خاک ہو کے بھی: بینش احمد

’’کیا کہا؟‘‘ خدیجہ بے ساختہ اُٹھ بیٹھی۔
’’میرے نام چِٹھی آئی ہے؟ کس کے پاس ہے وہ چِٹھی۔ مجھے کیوں نہیں دی۔‘‘
’’راجیش دکان دار کو ڈاکیا دے گیا ۔میں نے تو اتنا ہی سنا کہتے ہوئے۔‘‘ پشپا کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
’’میں ابھی اُس سے چِٹھی لیتی ہوں۔‘‘ خدیجہ نے بے چینی سے کہا۔
’’اُس نامراد کو کیا حق تھا میری چِٹھی اپنے پاس رکھنے کا ۔ ‘‘یہ کہتے کہتے وہ کھڑی ہو گئی اور تیزی سے باہر جانے لگی۔ عورتوں نے اُسے روکنے کی کوشش کی۔
’’ ماسی! تُو بیمار ہے گر جائے گی۔‘‘
’’نہیں مجھے کچھ نہیں ہو گا۔‘‘
’’چاچی! تُو مت جا! میں راجیش کو بلا لاتی ہوں۔‘‘
’’نہیں میں خود ہی جاؤں گی۔اُس سے پُوچھوں گی اُس نے میری چِٹھی دبا کر کیوں رکھی؟‘‘ عورتیں اُسے روک نہیں سکیں وہ بھاگ گئی۔
گھر سے تھوڑی دور گلی کے سرے پر جہاں مکئی کے کھیتوں کے پاس ٹین کی جھونپڑی تھی ۔ وہاں سُریش، سُنیل کمار اور سندیپ کھڑے تھے ۔ وہ خدیجہ کو بدحواسی میں ننگے پاؤں بھاگتے ہوئے دیکھ کر حیران ہوئے ۔ خدیجہ اُنہیں اَن دیکھا کر کے نکل گئی ۔ تھوڑی دور جا کر کھڑی ہو گئی ۔ اُس وقت اُسے احساس نہیں تھا کہ یہی دہشت گرد ہیں۔
وہ واپس بھاگتی ہوئی اُن کے پاس آئی اور بچوں کی سی معصومیت کے ساتھ بولی۔
’’میری چِٹھی آئی ہے راجیش کے پاس ۔ اختر کی ہی ہو گی۔ میں ابھی اُس سے لے کر پڑھوں گی ۔ بھلا بتاؤ اسے میری چِٹھی اپنے پاس رکھنے کا کیا حق ہے؟‘‘یہ کہہ کر وہ پھر بازار کی طرف بھاگنے لگی۔
ان تینوں کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا ۔ حیران ہو کر وہیں کھڑے رہے۔ چڑھائی چڑھتے ہوئے گرتی پڑتی وہ ہانپ رہی تھی ۔ جب وہ راجیش کی دکان پر پہنچی تو وہاں ٹُوٹے ہوئے سانسوں سے شور مچا دیا۔
’’کہاں ہے میری چِٹھی ۔ دے مجھے جلدی کر۔‘‘ راجیش کے ہاتھ میں ترازو پکڑا رہ گیا ۔ وہ خوفزدہ ہو کر خدیجہ کی طرف دیکھنے لگا ۔ پارس ناتھ اور اجے سنگھ یادو بھی وہیں تھے ۔ ہڑبڑا کر کھڑے ہو گئے۔وہ جانتے تھے چِٹھی میں کیا لکھا ہے ۔ سبھی کے ہاتھ پاؤں پُھول گئے۔خدیجہ بِنا رکے بولے جا رہی تھی۔
’’ میرے اختر کی لکھی ہوئی چِٹھی تُو نے مجھے کیوں نہیں دی ۔ تیری اتنی ہمت کیسے ہوئی میری چِٹھی دبا کر رکھنے کی ؟ تُو اتنا بے غیرت ہے۔میرا منہ کیا دیکھ رہا ہے ۔ دے میری چِٹھی۔‘‘سبھی بُت بن گئے۔
راجیش نے آہستگی سے ترازو ایک طرف رکھا اور اپنی گَدی کے نیچے سے چِٹھی نکال کر اُس کی طرف بڑھائی ۔ خدیجہ چِٹھی نکال کر پڑھنے لگی ۔ مگر وہ پڑھتی کیسے۔ وہ پڑھنا نہیں جانتی تھی۔
’’تُو ہی پڑھ کر سُنا۔ مجھے تو پڑھنا نہیں آتا۔‘‘راجیش سے بولی۔
راجیش نے ہچکچاتے ہوئے چِٹھی لے لی۔ جو اُردو میں لکھی ہوئی تھی اور دھیمی آواز میں پڑھنا شروع کیا۔
’’پیاری ماسی جی! میں اختر کا عزیز کشمیر سے آپ کو چِٹھی لکھ رہا ہوں۔‘‘ راجیش چِٹھی پڑھتے پڑھتے رُک گیا اور بولا۔
’’یہ اختر کی نہیں نعمان کی چھٹی ہے۔‘‘
’’ہاں، ہاں نعمان میری بہو کا بھائی ہے ۔ تُو آگے پڑھ۔‘‘ راجیش پھر کانپتی آواز میں پڑھنے لگا ۔
’’ ہم سب وادی میں سے کیسے نکلے اور کیسے پہنچے بتا نہیں سکتے ۔مصیبت پر مصیبت آتی رہی۔اختر اور میں نے جہاں تک ہو سکا مِل کر حالات کا سامنا کیا۔پر کیا بتاؤں‘ کیسے بتاؤں۔کڑاکے کی سردی میں سڑک کے کنارے ہونے کی وجہ سے اختر کو نمونیہ ہو گیا ۔ ‘‘ راجیش بس اتنا ہی پڑھ سکا ۔ آگے پڑھنا اُس کے لیے محال ہو گیا ۔خدیجہ ایک ٹک اُس کی طرف دیکھ رہی تھی۔راجیش کا رنگ اُڑ گیا تھا ۔ اُس نے سہمے ہوئے خدیجہ کی طرف دیکھا۔
’’کیا بات ہے تُو چپ کیوں ہو گیا۔‘‘
’’وہاں جاڑے کے کنارے میں اختر کو نمونیہ ہو گیا ۔‘‘
’’ اب کیا حال ہے اُس کا؟ ٹھیک ہو گیا ؟ ‘‘ خدیجہ کی بہتر سالہ تجربہ کار آنکھیں جو بھانپ رہی تھیں ۔ دل اُسے ماننے پر راضی نہیں تھا۔وہ کچھ اور سننا چاہتی تھی۔
راجیش کو جیسے سانپ سونگ گیا تھا۔ پارس ناتھ اور اجے سنگھ یادو بھی گھبرا گئے تھے۔ خدیجہ نے بے چین ہو کر پھر کہا۔
’’کیا بات ہے راجیش! تُو بولتا کیوں نہیں۔میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتا ۔ اختر ٹھیک تو ہے؟‘‘انتہائی لاچار ہو کر وہ چیخی ۔
’’ تُو چِٹھی کیوں نہیں پڑھتا ۔ ادھر دے مجھے۔‘‘ اُس سے چِٹھی لے کر وہ اجے سنگھ یادو کی طرف مُڑی۔
’’لے بھائی تُو ہی پڑھ کر سُنا۔اُس کے منہ کو تو تالا لگا ہے۔‘‘
پر اجے سنگھ یادو کی ہمت بھی نہ پڑی کہ چِٹھی کو اپنے ہاتھ میں لیتا ۔ صرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا رہا۔اب خدیجہ کا ضبط بھی چُھوٹنے لگا۔اِسی وقت اُس نے شیشی بالا کو آتے دیکھا وہ اُس کی طرف بھاگی ۔ شیشی بالا کا خون رگوں میں جم گیا تھا ۔ وہ جانتا تھا چِٹھی میں کیا لکھا ہے ۔ اُسے خدیجہ کے سامنے پڑھنے کا حوصلہ نہیں تھا ۔ خدیجہ ایک دم چیخ پڑی۔
’’کیوں نہیں سناتا مجھے پڑھ کر …‘‘
’’ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟‘‘ شیشی بالا کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔خدیجہ اور بھی بے صبر ہو گئی۔
شیشی بالا رونے لگا۔بلکتے ہوئے بولا۔
’’ظلم ہو گیا بھابھی۔قہر ڈھے گیا۔قیامت آ گئی۔‘‘
خدیجہ کی جان نکلنے لگی وہ چیخی۔
’’کیا ہو گیا شیشی بالا۔ ایسی کیا بات ہو گئی۔ میرا کلیجہ پھٹا جا رہا ہے ۔‘‘
’’کیسے کہوں کہ اختر نمونیہ سے بچ نہیں پایا اور اللہ کو… پیارا ہو گیا ہے۔‘‘
سُنتے ہی خدیجہ بے ہوش ہو کر گر پڑی ۔ راجیش اور دوسرے لوگ اُسے سنبھالنے آگے بڑھے ۔شیشی بالا روتا جارہا تھا۔ خدیجہ کی کوٹھڑی سہمی ہوئی، ڈری ہوئی، سانس روکے ہوئے تھی ۔ خدیجہ آخری سانسوں پر تھی ۔ ڈاکٹر اندر پال اُس کے پاس یوں بیٹھا تھا جیسے ڈوب رہی کشتی کے پاس ملاح بیٹھا ہوا ہو ۔اوشا اور انورادھا دروازے کے پاس کھڑی رو رہی تھیں اور شیشی بالا ایک طرف دیوار کے ساتھ لگا دل ہی دل میں بھگوان سے معافیاں مانگ رہا تھا۔خدیجہ بڑبڑا رہی تھی۔
’’میرا اختر بڑا نازک طبیعت کا تھا ۔ میں نے اُسے بڑے لاڈ پیار سے پالا تھا ۔ جب اُس نے آنکھیں بند کی ہوں گی تو مجھے یاد کِیا ہو گا ۔ پر مجھے تو پتا بھی نہیں چلا۔ میں تو یہی سوچتی رہی میرے مرنے کا اختر کو بڑا دکھ ہو گا۔ اُس نے کب سوچا ہو گا کہ اُس کے مرنے کی خبر سُن کر مجھ پر کیا بیتے گی۔اب میں جینا نہیں چاہتی۔‘‘
’’اندر پال! اب مجھ میں سانس لینے کی بھی ہمت نہیں۔ میں جانا چاہتی ہوں، یہاں سے چلے جانا چاہتی ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اُس نے آنکھیں بند کر لیں۔
ڈاکٹر اندر پال رونے لگا۔ پیچھے کھڑی عورتیں بھی سسکنے لگی۔باہر بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ کھڑے بھی تھے۔کسی کو پتا نہیں تھا کہ خدیجہ اس جہان سے جا چکی ہے ۔ وہ سوچ رہے تھے ڈاکٹر اُسے دوا پلا رہا ہے ۔ اُن لوگوں میں پشپا، رِیتا بھی تھیں۔ایک طرف مرد لوگ تھے جن میں پارس ناتھ اور اجے سنگھ یادو بھی تھے۔تھوڑی دُوری پر راجیش کانگڑی لیے بیٹھا تھا ۔ سبھی دُکھی تھے۔ سب سے زیادہ غم نریندر پال کو ہوا ۔ وہ پتھر جیسا بے حِس بن کر اپنے ابا ڈاکٹر اندر پال کو روتے دیکھ رہا تھا ۔
اچانک ڈاکٹر نے اپنی آنکھوں پر سے ہاتھ ہٹایا تو اُس کی نظر نریندر پال پر گئی ۔ غصے سے اُس کی آنکھوں سے چنگاریاں پُھوٹنے لگیں۔اُس کا جسم کانپنے لگا ۔ وہ نریندر پال کی طرف بڑھا ۔ نریندر پال اُس کا ارادہ بھانپ گیا لیکن وہ اپنی جگہ سے ہٹا نہیں ۔ اُس کے نزدیک پہنچتے ہی ڈاکٹر نے اُس کے گال پر اتنی زور سے طمانچہ مارا کہ وہ منہ کے بَل دُور جا گرا ۔ جہاں وہ گرا وہاں ابھی سُنیل کمار، سندیپ، کشور راوت اور سُریش آکر کھڑے ہوئے تھے ۔ سُریش نے بے قابو ہو کر اپنی رائفل اوپر اٹھائی اور کشور راوت نے پسٹل پر ہاتھ ڈالا لیکن سنیل کمار اور سندیپ نے اِن دونوں کو روک دیا ۔ ڈاکٹر پھر آگے بڑھا اور نریندر پال کو لاتیں اور مُکوں سے پیٹنے لگا۔وہ گالیاں بھی دیتا رہا۔
’’طاعون زدہ خنزیر، بدمعاش میں تیری جان لے لوں گا ۔ تم لوگ وحشی بن چکے ہو۔لعنت ہے تم پر ۔ ‘‘نریندر مار کھاتے کھاتے پیچھے ہٹتا جا رہا تھا اور ڈاکٹر مارتے مارتے اور گالیاں بکتے اُس طرف بڑھتا جا رہا تھا جس طرف نریندر کے ساتھی کھڑے تھے ۔ عورتیں رونا بھول گئیں تھی۔شیشی بالا نے کوٹھڑی سے باہر آ کر یہ ہنگامہ دیکھا تو جلدی سے آگے بڑھ کر ڈاکٹر کو روکنے لگا۔
’’بس، بس بہت ہو گیا چھوڑو اسے پاگل مت بنو۔ یہ لڑکے گمراہ ہو چکے ہیں۔تم تو بے قابو مت ہو جاؤ۔‘‘ڈاکٹر نے مارنا بند کیا تو گلو بند سے آنسو پونچھتے ہوئے بولا۔
’’چاچا! اِنہوں نے میری ماں کو مار دیا ہے۔ تم تو جانتے ہو میرا اُن سے کیا رشتہ تھا۔‘‘
شیشی بالا نے اُسے چپ کرایا اور کہنے لگا۔
’’اِس کے گھر والا میرا جگری یار تھا۔ یہ میری سگی بہنوں سے بڑھ کر تھی ۔ میں سب سے ڈرتے ڈرتے گھبراتے اس کے گھر میں چائے،چاول، کوئلے اور نمک پھینکتا رہا۔ گرونانک کی قسم کون سا منہ لے کر جاؤں گا اُس رب کے سامنے ۔‘‘
نریندر پال منہ سے بہتا ہوا خون پونچھ رہا تھا۔اُس کے ساتھ دوسرے سب لوگ بھی اِن دونوں کی باتیں سن رہے تھے۔
’’میں چِٹھی نہیں دیتا تو اماں کچھ روز اور جی لیتی۔‘‘راجیش بولا۔
’’سب بھگوان کے ہاتھ میں ہے۔‘‘پارس ناتھ نے کہا ۔
’’اس میں تمہارا کوئی دوش نہیں۔‘‘
’’اماں کے کفن دفن کا کیا کرنا ہے؟‘‘اجے سنگھ یادو کی بات سُن کر سب چونک اُٹھے۔
’’اب تو جو کرنا ہے ہمیں ہی کرنا ہے۔‘‘پارس ناتھ بولا۔
’’مگر جو کرنا ہے اسلامی طریقے سے کرنا ہے۔‘‘ ڈاکٹر اندرپال نے کہا۔
’’میں کسی مسلمان کو ڈھونڈ کر لاتا ہوں۔جو اس کا جنازہ پڑھ دے باقی ہم کر لیں گے۔‘‘
اندر خدیجہ کو نہلا دیا گیا اور عورتوں نے اُسے کفن پہنا کر چارپائی پر لٹا دیا تھا ۔ انورادھا نے خدیجہ کا ماتھا چومتے ہوئے کہا۔
’’کیسی خوبصورت دِکھ رہی ہے خدیجہ…‘‘ اوشا بولی۔
’’شادی کے بعد جب میں اس محلے میں آئی یہ عمر کی ڈھلان پر تھی مگر پھر بھی سب سے زیادہ خوبصورت تھی ۔ گاتی بہت اچھا تھی۔ میں نے ہمیشہ اِسے اپنی ساس ہی سمجھا۔‘‘
ریتا بولی ۔
’’پیچاری کی قسمت دیکھو کس حالت میں مرنا تھا اِس نے۔‘‘
پُشپا نے کہا۔
’’ہم نے کبھی سوچا تھا کہ اِس کا کفن دفن بھی کرنا پڑے گا۔‘‘
دروازے پر دستک ہوئی۔ اوشا نے اٹھ کر دروازہ کھولا۔ وہاں پارس ناتھ کھڑا تھا۔اُس نے پوچھا۔
’’سب ہو گیا؟‘‘
’’ہاں سب تیار ہے۔‘‘ اوشا نے جواب دیا۔
ٹوٹی ہوئی دیوار کے ملبے پر شیشی بالا گُھٹنوں پر گردن دبائے ہوئے یوں بیٹھا تھا جیسے وہ اِس دنیا سے جا چکا ہو ۔ اُسے اپنا یار یاد آرہا تھا ۔ اُس کی شادی میں وہ باراتی بن کر گیا تھا۔ بڑی موج مستی کی تھی۔خدیجہ کو پہلی بار وہ دیکھ کر دیکھتا ہی رہ گیا تھا۔کتنی خوبصورت تھی وہ۔تب مشکل سے چودہ پندرہ برس کی ہو گی۔
دروازہ کُھلنے کی آواز سُن کر اُس کا دھیان ٹوٹا۔جنازہ اُٹھا کر باہر لا رہے تھے۔وہ کھڑا ہو گیا۔ڈاکٹر اور دوسرے لوگ بھی کھڑے ہو گئے۔ جب لوگوں نے جنازے کو کندھوں پر اٹھایا تو بے اختیار عورتیں رونے لگیں ۔ سبھی کے دل بھر آئے۔ اِن پانچوں کے بھی ۔خدیجہ کی کوٹھڑی بھی اپنی روح کو دور گلی کے پار مکئی کے کھیتوں اور قبر ستان تک جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
٭…٭
جنازہ پڑھ کر مٹی ڈالی جا رہی تھی۔ اچانک دُور سے گولیاں چلنے کی آواز سنائی دی۔ سب چونک اُٹھے۔دور نیچے پولیس جیپ سے اتر رہی تھی۔
’’ سندیپ! پولیس پھر تیرے پیچھے لگ گئی ہے۔‘‘وینی نے چیخ کر کہا۔
’’تُو یہاں سے بھاگ ہم اُنہیں روکتے ہیں۔ ‘‘ باقی سب لوگ منتشر ہونے لگے ۔پولیس گولیاں چلاتے چلاتے آگے بڑھ رہی تھی۔ ان پانچوں نے بھی ہتھیار نکال لئے۔اور پولیس کی فائرنگ کا جواب دینے لگے۔
بائیں طرف لڑکوں نے مورچہ بنا لیا اور دائیں طرف پولیس نے۔بیچ میں قبر پر مٹی ڈالی جا رہی تھی۔اور دونوں طرف سے کراس فائرنگ ہو رہی تھی۔
خاک ہو کے بھی مہکتے ہیں گلابوں کی طرح
چند چہرے جو مقدس ہیں کتابوں کی طرح
ختم شد