خاک ہو کے بھی: بینش احمد

خدیجہ گھر میں کچھ کھانے پکانے کی تیاری کر رہی تھی ۔ وہ چولہا پھونک پھونک کر نڈھال ہو گئی تھی ۔ کوئلے کچھ جلنے لگے تو اُس نے چائے کا پیکٹ اٹھایا ۔ دیکھا تو اس میں پتی ختم ہو چکی تھی ۔ وہ جھنجھلا اُٹھی۔خالی پیکٹ کو دور پھینک مارا ۔ چائے کے بغیر کیسے رہے گی ۔ کب تک اس طرح چلے گا۔اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
٭…٭
ڈاکیا سائیکل پر سوار خدیجہ کے گھر کی طرف جا رہا تھا ۔ گلی کے سِرے پر پہنچ کر وہ سائیکل سے اُتر گیا ۔ اس وقت راجیش کی دکان پر پارس ناتھ بھی کھڑا تھا اور من موجی طبیعت والا اجے سنگھ بھی۔
’’ڈاکیا صاحب ، نمسکار۔‘‘
ڈاکیے کو دیکھ کر اجے نے آواز دی۔
’’آج کس کے نام چِٹھی لے کر آئے ہیں؟‘‘
’’آپ کی نہیں ہے۔‘‘
’’ہمیں کون لکھے گا ۔میں نے تو یوں ہی پوچھ لیا تھا کہ کون قسمت والا ہے جسے کسی نے یاد کیا؟‘‘
’’اختر کی ماں خدیجہ کی چِٹھی ہے۔ اختر نے لکھی ہو گی۔‘‘ڈاکیے نے کہا۔
سبھی ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے-
اُس وقت راجیش نے دیکھا دور سے تین لڑکے آ رہے ہیں ۔ اُس نے آگے بڑھ کر ڈاکیے سے کہا۔
’’وہ دیکھو لڑکے آ رہے ہیں۔جلدی سے نکل جاؤ ورنہ وہ ساری چِٹھیاں چھین لیں گے۔‘‘
ڈاکیے نے کشور راوت، سنیل کمار اور سندیپ کو آتے دیکھا تو گھبرا گیا ۔ اُس نے خدیجہ کے نام کا لفافہ راجیش کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے کہا ۔
’’یہ لوگ خدیجہ تک چھٹی نہیں پہنچانے دیں گے۔تم اُسے دے دینا۔ میں جاتا ہوں۔‘‘
راجیش نے وہ لفافہ اپنی گَدی کے نیچے چھپا دیا ۔ سنیل کمار، کشور راوت اور سندیپ نے وہاں پہنچتے ہی راجیش کو گھیر لیا ۔ اُن کے ہاتھوں میں رائفلیں بھی تھیں۔
’’ڈاکیا کون سی چِٹھی دے کر گیا ہے۔دکھاؤ ۔‘‘
راجیش نے ایک طرف پڑا ہوا بھائی کا خط اُٹھا کر دکھایا۔
’’کشمیر سے آیا ہے؟‘‘
’’ہاں ۔‘‘
’’کیا کرتا ہے وہاں؟‘‘
’’ایک ہوٹل میں خانساماں ہے ۔ پچھلے ہفتے بھی اس کا خط آیا تھا ۔ وہ تو لکھتا ہی رہتا ہے ۔ پچھلے ہفتے جو خط آیا تھا وہ بھی دیکھ لو۔‘‘ بوری کے نیچے سے ایک اور خط نکال کر دکھایا ۔
’’کان کھول کر سن لو۔ جو ہم سے چالاکی کرے گا اُس کام تمام کر دیں گے ۔ ‘‘سُنیل کمار نے رعب ڈالتے ہوئے کہا۔ یہ کہہ کر تینوں اپنی اپنی رائفلیں سنبھالتے وہاں سے چل پڑے ۔ وہ دور موڑ تک پہنچ گئے تو اجے سنگھ یادو اپنی چھڑی اپنے ہاتھ پر مارتے ہوئے بولا ۔
’’یہ کیا تھانیدار ہیں کہ کس کی چِٹھی آنی ہے اور کس کی نہیں؟‘‘
’’ناک میں دم کر رکھا ہے ان غنڈوں نے جان سولی پر ٹانگ دی ہے۔یہ ہوتے کون ہیں ہم پر حکم چلانے والے۔‘‘ پارس ناتھ بولا۔
راجیش نے دونوں کو روکا۔
’’دھیرے بولو۔آج کل ایسی باتیں ہوا بھی اُڑا کر لے جاتی ہے۔ شکر ہے غریب خدیجہ کو اُس کے بال بچوں کی خیر خبر تو ملے گی۔‘‘
’’یہ خط اُسے پہنچائے گا کون؟‘‘پارس ناتھ نے پوچھا۔
’’آہستہ بولو پارس ۔ رات کو میں یہ چِٹھی اُس کی کھڑکی میں پھینک آؤں گا۔ ‘‘ راجیش نے کہا۔
’’اگر اُن سر پھروں کو خبر ہو گئی تو تمہاری دکان کو آگ لگا دیں گے۔‘‘اجے سنگھ یادو نے کہا۔
’’ان کے باپ کا راج ہے؟‘‘ راجیش طیش میں آگیا ۔ اسی وقت اُنہوں نے دیکھا شیشی بالا گلی میں سے نکل کر آرہا ہے ۔ اُسے دیکھ کر وہ سوچنے لگے کہ خدیجہ کی چِٹھی کے بارے میں اُسے بتائیں یا نہیں۔
’’کیا بات ہے۔مجھے دیکھتے ہی تم چپ کیوں ہو گئے۔اس طرح کیا گھور رہے ہو۔‘‘شیشی بالا نے قریب آ کر پوچھا-
راجیش نے بتایا کہ اختر کی چِٹھی آئی ہے۔
’’یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کسی اور کی لکھی ہوئی ہو ۔مجھے دکھاؤ وہ چِٹھی۔‘‘شیشی بالا نے کہا۔
راجیش نے وہ چِٹھی نکال کر شیشی بالا کو دی ۔ شیشی بالا نے بڑی احتیاط سے لفافہ کھولنے کی کوشش کی تا کہ وہ پھٹے نہیں ۔ چِٹھی باہر نکالتے ہوئے کہنے لگا-
’’خدیجہ تو خود پڑھ بھی نہیں سکتی ۔ اُسے تو پڑھ کر ہی بتانا پڑے گا ۔ کیسا زمانہ آگیا ہے ۔ دوسروں کی چِٹھیاں کھولنی پڑ رہیں ہیں ۔توبہ توبہ مجھے معاف کرنا ‘ میرے بھگوان ۔‘‘ وہ چِٹھی پڑھنے لگا ۔ اچانک شیشی بالا کے ہاتھ کانپنے لگے اور ہاتھ میں پکڑی ہوئی چِٹھی بھی ۔ اُس کی آنکھیں بھر گئیں ۔اُس نے راجیش کی طرف چِٹھی پھینکی اور اٹھ کر کھڑا ہوا۔وہ بڑبڑا رہا تھا۔
’’نہیں… نہیں… میں یہ چِٹھی پڑھ کر نہیں سنا سکتا ۔ یہ میرے بس کی بات نہیں۔مجھے بخش دو میرے بھگوان ۔ یہ تُو نے کیا کر دیا ۔ سب حیران پریشان تھے۔‘‘
شیشی بالا دو قدم چل کر پھر لوٹا اور اُنہیں کہنے لگا۔
’’تم بھی یہ چِٹھی لے کر خدیجہ کے پاس مت جانا ۔وہ مر جائے گی ۔ بد بخت بند کرو اس لفافے کو ۔ وہ کیسا نصیبا لے کر پیدا ہوئی ۔ہم مجبور انسان اُس کے واسطے کچھ نہیں کر سکتے۔ اے بھگوان! کِرپا کرو ۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے وہ ڈگمگاتے قدموں سے گھر کی طرف چل پڑا ۔ اجے سنگھ یاود، راجیش اور پارس ناتھ سبھی بُت بنے اُسے جاتے ہوئے دیکھ رہے تھے ۔ اُن کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔راجیش نے چِٹھی اپنے ہاتھوں میں لے لی۔
٭…٭
خدیجہ کا دم گُھٹ رہا تھا ۔ وہ کبھی کھڑکی کے قریب جاتی، کبھی دروازے کے پاس ۔ وہ کُھلے آسمان تلے جانا چاہتی تھی ۔ پھیپھڑے بھر کر سانس لینا چاہتی تھی ۔ دُور اونچے برف سے لدے پہاڑ دیکھنا چاہتی تھی ۔ درختوں کو جُھولتے ہوئے، بادلوں کو اُن سے لپٹتے ہوئے دیکھنا چاہتی تھی ۔ ہوا کے جھونکوں کو اپنے جسم کے ساتھ محسوس کرنا چاہتی تھی ۔ مگر خوف زدہ تھی ۔ کنڈی کی طرف ہاتھ بڑھاتی پھر کھینچ لیتی تھی۔ اُسے لگا وہ اس گُھٹن میں مر جائے گی۔
اچانک اُس نے دیکھا کہ چولہے کے پیچھے ایک طرف پلاسٹک کا لفافہ پڑا ہوا ہے ۔ حیران ہو کر اُس نے فوراً آگے بڑھ کر اُسے اٹھایا ۔ دیکھا تو اُس میں کلو بھر چاول، کچھ کوئلے، چائے کا پیکٹ اور ایک نمک کا پیکٹ تھا ۔ چولہے کے پیچھے کی چھوٹی سی کھڑکی کا پردہ کھلا ہوا تھا ۔ وہ سمجھ گئی کسی نے رحم کھا کر اُس کے لئے یہ چیزیں پھینکی ہیں۔ مگر ایسا رحم دل آدمی کون ہو سکتا ہے؟ اختر کا دوست ڈاکٹر اندر پال ہو سکتا ہے ۔ اُس کی بیوی اوشا ہو سکتی ہے لیکن نہیں ۔ اُن کا بیٹا نریندر پال انہیں ایسا ہر گز نہیں کرنے دے گا ۔پھر اور کون ہو سکتا ہے؟
شیشی بالا۔ہاں وہ ہو سکتا ہے۔بیچارا یہ چیزیں یہاں پھینکتے ہوئے کتنا ڈرا ہو گا ۔ خدیجہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ اسی وقت گولیاں چلنے کی آوازیں آنے لگیں ۔ اُس نے لپک کر چھوٹی کھڑکی بند کر دی۔
باہر سچ مچ فائرنگ ہو رہی تھی ۔ گولیاں چلاتے ہوئے پولیس والے آگے بڑھ رہے تھے ۔ وہ سندیپ کو پکڑنا چاہتے تھے ۔ سندیپ اور دوسرے لڑکے اُن کی گولیوں کا جواب دیتے ہوئے پیچھے پیچھے ہٹ رہے تھے ۔ وہ چاہتے تھے کسی طرح وہ گاؤں کی پچھلی ڈھلان اُتر جائیں تو پھر پولیس اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔ سندیپ اُن کے ہاتھ نہیں آ سکتا تھا ۔ لیکن اُس جنگل تک پہنچتے پہنچتے پولیس کی ایک گولی نریندر پال کے کندھے کو زخمی کر گئی ۔ پولیس نے جب دیکھا کہ سبھی دہشت گرد جنگل میں جا چُھپے ہیں تو وہ واپس چل دیے ۔ وہ جانتے تھے کہ سندیپ اب اُن کے ہاتھ نہیں لگنے والا ۔ اِدھر سبھی لڑکوں نے نریندر پال کو کسی طرح خفیہ اڈے پر پہنچایا ۔ اُسے پانی پلایا،اُس کی مرہم پٹی کی اور دوائی بھی کھلائی ۔پھر سب اِدھر اُدھر لیٹ گئے۔وہ تھک چکے تھے۔آج اُنہیں کچھ ذیادہ ہی بھاگنا پڑا تھا۔نریندر پال بولا۔
’’سندیپ! میں تمہیں ہمیشہ کہتا ہوں بچ کر رہا کرو۔‘‘
’’یہ پولیس مجھے کبھی نہیں پکڑ سکے گی۔‘‘سندیپ نے جواب دیا۔
سُنیل کمار بھی پاس ہی لیٹا تھا۔اُٹھ کر اپنی ٹوپی سیدھی کرتے ہوئے بولا۔
’’آج ہمارے ساتھ اگر ہندو جنگجو ہوتے تو اِن پولیس والوں کو جنگل میں گھیر کر ختم کر ڈالتے ۔ اب ہم اور جوانوں کو بھی بلائیں گے۔جب اُن کے لئے ٹھکانے کا بندوبست کر لیں گے۔‘‘
’’اب بہت ہو گیا۔ میری مانو اُس بڑھیا کو آج ہی ختم کر ڈالتے ہیں ۔ اب ہمارے لئے اس گھر سے بہتر اور کوئی ٹھکانہ نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’میں ابھی اُسے نرک میں پہنچا کر آتا ہوں۔‘‘سُریش جوش میں آ کر کھڑا ہو گیا۔
کشور راوت اٹھ کر کھڑا ہوا ۔
’’چلو ابھی چلتے ہیں۔‘‘
نریندر پال سے برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔ مگر وہ جانتا تھا اس وقت اس کی کوئی نہیں سنے گا۔پھر وہ چپ نہیں رہ سکا بولا۔
’’سنو ایک بار پھر سوچ لو۔‘‘
’’اب ہم تمہاری نہیں سنیں گے۔تم یہی بیٹھو ہم ذرا پُنے(ثواب) کما کر آتے ہیں‘‘ سُریش بولا۔
سب چل پڑے ۔ سنیل کمار نے نریندر پال سے کہا۔
’’تمہارا زخم ابھی تازہ ہے گھر چلے جاؤ۔‘‘
نریندر پال نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’ نہیں میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا ۔ ‘‘وہ بھی سب کے پیچھے چل پڑا۔
دور سے آتی کتے کے رونے کی آواز اندھیرے کو چیر کر گہری کھائیوں میں گر رہی تھی ۔ قصبہ سویا ہوا تھا ۔ ڈھلانوں اور پگڈنڈیوں پر بڑے بڑے پتھروں نے اپنے سانس روکے ہوئے تھے۔گھر،گھر رضائیوں اور کمبلوں میں گُھسے ہوئے لوگ جاگ رہے تھے مگر اُن کے اندر بے چینی کا بچھو اُنہیں ڈس رہا تھا۔
رائفلیں اٹھائے وہ پانچوں بے دھڑک قصبہ کی گلیوں کی طرف آ گئے پھر ندی پار کرتے ہوئے وہ مکئی کے کھیتوں میں سے ہو کر خدیجہ کے گھر باہر پہنچے اور دروازے کے سامنے کھڑے ہو گئے۔
’’دروازہ توڑ دیتے ہیں۔‘‘سُریش نے کہا۔
’’محلے والے جاگ جائیں گے تو ہم کچھ نہیں کر پائیں گے ۔ ‘‘کشور راوت نے سمجھایا۔
’’کس کی مجال ہے ہمیں روکنے کی۔ ‘‘نریندر پال بولا۔
’’جو آگے آئے گا اُسے گولی مار دیں گے ۔ ‘‘سریش اپنی اونچی آواز کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے بولا۔
’’اتنا کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ میں کھڑکی سے سلاخیں موڑ کر نکال دیتا ہوں ۔ پھر وہاں سے اندر جا کر دروازہ کھول دیتا ہوں ۔ اگر خدیجہ نے شور مچا دیا تو میں اُس وقت اُس کا گلہ دبا دوں گا۔‘‘ سنیل نے آگے ہو کر کہا ۔
وہ کھڑکی کی طرف گیا اور ایک ایک کر کے کھڑکی کی پانچوں سلاخیں موڑ کر باہر نکال دیں ۔پھر آہستہ آہستہ وہ اندر کود گیا۔
ایک نُکڑ پر خدیجہ رضائی میں دبکی ہوئی تھی ۔ دھیمے دھیمے اُس کے کراہنے کی آواز سنائی دی ۔ سُنیل کمار ایک لمحے کے لیے اُسے دیکھتا رہ گیا ۔ پھر اُس نے دروازے کے پاس جا کر کُنڈی کھول دی ۔ وہ چاروں اندر آگئے۔اُنہوں نے آگے بڑھ کر خدیجہ کی طرف دیکھا۔ اُس کے کراہنے کی آواز سُنی۔
’’بیمار ہے شاید۔‘‘نریندر پال بولا۔
سُنیل کمار آگے جا کر خدیجہ کے پاس بیٹھ گیا ۔ وہ کچھ بڑبڑا رہی تھی۔سُنیل کمار نے اس کے منہ سے کان لگائے اور پھر بولا۔
’’پانی مانگ رہی ہے ۔‘‘
نریندر پال نے ایک طرف پڑے ہوئے جگ میں سے گلاس میں پانی ڈالا اور خدیجہ کے پاس جا کر بیٹھ گیا ۔اُس کے منہ میں تھوڑا سا پانی ڈالا۔پھر اُس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دیکھا اور کہنے لگا۔
’’اِسے بہت تیز بخار ہے۔‘‘ کشور راوت، سندیپ اور سُنیل کمار اُسی طرف دیکھ رہے تھے۔