خرمنِ قلب: قسط نمبر 2
کمرے میں چھائی گھمبیر خاموشی سب کے اعصاب کو مزید بوجھل کر رہی تھی ۔ مگر بولنے کی ہمت وہاں موجود چاروں نفوس میں سے کوئی نہیں کر رہا تھا ۔ بستر پر لیٹے چوہدری ظہور گو کہ عمر کے اسی سال گزار چکے تھے مگر رعب دبدبہ آج بھی سالوں پہلے جیسا تھا ۔
’’آغا جان، آگے کا کیا لائحہ عمل ہے پھر؟‘‘ تایا جان نے ہی ہمت کی تھی ۔ زوار نے قدرے ناگواری سے ان کو دیکھا تھا۔
’’آغا جان الیکشن ، سیاست ہر چیز اپنی جگہ مگر ردا کو یونیورسٹی جانے کی اجازت دیں پلیز ۔ یہ سب سے ضروری ہے ۔ سب سے زیادہ ضروری۔‘‘ وہ ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولا تھا۔
’’آواز نیچی رکھو زوار ۔ جن کی بہنیں بھاگ کر بیاہ رچا لیں ، ان بھائیوں کو اس طرح اونچی آواز میں بولنا زیب نہیں دیتا ۔‘‘ وہ آہستہ آواز میں بولے کم غرائے زیادہ تھے ۔ اس نے بے اختیار ہونٹ بھینچے۔
’’اس سب میں ردا کا کیا قصور ہے؟ اس نے تو نہیں کیا یہ سب ۔‘‘ وہ اب آہستہ آواز میں بولا تھا۔
’’صالح کو ہاں کردو عزیز ۔ اسے کہو جلد از جلد ردا کو رخصت کروا کر لے جائے ۔ صرف اسی شرط پر ہم الیکشن میں اس کی حمایت کا اعلان کریں گے ۔‘‘ وہ اسے مکمل نظر انداز کرتے ہوئے تایا جان سے مخاطب ہوئے تھے۔
’’یہ زیادتی ہے آغا جان ۔ وہ ایک جیتی جاگتی لڑکی ہے ۔ آپ اس کا سودا کر رہے ہیں ۔‘‘اب کہ وہ بے بسی سے بولا تھا ۔ پہلے تو زینب ہمیشہ اس کی ڈھال بن جاتی تھی ۔ وہ آغا جان کی سب سے لاڈلی تھی اس لیے اس کو خاص رعایت حاصل تھی مگر اب اپنی بہن کے لیے اسے ہی کھڑے ہونا تھا ۔
’’اس کو یہاں سے لے جاؤ ورنہ…‘‘ وہ اب اٹھ کر بیٹھ گئے تھے ۔ اور یہ ان کے شدید غصے کی نشانی تھی ۔ وہ جانتا تھا وہ مزید کچھ نہیں سنیں گے اس لیے خاموشی سے اٹھ کر باہر آگیا۔
’’صالح سے بات کرو اور…‘‘ وہ رکے تھے۔
’’عمر وحید کسی صورت جیتنا نہیں چاہئے ۔ اگر وہ جیت گیا تو مجھے خاموشی سے زہر دے دینا۔‘‘ ان کے سخت اٹل لہجے پر ان کے دونوں بیٹے ایک لمحے کے لیے ساکت ہوگئے تھے۔
’’جس بھی حد تک جاسکتے ہو ۔ جس بھی حد تک۔‘‘ وہ اب زور دے کر بولے تھے۔
’’ ملکوں کے گھر ماتم ہونا چاہئے ورنہ چوڑیاں پہن کر ادھر سفید چادریں بچھا لینا۔‘‘ سرد کاٹ دار لہجے میں وہ ان دونوں کو بے حس و حرکت چھوڑ کر چھڑی کے سہارے باہر چلے گئے تھے ۔ کمرے میں پھر وہی پہلے والی خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔
٭…٭…٭
ہاسٹل پہنچ کر بے اختیار اسے ایک آزادی محسوس ہوئی تھی اور ساتھ ہی ردا کا خالی بستر دیکھ کر دل کو دھکا سا لگا تھا ۔ بہت کچھ بیک وقت یاد آیا تھا ۔ اس کو اور عفان کو ملاتے ملاتے قسمت کہاں سے کہاں لے آئی تھی ۔ آنکھوں میں آئی نمی کو اس نے پیچھے دھکیلا تھا ۔ وہ زینب عزیز تھی ۔ وہ روتی نہیں تھی ۔ حالات کے مطابق اس کو ایڈجسٹ کرنا آتا تھا ۔ اس نے فون آن کر کے ایک موہوم سی امید پر ردا کا نمبر ملایا تھا مگر فون بند جا رہا تھا ۔ اس کے ہونٹوں پر بے اختیار زخمی سی مسکراہٹ دوڑی تھی ۔اس نے بھلا سوچ بھی کیسے لیا کہ آغا جان اس کے بعد اس کے پاس فون رہنے دیں گے ۔ کچھ سوچ کر اس نے زوار بھائی کا نمبر ڈائل کیا تھا اور فون لگ گیا تھا۔
’’اسلام علیکم۔‘‘ زوار کی آواز سن کر وہ اب آنسو نہیں روک سکی تھی ۔ بے اختیار اس کے حلق سے سسکی نکلی تھی۔
’’ہو از دیئر؟ ‘‘ اس کی تشویش سے بھری آواز ابھری تھی ۔ زینب نے فوری فون بند کردیا تھا ۔ وہ اس وقت بات نہیں کر سکتی تھی ۔ فون بند کرتے ہی اس نے اندر دبی ساری سسکیوں کو باہر آنے دیا تھا مگر فون کی بیل پر وہ چونکی ۔ یقینا زوار کال بیک کر رہا تھا ۔ اس نے آنسو پونچھتے بنا دیکھے فون اٹینڈ کیا تھا۔
’’ہیلو۔‘‘ وہ بے تابی سے بولی تھی ۔ آواز میں آنسوؤں کی آمیزش تھی۔
’’آر یو اوکے ؟ ‘‘ دوسری طرف سے آتی عمر کی آواز پر وہ بے اختیار اچھلی پھر فون سکرین کو دیکھا ۔ فون پر زوار کا نمبر نہیں تھا۔
’’جی …‘‘ اسے سمجھ نہیں آئی تھی کیا جواب دے ۔
’’آپ رو رہی ہیں زینب؟‘‘ وہ ہمیشہ کی طرح سنجیدہ تھا ۔ کسی کو تکلیف میں دیکھنا اس کے لیے بہت مشکل تھا ۔ یہ نرم دلی اسے ورثے میں ملی تھی اور اپنے سے جڑے لوگوں کے لیے تو وہ ویسے بھی بہت حساس تھا۔
’’نہیں۔نہیں تو…‘‘ عمر کے پوچھنے پر اس کا مزید دل بھر آیا تھا ۔ بعض اوقات بس یہ کسی کا پوچھنا ہی اندر کے سمندر کو باہر لے آتا ہے ۔ انسان درد چھپاتا ہے مگر دل میں ہمیشہ یہ خواہش بھی کہیں نہ کہیں رکھتا ہے کہ کوئی اس درد کو دیکھ کر پوچھ لے ۔ اس کے ساتھ بھی ایسا ہوا تھا ۔ وہ اب زاروقطار رو رہی تھی ۔ جبکہ دوسری طرف بالکل ساکت سا عمر اس کی سسکیاں سن رہا تھا ۔ ایک ناپسندیدہ رشتہ بنا تھا ان کے درمیان لیکن رشتہ تو تھا اور دونوں ہی جانتے تھے کہ دونوں بے قصور ہیں ۔ اسی ہمدردی کے تحت اسے اس چھوٹی سی لڑکی کے لیے یہ زیادہ برا محسوس ہورہا تھا ۔ابھی تو اس کی عمر تھی زندگی میں رنگ بھرنے کی اور ابھی زندگی نے اسے اپنے رنگ دکھا دیئے تھے۔
’’ریلیکس پلیز۔‘‘ کچھ دیر بعد جب اس کا رونا تھما تھا تو وہ آہستہ سے بولا تھا ۔
’’میرا خیال ہے کتھارسس کے لیے اتنا رونا کافی ہے ۔ ‘‘ اس کی آواز پر وہ اب شرمندہ ہو کر آنسو صاف کرنے لگی تھی۔
’’یو پلیز ٹیک یور ٹائم ۔ بخیریت سے پہنچ گئے یا نہیں، یہی پوچھنا تھا ۔ اگر اندازہ ہوتا کہ ادھر جاکر آپ اس طرح ہرٹ ہونگی تو میں نہ جانے دیتا ۔‘‘ اس کی سادہ سے لہجے میں کی گئی بات پر وہ شاکڈ ہوئی تھی ۔ کون تھا وہ ؟ دونوں پانچ دن پہلے ملے تھے ۔ جو دکھنے میں ایسے اجنبی اور عجیب لگتا تھا پھر یہ اتنی کیئر…
’’نہیں ۔ میں ٹھیک ہوں ۔ اور ہم بخیریت پہنچ گئے تھے ۔ تھینک یو فار کالنگ ۔ ‘‘ مضبوط لہجے میں کہتے ہوئے اس نے فون بند کردیا تھا ۔ اس کے اندر کی خوددار زینب یکدم جاگی تھی ۔ اسے کسی ہمدردی کی ضرورت نہیں تھی۔
٭…٭…٭
اگلا پورا ہفتہ اس کا دوبارہ فون نہیں آیا تھا اور وہ بھی خود یونیورسٹی میں مصروف کر چکی تھی ۔ زوار سے بھی اس نے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا ۔ یہ اس کی لڑائی تھی، اسے خود ہی لڑنا تھی ۔عفان سے وہ روز ملتی تھی کلاس میں ‘ لیکن سلام دعا کے علاوہ دونوں کوئی بات نہیں کرتے تھے ۔ البتہ اس کی اداس ‘ ردا کو تلاشتی آنکھیں وہ اکثر دیکھتی تھی ۔ وہ شاید اس سے کچھ پو چھنا چاہتا تھا مگر پوچھتا نہیں تھا ۔ اس ایک ہفتے میں اس نے اپنے اندر کی نڈر اور مضبوط زینب کو جگایا تھا ۔ جو کسی کی انگلی پکڑ کر نہیں چلتی تھی ۔ وہ آج کل اپنے لیے کوئی سیکنڈ ٹائم کے لیے جابز بھی دیکھ رہی تھی ۔ اسے جلد از جلد خود کفیل ہونا تھا اور ان احسانوں سے نکلنا تھا۔
یونیورسٹی میں فن فیئر ہو رہا تھا ۔وہ بھی آج معمول سے ہٹ کر سیاہ جنیز کے ساتھ لمبی سیاہ قمیض پہنے کھلے بالوں میں بینڈ کی طرح سیاہ سکارف باندھے کیمپس آئی تھی ۔یہاں اس کی شادی کا کسی کو علم نہیں تھا ۔ ردا کا اس نے سب سے یہی کہا تھا کہ اس کا ایڈمیشن کہیں اور ہوگیا ہے۔
گیمز کے سٹال پر کھڑے عفان نے اسے دیکھ کر بے اختیار ادھر ادھر دیکھا ۔ وہ سب میں بہت نمایاں ہو رہی تھی ۔ سادہ شلوارقمیض میں بھی وہ تو سب میں نمایاں لگتی تھی ‘ آج تو پھر رنگ ہی نرالے تھے ۔ وہ اسے کہنا چاہتا تھا کہ ان کے گھر کی لڑکیاں ایسے بنا سر ڈھکے نہیں آتی باہر مگر پھر خاموش ہوگیا کہ یہ عمر بھائی کو کہنا چاہئے ۔ میں اسے بھلے ہی چھوٹی بہن سمجھتا ہوں مگر وہ نہیں سمجھتی ۔ اس نے خاموشی میں ہی عافیت سمجھی تھی ۔ سب لوگوں کا بار بار اس کو دیکھنا اسے بھی ڈسٹرب کر رہا تھا ۔ بہرحال وہ اس کے لیے بے حد قابل احترام تھی۔
وہ شش وپنج میں اٹھ کر کامن روم میں آگیا تھا ۔کامن روم میں آکر اس نے عمر کو فون ملایا تھا ۔ مگر فون بزی جا رہا تھا ۔ اس نے آہستہ سے میسج ٹائپ کیا تھا۔
’’آپ اگر شہر آئے ہیں تو مجھے بھی کیمپس سے لے لیں ۔مجھے گھر جانا ہے ۔‘‘ میسج سینڈ ہوگیا تھا اور فوری سین بھی ہوگیا تھا۔
’’اوکے، کمنگ…‘‘ جواب پڑھ کر اس نے بے اختیار سکون کا سانس لیا تھا ۔ وہ واقعی گھر جانا چاہتا تھا مگر وہ یہ بھی چاہتا تھا کہ عمر خود زینب کو دیکھ کر منع کردے اس لیے وہ دانستاََ وہیں کامن روم میں لیٹ گیا تھا۔
٭…٭…٭
ڈیپارٹمنٹ کی طرف آتے ہی اس نے عفان کو کال ملائی تھی مگر اس کا نمبر آف تھا ۔ وہ پریشان سا اندر آیا جہاں موجود رش اور رنگ ہی رنگ دیکھ کر اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ فن فیئر چل رہا ہے ۔ اس نے ادھر ادھر عفان کی تلاش میں نظریں دوڑائی پر اسے وہ کہیں نظر نہیں آیا تھا ۔
’’یہ کہاں چلا گیا۔‘‘ بڑبڑاتے ہوئے وہ دوبارہ فون ملاتا سیڑھیوں کی طرف بڑھا اور بے دھیانی میں کسی سے بری طرح ٹکرایا تھا ۔ مقابل کا کندھا اس کے سینے پر لگا تھا ۔فون اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پر گر پڑا تھا ۔ اس نے لب بھینچ کر اوپر دیکھا اور پھر وہیں رک گیا تھا ۔ مقابل بھی ساکت سی کھڑی اسے تحیر سے ہی دیکھ رہی تھی ۔
’’آپ کا فون۔‘‘ زینب نے جھک کر فون اٹھا کر اسے دیا جس کے گلاس پر کرچیاں ابھر آئی تھیں ۔وہ البتہ اب قدرے ناپسندیدگی سے اس کے کندھے پر بکھرے سنہرے جال اور بنا دوپٹے کے خود کی طرف مائل کرتے دلفریب وجود کو دیکھ رہا تھا اور وہ یہ ناپسندیدگی محسوس کر چکی تھی ۔
’’جہاں تک میرا ناقص علم ہے،حویلی میں کبھی کسی نے ایسی ڈریسنگ نہیں کی کہ میں سمجھوں وہاں بچپن سے رہ کر آپ نے یہی پہننا سیکھا ہے۔‘‘ وہ صرف نرم دل نہیں تھا ۔ سٹریٹ فاروڑ بھی تھا ۔ اب بھی اس نے آرام سے کہا تھا مگر زینب کا چہرہ اہانت سے سرخ ہوگیا تھا۔
’’حویلی کو میں بھول گئی ہوں مگر آپ نہیں بھول رہے ۔ حیرت ہے ویسے جانی دشمنی ہے لیکن پہناوا آپ کو ان کا پسند ہے۔‘‘ اس نے تنک کر بال پیچھے کرتے ہوئے جواب دیا تھا جبکہ اس کی ڈھٹائی پر وہ طنزیہ مسکرایا تھا۔
’’کیونکہ میں بے غیرت نہیں ہوں اس لیے صحیح کو صحیح کہتا ہوں اور غلط کو غلط ۔ چل کر آپ فوراََ گاڑی میں بیٹھیں ۔‘‘ اب کہ اس نے اٹل لہجے میں کہا۔
’’مجھے کہیں نہیں جانا فی الحال آپ کے ساتھ۔‘‘ وہ تیزی سے کہہ کر مڑی مگر تب تک وہ ہاتھ پکڑ چکا تھا۔
’’جب تک ‘ جب تک آپ میرے نکاح میں ہیں مس زینب عزیز ۔ یہ طنطنہ ، یہ انداز بدلنے پڑیں گے اور میں اپنی بات دہرانے کا عادی نہیں ہوں۔‘‘اس کی کلائی پر وہ دانت پیستے ہر لفظ کے ساتھ گرفت مضبوط کرتا جارہا تھا ۔ اس کی آنکھوں میں آئی نمی کو نظر انداز کرتے وہ ادھر ادھر لوگوں کو دیکھے بغیر اسی طرح اسے تقریباََ کھینچتے ہوئے گاڑی تک لے کر آیا تھا ۔ گاڑی لاک کر کے اس نے عفان کو میسج کیا تھا کہ وہ خود آجائے اور اور خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھالے سرخ چہرے کے ساتھ گاڑی دوڑائی تھی ۔جبکہ وہ ایک بار پھر رو رہی تھی ۔ ہمیشہ اس بندے کے آگے روتی تھی ۔ اس کی نسوانی انا، اس کے وقار کی دھجیاں بھی وہی اڑاتا تھا،بعد میں سمیٹتا بھی وہی تھا ۔وہ مکمل اس کے رحم و کرم پر تھی۔
گاڑی ایک جھٹکے سے کسی اجنبی جگہ پر رکی تھی ۔لیکن وہ یونہی بے حس و حرکت بیٹھی رہی ۔ عمر نے ایک تلخ نظر اس پر ڈالی پھر اشارے سے اسے اترنے کا کہا مگر وہ پھر بھی ٹس سے مس نہیں ہوئی تھی۔
’’ محترمہ آپ کو شاید سیدھی بات سمجھ نہیں آتی۔‘‘ بڑے بڑے اسے غصہ دلانے میں ناکام رہتے تھے مگر یہ اپنے سے دس سال چھوٹی لڑکی بڑی آسانی سے یہ کام کرتی تھی۔
’’مجھے وہی بات سمجھ آتی ہے جو سچ میں سیدھی طرح کی جائے ۔ یہ زور زبردستی میرے اوپر کام نہیں کرے گی زیادہ دیر ‘ سمجھے آپ …‘‘ وہ اب چیخی تھی ۔ اس کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا ۔ عمر نے بے اختیار ہاتھ کانوں پر رکھ کر اسے گھورا تھا۔
’’واٹ آ بیڈ وائس پچ۔‘‘ وہ بڑبڑایا ۔ مگر وہ سن چکی تھی۔
’’سیم ٹو یو ۔ یہ آپ مرد لوگ… کیا لگتا ہے آپ کو یہ‘ یہ غصہ کرنا،یہ چیخنا چلانا ۔ یہ صرف آپ کو سوٹ کرتا ہے ۔ جہاں کوئی لڑکی ایسا کردے تو ساتھ ہی آپ کو برا لگنے لگتا ہے ۔ ڈوول سٹینڈرڈز ۔ ‘‘ وہ پہلے سے بھی زیادہ چیخی تھی ۔ مقابل کے تاثرات اب یکدم پتھر ہوئے تھے ۔
’’اترو نیچے… فوری ۔ مجھے دہرانا نہ پڑے یہ بات۔‘‘
وہ اب بالکل نارمل لیکن انتہائی سرد لہجے میں بولا تھا مگر وہ بھی اڑ گئی تھی ۔ اب کہ وہ لب بھینچے اس کی طرف آیا تھا ۔ گاڑی کا دروازہ کھولا اور ایک جھٹکے سے اسے سیٹ سے اٹھا کر اس اپارٹمنٹ کی سیڑھیوں کی طرف بڑھا تھا ۔ صرف ایک لمحے کا کھیل تھا، مختل ہوتے ہواسوں کے ساتھ اس نے اسے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی تھی مگر گرفت بہت مضبوط تھی ۔ اب وہ اس سے بھی زیادہ اونچی آواز میں چیخی تھی مگر وہ شاید کانوں میں کوئی ان دیکھی روئی سموئے ہوئے تھا اس لیے خاموشی سے سیڑھیاں چڑھتا رہا ۔ اندر آتے ہی اسے صوفے پر دھکیل کر وہ سیدھا فریج کی طرف بڑھا تھا اور پانی کی بوتل نکالی تھی۔
’’ ڈائٹ کرنی چاہیے تھوڑی آپ کو ۔ تھوڑا اوور ویٹ ہے۔‘‘ وہ ہانپنے کی باقاعدہ ایکٹنگ کرتا ہوا پانی پینے لگا تھا جبکہ وہ جو خونخوار نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی اس کی بات پر بے اختیار اچھلی تھی اور فوراََ خود کو دیکھا ۔ وہ زیر لب مسکرایا ۔اتنا تو وہ جان گیا تھا کہ وہ بہت سیلف کانشیئس ہے ۔ اس نے جان بوجھ کر اسے نارمل کرنے کے لیے اس کی رگ چھیڑی تھی ۔
’’شاید میں کافی دن سے بس زیادہ چل پھر نہیں رہی، اس لیے ویٹ بڑھ گیا ہے ۔‘‘ وہ اب سب بھول بھال کر ہاتھ کمر پر رکھے چیک کر رہی تھی ۔
’’بالکل ایسا ہی ہے ۔آئینہ دیکھو ذرا ۔‘‘ وہ آج بالکل ہی مختلف موڈ میں تھا۔
وہ فوراََ شیشے کے سامنے آگئی تھی اور بغور خود کو دیکھا تھا ۔وہ بوتل ہاتھ میں پکڑے پیچھے آکر کھڑا ہوگیا تھا ۔ اسے دیکھ کر اسے بے اختیار یاد آیا تھا کہ وہ کس طرح سے اسے ادھر لے کر آیا تھا ۔ وہ تیزی سے مڑی تھی مگر عمر نے اس کے دونوں بازو پکڑے رخ دوبارہ آئینے کی طرف موڑ دیا تھا پھر قدرے اس کے قریب ہوا تھا۔
’’غور سے دیکھو ۔ اس حلیے میں تم یوں کھلے عام پھر رہی تھی ۔ اچھی طرح جائزہ لو ۔ ‘‘ وہ دوبارہ سنجیدہ ہوگیا تھا اور وہ ساکت ۔
آئینے میں سیاہ لمبی قمیض بنا دوپٹے کے جینز کے ساتھ اس کے وجود کی ساری رعنائیوں کو نمایاں کر رہا تھا ۔بالوں میں بینڈ کی طرح سکارف پہن رکھا تھا۔
’’حویلی والوں نے میرے نکاح میں دیا ہے آپ کو ۔ دنیا میری بیوی کی حیثیت سے جانتی ہے آپ کو اور جب ہم رشتوں میں بندھ جاتے ہیں ‘ چاہے یا ان چاہے تو لازمی کچھ حدودو قیود بندھ جاتی ہیں ۔ محترمہ ، جس لباس میں آپ اپنے بھائی، باپ کے سامنے ساری زندگی نہیں گئیں ۔ میرے نکاح میں آنے کے بعد آپ نے خود کو اتنا آزاد کیسے سمجھ لیا۔‘‘ اس کا لہجہ نارمل تھا مگر انداز چبھتا ہوا ۔ اور یہ چبھن اسے واقعی چبھ رہی تھی ۔ اس کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔
’’میں یہاں آپ کو شوقیہ نہیں لے کر آیا، نہ ہی گاؤں ساتھ لے کر جاؤں گا ۔ صرف ایک بات سمجھانے آیا ہوں، اور…‘‘ وہ رکا۔
’’اور میں بس ایک ہی بار سمجھاتا ہوں زینب عزیز ۔ آپ کو میں کافی رعایت آلریڈی دے چکا ہوں ۔ جب تک اس رشتے میں ہیں ، اپنی حدود کا خیال رکھیں‘ ورنہ…‘‘ آگے اسے کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ سمجھدار تھی۔