خرمنِ قلب: قسط نمبر 2
حویلی واپس پہنچ کر وہ بنا کسی سے ملے سیدھا اپنے کمرے کی طرف آیا تھا۔ اس وقت صرف اسے کچھ لمحوں کا سکون چاہیے تھا ۔مگر کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کو بیڈ پر لیٹا دیکھ کر اس کا پارہ ایکدم چڑھا تھا ۔ اس کے لیے ساری مصیبت کھڑی کر کے خود محترمہ سکون کی نیند سو رہی تھیں۔
اس نے زوردار کھٹکے سے الماری کا دروازہ کھول کر بند کیا تھا ۔ بیڈ پر لیٹے وجود میں ذرا سی ہلچل ہوئی تھی ۔ اس نے دوبارہ یہی حرکت کی تو وہ ہڑبڑا کر اٹھی بیٹھی تھی اور حیرت سے اس کی طرف دیکھا جو تنے نقوش کے ساتھ اس کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔
’’یہاں سے آپ برائے مہربانی کہیں اور تشریف لے جائیے ، مجھے کچھ دیر آرام کرنا ہے۔‘‘ ایک ایک لفظ چباتے ہوئے وہ بولا تھا ۔ جوابا زینب کے ماتھے پر بھی لیکیریں ابھری تھیں۔
’’میں یہاں سے کہاں جاؤں؟ یہاں مجھے کوئی نہیں جانتا۔‘‘ اس کا لہجہ آہستہ مگر تیکھا تھا۔
’’آپ کو اب سب جانتے ہیں یہاں ۔ ویسے بھی شادی کے بعد اس کمرے میں حجرہ نشینی کے لیے نہیں لے کے آیا ۔ باہر جا کر سب کے ساتھ بیٹھیں اور مجھے سکون کرنے دیں۔‘‘ اس کا دماغ مزید گھوما تھا ۔
اس کو سخت لہجے میں کہتا وہ اب بیڈ پر آکر لیٹ گیا تھا ۔ وہ بدک کر پیچھے ہوئی تھی ۔ اہانت کے احساس سے اس کی آنکھیں بھر آئی تھیں ۔ بچپن سے اب تک وہ اپنے محل میں شہزادی سمجھی جانے والی لڑکی تھی۔ ساری دشمنی کے بدلے فی لحال وہ اسی سے لے رہا تھا ۔ کچھ دیر ایسے ہی بے حس و حرکت بیٹھنے کے بعد وہ خاموشی سے اٹھ کر باہر آگئی تھی۔
اجنبی ماحول اور وہ لوگ جن کے بارے میں وہ بچپن سے ظالم ، بے حس جیسے الفاظ سنتی آئی تھی ۔ آج انہی کے درمیان وہ بالکل کسی زندہ لاش کی طرح موجود تھی ۔ ایک قطار میں بنے کمروں کے آگے برآمدے تھے ۔ بالکل روایتی سا ماحول تھا ۔ وہ برآمدے میں کھڑی کچھ دیر ادھر ادھر دیکھتی رہی ۔پھر کچھ سوچتی ہوئی پچھلی جانب آگئی تھی جہاں موجوداس باوقار خاتون کو دیکھ کر اس کے قدم تھمے تھے ۔ وہ چارپائی پر بیٹھی تھیں ۔ اسے آتا وہ دیکھ چکی تھیں ۔ وہ جانتی تھی کہ وہ اس کی ساس ہیں ۔ صبح ان سے متعارف ہوئی تھی اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ وہ یقینا اس شادی سے بالکل بھی خوش نہیں ہوں گی ۔
’’آجاؤ زینب۔‘‘ حیرت انگیز طور پر انہوں نے اسے بلا لیا تھا ۔ وہ کنفیوز سی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ان کی طرف آگئی تھی اور وہیں ان کے قریب اس تخت نما چارپائی پر بیٹھ گئی تھی۔
’’اصل میں ‘ میں…‘‘
اس نے کوئی وجہ ڈھونڈھنی چاہی تھی ان کو بتانے کے لیے مگر جواباََ ان کے اپنی طرف بڑھے ہوئے ہاتھ میں موجود پلیٹ دیکھ کر وہ رک گئی ۔ موسم خاصا خوشگوار تھا آج اور وہ پلیٹ میں موجود پھل اس کو آفر کر رہی تھیں ۔ اس نے آہستگی سے سیب کی ایک قاش اٹھا لی تھی۔
’’پریشان مت ہو ۔ میرے لیے یہ بات کافی ہے کہ میرا بیٹا تمہیں اپنی پسند سے بیاہ کر لایا ہے ۔ تم کس خاندان سے ہو کس سے نہیں ، اس کی خوشی کے آگے یہ سب بے معنی ہے۔‘‘ دادی کے برعکس ان کا بہت ہی پرسکون رسپانس تھا۔
سادہ سی گرے قمیض شلوار میں ملبوس ان کے چہرے پر ایک عجیب سا اطمینان تھا ۔ وہ بے اختیار قدرے ریلیکس ہوئی تھی ۔ ہر طوفان کو ایک مٹھی میں بند کرنے کے لیے عمر کا یہ پسند والا جھوٹ واقعی فی الحال اس کے کام آرہا تھا۔
’’آپ…آپ کو برا نہیں لگ رہا؟‘‘اس نے بے اختیار پوچھا ۔
جوابا وہ مسکرائی تھیں۔
’’ بہت عرصے سے یہ برا لگنے والی حس میرے اندر سے ختم ہوگئی ہوئی ہے ۔ بس اپنے بچوں کی خوشیاں دیکھنے کے لیے جی رہی ہوں ۔ تم بہت خوبصورت ہو ماشااللہ۔‘‘انہوں نے بات کرتے ہوئے یکدم کہا ۔ وہ قدرے گڑبڑائی۔
’’میرا بیٹا صرف ظاہری شکل و صورت تو کبھی نہیں دیکھ سکتا ۔ یقینا کوئی خاص بات تو ہوگی تم میں ورنہ اپنے سے دس بارہ سال چھوٹی لڑکی سے شادی ۔ نجانے اس کو کب کیا اچھا لگ جائے ۔ بالکل اپنے باپ جیسا ہے۔‘‘
وہ غیر محسوس انداز میں اس کو کمفرٹیبل کر رہی تھیں ۔ مشغول کر رہی تھیں اور وہ واقعی ہو بھی رہی تھی ۔ کچھ ہی دیر بعد وہ ان کو بہت سکون سے اپنی سٹڈیز اور یونیورسٹی کے بارے میں بتا رہی تھی ۔ ہاں اس کے گھر والوں کے بارے میں، شادی کیسے ہوئی اس کے بارے میں نہ کوئی بات انہوں نے کی نہ ہی اس ذکر کیا ۔ مغرب کے وقت اس نے وہیں ان کے ساتھ ہی نماز پڑھی تھی۔
’’تم جاؤ اب آرام کرو ۔ میں ذرا لڑکیوں اور بی جان کو دیکھ لوں۔‘‘اسے ہدایت دیتی وہ چلی گئی تھیں جبکہ وہ وہیں چارپائی پر لیٹ گئی تھی ۔ دماغ میں عجیب جھکڑ چل رہے تھے ۔ سوچتے سوچتے وہیں اس کی آنکھ لگ گئی تھی۔
٭…٭…٭
پریس کانفرنس شروع ہونے سے پہلے اپنے اردگرد بھیڑ کو صفائیاں دینا فی الحال اس کے لیے سب سے بڑا مرحلہ تھا ۔ عفان بار بار اسے معذرت خواہانہ دیکھتا، وہ خود کو اس سب کے لیے قصوروار مان رہا تھا لیکن وہ پھر بھی اس کو کمفرٹیبل فیل کروا رہا تھا۔
’’میری شادی ایک انتہائی نجی قسم کا معاملہ ہے اور اپنی مختصر سیاست میں میں کبھی کسی کی ذاتیات یا خاندان پر کیچڑ اچھالنے والا کام نہ کیا ہے نہ ہی یہ میرے خاندان کا خاصا ہے اور نہ میری تربیت ۔ میرے مرحوم والد نے ایک صاف ستھری سادہ اور غریب کی بہتری کی سیاست کی اور ان کو مار دیا گیا ۔ میری شادی جہاں بھی ہوئی ہے مکمل دونوں خاندانوں کی رضامندی سے ہوئی ہے ۔ اس لیے میری میڈیا سے گزارش ہے کہ ہماری پرائیویسی کا خیال رکھا جائے اور ایسے ذاتیات کو سر عام زیر بحث لانے والے کلچر کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے ۔ ‘‘ وہ ٹھہر ٹھہر کر اپنے مخصوص نرم اور پرسکون لہجے میں بول رہا تھا چہرے پر البتہ کوئی تاثر نہیں تھا ۔ اسے یہ گیم پلٹنا تھی لیکن غیرت کے ساتھ ۔ وہ بے غیرت نہیں تھا اور بیوی پسند تھی یا ناپسند لیکن اسے سر عام زیر گفتگو لانا اس کی حمیت کے خلاف تھا۔
’’سر آپ نے ابھی اپنے مرحوم والد کا ذکر کیا اور اس حوالے سے آپ کی چوہدری ظہور کی فیملی کے ساتھ دشمنی سے ہر کوئی واقف ہے ۔ آپ کی دادی ہمیشہ ان کو اپنے بیٹے کا قاتل بتاتی آئی ہیں اور وہ آپ کو دھوکے باز کہتے آئے ہیں ۔ پھر یکایک ان کی بیٹی سے شادی ؟ وہ بھی آپ کہہ رہے کہ دونوں خاندانوں کی باہمی رضامندی سے جبکہ کل تک وہ بھی آپ کے خلاف بولتے آئے ہیں اور آپ ان کے ؟ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ اب دونوں خاندان ایک ہو چکے ہیں ؟ ‘‘ ایک خاتون صحافی کے لمبے سوال پر قدرے خاموشی چھائی تھی۔
وہاں موجود تقریباََ ہر بندے کے دل میں یہی سوال تھا اور وہ یہ بات بہت اچھی طرح جانتا تھا ۔ سب اس سے کچھ ایسا نکلوانا چاہتے تھے جس سے وہ مسالے دار نیوز بریک کر سکیں ۔ مگر مقابل بھی ملک عمر وحید تھا ۔ اپنے باپ کی طرح بے حد مضبوط اعصاب ،پرسکون اور بے حد ٹھنڈے مزاج کا حامل تھا ۔ اسے غصہ دلا کر اس سے فائدہ اٹھانا ناممکن تھا۔
اب بھی وہ ہلکا سا مسکرایا تھا پھر گلا کھنکار دوبارہ مائیک پکڑا۔
’’سیاسی تناؤ اور ذاتی رشتے … آپ ان کو الگ الگ کیوں نہیں کر سکتے ؟ اس خاندان نے جو بھی ہمارے ساتھ کیا یا کر رہے ہیں وہ اس سیاست کے میدان میں شروع سے ہوتا آیا ہے ۔ اس میں میری بیوی کا یا دونوں طرف کی خواتین کا کوئی قصور نہیں ۔ اور دونوں خاندانوں کی اس روشن خیالی کی اور مورل ویلیوز کی آپ سب کو داد دینی چاہیئے کہ باوجود اتنے اختلافات کے انہوں نے اپنے بچوں کی رائے کا احترام کیا اور رشتہ کیا ۔ ‘‘ وہ مسکراتے ہوئے لفظوں کے داؤپیچ کھیل رہا تھا ۔
چوہدری ظہور ٹی وی پر سرخ چہرہ لیے سب سن رہا تھا۔
’’آئی تھنک کہ اس چیز کو ایپریشیٹ کیا جانا چاہیے، نہیں ؟ ‘‘ اب کہ وہ اپنی چمکتی آنکھوں کے ساتھ آخری باؤنسر مارتا مائیک پیچھے ہٹاتا ادھر سے نکلا تھا ۔ میڈیا والے اس کے پیچھے بھاگے تھے مزید سوالات کے لیے مگر وہ سن گلاسز لگاتا تیزی سے عفان کو ساتھ لیے گاڑی میں بیٹھ گیا تھا ۔ اسے جو کہنا تھا وہ کہہ چکا تھا ۔ وہ جانتا تھا وہ کبھی کھل کر سامنے آکر نہیں کھیلیں گے اور وہ ان کو اسی بل میں مارنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
’’کمال کردیا بھائی آپ نے واہ ۔ ایم ایمپریسڈ…‘‘ عفان پرجوش ہوکر بولا تھا جوابا وہ صرف مسکرایا تھا۔
’’تم یونیورسٹی جارہے ہو ؟ ‘‘ کچھ یاد آنے پر عمر نے اچانک اس سے پوچھا ۔ جوابا وہ خاموش ہوگیا تھا۔
’’جی گیا تھا۔‘‘ اس نے آہستگی سے جواب دیا۔
’’وہ نہیں آرہی؟‘‘ وہ عفان کی خاموشی کی وجہ سمجھ گیا تھا ۔
’’جی ، وہ نہیں آرہی اور وہ آنے بھی نہیں دیں گے اس کو اب۔‘‘ عفان نے بجھے بجھے لہجے میں کہا۔
’’ڈونٹ وری ۔ الیکشن سے فری ہوجائیں پھر اس کا بھی حل نکالتے ہیں کوئی نہ کوئی ۔ انشاللہ سب اچھا ہی ہوگا۔‘‘ اس نے عفان کا کندھا تھپتھپایا اور تسلی دی تھی ۔ جوابا وہ مسکرا کر سر ہلا گیا۔
’’آپ زینب کو کیوں نہیں آنے دے رہے یونیورسٹی؟‘‘ عفان نے اب اس سے پوچھا تھا۔
’’میں کب روکا اسے؟‘‘ وہ چونک کر اس کی طرف مڑا ۔
’’بلکہ بہتر ہے کہ وہ یونیورسٹی جوائن کرے ۔ تم شہر جاتے ہوئے لے جانا اسے بھی، ہاسٹل چھوڑ دینا ۔ ‘‘ وہ اب کچھ تسلی سے بولا تھا ۔
’’ بھائی آپ نے کیا اس رشتے کے بارے میں سوچا ہے ۔ کب تک ایسا چلے گا ؟ میری وجہ سے آپ بہت مصیبت میں آگئے اور زینب بھی۔‘‘ وہ شرمندہ سا پوچھ رہا تھا ۔
’’ابھی تو میں صرف الیکشن پر فوکس کر رہا ہوں ‘ کچھ نہیں سوچ رہا ۔ وہ لڑکی بہت امیچور ہے‘چھوٹی ہے ۔میرا اور اس کا کوئی میچ نہیں ۔ شی ڈیزروز سم ون بیٹر دین می ۔ ‘‘ وہ بہت کلیئر تھا۔
’’الیکشن کے بعد میں دیکھتا ہوں کہ کیا کرنا ہے ۔ بہرحال وہ لڑکی ہے، جیسا وہ چاہے گی میں ویسا ہی کروں گا۔‘‘
اس کے کہنے پر عفان بھرپور انداز میں مسکرایا اور فخریہ اس کی طرف دیکھا ۔ وہ جانتا تھا عمر وحید کو اور اسے فخر تھا کہ وہ اس کا بھائی ہے ۔ وہ جانتا تھا لاکھ نفرت کے باوجود وہ فیصلہ زینب کے ہاتھ میں دے گا ۔ اسے ایک عورت نے بیوہ ہو کر پالا تھا، ایک عورت نے اپنا بیٹا کھو کر اسے مضبوط بنایا تھا اور یہ بات اس کی ہر بات سے جھلکتی تھی ۔ زینب کو بھی وہ لڑکی ہونے کا پورا مارجن دینے کا ارادہ رکھتا تھا ویسے بھی اس کے ساتھ اس کی کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔
٭…٭…٭
زینب اس گھر اور اس گھر والوں کی سادگی دیکھ کر حیران تھی ۔ اس نے بچپن سے اپنے گھر میں بے جا پیسے کی ریل پیل، نمودو نمائش اور حسد اور جلن میں دکھاوے کی دوڑ دیکھی تھی ۔ ایک دوسرے سے زیادہ بہتر لگنے کی دوڑ ۔ بظاہر سب ایک تھے لیکن اندر سے سب کی دلوں میں کینہ تھا ۔ جو غیر موجود ہوتا اس پر بات کی جاتی ۔ مگر ادھر حیرت انگیز طور پر ایک بالکل مختلف زندگی تھی ۔
دادی، آنٹی اور ایک اور آنٹی اور وہ پانچ لڑکیاں ۔ مکمل ذمہ داری سے کام نبٹا کر کالج جاتی تھیں، نماز قرآن کی مکمل پابندی کی جاتی تھی ۔ سب مل کر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے ۔ سادہ سی بے ریا گفتگو ۔ اس کا وجود گو کہ ہونا نہ ہونا برابر تھا لیکن کسی نے بھی اس کو کچھ جتایا نہیں تھا ۔ اس کے ساتھ عام برتائوکیا جارہا تھا ایک سوائے دادی کے جن سے اس کو واقعی ڈر لگتا تھا ۔ وہ بے حد خاموش اور بارعب خاتون تھیں ۔ ان کے برعکس وہ عمر کی والدہ کے ساتھ سب سے زیادہ پرسکون محسوس کرتی تھی ۔ لڑکیوں کے شغل میلے میں ابھی وہ بیٹھنے سے جھجکتی تھی ، تین دن میں زیادہ گھل مل نہیں سکتی تھی ۔ اب بھی وہ اسی پچھلی سائیڈ پر بیٹھی تھی جو اس کی فیورٹ جگہ بن گئی تھی اور شاید کچھ دیر اور بیٹھتی مگر بھاری قدموں کی چاپ پر وہ بے اختیار سیدھی ہوئی ۔عین اپنے سر پر کھڑے عمر کو دیکھ کر بے اختیار اچھلی ۔ سیاہ کلف لگی شلوار قمیض میں وہ بے تاثر سا اس کی طرف دیکھ رہا تھا اور وہ یونیورسٹی کی سب سے پر اعتماد لڑکی کے اس بندے کے سامنے بے اختیار ہی اعصاب بوجھل ہوجاتے تھے ۔ یوں جیسے وہ بالکل عام سی ہو ۔ یہ کم مائیگی کا احساس پتہ نہیں اس بندے کو دیکھ کر کیوں جاگتا تھا ۔ شاید اپنی سلطنت کھونے کا دکھ سر اٹھانے لگتا تھا ۔وہ وہیں اس کے قریب چارپائی پر بیٹھ گیا تھا ۔
’’آپ کل سے عفان کے ساتھ یونیورسٹی دوبارہ جوائن کرلیں ۔ ‘‘ بڑی سنجیدگی سے اس نے گویا اسے نئی زندگی کی نوید سنائی تھی ۔ وہ ششدر، بے یقین سی اسے دیکھ رہی تھی۔
’’کیا واقعی؟‘‘ وہ اس عنایت پر حیران تھی ۔ جبکہ وہ قدرے سرجھکائے بنا دیکھے بھی گویا اس کی حیرت دیکھ رہا تھا ۔ کیا وہ اسے اپنے باپ دادا جیسا سمجھتی تھی جو دوسروں کے بنیادی حق بھی چھین لیتے تھے ۔ سوچ کر اس نے سر جھٹکا۔
’’جی واقعی اور یہ…‘‘ اس نے ہاتھ میں پکڑا شاپر اس کی طرف بڑھایا تھا۔
وہ ناسمجھی سے شاپر پکڑ کر اسے دیکھنے لگی ‘ گویا پوچھ رہی ہو کہ اس میں کیا ہے ؟
’’یہ فون ہے اور کچھ کیش اور اے ٹی ایم کارڈ ہے ۔ آپ کو ادھر ضرورت ہوگی ۔ اس سے آپ کو سہولت رہے گی ۔ باقی عفان بھی ہوگا وہاں ، آپ اس سے ڈسکس کرلیجئے گا کوئی مسئلہ ہوا تو۔‘‘ وہ ٹھہر ٹھہر کر اسے پتھر کا کر رہا تھا۔
’’جو بھی ہوا وہ ہوگیا ۔ میں چاہتا ہوں اس گھر کی باقی لڑکیوں کی طرح آپ بھی اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھیں ۔ آگے کیا کرنا ہے ، کیا فیصلہ لینا ہے وہ آپ پر منحصر ہوگا ۔ فی الحال آپ تعلیم مکمل کریں ۔ اس گھر میں رہتے ہوئے پسند کی شادی والا جھوٹ ہم زیادہ دیر تک نہیں نبھا سکتے ۔اس لیے بہتر ہے آپ ہاسٹل میں رہیں ۔ ‘‘ زینب کو پہلی بار محسوس ہوا تھا کہ اس کی آواز بہت خوبصورت ہے ۔ آج اس کے انداز سے وہ بالکل اپنی ماں جیسا سادہ، نرم مزاج، سنجیدہ لگ رہا تھا ۔
’’تھنیک یو۔‘‘زینب نے بے اختیار اسے اٹھتا دیکھ کر کہا تھا ۔ وہ آہستہ سے مڑا۔
’’یہ کوئی احسان نہیں ہے ۔ اس گھر میں جب تک آپ ہیں ‘ اس رشتے میں جب تک آپ بندھی ہیں ۔ میری زمہ داری ہیں اور میں غافل انسان نہیں ہوں۔‘‘ وہ اسی سپاٹ چہرے مگر نرمی کے ساتھ بول رہا تھا ۔
’’باقی گڈ لک…‘‘ آخر میں وہ شاید ہلکا سا مسکرایا تھا مگر وہ دیکھ نہیں سکی تھی کیونکہ وہ فورا مڑگیا تھا اور زینب شاپر پکڑے وہیں کھڑی تھی ۔ وہ اس کی زندگی میں آنے والا پہلا مرد تھا جو ڈائریکٹ شوہر بن کر آیا تھا ۔ اور اسے اعتراف ہوا تھا کہ وہ اس سے متاثر ہے یا کیا ہے لیکن جو بھی ہے‘ کچھ ضرور ہے ۔
٭…٭…٭