ناولٹ

خاک ہو کے بھی: بینش احمد

’’اچھا ہوا یہ بیمار ہے اگر ہم اسے مار دیں گے تو اسے مصیبتوں سے چھٹکارا ملے گا اور ہمیں پُنے۔‘‘کشور راوت دھیمے سے بولا۔
نریندر پال تیزی سے اُس کے پاس جا کر بولا۔
’’ایک بیمار لاچار بڑھیا کو مار کر پُنے کمانا چاہتے ہو؟‘‘
’’ہم اسے مارنے ہی تو یہاں آئے ہیں۔‘‘سندیپ نے کہا۔
’’ایک ہی گولی اس کا کام تمام کر دے گی ۔ ‘‘سُریش نے بندوق اُوپر اٹھائی اور بولا ۔
سنیل کمار نے ہاتھ بڑھا کر اس کی بندوق نیچے کرتے ہوئے کہا۔
’’میرے خیال میں یہ خود ہی مر جائے گی۔‘‘
نریندر پال بولا۔
’’میری بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ اس حالت میں اسے مارنا پاپ ہے۔بھگوان بھی تمہیں معاف نہیں کرے گا۔‘‘
’’سُنیل کمار ٹھیک ہی کہہ رہا ہے ۔ اس کے بچنے کے آثار نہیں ہیں ۔ کل تک یہ خود ہی مر جائے گی۔تمہارا کام بھی ہو جائے گا اور ہم پاپ کرنے سے بھی بچ جائیں گے۔‘‘
’’تم ہمیشہ بزدلی کی باتیں کرتے ہو۔‘‘کشور راوت نریندر پال پر جھنجھلا اٹھا۔
’’زخم بھی تو مجھے ہیں ۔ پھر بھی تم مجھے بزدل کہتے ہو۔‘‘نریندر پال نے اپنے کندھے کی طرف اشارہ کیا۔
خدیجہ اور اونچی آواز میں کراہنے لگی تھی۔
’’شاید اور پانی مانگ رہی ہے۔میں دیتا ہوں۔‘‘نریندر پال نے اُس کی طرف دیکھا اور بولا۔وہ خدیجہ کی طرف جانے لگا تو سندیپ غصے میں آ گیا۔
’’تُو اسی طرح اُسے پانی پلاتا رہا تو خاک مرے گی وہ۔چلو یہاں سے نکل چلو۔‘‘
’’نہیں میں پانی پلا کر آتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر نریندر پال نے جگ اُٹھایا لیکن سندیپ کی دہشت دیکھ کر رک گیا۔
’’خبردار! تُو نے جو اگر پانی پلایا ۔ ‘‘سندیپ نے بندوق اٹھا لی تھی۔
سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے نریندر پال نے جگ وہیں واپس رکھ دیا اور باہر نکل گیا۔ سب اُس کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔
٭…٭
ڈاکٹر اندر پال لیٹا تھا ۔ سویا ہوا نہیں تھا ۔ اُسے معلوم تھا کہ اُس کی بیوی بھی جاگ رہی ہے ۔ پر کوئی کچھ نہیں بول رہا تھا ۔ بچے سو رہے تھے۔مگر باہر کا دروازہ کھلا تھا کیونکہ نریندر پال نے ابھی آنا تھا ۔ وہ آئے گا تو ٹھیک، نہیں آئے گاتو بھی ٹھیک ۔ اُس کی فکر کرنے کا اب کوئی فائدہ نہیں سب بھگوان کے ہاتھ میں ہے ۔ پھر دروازہ کھلنے پر بند ہونے کی آواز کانوں میں پڑی ۔ وہ سمجھ گئے نریندر پال آ گیا ہے ۔ اوشا چپ چاپ اٹھی اور رسوئی میں جا کر کھانا پروسنے لگی۔
نریندر پال کھانے بیٹھ گیا ۔ ڈاکٹر اندر پال بھی آنکھیں مَلتے مَلتے اور ڈھیلی چال چلتے وہیں آ بیٹھا ۔ نریندر پال نے زخمی کندھے کو اور بھی اوور کورٹ کے نیچے چھپا لیا اور چپ چاپ کھانا کھاتا رہا۔
’’کیا بات ہے آج تُو بڑا چُپ چاپ ہے؟ کر اس فائرنگ میں کوئی زخمی تو نہیں ہوا؟‘‘ڈاکٹر نے پوچھا۔
’’نہیں ۔‘‘
’’آج اتنی دیر تک کہاں تھے؟‘‘ اوشا نے پوچھا۔
’’آج ہم اختر کی ماں خدیجہ کو مارنے گئے تھے ۔‘‘
ڈاکٹر اندرپال اور اوشا دونوں سَکتے میں آگئے۔اوشا دُکھی دل سے بولی۔
’’تم سب نرک میں جاؤ گے۔‘‘ ڈاکٹر اندرپال نے تڑپ کر کہا۔
’’نریندر میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ تُو میرے دوست کی ماں کو…‘‘
’’ سُنیے تو سہی۔جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا وہ خود ہی مر رہی تھی۔‘‘
’’کیا ہوا اُسے۔‘‘ وہ دونوں گھبرا گئے۔
’’بہت زیادہ بخار چڑھا ہوا تھا۔ ہم اُسے پانی پلا کر واپس آ گئے۔‘‘
’’میں اُسے دیکھ کر آتا ہوں۔ دوائی بھی دے آؤں گا۔‘‘ڈاکٹر اُٹھنے لگا۔
’’آپ مت جائیے۔سُریش وغیرہ نے دیکھ لیا تو ؟ ‘‘
ڈاکٹر رُکا نہیں ۔ وہ اپنا بیگ اٹھا کر چل پڑا۔
’’تُو پیچھے پیچھے جا نگرانی رکھنا۔‘‘اوشا نے نریندر پال سے کہا۔
ڈاکٹر اندر پال نے خدیجہ کے گھر میں جانے سے پہلے ادھر اُدھر دیکھا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا اور پھر جلدی سے اندر چلا گیا ۔ اُسے پتا نہیں لگا کہ گلی کے سرے پر ایک دیوار کی اوٹ میں کھڑا نریندر پال اُس پر نگاہ رکھے ہوا تھا ۔ اندر جا کر اُس نے دروازہ بند کیا اور خدیجہ کی طرف دیکھا ۔ خدیجہ بے چینی سے کراہ رہی تھی ۔ڈاکٹر کو ایک ایسی شرمندگی کا احساس ہو رہا تھا ۔ جو اُسے اندر ہی اندر نوچ رہی تھی۔آہستہ آہستہ آگے بڑھتا ہوا وہ اُس کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ اُس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا ۔ خدیجہ نے آنکھیں کھول دیں۔وہ جانے پہچانے ہاتھ تھے۔ وہ ایک ٹک ڈاکٹر کی طرف دیکھتی رہ گئی۔
’’کیا حال ہے ماں جی؟‘‘ ڈاکٹر نے پیار بھری روتی ہوئی آواز میں پوچھا۔
’’ماں بھی کہہ رہے ہو اور اتنے دنوں کے بعد میری خبر لینے آئے ہو؟‘‘خدیجہ نے دکھ بھری آواز میں کہا۔
’’ایک بار آ کر نہیں پوچھا کہ بد نصیب ماں جی اکیلی رہتی ہو گی۔تُو تو اختر کا جگری یار ہے ۔ ‘‘خدیجہ کا طعنہ ڈاکٹر اندرپال کے دل کے آر پار ہو گیا۔
’’ماں جی اب اور کچھ مت کہو ۔ میں نے سچ مُچ پاپ کیا ہے ۔ یہ زہر تو سارے ماحول میں پھیل چکا ہے ۔ ہم سب حیوان بن چکے ہیں۔کیا کِیا جائے؟ پر میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا۔‘‘وہ بیگ میں سے دوائیاں نکالنے لگا۔
’’نہیں اندرپال میں دوائی نہیں کھاؤں گی ۔‘‘خدیجہ نے کمزور آواز میں کہا ۔
’’میں جلدی سے جلدی مر جانا چاہتی ہوں ۔ مجھ سے اکیلا پن برداشت نہیں ہوتا ۔ بچوں کے بِنا کیا کرنا ہے جی کر ۔ اختر بچوں کو لے کر پتا نہیں کہاں در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہو گا۔‘‘
’’بھگوان اُن کے ساتھ ہے وہ جہاں ہوں۔لے تُو دوائی کھا۔ ڈاکٹر اندر پال نے کہا۔‘‘
’’نہیں مجھے نہیں کھانی ۔‘‘
’’میں تو تمہیں کھلا کر ہی جاؤں گا۔ٹھہرو زرا پانی لے آؤں۔‘‘ اُس نے جگ میں سے گلاس میں پانی ڈالا اور بولا۔
’’دوا نہیں کھانے کی تمہاری پرانی عادت ہے۔ ماں جی کیا مجھے پتا نہیں کہ دوا نا کھانے کے لئے تم کتنے بہانے کرسکتی ہو؟ پر آج میں تمہارا کوئی بہانہ نہیں چلنے دوں گا۔ لے منہ کھول۔‘‘
خدیجہ نے اُس کا ہاتھ ہٹا دیا اور روتے ہوئے بولی۔
’’دیکھ اندرپال میرے ساتھ زور زبردستی والی بات مت کر۔میں جینا نہیں چاہتی تو دوا کیوں کھاؤں گی ۔ لے جا اپنی دوا اور مجھے میرے حال پر چھوڑ دے۔‘‘
’’دیکھو ماں جی! دوا تو تمہیں کھانی ہی پڑے گی۔ورنہ میں اپنے یار اختر کو کیا منہ دکھاؤں گا؟‘‘اندر پال نے کہا۔
’’اختر یہاں کہاں ہے جو تجھے پوچھے گا؟‘‘
’’وہ یہاں نہیں ہے اس لئے تو میری ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔دوا کھلائے بنا میں نہیں جاؤں گا۔‘‘
’’تُو کچھ بھی کرلے میں نہیں کھاؤں گی۔‘‘یہ کہہ کر خدیجہ نے منہ پھیر لیا۔
ڈاکٹر رو پڑا۔سسک سسک کر بولا۔
’’میں تیرے پاؤں پڑتا ہوں ماں جی۔اب اور شرمندہ مت کر۔تجھے قسم ہے‘ لے دوا کھا لے ۔‘‘
ڈاکٹر نے ہاتھ بڑھا کر اُس کے منہ میں دوا اُلٹ دی ۔ پانی کا گلاس بھی اُس کے منہ سے لگایا۔خدیجہ نے دوا کھائی ۔ ڈاکٹر اپنے آنسو پونچھنے لگا۔خدیجہ کی آنکھیں بھی بھر آئیں تھی۔
ڈاکٹر نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’گھبرانا مت میں دوبارہ ضرور آؤں گا۔خدیجہ اُسے دروازے سے باہر جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔‘‘
٭…٭
دوسرے روز انہونی ہو گئی ۔ کشور راوت، سندیپ اور سُریش مکئی کے کھیتوں کے پاس ٹین کی بنی ہوئی جھونپڑی کے باہر بیٹھے اپنے ہتھیاروں کی صفائی کر رہے تھے ۔ یہ جھونپڑی اُس مسلمان گھرانے کی تھی جو اِن کھیتوں کا مالک تھا اور جو پچھلے برس یہاں سے ہجرت کر گیا تھا۔
ہتھیار صاف کرتے ہوئے اچانک سندیپ نے نریندرپال کی ماں اوشا کو چوری چوری خدیجہ کے گھر کی طرف جاتے دیکھا ۔ اُنہیں شک ہوا اور اُس کے پیچھے چل پڑے۔اوشا نے اُنہیں پیچھے آتے دیکھا تو بھاگی۔اب تو اِن تینوں کو پورا یقین ہو گیا کہ وہ خدیجہ کے پاس ہی جا رہی ہے۔ وہ اُس کے پیچھے بھاگنے لگے۔اوشا ٹوٹی ہوئی کھڑکی کے راستے گھر کے اندر داخل ہو گئی اور کھڑکی بند کر دی۔اتنی دیر میں وہ تینوں بھی وہاں پہنچ گئے ۔وہ دروازہ کھٹکھٹانے لگے۔اندر اوشا نے جلدی جلدی اپنی جیب میں سے دوا کی شیشی نکالی اور خدیجہ کو دوا پلانے لگی۔ خدیجہ ایسے ہی نڈھال تھی۔دروازے کی کھٹکار لگاتار آ رہی تھی۔اوشا نے جب دوا پلا دی تو اُس نے دروازہ کھول دیا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ اُس نے کہا۔
’’ہم سے پوچھے بنا آپ اندر کیسے چلی گئیں۔‘‘کشور راوت نے رعب دار آواز میں پوچھا۔
’’خدیجہ بیمار ہے۔ اُسے دوائی پلائی ضروری تھی۔‘‘اوشا نے کہا ۔
’’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اُسے کوئی دوائی نہیں دے گا۔‘‘
’’تم نے فیصلہ کیا ہے۔‘‘ اوشا نے کہا۔
’’میں تمہارا فیصلہ نہیں مانتی ۔ ‘‘
اُن کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آگے کیا کہیں ۔ آخر وہ نریندرپال کی ماں ہے۔اُسی وقت اوشا نے دیکھا اور بھی کئی عورتیں آ رہی تھیں۔ اُدھر اشارہ کرتے ہوئے بولی۔
’’وہ دیکھو وہ بھی آ رہی ہیں ۔تم کس کس کو روکو گے؟‘‘
اُن تینوں نے دیکھا پشپا، انو رادھا، ریتا، وغیرہ کئی عورتیں اِسی طرف آ رہی تھیں ۔ انو رادھا سنیل کمار کی خالہ لگتی تھی۔وہ درواز ے تک پہنچی تو اُس نے سریش کی بندوق کی نوک ہاتھ مار کر پیچھے ہٹا دی اور سب عورتیں بے دھڑک اُن کے پاس سے نکل گئیں۔اوشا نے دروازہ بند کر دیا۔وہ تینوں چپ چاپ وہاں سے چل پڑے۔
٭…٭
سبھی عورتیں خدیجہ کو گھیر کر بیٹھ گئیں۔خدیجہ لیٹی رہی ۔اُٹھنے کی ہمت اُس میں نہیں تھی۔انو رادھا نے اُس کے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’ماسی! ہم بہت شرمندہ ہیں۔ اتنے دنوں تک ہم تمہارے پاس نہیں آ سکیں۔‘‘
پشپا اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بولی۔
’’میرے لڑکوں نے انتہا کر دی ہے۔چاروں طرف دہشت پھیلا دی ہے۔گھر سے نکلنا مشکل ہے۔ہم سب ڈر گئے ہیں چاچی ۔‘‘
ریتا نے کہا۔
’’ایسی بات نہیں کہ تمہارا خیال نہیں آیا۔پر اپنی جان کا ڈر تو سبھی کو ہوتا ہے۔‘‘
خدیجہ اُن کی باتیں سن کر رونے لگی اور بولی۔
’’مجھے بھی ابھی پتا چلا کہ جان کا ڈر کیا ہوتا ہے۔ پہلے تو میں بھی کہتی تھی کہ کب اس جینے سے چُھوٹوں۔‘‘
’’ہم تمہیں مرنے نہیں دیں گے اماں…‘‘ اوشا نے پیار سے کہا۔
’’مجھے تو یوں لگتا ہے میں نے مر کر دیکھ لیا۔‘‘خدیجہ نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
’’ اکیلے رہنے سے ایسا ہوا۔‘‘ انو رادھا بولی۔
’’تم بھی اپنے بچوں کے ساتھ چلی جاتی تو اچھا تھا۔‘‘
’’میں نے سوچا پردیس میں جا کر کیا مرنا؟‘‘ خدیجہ نے کہا۔
’’ اپنے گھر میں مروں گی مگر جب اکیلے پن میں جان نکلنے لگی تو گھبرا گئی ۔ روح نکلنا بھی کوئی آسان بات نہیں۔‘‘
’’اختر بھائی کا بھی کوئی پتا نہیں لگا؟‘‘ ریتا نے پوچھا۔
پشپا کو اچانک کچھ یاد آیا اور بولی ۔
’’میں نے سنا ہے تمہارے نام کوئی چِٹھی آئی ہے۔لیکن لوگوں نے تم تک پہنچنے نہیں دی۔‘‘

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے