خاک ہو کے بھی: بینش احمد

’’تُو جا نعمان! ہم صبح پانچ بجے سے پہلے تیرے گاؤں پہنچ جائیں گے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ نعمان نے کہا اور دروازے کی طرف چل پڑا ۔پھر ایک بار اُس نے ان کی طرف منہ موڑ کر دیکھا اور بولا۔
’’پھر اپنا ارادہ نہیں بدل لینا۔ شاید یہ تمہارے لئے آخری موقع ہے۔خدا پر بھروسہ رکھو۔روزی روٹی دینے والا وہی ہے یہاں بھی اور وہاں بھی دے گا۔‘‘یہ کہہ کر نعمان دروازے سے باہر نکل گیا۔
’’چلو جلدی جلدی ابھی سے اپنی تیاری شروع کر دو۔وقت بہت کم ہے۔‘‘نعمان کے جانے بعد اختر نے کہا۔
اُس کی بات سن کر سب اندر والی کوٹھڑی میں آگئے ۔اندر آ کر بوکھلائے ہوئے انداز میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ۔ اس طرح سے جانے کی تیاری کرنا ایک ایسا کام تھا جس کے بارے میں کبھی سوچا نہیں تھا۔
’’کیا کیا لے جانا ہے؟‘‘ حجاب نے پوچھا۔
’’جو بھی لے جانا ہے خود ہی اٹھا کے لے کر جانا ہے ۔ اندھیرے میں گھر سے نکلنا ہے کہ کسی کو خبر نہ ہو۔‘‘اختر نے جواب دیا۔
’’تم سبھی چلے جاؤ میں یہی رہوں گی۔‘‘
خدیجہ کی بات سن کر سبھی حیران ہو کر اُس کی طرف دیکھنے لگے۔
’’یہ تم کیا کہہ رہی ہو ماں…؟‘‘اختر نے گھبرا کر پوچھا۔
’’میں یہی رہوں گی۔‘‘ خدیجہ کا لہجہ فیصلہ کن تھا۔
’’پر کیوں…؟‘‘
’’مجھے یہیں مرنا ہے۔‘‘
’’یہاں سے نکل کر ہم سب بچ جائیں گے۔‘‘ اختر نے کہا ۔
’’مجھے کس سے بچنا ہے؟‘‘ بوڑھی خدیجہ نے کہا ۔
’’میں تو یہاں سے نکل کر بھی زیادہ دنوں تک جیوں گی نہیں ۔ مرنے کے لئے میں کہیں کیوں جاؤں؟ بہتر سالوں سے میں جس گھر میں رہ رہی ہوں وہیں مروں گی۔‘‘
اختر دل ہی دل میں تڑپ اُٹھا۔اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ماں کو کیسے سمجھائے۔اُس کا ہاتھ پکڑ کر بولا۔
’’ماں! تمہیں اکیلے چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہیں۔‘‘
’’بیٹا! میں تم لوگوں کے ساتھ رہوں گی تم مجھے ہی سنبھالتے رہو گے۔‘‘ خدیجہ نے کہا۔
’’میری بوڑھی ہڈیاں بھاگنے میں تمہارا ساتھ نہیں دے سکیں گی۔پردیس میں میری سانس نکل گئی تو میری لاش بھی تم پر بوجھ بن جائے گی۔‘‘
سبھی کا دل بھر آیا۔اختر رونے لگا پھر اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے بولا۔
’’ایسا نہ کہو ماں! اگر تم نہیں جاؤ گی تو ہم میں سے کوئی نہیں جائے گا۔سب ایک ساتھ مریں گے۔‘‘
یہ کہہ کر وہ ایک کونے میں چلا گیا ۔اور منہ چُھپا کر پھوٹ پھوٹ کے رونے لگا ۔ خدیجہ آہستہ آہستہ اُس کے قریب آئی اور اپنے آنسو پونچھ کر اُس کے سر پر ہاتھ پھرنے لگی ۔اختر اور ذیادہ سسکنے لگا۔
’’سمجھنے کی کوشش کر بیٹا۔‘‘ خدیجہ نے نرم لہجے میں کہا۔
’’میں اپنی زندگی جی چُکی ہوں تجھے ابھی جینا ہے ۔اِن بچوں کی خاطر جینا ہے۔اپنی ذمہ داری کو نبھانا ہے۔میری فکر چھوڑ ۔اِن بچوں کی سوچ ۔تیری بیٹیاں جوان ہو رہی ہیں۔نعمان نے ٹھیک کہا ہے کہ دوبارہ پتا نہیں موقع ملے گا یا نہیں ۔بچوں کو لے کر نکل جا۔‘‘
’’میں تمہیں اکیلا چھوڑ کر نہیں جاؤں گا ماں۔‘‘اختر نے گویا فیصلہ سنا دیا ۔
کسی کو کچھ سُوجھ نہیں رہا تھا۔بچے بھی بدحواس تھے۔حجاب کچھ سوچ کر آگے آئی اور بولی۔
’’اگر آپ نہیں جائیں گے تو میں بچوں کو لے کر اپنے بھائی کے ساتھ چلی جاؤں گی۔‘‘
’’کیا کہا؟‘‘
اختر کو حجاب کی بات سُن کر حیرانی ہوئی۔
’’تم وہاں جا کر در بدر ہو جاؤ گی اور ساتھ ہی بچے بھی۔‘‘
’’جان بچ گئی تو کوئی نا کوئی راستہ نکل آئے گا۔‘‘حجاب نے کہا۔
خدیجہ نے کہا۔
’’وہ ٹھیک کہہ رہی ہے اگر جان بچ گئی تو روزی،روٹی کا وسیلہ بھی بن جائے گا۔میں تمہیں یہاں رہنے نہیں دوں گی۔ تمہیں اپنے بچوں کا خیال رکھنا چاہیے تم ان کے باپ ہو ان کی ذمہ داری سے منہ کیسے موڑ سکتے ہو۔‘‘
اچانک گولیاں چلنے کی آواز آئی۔سب کے ہاتھ پاؤں پُھول گئے۔خدیجہ کانپتی ہوئی آواز میں بولی۔
’’آج پھر کراس فائرنگ ہونے لگی ہے۔‘‘
’’وہ لڑکے ٹھیک کہہ رہے تھے۔ پولیس آئی ہو گی اور انجمن تحفظ اسلام والوں کو پتا چل گیا ہو گا ۔‘‘ اختر کہنے لگا۔
’’تم لوگ جانے کی تیاری کرو ۔ میں تمہارے لئے چاول پکاتی ہوں ۔ ساتھ لے جانے لئے بھی کچھ کھانے کو چاہیے۔‘‘خدیجہ رسوئی کی طرف بڑھتے ہوئے بولی۔
’’تم بھی تیار ہو جاؤ ماں۔‘‘اختر نے پھر سے اسرار کیا ۔گولیاں چلنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔بچے ایک دوسرے سے لگ کر کھڑے تھے۔حجاب نے جلدی سے کچھ سامان اکھٹا کرنا شروع کر دیا۔اچانک گلی میں کچھ لوگوں کی بھاگنے کی آوازیں آنے لگیں۔ ڈرتے ڈرتے اختر نے تھوڑا سا کھڑکی کا پَٹ کھولا اور باہر دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔بھاگتے بھاگتے وہ لوگ اسی کھڑکی کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے ۔دونوں کی سانسیں پھولی ہوئی تھی۔وہ آپس میں کُھسر پُھسر کر رہے تھے۔
’’یہاں نہیں کھڑے ہونا چاہیے۔اُدھر چلتے ہیں۔تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔سُریش کی آواز آئی۔چلو چلیں۔‘‘
دونوں وہاں سے چل پڑے۔اختر کھڑکی سے پیچھے ہٹ گیا ۔اُدھر گلی میں سُنیل کمار اور سریش باتیں کرتے ہوئے ہوشیاری سے آگے بڑھتے جا رہے تھے۔
’’پتا نہیں یہ اختر کب اپنے گھر والوں کو لے کر دفعہ ہو گا۔اُس کا خالی گھر ہمارا اڈا بن سکتا ہے۔‘‘ سنیل کمار کی بات سن کر سریش بولا-
’’کچھ دنوں تک نہیں گیا تو چپ چاپ سب کو ٹھکانے لگا دیں گے۔‘‘
باتیں کرتے کرتے دونوں وہاں پہنچے جہاں نریندر پال، سندیپ اور کشور راوت پہلے سے موجود تھے۔
’’میں تو پہلے ہی بول رہا تھا کہ پولیس کو آج مت بلاؤ ۔‘‘ طیش میں آیا ہوا سندیپ کہہ رہا تھا۔
’’ہو گیا دونوں کا خاتمہ… ہمارے دو آدمی ہمارے لئے دو ہزار کے برابر تھے۔‘‘جوش میں کانپتا ہوا کشور راوت بولا۔
’’آخر ہماری تعداد سینکڑوں میں ہی تو ہے اور ہم مقابلہ کر رہے ہیں ہزاروں مسلمان مجاہدین کا مگر وہ نہیں جانتے کہ ہمارے ساتھ بھگوان ہے۔‘‘
’’جب جنگ ہو تو تعداد نہیں دیکھی جاتی۔‘‘سنیل کمار نے اپنی ٹوپی گھماتے ہوئے کہا۔
اور یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ ادھر کتنے اور اُدھر کتنے …‘‘ اِسی وقت نریندر پال نے کوئی آواز سنی ۔
’’چُپ کرو۔سنو کیسی آواز آ رہی ہے۔‘‘
سبھی چوکنے ہو کر سننے لگے۔صاف سننے کے لئے کھڑکی کی طرف بڑھے ۔اندھیرے میں کچھ سُجھائی نہ دے رہا تھا۔لیکن پھر پولیس کی آواز سنائی دینے لگی۔
’’پولیس آرہی ہے ۔ ‘‘ نریند پال بولا ۔
کشور راوت جوش میں آگیا۔
’’چلو اپنی بندوقیں نکال لیں۔‘‘
’’پاگل نہ بنو۔پہلے ہی ہمارے دو ساتھی ختم ہو چکے ہیں۔‘‘نریندر پال نے اُسے روکا۔
’’یہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔اس وقت ہمیں صبر سے کام لینا چاہیے۔‘‘سندیپ بولا۔
’’ہر وقت صبر، ہر وقت صبر، صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔باہر گُھپ اندھیرا ہے ہم دو چار پولیس والوں کو گولیوں سے بھون سکتے ہیں۔وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ہمیں اپنے ساتھیوں کی موت کا بدلہ لینا چاہیے۔‘‘سُریش نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
’’ہم تو اُن کے ہاتھ نہیں آئیں گے مگر اُنہیں بہانہ تو مل جائے گا۔گھروں کے اندر جانے کا ۔تلاشی لینا شروع کر دیں گے۔عورتوں، بچوں کو باہر اتنی سردی میں کھڑا کر دیں گے۔ ہمیں اس وقت چُپ چاپ اپنے گھر چلے جانا چاہیے۔‘‘ سندیپ نے تحمل سے جواب دیا۔
نریندر پال نے اُس کی تائید کی ۔ پولیس اس وقت ڈھلان کے پاس پہنچ گئی ہو گی۔
’’چلو!‘‘ کشور راوت غصے میں آکر بولا۔
’’نریندر پال، کبھی کبھی مجھے محسوس ہوتا ہے کہ تم بڑے بُزدل ہو۔‘‘سریش غصے سے چیختے ہوئے بولا۔
’’اس بات کا بعد میں تمہیں احساس ہو گا کہ میں نے تمہیں بچا لیا ہے ۔‘‘نریندر پال نے سنجیدہ لہجے میں جواب دیا۔
’’ ہم مجبور بھی ہیں۔ اپنے سے اتنی بڑی طاقت کا مقابلہ کر رہے ہیں۔‘‘سنیل کمار نے کہا۔
پھر اُس نے کان لگا کر پولیس کے بوٹوں کی آواز سُنی اور بولا۔
’’کافی نزدیک آ گئے ہیں چلو نکل چلیں ۔ وہ ہمیشہ اسی جگہ کی ٹوہ لے کر نکلتے ہیں۔‘‘
سبھی وہاں سے نکلنے لگے۔نریندر پال نے سندیپ کو اُس کے بازو سے پکڑ کر روک لیا،اور کہنے لگا۔
’’تم گھر نہیں جا سکتے۔اس لئے سیدھے اپنے ٹھکانے پر چلے جاؤ میں تمہاری ماتا سے مل کر آتا ہوں اور تمہارا کھانا لے کر تمہارے پاس پہنچتا ہوں۔‘‘
’’میں آج ماتا سے خود ملنا چاہتا ہوں۔‘‘ سندیپ نے کہا۔
’’جی چاہ رہا ہے کھانا بھی وہیں کھاؤں گا۔ ہوشیار ہو کر جانا پولیس تمہاری گھات میں ہے۔ تم فکر مت کرو۔‘‘
’’سب سے ذیادہ فکر مجھے تمہاری ہے۔‘‘نریندر پال نے کہا ۔
’’پولیس تمہارے لئے گشت لگاتی ہے تمہارے سر کی قیمت وصول کرنا چاہتی ہے۔‘‘
’’میرا سر اتنا سستا نہیں‘‘سندیپ نے جیب سے ٹوپی نکالی اور سر پر رکھتے ہوئے کہا ۔ابھی تک میں نے صرف دس مسلمانوں کو مارا ہے۔مجھے ابھی بہت کچھ کرنا ہے ابھی میرے سر کی قیمت اور بھی بڑھے گی۔‘‘
دونوں باتیں کرتے کرتے دوسرے لڑکوں کے پیچھے چل پڑے ۔پہلے سب نے اندازہ لگا لیا کہ پولیس کس طرف آرہی ہے پھر وہ دوسری طرف والی گلی میں داخل ہو گئے۔گشت کرتے کرتے پولیس مکئی کے کھیتوں کے پاس پہنچ گئی۔ اُن کی رائفلیں بھری ہوئی تھیں۔ اُن کے جوتوں کی ٹھوکروں سے گویا پتھروں کے دل سہمے ہوئے تھے۔درختوں میں پرندے گھونسلوں میں دبکے ہوئے تھے۔ گھروں میں لوگ اپنے لحافوں میں اور بھی سکڑ گئے تھے۔پولیس کے بوٹوں کی آوازیں انہیں چابکوں کی آواز کی مار جیسی لگ رہی تھی۔
٭…٭
شیشی بالا کو نیند نہیں آ رہی تھی ۔ اُس کے ہاتھ پیر ہر وقت کانپتے رہتے تھے ۔ اُسے محسوس ہوتا تھا جیسے قیامت آ چکی ہے یا آنے والی ہے ۔ وہ ہر وقت بڑبڑاتا رہتا تھا ۔ اُس وقت بھی وہ کھڑکی سے باہر جھانک کر پولیس کو گشت کرتے دیکھ رہا تھا ۔ پولیس والے جب گلی پار کر گئے تو کھڑکی کا پٹ جو ذرا سا کھلا تھا ۔ اُس نے بند کر دیا۔ اُس کی بیوی چولہے کے پاس انگیٹھی کے کوئلے دہکانے کی کوشش کر رہی تھی ۔
’’اُف بھگوان! کتنا اندھیرا ہے باہر کچھ بھی نظر نہیں آ رہا ۔اندھیرا چیخ رہا ہے۔ہر گلی میں ہر دل میں۔‘‘شیشی بالا اُس کی طرف دیکھ کر کہنے لگا۔
اُس کی بیوی پُشپا اُس کی طرف دیکھ نہیں رہی تھی سُن ضرور رہی تھی۔ دونوں اکیلے تھے۔بس ایک دوسرے کا ساتھ تھا۔اکثر وہ ساری ساری رات باتیں کرتے رہتے تھے ۔ بنا ایک دوسرے کی طرف دیکھے۔
شیشی بالا کہے جا رہا تھا
’’ پُشپا مجھ سے اب برداشت نہیں ہوتا -میری عقل ہی ماری گئی ہے۔یہ کیسے ہو گیا؟ یہ قیامت کیسے آگئی؟ آدمی شیطان بن گیا۔ بھگوان کا ڈر نکل گیا دلوں سے۔ تمہیں پتا ہے مسلمانوں کا عقیدہ ہے پرانے زمانے میں یہ ساری وادی پانی سے بھری ہوئی تھی ۔ایک جھیل کی طرح پانی ہی پانی تھا یہاں ۔ اب اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔میرا تو دم گُھٹنے لگا ہے اس اندھیرے میں۔‘‘
’’سب ہی ایک دوسرے سے ڈرنے لگے ہیں۔ کسی کو کسی پر وشواش نہیں۔‘‘پُشپا بولی۔
’’اسی لئے میں اختر کو کہہ آیا ہوں کہ بال بچوں کو لے کر نکل جاؤ۔ میں اب تمہاری رِکشہ نہیں کر سکتا۔‘‘شیشی بالا نے کہا۔
’’ان لوگوں نے ہمارے بچوں پر کتنے ظلم کیے ہیں۔‘‘پُشپا نیانگیٹھی میں پھونک مارتے ہوتے کہا۔
شیشی بالا اس کی بات سن کر چونکا۔
’’ان لوگوں نے، کن لوگوں کی بات کر رہی ہوتم؟ کیا اختر نے ہمارے بچوں کو مارا ہے ؟ کیا قصور ہے ان مسلمانوں کا جو گھر سے بے گھر ہو گئے ؟ تمہارے دماغ میں زہر بھر گیا ہے ‘ اختر بھی تو بچہ ہے۔ غریب آدمی چھوٹے چھوٹے بچوں کو لے کر انجان جگہ پر جانے پر مجبور ہو گیا ۔ اپنی بوڑھی ماں کو بھی سنبھال پائے گا یا نہیں۔ اوہ میرے بھگوان اُن پر اپنی کِرپا کرنا ۔ ‘‘اُس نے اپنے دونوں ہاتھ اُوپر اُٹھائے۔
اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔وہ سچے دل سے دعا کر رہا تھا کہ اُس کے جگری دوست اقبال کے بچے یہاں سے جا کر جہاں بھی رہیں۔سلامتی سے رہیں۔
٭…٭