتھ میں اس کا بازو دیکھ کر وہ آگے بڑھا تھا اور ایک جھٹکے سے اس کا بازو پیچھے کھینچا تھا۔
’’ہو از شی؟‘‘ ان کی آواز میں ہزار وسوسے تھے اور لاکھوں شکوک…
وہ جانتا تھا یہ شک وہ زینب پر نہیں عمر وحید پر کر رہے تھے ۔ وہ تو اپنے سائے پر بھی شک کرنے والے لوگ تھے ۔ اس قدر سیکرٹ ملاقات کا یوں سرعام فلاپ سین ہوتا دیکھنا ان کے مضبوط اعصاب کو ہلا گیا تھا ۔ وہ بالکل عمر کے پیچھے گویا چھپ گئی تھی ۔ کیا سوچ کر آئی تھی اور آگے سے وہ عجیب سے پر اسرار سے لوگ ‘ اسے بے تحاشہ خوف آیا تھا ۔ اس وقت اس کی واحد پناہ وہی تھا جس کو آج رنگے ہاتھوں وہ پکڑنے آئی تھی۔
’’شی از مائی وائف۔‘‘
اس نے صرف تعلق بتایا تھا ۔ کوئی صفائی نہیں دی تھی ۔ وہ جانتا تھا اس سے شک اور بڑھے گا ۔ بہتر ہے وہ اپنے طور پر پتہ کرلیں ۔اس کے جواب پر ان دونوں کے منہ سے بے اختیار اوہ نکلا تھا ۔ اور نظریں بھی زینب سے ہٹ گئی تھیں ۔ یہ پہلی چیز ان کی عمر کو قدرے بھائی تھی۔
’’آئی تھنک کہ ہمیں مزید سوچ بچار کی ضرورت ہے۔‘‘ وہ مبہم سا ایک جملہ بول کر باہر نکل گئے تھے ۔
دروازہ ایک دھماکے سے بند ہوا تھا اور زینب نے ڈر کے بے اختیار پیچھے سے اس کی قمیض گردن کے پاس سے اپنے ہاتھ میں جکڑی تھی ۔ جبکہ وہ اس لمحوں کے کھیل میں ابھی تک ساکت تھا ۔ پل میں یہ کیا ہوگیا تھا ۔ شروع میں ہی کھیل خراب ہو چکا تھا ۔وہ اب پوری سنجیدگی سے اس کی طرف مڑا تھا ۔ قمیض اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی تھی ۔ گھبرائی ہوئی وہ سراسیمہ سی اس کو دیکھ رہی تھی۔
عمر کے سنجیدہ چہرے پر چھائی سرد مہری سے وہ اندازہ کر چکی تھی کہ وہ بہت بڑی غلطی کر چکی ہے ۔ وہ ڈر کر پیچھے ہوئی تھی ۔ عمر بنا ایک لفظ کہے باہر چلا گیا تھا ۔ وہ بھی تیزی سے اس کے پیچھے بھاگی تھی ۔ اس کو گاڑی سٹارٹ کرتا دیکھ کر زینب بھاگتی ہوئی گاڑی کے پاس آئی تھی لیکن وہ گاڑی ایک جھٹکے سے آگے بڑھا چکا تھا ۔ وہ وہیں کھڑی رہ گئی اکیلی چادر کو سنبھالتے ہوئے ۔ اندھیرا بڑھ رہا تھا اور ہاسٹل میں سات بجے کے بعد وارڈن داخل نہیں ہونے دیتی تھی ۔ آج یونیورسٹی میں بیگ لانا بھی بھول گئی تھی جس میں اس کا کارڈاور پیسے تھے‘ وہی سے سیدھا فائزہ کے ساتھ ادھر آگئی تھی ۔ وہ فق ہوتے چہرے کے ساتھ موبائل پر ساڑھے سات کا ٹائم دیکھ رہی تھی ۔ ایک غلط سوچ نے نجانے اس سے کیا کچھ کروا دیا تھا ۔ پتہ نہیں کون لوگ تھے وہ، کیا مقصد تھا ۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب کہاں جائے ۔ اندھیرا جیسے جیسے بڑھتا جارہا تھا ویسے ویسے ہی اس کی ساری بہادری ہوا ہو رہی تھی ۔ اس نے ڈرتے ڈرتے فائزہ کو فون ملایا تھا مگر اس کا فون بھی بند جارہا تھا ۔ اب تو ہوٹل میں آنے جانے والے لوگ بھی اسے مشکوک نظروں سے دیکھ رہے تھے اور یکدم اتنے لوگوں کی مرکز نگاہ بننا اسے مزید پریشان کر رہا تھا ۔ایک لمحے کو اس کا جی چاہا کہ عمر کو کال کرلے لیکن جتنے غصے سے وہ ادھر سے گیا تھا وہ تو شاید زندگی میں دوبارہ اس کی شکل بھی نہ دیکھے کجا فون اٹینڈ کرنا ۔ مارے بے بسی کے وہ وہیں بیٹھ کر رونے لگی تھی۔
’’بی بی، یہ کیا کر رہی ہو ۔ یہ ہوٹل کی اینٹرینس ہے ۔ یہ اس طرح کے ڈرامے ادھر الاؤڈ نہیں ۔ اٹھو یہاں سے۔‘‘ ایک سخت آواز پر اس نے فوری سر اٹھایا تھا ۔ سامنے ایک سوٹڈ بوٹڈ سا بندہ کھڑا تھا ۔ شاید وہ ہوٹل کا مینیجر تھا، کسی کام سے باہر آیا تھا۔
’’کون ہو تم؟‘‘ مینیجر کو وہ کسی اچھے گھر کی لگی تھی ۔کہیں گھر سے بھاگ کر تو نہیں آئی ۔وہ مشکوک سا اسے دیکھ رہا تھا۔
’’مم…میں۔‘‘ زینب سے اب بولا نہیں جارہا تھا ۔ فون بھی کو چارجنگ کے باعث بند ہوگیا تھا۔
’’ایکچوئیلی… ایکچوئیلی میرا فون بند ہوگیا ہے ۔گھر رابطہ نہیں کر پا رہی ۔ سمجھ نہیں آرہی کیسے جاؤں ۔ ‘‘ اس نے اب روتے ہوئے بتایا تھا ۔پہلی بار ایسے اتنے مردوں کے بیچ وہ اکیلی تھی ۔ عجیب عجیب آتی جاتی نظریں، کھوجتی ہوئی اور پھیلتی ہوئی رات۔
’’یہ میرے فون سے کال کرلیں اور گھر جائیں۔‘‘ وہ واقعی شریف آدمی تھا ۔ اس کی مجبوری سن کر اس کے تاثرات نرم پڑ گئے تھے ۔ اس لیے جیب سے فون نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔
’’مجھے کسی کا نمبر نہیں یاد۔‘‘ اس نے سر جھکاتے ہوئے بمشکل آنسو پیتے ہوئے جواب دیا تھا ۔ اور یہ حقیقت تھی ۔اسے واقعی کسی کا نمبر یاد نہیں تھا ۔ اس معاملے میں وہ حد سے زیادہ لاپرواہ تھی ۔ مقابل کے نقوش ایک بار پھر سے تن گئے تھے ۔ وہ یقینا دوبارہ مشکوک ہوگیا تھا۔
’’گھر کدھر ہے آپ کا۔‘‘ اس نے پوچھا تھا۔
’’جنت پور میں۔‘‘ اس نے عمر کے گاؤں کا بتایا تھا۔
’’واٹ، وہ تو ادھر سے بہت دور ہے ۔ آپ اکیلی آئی کیوں ادھر؟‘‘ وہ اچھلا تھا ۔ زینب اب زاروقطار رونے لگی تھی ‘جس پر وہ مزید گھبرایا تھا۔
’’جنت پور میں میرے ایک دوست ہیں ۔ آپ اپنے والد کا نام بتائیں، میں ان سے کہہ کر آپ کے گھر پیغام بھجواتا ہوں۔‘‘ اس نے زینب کے آنسو دیکھ کر فوری کہا۔
’’میرے والد نہیں رہتے وہاں ‘ میرے ہزبینڈ رہتے ہیں۔‘‘ اس نے روتے روتے ہی کہا تھا۔
’’ہزبینڈ؟‘‘ وہ مزید حیران ہوا تھا ۔ وہ کالج گوئنگ لڑکی لگ رہی تھی کہیں سے بھی شادی شدہ نہیں لگ رہی تھی۔۔
’’اوکے ہزبینڈ کا ہی نام بتائیں۔‘‘ اس نے فون نکال کر دوست کا نمبر ڈائل کیا تھا اور اس کی طرف دیکھا تھا۔
’’عمر وحید… ملک عمر وحید ۔ ان کے چھوٹے بھائی کا نام عفان ہے۔‘‘ وہ تیزی سے بولی تھی اور مقابل پوری آنکھیں کھول کر اس کو دیکھ رہا تھا ۔ پھر اس نے فوری فون بند کیا تھا ۔