خاک ہو کے بھی: بینش احمد

پولیس کے سپاہی اب اختر کے گھر کے آگے سے گزر رہے تھے ۔ کھڑکی کی درز میں سے وہ بوٹوں کی حرکت دیکھ رہا تھا۔اُن کی آوازیں گویا دیواروں اور چھتوں کو ہِلا رہی تھیں۔جب وہ وہاں سے گزر گئے اور اُن کی آوازیں بھی اندھیرے میں ڈوبنے لگیں تو اختر کھڑکی سے ہٹ کر وہاں آ کر کھڑا ہو گیا۔جہاں گھر کے سب لوگ کھڑے تھے۔نزدیک ہی وہ چھوٹا موٹا سامان رکھا ہوا تھا جو اُنہیں لے جانا تھا-اختر سب کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
’’پولیس کے ڈر سے سب گھروں میں دُبک گئے ہیں۔‘‘
’’تم لوگ جلدی سے نکل جاؤ۔‘‘خدیجہ نے کہا۔
’’ماں! میں ان کو وہاں چھوڑ کر کے جلد ہی تمہیں لینے آؤں گا۔گھبرانا نہیں۔‘‘اختر صرف اتنا ہی کہہ پایا۔
خدیجہ نے انتہائی صبر اور ضبط سے اپنے آنسو روک رکھے تھے۔اُس نے صرف اتنا کہا۔
’’باتوں میں وقت مت گنواؤ جلدی کرو نکلو ۔‘‘
سب نے تھوڑا تھوڑا سامان اُٹھایا اور دروازے کی طرف بڑھے۔خدیجہ نے کھانے کے سامان کی پوٹلی حجاب کو دی۔
اختر نے بھیگی آنکھوں سے ماں کی طرف دیکھا۔
’’بیٹا! حوصلہ رکھ۔ مجھے یہاں کوئی خطرہ نہیں۔‘‘خدیجہ نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
’’حالات ٹھیک ہو جائیں گے تو واپس آجانا۔ وہاں تمہیں بڑی ذمہ داری اُٹھانی ہے۔جاؤ اب نکلو۔‘‘
اختر نے دروازہ کھول کر دوبارہ ماں کی طرف دیکھا۔خدیجہ نے اس کا ہاتھ چوم کر کہا۔
’’جاؤ اب پیچھے مڑ کر مت دیکھنا۔میرا تو صرف جسم ہی یہاں سمجھو -روح تو تم لوگوں کے ساتھ ہے۔جاؤ سُکھی رہو۔‘‘
ایک ایک کر کے سب اندھیرے میں نکل گئے۔خدیجہ دروازے پر کھڑی رہی۔جیسے کوئی پیڑ کی شاخیں کاٹ ڈالتا ہے۔ایک کے بعد ایک اسی طرح الگ ہو رہے تھے۔اُس نے جی کَڑا کر لیا تھا۔سُوکھی آنکھوں سے وہ سب دیکھ رہی تھی۔وہ پتھر بن چکی تھی۔دفعتاََ وہ گرنے لگی مگر دروازے کا پَٹ پکڑ کر اُس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور پُھرتی سے اندر جا کر دروازہ بند کر لیا-
اندر آتے ہی اُس کے صبر کا بندھ ٹوٹ گیا۔یکایک وہ پُھوٹ پُھوٹ کر رونے لگی۔چیخیں اونچی ہونے لگیں تو دونوں ہاتھوں سے منہ دبا لیا۔دیر تک وہ ایسے ہی روتی رہی۔آنسوؤں کا طوفان کم ہوا تو اُسے اکیلے پن کا احساس ہوا۔اُس نے چاروں طرف دیکھا اُسے ہر چیز سُن سی لگی۔آنکھوں میں خوف کی پرچھائیاں اُبھرنے لگیں۔دَم گُھٹنے لگا۔ وہ کانپنے لگی۔اُسے محسوس ہوا۔ اِس بے رحم تنہائی میں اُس کی جان نکل جائے گی۔وہ بستر کی طرف بڑھی وہاں پہنچتے ہی اُس نے جلدی سے رضائی اوڑھ لی-
٭…٭
روز کی طرح بالآخر سویرا ہو گیا۔معمول کی طرح پارس ناتھ ہاتھ میں ڈول تھامے دودھ دینے آیا اور دروازہ کھٹکھٹانے لگا۔ وہ حیران ہوا۔
پہلے تو یہ دروازہ پہلی دستک پر کُھل جاتا تھا ۔ آج اتنی دستکوں کے بعد بھی کوئی کھول نہیں رہا تھا ۔ بار بار کھٹکھٹانے کے بعد بھی جب کسی نے دروازہ نہیں کھولا تو اُس کے دل میں اندیشہ جاگا ۔ وہ زور زور سے ہاتھ مارنے لگا پھر وہ گھبرا سا گیا۔ ڈول کو ہاتھوں میں پکڑے وہ وہاں سے بھاگا۔ ڈھلان اُتر کر وہ کشور راوت کے گھر کے باہر پہنچا۔
’’کشیا او کشیا…‘‘اُس نے کشور کو آواز دی۔
کشور راوت نے کھڑکی میں سے جھانکا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘
’’نیچے آ، جلدی کر۔‘‘ وہ چلایا۔
کشور راوت سمجھ گیا کہ کوئی خاص بات ہے اُس نے کھڑکی بند کر دی۔ پارس ناتھ گھبرایا ہوا اُس کا انتظار کرنے لگا ۔ پیٹ میں پسٹل ٹھونستے ہوئے کشور راوت باہر آیا۔
’’چل جلدی چل! مجھے لگتا ہے اختر کے گھر سے سب لوگ چلے گئے ہیں۔‘‘پارس ناتھ بولا۔
’’چل دیکھیں۔‘‘کشور راوت نے حیرانی سے کہا۔
’’راستے میں نریندر پال، سُریش سب کو لے لیتے ہیں ۔ پہلے بھی ایک بار ایسے ہی پارس ناتھ نے اطلاع دی تھی ۔جب نور الٰہی اپنے کنبے کے ساتھ اندھیرے میں بھاگا تھا ۔‘‘ نریندر پال، سُریش، سندیپ، سنیل کمار، اور کشور راوت سب اکھٹے ہو کر اختر کے گھر کے باہر پہنچے۔سبھی کے دل کی دھڑکن بڑھ گئی تھی۔ وہ تو کب سے چاہتے تھے کہ یہ گھر خالی ہو جائے۔سندیپ نے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کیا۔ کسی نے کُنڈی نہیں کھولی۔
’’اندر سے کُنڈی لگی ہے۔‘‘یہ کہہ کر اُس نے پھر سے کھکٹھانا شروع کیا۔
بوڑھا شیشی بالا اور نریندر کا باپ ڈاکٹر اندر پال بھی وہاں آگئے تھے ۔ راجیش دکاندار بھی پُھرتی سے آگیا ۔ ایک طرف سے کچھ عورتیں بھی جھانکنے لگیں ۔ اب سندیپ کے ساتھ کشور راوت بھی دروازے پر ہاتھ مارنے لگا۔
’’عجیب بات ہے۔ گھر کے سب لوگوں نے خودکشی تو نہیں کر لی۔‘‘سُریش نے بندوق کندھے پر رکھتے ہوئے کہا۔
’’کیا بکواس کر رہے ہو۔‘‘ نریدنر پال نے برہمی سے کہا ۔
’’پھر کیا بات ہے اندر سے دروازہ کیوں بند ہے ؟ ‘‘کشور راوت نے پوچھا تو سب چُپ ہو گئے۔
سندیپ نے اِس چُپ کو توڑا۔
’’سب مل کر دھکہ دیتے ہیں کُنڈی ٹوٹ جائے گی۔‘‘
’’ٹھہرو ! دیکھو وہ ٹوٹا ہوا کھمبہ پڑا ہے ۔اُسے اُٹھا کر دروازے پر مارتے ہیں۔‘‘نریندر پال نے تجویز پیش کی۔
چاروں نے کھمبہ اُٹھالیا۔وہ دروازے کی طرف جانے لگے تو اچانک کُنڈی کھلنے کی آواز آئی وہ رک گئے ۔سب نے دیکھا کہ دروازہ کھلا تو خدیجہ سامنے کھڑی تھی ۔ کھمبہ اٹھائے ہوئے چاروں سکتہ میں آ گئے ۔ دوسرے سب لوگ بھی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے تھے ۔ خدیجہ کا چہرہ کسی مرد ے کی طرح اکڑا ہوا تھا ۔ اُس کی آنکھیں گویا پتھرائی ہوئی تھیں۔ اُسے لگا کہ چاروں طرف کے کھمبے اُٹھا کر اُسے مارنے آ رہے ہیں۔اب وہ بچ نہیں سکتی۔ سپاٹ نظروں سے اُس نے ان سب کی طرف دیکھا اور بے ہوش ہو کر گر پڑی۔
٭…٭
اگلے روز وہ پانچوں جنگل کے بیچوں بیچ بنائے ہوئے ٹھکانے پر گولیاں چلانے کی پریکٹس کر رہے تھے ۔وہ کھیتوں میں سے کدو توڑ کر لے آئے تھے ۔ اور باری باری اُنہیں گولیوں سے اُڑا رہے تھے۔اسی طرح وہ لوگوں کو ڈرا کر رکھتے تھے۔
’’بڑھیا بے ہوش ہونے کی جگہ مر جاتی تو ہمارا مسئلہ حل ہو جاتا۔‘‘سنیل کمار نے کہا۔
’’تم کہو تو میں ابھی اُس کو مار دیتا ہوں۔ وہیں دفن بھی کر دوں گا۔کسی کو کان و کان خبر بھی نہیں ہو گی۔‘‘سریش بولا۔
’’میں تو سوچتا ہوں اپنے ہاتھوں سے مارنے سے بہتر ہے اُسے پولیس اسٹیشن چھوڑ آئیں ۔وہ لوگ اُسے وہاں بھیج دیں گے جہاں اُس کے بچے بھی گئے ہیں ہم اتنا رسک کیوں لیں ۔‘‘سندیپ نے رائے دی۔
’’میرے خیال میں سندیپ ٹھیک رہا ہے۔ستر اَسی سال کی بڑھیا نے آج نہیں تو کل مرنا ہی ہے ۔ اُسے مار کر کیا کرنا۔‘‘کشور راوت نے آگے بڑھ کر کہا۔ نریندر پال بھی اُسے مارنے کے حق میں نہیں تھا۔وہ درخت سے نیچے اتر آیا اور بولا۔
’’ہم اپنے سر پر یہ پاپ کیوں لیں۔میرے خیال میں وہ اتنی ڈر چکی ہے اور اُسے اپنے بچوں کی جانے کا اتنا غم ہے کہ خود ہی تھوڑے دنوں میں مر جائے گی۔ دیکھا نہیں وہ ہمیں دیکھ کر کیسے بے ہوش ہو کرگر پڑی تھی۔‘‘
’’تم بھول رہے ہو کہ ہمیں اس مکان کی کتنی ضرورت ہے ۔ وہ مکان ہمارے قبضے میں ہوتا تو ہم اپنے ساتھیوں کو بچا لیتے ۔ اسی مکان کے پیچھے جو ڈھلان ہے وہاں سے وہ بھاگ سکتے تھے۔‘‘کشور راوت نے کہا۔
’’چلو کچھ روز اور انتظار کر لیتے ہیں۔اُسے نہیں مارتے مگر ہمیں قصبہ کے تمام لوگوں سے کہہ دینا چاہیے کہ اُس سے کوئی بات نہ کرے ۔ اُسے کوئی چیز نہ پہنچائی جائے ۔ تھوڑے دنوں میں وہ خود ہی بھوکی پیاسی مر جائے گی۔‘‘ سندیپ نے کہا۔
’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔کھانے پینے کا سامان ہی نہ ملے گا تو وہ زندہ کیسے رہے گی۔‘‘ سریش نے اس کی تائید کی۔
نریندر پال کو یہ بات بھی پسند نہیں آئی تو بولا
’’ایسی تکلیف دینے سے تو اچھا ہے اسے مار ہی دیا جائے۔‘‘
سندیپ طیش میں آگیا۔
’’نریندر پال! تُو ہر بات میں روڑے اٹکانے لگا ہے ۔ تجھے اس فساد میں شامل ہی نہیں ہونا چاہیے تھا ۔ کیا تُو نہیں جانتا کہ جب فساد ہوتا ہے تو کئی معصوم اور بے گناہ لوگ بھی مارے جاتے ہیں۔ہمارا مقصد کشمیر پر قبضہ کرنا ہے۔اتنے بڑے مقصد کے سامنے ایک بیمار بڑھیا کی کیا اوقات، کیا قیمت ہے اُس کی جان کی ۔‘‘
سندیپ کی پُرجوش باتیں سُن کر سریش اور بھی بے قابو ہو گیا ۔اُس نے اعلان کرتے ہوئے کہا۔
’’ہمیں نریندر پال کی باتوں پر توجہ نہیں دینی چاہیے۔میں ابھی جاتا ہوں اور سب گھروں اور دکانوں پر بول دیتا ہوں کہ اس بڑھیا کی کوئی مدد نہ کرے۔‘‘
سب کے چہروں پر جیسے نا قابل تسخیر ارادہ جھلک رہا تھا۔ لیکن نریندر پال اُداس تھا۔
٭…٭
چاولوں کا پانی اُبل کر باہر گرنے لگا تو خدیجہ چونکی ۔اُس نے پتیلی کو چولہے پر سے اُٹھا کر نیچے رکھا اور تھالی میں چاول ڈالنے لگی ۔ اُس کی بھوک مر چکی تھی۔جسم میں بے تحاشا کمزوری تھی ۔ پیٹ میں کچھ نہ کچھ جھونکنا ضروری تھا ۔ سو ایک لقمہ منہ میں ڈالا لیکن کھایا نا گیا۔
وہ اکیلی تھی ۔ اتنی اکیلی کہ اپنا وجود ایک بھوت جیسا لگنے لگا تھا۔چاولوں کا لقمہ دیر تک اُس کے منہ میں پڑا رہا۔
٭…٭
مندر سے نکل کر شیشی بالا بازار کی طرف چل پڑا ۔ اُس کی رفتار میں ایک جوش تھا ۔قدموں میں مضبوطی تھی۔ آج پوجا پاٹ کے بعد وہ ایک تذبذب سے باہر نکل آیا تھا ۔ اُس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اپنے دل کی بات مانے گا ۔ وہ جانتا تھا کہ بساطی کی دکان والا راجیش بھگوان پرست آدمی ہے۔وہ اُس کی بات ضرور مان جائے گا ۔
رات اُسے نیند نہیں آئی تھی ۔وہ اندھیرے میں چھت کی طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا رہا تھا ۔گولیوں کی لگاتار آوازیں اُس کے کانوں میں پڑتی رہی تھیں۔ اور وہ اپنے جگری یار اقبال کی بیوی، اپنی بھابھی کے بارے میں سوچتا رہا کہ کہیں خدیجہ کے پاس کوئلے ختم نہ ہو گئے ہوں ۔کوئلوں کے بغیر تو وہ سردی میں منجمند ہو جائے گی۔
وہ چاول، چائے، نمک یہ ساری چیزیں کہاںسے لائی ہو گی ۔کسی کو اُس کی پروا نہیں ۔ سب ہی ڈرتے ہیں ان غنڈوں سے۔اُس نے ٹھان لیا کہ وہ خدیجہ کو کچھ ضروری سامان پہنچائے گا۔
راجیش کی دکان پر آ کر اُس نے تھوڑی تھوڑی چیزیں خریدیں ۔اُن کو ایک گھٹڑی میں باندھا اور راجیش سے کہا کہ یہ گھٹڑی وہ خدیجہ کو دے آئے ۔راجیش کا رنگ فق ہو گیا۔اُس نے آس پاس دیکھا اور اس بات کی تسلی کی کہ اس وقت کوئی اور وہاں نہیں تھا۔ پھر اُس نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا۔
’’شیشی بالا جی! مجھے کیوں مرواتے ہیں آپ۔‘‘
’’تمہیں بھگوان کا واسطہ راجیش ۔ جاؤ دے کر آجاؤ۔کوئی کچھ کہے گا تو میرا نام لے لینا ۔ میں اب مرنے کے لئے تیار ہوں ۔ میں یہاں دکان کی نگرانی کروں گا ۔ جاؤ بھگوان تمہیں اِس کا صلہ دے ۔ ‘‘شیشی بالا نے منتیں کرتے ہوئے کہا۔
راجیش کو یوں لگا کہ اِس کام سے انکار کرنا پاپ ہے ۔ گھٹڑی اٹھا کر ڈرتا ڈرتا وہ چل پڑا ۔ اُس نے دور سے سُریش کو دیکھا ۔ اُس کے ہاتھ میں بندوق تھی ۔ راجیش نے اُس سے بچ کر نکلنے کی کوشش کی مگر پکڑا گیا۔
’’اوئے ، یہ کیا ہے تمہارے ہاتھ میں…؟‘‘
’’کچھ نہیں سامان ہے۔‘‘
’’ کہاں لے جا رہے ہو؟‘‘
’’اِدھر…‘‘ اُس نے اشارہ کیا۔
’’ اِدھر کدھر…‘‘
’’خدیجہ کے گھر…‘‘
’’تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا ۔ ‘‘ سریش نے سخت لہجے میں کہا۔
’’تمہیں اپنی جان کی فکر ہے یا نہیں۔کیا حکم دیا تھا ہم نے تمہیں۔‘‘
راجیش کی گویا جان نکلنے لگی تھی۔اُس سے بات نہیں ہو پا رہی تھی۔سُریش نے اُسے دھکے دے کر وہاں سے واپس بھیج دیا۔
٭…٭