خاک ہو کے بھی: بینش احمد

سہمی ہوئی پیلی دھوپ پہاڑوں پر اُتر گئی تھی۔ جھٹ پٹا چاروں طرف یوں چھانے لگا جیسے ڈر کی پرچھائیاں دل میں بیٹھنے لگتی ہیں۔ ہوا کے جھونکے جیسے بے چینی سے ڈرے ہوئے تھے۔سردی کی چُبھن چھری کی طرح جسم کے اندر گھس رہی تھی ۔ اختر بغلوں میں ہاتھ دبائے دفتر سے نکلا اور گردن جھکائے گھر کی طرف چل پڑا۔
اُس کے پاؤں مٹی کے ڈھیلوں اور چھوٹے چھوٹے پتھروں پر ٹیڑے میڑے پڑ رہے تھے ۔ وہ ایسے چل رہا تھا جیسے اپنے وجود سے بچ رہا ہو ۔ سیڑھیوں والی گلی اُتر کر وہ بازار میں آ پہنچا۔ بازار سنسان تھا ۔ دو کتے بجلی کے کھمبے کے پاس چپ چاپ بیٹھے ہوئے تھے۔ اختر کو دیکھ کر دُم ہلاتے ہوئے اُس کے پاس آگئے۔
وہ اختر کو پہچانتے تھے ۔ اختر کو اُس وقت ایسے لگا کہ وہ اُسے کاٹ کھائیں گے ۔ مگر وہ بنا بھونکے اُس کے ساتھ چل پڑے ۔ اختر رک گیا ۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اُس کے ساتھ چلیں۔ اُس وقت اُسے اپنے واقف کاروں پر بھی بھروسہ نہیں تھا یہ تو پھر جانور تھے۔ اُس نے اپنے پاؤں سے اُنہیں دور ہٹانا چاہا ۔ کتے پیچھے ہٹ گئے۔ اختر آگے بڑھ گیا۔
موڑ مڑتے ہی اُس نے اُن پانچوں لڑکوں کو دیکھا تو ایک دم ڈر گیا ۔ وہ پانچوں لڑکے اُسے انکل یا بھائی کہہ کر بلاتے تھے ۔ پر آج کل تُو، اوئے ، اے، ابے کہہ کر بلاتے تھے۔
ایک تو اُن میں نریندر پال تھا جس کو اختر نے گود میں کِھلایا تھا ۔وہ بہت نیک سیرت لڑکا تھا ۔شعر و شاعری کا بھی بہت شوق رکھتا تھا ۔ اختر کے پاس علامہ اقبال کے اشعار کا مفہوم سمجھنے آتا تھا۔ پر اب پتا نہیں اُسے یہ باتیں یاد بھی تھیں یا نہیں ۔ اب تو اُس کے چہرے سے چھلکتی اُس کی خاندانی شرافت بھی کم ہوتی جا رہی تھی۔
دوسرا لڑکا سندیپ تھا ۔ سرکار نے اُس کے سر کی قیمت ایک لاکھ روپے لگا رکھی تھی ۔ دیکھنے میں بھولا بھالا لگتا تھا،پر اُس نے کم سے کم دس کشمیری مسلمان شہید کیے تھے ۔ وہ ہمیشہ پولیس جیسی وردی پہنے رکھتا تھا اور پولیس کو چکما دیتا تھا ۔ ساری دنیا کی سیاست میں دلچسپی رکھتا تھا ۔ امریکا سے اُسے نفرت تھی۔ اُس کا باپ چُنگی کے محکمہ میں بڑا افسر تھا ۔ اِس لئے وہ اپنے گھر میں نہیں رہتا تھا۔
تیسرا سُریش تھا ۔ وہ ایک نمبر کا شیطان تھا ۔ چیتے جیسی آنکھیں، بُھوری داڑھی،اور سر پر ہر وقت کالی ٹوپی پہنے رکھتا تھا ۔ مزاج گرم تھا اُس کا‘ بندوق کے بغیر کبھی نہیں رہتا تھا ۔ رات کو بھی چھاتی پر رکھ کر سوتا تھا ۔ ہر مہم پر آگے رہنے کا اُس میں ولولہ تھا۔ بہتوں کی جان لے چکا تھا اور کسی کو مار کر پچھتاتا نہیں تھا ۔
چوتھا کِشور راوت تھا۔ تیز طرار ہر وقت گھبرایا ہوا، بے چین ۔ اپنے باپ کو بھی مارنے کی دھمکی دے چکا تھا (اگر اُس کی جاسوسی کی تو) ۔ مذہب کے لئے مرنے کی خواہش دل میں رکھتا تھا ۔ بندوق کی بجائے ہمیشہ بھرا ہوا پسٹل کمر میں ٹھونس کر رکھتا تھا اور اُس کا نشانہ کبھی خطا نہیں ہوتا تھا۔
پانچواں سُنیل کمار تھا ۔ اونچا، لمبا، ہمیشہ بے تُکی باتیں کرتا ہوا ۔ آنکھیں سُرخ مگر اُن سے درندگی نہیں بلکہ بُزدلی اور کم ظرفی عیاں ہوتی تھی ۔ آگے آگے رہنے کی کوشش کرتا تھا اور ہمیشہ پیچھے رہ جاتا تھا ۔ ہندو مذہب کے نام پر اُس سے کچھ بھی کروایا جا سکتا تھا ۔ بات کرتے ہوئے اپنی ٹوپی سے چھیڑ خانی کرتا رہتا تھا ۔وہ ایک بار گجرات سے ٹریننگ لے کر آچکا تھا۔
اِن پانچوں کو پورا یقین تھا کہ جلد ہی کشمیر بھارت کا حصہ بن جائے گا اور یہ بھی آنے والی ہندو سرکار کے اہم عہدہ دار بنیں گے ۔ پانچوں آج کل اپنے آپ کو اِس قصبے کا مُختار کُل سمجھتے تھے ۔ جو بھی یہ کہہ دیتے اُس کی مخالفت کوئی نہیں کرتا تھا ۔ اِن کے تعلقات بھارتی جاسوسوں کے ساتھ تھے ۔ اِن کے پاس رائفلیں، کارتوس اور ہینڈ گرینیڈ تھے ۔ اِن کے گھر والوں کو بلا شبہ مسلمان تنظیموں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں تھی ۔ ذیادہ تر کو نفرت ہی تھی لیکن وہ یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ اِن کے جوان بیٹے، اِن کی آنکھوں کے تارے، اِن کے جگر کے ٹکرے ایک ایسے خطرناک راستے پر چلیں جہاں ہر قدم پر موت کھڑی تھی مگر وہ کیا کرتے ۔ اِن لڑکوں کو سمجھا سمجھا کر تھک چُکے تھے ۔ اختر اِن لڑکوں کی ہر بات جانتا تھا ۔ اِس وقت وہ کچھ بھی کر سکتے تھے ۔ اِسی لئے اُنہیں ایک ساتھ دیکھ کر اُس کا دل دہل گیا تھا ۔ اختر کو دیکھ کر ان پانچوں نے آپس میں نظریں ملائی اور آنکھوں آنکھوں میں ٹھان لیا کہ جو بات اُنہوں نے سوچی ہے اُس پر عمل کریں۔ جب اختر ڈرتے، ہچکچاتے اُن کے پاس سے گُزر گیا تو پانچوں اُس کے پیچھے چل پڑے ۔ ڈھلان اُترتے اُترتے اختر کے کانوں میں قدموں کی آواز آئی تو وہ کانپ اٹھا ۔ اُس نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔ اُسے مڑتے دیکھ کر سُریش جھٹ بول پڑا۔
’’آج رات بہت سے ہندو جنگجو یہاں پہنچے والے ہیں۔‘‘
کشور نے بھی گویا لقمہ لگایا۔
’’اُن میں بہت سے غیر ملکی بھی ہیں۔‘‘
اُن کا مقصد اختر کو ڈرانا تھا۔ اُن کی تمام باتیں جھوٹی تھیں۔
’’آج سچ مچ ہندو گروپوں کو آنا ہے۔ یہ سب بھارتی فوج کے تربیت یافتہ لوگ ہیں ۔ اِن کا مقصد مسلمانوں کو چُن چُن کر مارنا ہے۔‘‘سُریش نے کہا ۔
’’اگر انجمن اتحاد اسلام کو پتا چل گیا تو کراس فائرنگ ہو گی ۔ بھارتی پولیس کی مدد کے لئے ہمیں تیار رہنا چاہیے-‘‘
وہ دیکھ رہے تھے کہ اختر پر اُن کی باتوں کا اثر ہو رہا ہے۔ سنیل کمار نے کہا۔
’’اُس محلے میں سبھی لوگوں سے کہہ دینا چاہیے کہ اُن کی مدد کے لئے تیار رہیں۔جو اُن کی مدد نہیں کرے گا اُسے غدار سمجھا جائے گا۔‘‘
اختر کے چہرے کا رنگ اُڑتا جا رہا تھا۔ہاتھ پاؤں کی طاقت کم ہوتی جا رہی تھی۔اب اُس میں اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ پیچھے مڑ کر دیکھ سکے ۔آخری موڑ مُڑ کر جب وہ گھر کے پاس پہنچا تو وہ پانچوں رُک گئے ۔ اُنہوں نے اندازہ لگایا تھا کہ اختر پر اُن کی باتوں کا کتنا اثر ہوا تھا ۔ اختر گھر کے سامنے رک گیا ۔ دستک دیتے ہوئے اُس نے پیچھے دیکھنے کی ہمت نہیں کی ۔ اُس کے دس بارہ برس کے بیٹے تکی حُسین نے کھڑکی سے گردن نکال کر باہر جھانکا ۔ اُس نے اختر کو دیکھا اور موڑ پر کھڑے اِن پانچوں لڑکوں کو بھی۔اُس نے فوراً اپنی گردن اندر کر لی۔
’’بابا آگئے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اُس نے دروازہ کھول دیا ۔ دروازہ کھلا تو اختر نے اندر جانے سے پہلے ان پانچوں کی طرف دیکھا وہ سبھی اس کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ اختر جھٹ اندر چلا گیا ۔ اُس کی ماں خدیجہ، بیوی حجاب، دو بیٹیاں مومنہ اور امبرین اور بیٹا تقی حسین اُسے گھیر کر کھڑے ہو گئے۔وہ سبھی خوفزدہ تھے۔
’’اب ہم یہاں نہیں رہ سکتے ۔‘‘ اختر بڑبڑانے لگا۔
’’قصبے کے سبھی لڑکے، لڑکے ہی نہیں دہشت گرد میرے پیچھے پڑ گئے ہیں۔وہ ہمیں نکال کر ہی دم لیں گے۔‘‘
اُس کی ماں اُس کے پاس بیٹھتے ہوئی بولی۔
’’وہ سوچتے ہیں کہ سبھی مسلمان یہاں سے چلے گئے ایک ہم ہی کیوں یہاں ٹِکے رہ گئے ہیں۔‘‘
’’یہی بات ہے شاید۔ وہ ہمیں آرام سے بیٹھنے نہیں دیں گے کل رات کی طرح آج بھی پتھر ماریں گے۔‘‘ اختر نے کہا۔
اُس کی بیگم حجاب نے روہانسی ہو کر کہا۔
’’وہ مُشٹنڈے اتنا بھی نہیں سوچتے کہ ہم کہاں جا سکتے ہیں ۔ ہم غریب لوگ ہیں دربدر ہو جائیں گے۔‘‘
’’وہ ہمارے بارے میں کیوں سوچیں گے؟‘‘ اختر چِڑ کر بولا۔
’’یہ کیا ہو گیا ہے ان لڑکوں کو پہلے انہوں نے کبھی ایسی آفت نہیں اٹھائی تھی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے خدیجہ نے کٹورے میں چائے ڈال کر اختر کو دی۔
’’امی! اب یہاں سے چلے جانا چاہیے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اختر نے چائے کا گھونٹ بھرا ۔ اسی وقت باہر کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔
سب دہل گئے۔بچوں کے چہروں کا رنگ سفید پڑھ گیا۔کمرے میں سناٹا چھا گیا۔دروازہ کھٹکٹھانے کی آواز پھر آئی ۔ اختر نے چائے کا کٹورا ایک طرف رکھا اور کانپتی ٹانگوں کے ساتھ اُٹھا ۔ پھر کھٹ کھٹ کی آواز سنائی دی۔وہ دھیرے دھیرے آگے بڑھا۔سب اُس کے پیچھے چل دیے ۔ اُس نے اُنہیں وہیں رُکنے کا اشارہ کیا ۔سب رُک گئے ۔ وہ یوں دروازے کی طرف جا رہا تھا جیسے موت کے منہ میں جا رہا ہو ۔ دروازے کے پاس پہنچ کر اُس کی ہمت نے پھر اُس کا ساتھ چھوڑ دیا ۔اُس نے دروازے کے پیچھے سے جھانک کر دیکھا ۔ کچھ نظر نہیں آیا ۔آخر اُسے دروازہ کھولنا ہی پڑا۔ اُس کے سامنے نعمان نے بلاتاخیر اندر آ کر کُنڈی لگا دی ۔اُسے دیکھ کر سب کی جان میں جان آئی۔ سب پھر اُس کے پیچھے آگئے۔
’’ہم نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے-‘‘نعمان نے آگے ہوتے ہوئے کہا-
’’ایک ٹرک کا بندوبست ہو گیا ہے ۔سویرے پانچ بجے ہم لوگ نکل جائیں گے تاکہ گاؤں میں کسی کو بھنک نہ پڑے۔‘‘
’’جاؤ گے کہاں۔؟‘‘ خدیجہ نے پوچھا۔
’’آزاد کشمیر ۔‘‘
’’وہاں رہو گے کہاں؟‘‘
’’پہلے جموں سے تو نکلیں۔کوئی تو ٹھکانہ ملے گا ۔ ‘‘نعمان نے جواب دیا۔
’’سُنا ہے حکومت نے یہاں سے جانے والوں کے لئے آزاد کشمیر میں کیمپ بنا دیا ہے۔‘‘
’’اپنا گھر چھوڑ کر وہاں کیسے رہو گے؟ کیا کرو گے؟‘‘خدیجہ ابھی بھی تذبذب میں تھی۔
’’جان بچ گئی تو کچھ بھی کر لیں گے۔‘‘ نعمان نے کہا۔
پھر چند لمحوں کے توقف سے بولا-
’’کس نے سوچا تھا کہ اپنا گھر چھوڑنا پڑے گا ۔ میں تو آزاد کشمیر ضلع باغ میں ایک ہی بار گیا ہوں ۔ اب پورے خاندان کو لے کر جانا ہے۔ٹرک والا پانچ ہزار روپے میں مانا ہے۔اگر تم لوگ بھی چلتے ہو تو آدھا آدھا کر لیں گے۔‘‘
’’میں نے بھی جانے کی ٹھان لی ہے۔‘‘ اختر نے کہا۔
’’ان لڑکوں کی وجہ سے بڑا ڈر لگتا ہے۔اس قصبے میں صرف ہمارا مسلمانوں کا گھر رہ گیا ہے۔دہشت گردوں نے اب ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا ہے۔‘‘
’’پھر تو تمہیں ضرور نکل جانا چاہیے۔‘‘ نعمان نے کہا۔
اُس کی بیوی حجاب اب چُپ نہیں رہ سکی بولی۔
’’ہمارا جانا اتنا آسان نہیں ۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ نعمان نے پوچھا ۔
’’ہمارے پاس تو ٹرک والے کو دینے کے لئے بھی پیسے نہیں۔‘‘ حجاب نے بتایا۔
’’تین مہینے پہلے تو یہ نوکری پر لگے ہیں۔اس سے پہلے دو برس تک بیکار بیٹھے رہے۔گھر میں جو کچھ تھا سب ختم ہو گیا۔اِس وقت تو ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔اگر کچھ ہوتا تو ہم کب کے نکل گئے ہوتے۔‘‘
’’چلو میں ٹرک کے پیسے نہیں لیتا۔ تم میری بہن ہو تمہارے لئے اتنا تو کر سکتا ہوں۔تم لوگوں کا اب یہاں رہنا ٹھیک نہیں۔‘‘ نعمان نے سمجھاتے ہوئے کہا-
’’میرا دل کہتا ہے ہم لوگوں کو یہاں سے نہیں جانا چاہیے۔‘‘ خدیجہ نہ کہا۔
’’کیوں؟‘‘ نعمان نے پوچھا۔
اِسی وقت دروازے پر دستک ہوئی۔سب چونک اُٹھے۔دل کی دھڑکنیں تھم سی گئیں۔اختر نے کانپتے ہوئے دروازے کی درز میں سے دیکھنے کا جتن کیا پر کچھ دکھائی نہ دیا۔دوبارہ کھٹ کھٹ ہوئی۔اُسے کنڈی کھولنی پڑی۔ شیشی بالا نے پُھرتی سے اندر آ کر کنڈی لگا دی۔
کنٹوپ پہنے ہوئے لمبی سی داڑھی کے ساتھ وہ عجیب سا لگ رہا تھا ۔اُس کی آنکھوں سے دہشت جھلک رہی تھی ۔ اُس کا جسم کانپ رہا تھا ۔ وہ اختر کے والد کا جگری دوست تھا ۔ اِس گھر میں اُسے ہمیشہ اپنا بزرگ سمجھا گیا تھا۔
’’چچا جی آپ؟‘‘ اختر نے حیرانی سے کہا۔
’’مجھے چچا مت کہہ…!‘‘
شیشی بالا نے گلو گیر لہجے میں کہا۔
’’تمہارے منہ سے چچا جی سُن کر آج مجھے شرمندگی کا احساس ہو رہا ہے۔ کیا ہو گیا ہے زمانے کو؟کیا آگ لگ گئی ہے، بھائی بھائی کا دشمن بن گیا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر اُس نے خدیجہ کو دیکھا تو ایک لمحے کے لئے دیکھتا ہی رہ گیا۔اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’بھابھی تم تو گواہ ہو۔‘‘وہ خدیجہ کے پاس جا کر بولا۔
’’بہتر سالوں تک میں نے تمہیں سگی بہنوں سے ذیادہ عزت دی ہے ۔ اقبال میرا لنگوٹیا یار رہا تھا۔اُس کے جانے کے بعد بھی میرا تمہارا یہ رشتہ نہیں ٹوٹا۔ لیکن وہ مجھ سے ذیادہ خوش قسمت تھا۔مجھ سے پہلے چلا گیا۔اُسے یہ دن تو نہیں دیکھنا پڑے۔بڑا کلیجہ چاہیے یہ دن دیکھنے کے لیے۔‘‘
سب اس کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔وہ شدید جذباتی کیفیت میں تھا۔اُس کے منہ سے الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر نکل رہے تھے۔اور بولے جا رہا تھا۔
’’اِس وقت میں یہی کہنے آیا ہوں کہ جتنی جلدی ہو سکے یہاں سے نکل جاؤ۔ پہلے میں سوچتا تھا میرے ہوتے ہوئے تمہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا پر اب محسوس ہوتا ہے کہ میں تمہاری رِکشہ نہیں کر پاؤں گا ۔گمراہ لڑکوں کو اگر پتا چلا میں یہاں آیا تھا تو ہو سکتا ہے وہ مجھے بھی گولی مار دیں۔انسان گولیوں سے بھی ذیادہ سستا ہو چکا ہے۔ بھگوان کا خوف نکل گیا ہے سب کے دلوں سے۔ میرا تو بھروسہ اُٹھ گیا ہے زمانے سے۔‘‘ یہ کہہ کر شیشی بالا رونے لگا۔پھر اپنے آنسو پونچھتے ہوئے بولا ۔
’’میں سار ی عمر بھگوان کی پوجا کرتا رہا لیکن آج میں اپنے پڑوسیوں کی حفاظت نہیں کر سکتا ۔بھابھی! مجھے معاف کر دینا میں مجبور ہو گیا ہوں۔ بس یہی کہنے کے لئے آیا تھا کہ جتنی جلدی ہو سکے یہاں سے نکل جاؤ۔‘‘
سبھی گویا سکتے میں تھے۔ شیشی بالا آنسو پونچھتے ہوئے باہر نکل گیا ۔ اختر نے دروازہ بند کیا اور نعمان کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔