کاسئہ اہل دل: ماریہ غزال
یہ صبح صادق کا وقت تھا آنکھ دیر سے کھلی تھی ۔ نماز کا وقت تنگ ہو رہا تھا ‘ اس پر سے صبح صبح چوہدری ابدال ساحر کا نام اسکرین پر دیکھ کر ایک لمحے کو پریشان ہو گیا۔
’’ الٰہی خیر !‘‘ میں نے تولیہ سے چہرہ خشک کرتے ہوئے جلدی سے فون اٹھایا ۔ پہلے سوچا کہ نماز ادا کر لوں مگر نہ جانے کیوں فون اٹھا لیا۔
’’ہیلو السلام علیکم ! چوہدری صاحب ۔‘‘
’’وعلیکم السلام ، صبح دس بجے سے پہلے آجانا جی تمہاری ضرورت ہے ‘ قلم ساتھ لانا ۔ تمہاری عبادت کا وقت ہے اور مجھے اور بھی بہت سے ضروری کام نمٹانے ہیں اس لیے گھر پر ہی بات ہوگی۔‘‘
چوہدری ابدال نے فون بند کر دیا اور میں لمحہ بھر کو حیران ہی رہ گیا اب نا جانے کس لیے اس کو میری ضرورت تھی ۔ میں کئی معاملات میں اس کا رازدار تھا ‘ بقول بھابھی بیگم کے کہ وہ میری وجہ سے پنگے لیتا ہے ورنہ وہ سدا کا بزدل ہے ۔ میری وجہ سے اب اس میں ان کاموں کی ہمت بھی پیدا ہو گئی ہے ‘ جن کا اس نے کبھی خواب میں بھی سوچا نہیں ہوگا ۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ اس الجھی ڈور جیسے بندے نے مجھ سے پہلے کیا کیا چَن چڑھائے تھے اور ان کو کیسے چھپایا تھا مگر میرے سے یارانے کے بعد سے میں اس کے کئی نکاح اور عجیب و غریب کام بحیثیت وکیل شامل تھا ۔
ہماری دوستی کا بھی کچھ عجیب سا قصہ ہے کہ ایک شب جب میں اپنا آفس بند کرنے والا تھا تب وہ اس میں داخل ہوا ۔اس نے اس دن سوٹ کوٹ پہنا ہوا تھا ۔ وہ کہیں سے بھی پینڈو نہیں لگ رہا تھا ۔ اس کی مونچھیں اُٹھی ہوئی تھی اورداڑھی ندارد … وہ ایک بندے کے ساتھ میرے آفس میں داخل ہوا تھا ۔ اس نے سب سے پہلے نوٹوں کی ایک گڈی نکال کر میز پر دھری تھی ۔ میرے میز سمیٹتے ہاتھ لمحہ بھر کو رکے تھے مگر میں نے ان پانچ ہزار کی نوٹوں کی گڈی کو نظر اٹھا کر نہیں دیکھا بلکہ اپنی فائلیں جلدی سے سمیٹ کر میز کی پچھلی طرف کھڑی الماری میں رکھنے لگا اور وہیں سے بات کا اغاز ہوا۔
’’اگر آپ نے اپنی امارت دکھا لی ہو تو اس گڈی کو اندر رکھ لیں کیونکہ جناب یہاں پیسوں کی نمائش بالکل مناسب نہیں ہے ۔ کوئی بھی آکر آپ کو لوٹ لے گا ۔ کمرہ شیشوں سے بنی دیوار کے باعث باہر سے بالکل صاف نظر آتا ہے ۔‘‘ اب میں اپنی فائلیں سیٹ کر چکا تھا اور الماری میں تالا ڈال رہا تھا۔
’’تم کیا سمجھتے ہو کہ میں جب اتنے پیسے لے کر گھوم سکتا ہوں تو کیا بغیر گارڈ کے ہوں گا۔‘‘ اب وہ تلخ ہوا۔
’’جناب میں بہت رئیس نہیں ہوں آپ بے شک ہوں گے حاتم طائی مگر آپ تو اپنے گارڈز کے ساتھ چلے جائیں گے میرے لیے مسئلہ بن جائے گا۔‘‘ آج میرا موڈ سخت تلخ تھا۔
’’زمینوں کو واگذار کرانے کا معاملہ ہے صاف بات کروں گا ۔ زمین پرائے بندے کی ہیں پر میرا دل آگیا ہے۔‘‘
’’مطلب۔‘‘ اب میں کرسی پر تھا میں نے ابرو اٹھا کر اُسے دیکھا۔
’’مطلب صحیح غلط مجھے نہیں معلوم بس مجھے وہ زمینیں چاہیں۔‘‘
’’معذرت مگر…‘‘
’’ چوہدری ابدال … ابدال ساحر ۔‘‘ اس نے رک کر دوبارہ پورا نام لیا۔
’’جی تو چوہدری ابدال معذرت کے ساتھ میں غلط کام نہیں کرتا۔‘‘
’’مطلب کوئی غلط کام نہیں لیتے۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ میں نے سختی سے کہا ۔
میں رہا سدا کا اصول پسند انسانوں اور ایسے بہت سے میرے دفتر میں روز ہی آتے تھے نوٹوں کی چھنکار میں نے سدا سنی تھی مگر توجہ کبھی نہیں دی تھی۔
’’دیکھ صرف ایڈوانس میں پانچ لایا ہوں بغیر کام ہوئے تسلی کے لیے رقم دے رہاہوں۔‘‘ اس نے لا لچ دی۔
’’معذرت یہاں اور بھی کئی بیٹھے ہیں وہ بے شک آپ کا کام کر دیں گے مگر میری طرف سے معذرت۔‘‘ اب میں ٹھنڈا ہوا ۔ یہاں تو بھاؤ لگانے والے روزہی آتے ہیں میں نے دل میں سوچا ۔ بھلا پھر چڑنا کیسا دماغ نے سمجھایا دل نے قبول کی۔
’’ چلو جی کام کا بندہ مل گیا ہے ‘لے چلو ۔‘‘ اس کے ساتھ بیٹھے آدمی نے فون پر نا جانے کس کو کہا کہ ایک دم اس کے گارڈز اندر آئے اور مجھے اس کے ڈالے میں ڈالا گیا ۔ بند وین جس کے شیشے بھی کالے تھے میں اس کے گارڈز کے درمیان میں بیٹھا تھا اور وین مختلف راستوں سے ہوتی ہوئی نامعلوم سمت کی طرف رواں دواں تھی ۔ بیس منٹ بعد جب وین رکی تو مجھے اتارا گیا اور میں گارڈذ کی معیت میں اندر پہنچا۔
’’چلیں جی میرا گواہ آگیا ہے ۔ بالکل خالص اصیل بندہ ہے ۔ میرا یار قریشی ۔ چلو جی نکاح شروع کرو۔‘‘
یہ ڈیفنس اور محمود آباد کے سنگم پر بنا ایک پُر آسائش اپارٹمنٹ تھا ۔ ڈرائنگ روم کی حالت بتا رہی تھی کہ اس میں خوشحال گھرآنہ آباد ہے ۔ ہلکی داڑھی والے مرد نے اب اٹھ کر مجھ سے مصافحہ کیا اور پھر نکاح شروع ہوا ۔ میں نے اور اس کے ایک اور ساتھی نے نکاح نامے پر بطور وکیل دستخط کیے ۔ مبارک سلامت کا شور اٹھا ‘ اسی دوران کمرے میں موجود ایک سمت لگی ڈائننگ ٹیبل پر انواع و اقسام کے کھانے چن دیئے گئے ۔ میں نے اور چوہدری کے پورے کنبے (میں، اس کا ڈرائیور، گارڈز اور ساتھی) نے دل بھر کے اور پیٹ سے کچھ زیادہ ہی کھا لیا ۔ میں نے ایک ڈرامے کی طرح سارے واقعے کو لیا۔
’’چوہدری صاحب ملاقات کا انتظام ہو گیا ہے آپ اندر آ جائیں۔‘‘
چوہدری ابدال اندر گیا اور میں خوف میں مبتلا ہو گیا اب نا جانے یہ ملاقات کس قدر لمبی ہوگی ۔ میں نے سوچا کہ پندرہ منٹ سے طویل ہوئی تو میں گارڈ سے ہی چھوڑنے کی بات کروں گا مگر ملاقات سات منٹ میں ہی نمٹ گئی ۔ ہم بھی باہر نکلے ‘ اپارٹمنٹ کے گیٹ پر ایک لڑکا کھڑا تھا ۔ گاڑی کی لائٹ اس پر پڑی ‘ اس کی کشادہ پیشانی پر بکھرے بال ‘ فرینچ کٹ داڑھی اور ملیدہ سا لباس ہونے کے باوجود وہ بہت خوبرو شخص تھا ۔ چوہدری صاحب کو دیکھ کر اس نے ہاتھ اٹھا کر سلام کیا مگر بظاہر یوں لگا ‘ اس نے ماتھے کے بال سِرکائے ہیں ۔ جواباََ چوہدری کا سر ہلا اور یہ قافلہ رواں ہو گیا ۔ اس سارے کام کے چوہدری نے مجھے پچاس ہزار دیئے زبردستی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ ایک مسافر ہے اور اس شہر میں اس کا کوئی وکیل دوست نہیں ہے اور چونکہ میں ایک معتبر نام تھا بقول اس کے لڑکی کاباپ میرے نام پر مان گیا تھا ۔ سو مجھے پہلے اپنے نوٹوں کی گڈی سے پرکھتا رہا اور پھر زبردستی لے آیا ۔ اس نے اپنا کارڈ دیا اور کسی مشکل وقت میں میری مدد کا وعدہ کیا اور میں ایک لمبے عرصے کے لیے اس واقعے کو بھول گیا ۔ ساڑھے تین سال بعد وہ دوبارہ میرے دفتر میں آیا ۔ صبح کا وقت تھا ‘ آج میں نے اسے بہت غور سے دیکھا ۔ آج وہ مجھے بتیس سال سے زائد کا نا لگا حالاں کہ اس نے پہلی ملاقات کی وقت اپنی عمر سیتنیس سال لکھوائی تھی ۔اس لحاظ سے وہ اپنی عمر سے دس بارہ سال چھوٹا دِکھ رہا تھا یا شاید ہمیشہ دِکھتا تھا ۔
میں نے پہچان کر اُس سے رسمی سا مصافحہ کرنا چاہا مگر وہ کسی دیرینہ دوست کی طرح آگے بڑھا ۔ میری میز اور کرسی کے پاس آیا اور اس نے مصافحہ کے لئے بڑھائے ہوئے ہاتھ کو پکڑ کر مجھے میری میز اور کرسی کے درمیان سے نکالا اور پھر گلے لگا لیا ۔ مجھے بڑی ہنسی آئی ۔ وہ شاید اتنا کلچرڈ ہو کر بھی پینڈو کا ٹیگ لگانا پسند کرتا تھا ۔ آج کی ملاقات سابقہ نکاح کو ختم کرنے کی بات پر ہوئی ۔ اور پھر میں اس شہر میں اس کا وکیل نامزد ہو گیا ۔ اس سے مجھے کافی اچھی آمدنی اور شہرت ہوئی ۔ وہ ایک بڑا نام تھا ‘ اس کا یہاں پراپرٹی کا بڑا کاروبار تھا جس کا آہستہ آہستہ کر کے میں نے نگراں بن گیا ۔ اُس نے مجھ سے کبھی کوئی غلط کام نہیں لیا ۔ میں اس کے تمام کرائے داروں سے کرائے کی وصولی کرتا ‘ اس کے تمام پراپرٹی کے کاغذات بنواتا اور سنبھالتا ۔ وہ عموما اپنی پراپرٹی کسی کسی کو دیتا رہتا تھا ۔ اس کے ٹرانسفر کے کاغذات بنوانا بھی میری ذمہ داری ہوتا مگر ان سب کے علاوہ وہ مجھ سے عموماََ ایک اور سلسلے میں مدد کا خواہاں رہتا اور وہ تھے اس کے نکاح … وہ تمام نکاح عموما چار چھ ماہ سے سال تک چلتے پھر ان کے کاغذاتِ علیحدگی بمعہ کسی نا کسی مالی فائدے کے ان کو دے کر الگ کر دیتا ۔ یہ چونکہ اس کا ذاتی معاملہ تھا اس لیے میرا پوچھنا بنتا نہیں تھا اور چونکہ شاید میں انسانوں کی تجسس والی عادت سے بہت کم مستفید ہوا ہوں ‘ اس لیے میں نے کبھی پوچھنے کی زحمت ہی نہیں کی ۔ البتہ ایک دفعہ طلاق کاغذ بنواتے سمے مجھ مخاطب کر کے اس نے کہا۔
’’وکیل صاحب آپ کے ساتھ اتنا لمبا یارانہ ہے آپ نے کبھی ان نکاحوں کی تفصیل نہیں پوچھی۔‘‘
’’میں آپ کا وکیل ہوں اور میرے خیال میں ایک کلائنٹ سے اس کی ذاتی زندگی کے سوالات کرنا کچھ مناسب نہیں لگتا۔‘‘
’’یعنی تو نے مجھے آج تک دوست نہیں سمجھا۔‘‘ اب وہ ناراض ہو گیا۔
’’ہم جب تک اس آفس میں ہوتے ہیں ‘ ہم ایک دوسرے کے معاون ہوتے ہیں ۔ میں آپ کے مسائل کا حل ڈھونڈتا ہوں اور آپ اس کی فیس دیتے ہیں تو بھلا ہم دوست کیسے ہوئے دوستی میں تو…‘‘ میری بات ادھوری رہ گئی۔
’’چل آج شام کی چائے میرے غریب خانے پر پی۔‘‘ اب وہ اٹھا ‘ گھر کا پتہ اس کے منشی نے مجھے تھما دیا ۔
عجیب گورکھ دھندے جیسا آدمی تھا ۔ میں نے اس کے جانے کے بعد سوچا اور شاید میں شام کا پروگرام مس کر دیتا مگر منشی آگیا کہ گاڑی ڈرائیور کے ساتھ آج آپ کے لیے مختص ہے ۔ آپ گھر جائیے وہاں سے اہل وعیال کو لے کر رات کا کھانا چوہدری صاحب کے ساتھ کھانے ان کے گھر آ جائیں ۔ میں جھنجھلا سا گیا مگر کچھ آداب دوستی ہوتے ہیں میں بے شک اسے دوست نا سمجھوں مگر اس نے مجھ سے ہمیشہ سے دوستوں جیسا رویہ رکھا تھا ۔ کبھی اصلی گھی کے کنسترتو کبھی سفید مکھن، کبھی گڑ میں لپٹی گندم کبھی کتان کا کپڑا اور یہ سب کبھی ماں جی کی طرف سے، کبھی ابا جی کی طرف سے اور کبھی بیگم صاحبہ کی طرف سے ہوتا تھا ۔ اپنی محترمہ کوتیار کروانا کچھ مشکل نا تھا ۔ وہ سوغاتوں والے چوہدری صاحب سے واقف تھی مگر اس نے بچے اپنی والدہ کے پاس چھوڑنا ضروری سمجھا ۔ میں نے دفتر سے نکلتے سمے اس کو تیار رہنے کا کہہ دیا تھا ۔ میں خود چونکہ آج ایک خاص شخص سے ملنے کے لئے شام میں دفتر پہنچا تھا ‘ اس لیے بہترین حلیہ میں تھا ۔ بہرحال رات آٹھ بجے ہم ان کے گھر پر تھے ۔ کلفٹن پر بنا ان کا یہ بنگلہ سال میں کبھی کبھی ہی آباد ہوتا تھا مگر نوکر چا کر چونکہ سارا سال رہتے تھے اس لیے گھر کی حالت بالکل بہترین تھی ۔ ان ملازموں کی تنخواہ کی ذمہ داری بھی کچھ عرصے سے میری پاس تھی ۔ چوہدری اور مسز چوہدری نے دروازے پر ہی ہمارا استقبال کیا بچوں کو نا لانے پر گلہ کیا اور پھر مسز چوہدری میری اہلیہ کے ساتھ اندر بڑھ گئیں ۔ میں اور چوہدری باہر لان میں بیٹھ گئے ۔ تھوڑی دیر کے بعد ہم اندر گئے ‘ کھانا لگ چکا تھا اور پھر قہوہ سب نے ساتھ پیا ۔ ماں جی سے بھی وہیں ملاقات ہوئی۔
’’ چوہدری یہ تمہارا دوست نہیں لگتا۔‘‘ چوہدرانی نے کہا جس پر ہم سب ہی اچھنبے میں رہ گئے۔
’’کیوں۔‘‘
’’نا نظر اٹھا اٹھا کر مجھے دیکھنا ‘ نا نظروں میں تمہاری لیے تاسف نا ہی میرے لیے حقارت۔‘‘ چوہدرانی نے پنجابی میں کہا جس کو اس نے میرے لیے اردو میں ترجمہ کیا ۔
’’کیوں کیا آپ معذور ہیں۔‘‘ میں نے ابھی بھی نظر ملا کر نہیں کہا مگر قہقہہ زوردار پڑا ۔ دراصل چوہدرانی چوہدری سے دس پندرہ سال بڑی تھی ۔ پکی عمر کی پختہ عورت … شاید وہ چوہدری کا الٹ تھی ۔ وہ جس قدر عمر چور تھا ‘ وہ اسی قدر بڑی دکھتی تھی ۔ بعد میں اہلیہ نے بتایا وہ چوہدری سے عمر میں پورے بارہ سال بڑی ہے اور ایک معذور بیٹی ہی دے پائی ہے ۔ اب مجھے اصل بات پتہ چلی مگر ہماری اس ملاقات کے بعد ہوا یہ کہ اب میں عموماََ یوں ہی پکڑ کر بلوا لیا جاتا تھا ۔ اہلیہ سے بھابی بیگم کی بہت دوستی ہو گئی تھی ۔ وہ جب جب یہاں ہوتیں اس سے ملنے کو بے تاب ہو جاتیں ۔ تب ہماری حاضری ضروری ہو جاتی اب تو ان کی بیٹی بھی میرے بچوں کے ساتھ مانوس ہو گئی تھی۔
صبح دس سے پہلے میں اس کے فلیٹ پر تھا وہاں ساری تیاری تھی ایک اور نکاح یہ آدمی مجھے پھنسوائے گا ۔ میں نے دل میں سوچا ۔ اب تو خاندانوں میں مل ملاپ ہو گیا ہے کہیں بھابھی بیگم میری گردن ہی نا ناپ لیں۔
’’کیوں اپنی بھابی سے خوف کھا رہا ہے۔‘‘ عجب چہرہ شناس شخص تھا اس سے کچھ چھپا ہوا نہیں تھا۔
’’یہ پہلے سے طے ہے کہ جس سے چاہوں نکاح کروں بس اس کے ساتھ کو نا چھوڑوں۔‘‘ چوہدری نے تسلی دی۔
’’اتنے نکاح کر کے دل نہیں بھرا۔‘‘ سب کے رخصت ہونے کے بعد میں نے آج دل کی بات پوچھی ہی لی۔
’’ہر دفعہ اس کمبخت دل ہی کے لیے تو کرتا ہوں مگر وہ ساری میری دولت کے لیے کرتی ہیں ۔ میں امید پر دنیا قائم ہے کی ریت پر نکاح پر نکاح کر رہا ہوں کہ شاید کوئی ایک صرف میری ہو ۔ مگر میں نے کبھی خود سے آفر نہیں کی ۔ ‘‘ اس نے فخریہ کہا ۔
’’ یہ سب مجھ کو مجبور کر کے نکاح کرتی ہیں ۔ ایک باوفا تھی وہی جس نکاح پر ہماری تمہاری ملاقات ہوئی تھی۔‘‘
’’تو پھر اسے کیوں چھوڑا۔‘‘
’’مگر وہ وفا میری لیے نہیں تھی اس کے منگیتر نے مجھ سے نکاح کی درخواست کی تھی ۔ دونوں بچپن کے ساتھی تھے ۔ گھر والوں نے سالوں قبل بات ٹھہرا دی تھی ۔ لڑکا اس وقت تک کسی قابل نہیں ہوا تھا ‘ لڑکی کے ابا کو اچھا شکار مل گیا تھا کوئی امیرزادہ ۔ انہوں نے بیٹی کے دل کو بھی نہیں دیکھا ‘ اپنی زبان کو بھی نہیں دیکھا ‘ بس جھٹ شادی کی ٹھان لی ۔ دونوں نے طے کیا کہ زہر کھا کر مر جائیں گے ۔ زہر کی تلاش میں مجھے ایک میڈیکل سٹور میں وہ لڑکا ملا تھا۔ میں نے اوراسٹور کے مالک نے سمجھایا ۔ بے بس لڑکا جس کا باپ مر چکا تھا ‘ خیر میں نے پراپرٹی وغیرہ کا لالچ دے کے لڑکی کے باپ کو خود سے نکاح کی پیشکش کی ۔ میں نے سب سچ بتایا یعنی اپنے معاملے میں کہ بیوی بوڑھی ہے گاؤں کی ہے ۔ ایک سمجھدار بیوی یہاں رکھناچاہتا ہوں ۔ بہرحال لڑکے کی نوکری باہر لگ چکی تھی ‘ تین سال بعد وہ شادی کے قابل ہو چکا تھا ۔ میں لڑکی کا نان نفقہ دیتا رہا وہ جب جب پاکستان آیا میں تب تب گاڑی بھیج کر لڑکی کو بلوا لیتا ۔ دونوں کی ملاقات کروا دیتا ۔ میں شہر میں نا بھی ہوتا یہ سب ہو جاتا تھا ۔ تین سال بعد میری طلاق اور اس کی شادی انجام پائی ۔ لڑکے نے میری دی گئی تمام امداد شکریہ کے ساتھ واپس کر دی مگر چونکہ وہ ایک لمبا عرصہ میرے نام پر بیٹھی تھی ۔ اس لیے میں نے ایک فلیٹ اس کے نام کر دیا تھا ۔ اب وہ جب جب پاکستان آتے ہیں اسی فلیٹ میں رکتے ہیں۔‘‘
’’اور باقی تین۔‘‘
’’دو عزت کی زندگی چاہتی تھیں مگر زیادہ عرصہ تک انہیں یہ زندگی زیب نہیں دی ۔ ایک بیچاری کے بھائی نے اس کی شادی اس لیے کروا دی تھی کہ وہ کینسر کے آخری اسٹیج پر تھی ۔ اس کی چند دن خوشی کے لیے میرا دل ویران کردیا اچھی لڑکی تھی۔‘‘ وہ اب دکھی ہوا۔
’’ چلو خیر سب چھوڑو یہ مٹھائی کھاؤ۔‘‘ عجیب سخی شخص تھا۔
ہماری آخری ملاقات کو بھی ڈیڑھ سال ہو گئے پہلے وہ تھائی لینڈ گیا ہوا تھا ۔ اس کے بعد عمرے کے لیے اور اب وہ گاؤں میں تھا ۔ بیچ بیچ میں غالباََ چکر لگاتا تھا مگر ہماری ملاقات نا ہو سکی ۔ ایک دفعہ اس نے بلوایا بھی تھا مگر اہلیہ ان دونوں نااہل تھیں کہیں آنے جانے سے سو یوں یہ ملاقات ٹل گئی اور پھر میں اس کے بیٹے کے عقیقے والے دن ہی مل پایا ۔ اس کے چہرے پر ایسی تازگی تھی کہ پوچھو مت ۔ ایک شاندار ضیافت کا انتظام میرے سپرد کرنے اس نے مجھے بلایا تھا ۔ شہر کی بڑی رونق جمع کی تھی ۔ وہ ایک عجیب ترنگ میں تھا ۔ میں نے آج سے پہلے اسے ایسا مدہوش سا نہیں دیکھا تھا ۔ بہکا بہکا بن پیے ‘ سر خوشی سے لہراتا … عشائیے سے فراغت کے بعد توُ کہاں میں کہاں اب اس کے پاس وقت نہیں تھا ۔
اس کے بعد دیگرے پانچ سال میں اس نے تین بچوں کا عقیقہ کھلا دیا ۔ پہلے وہ جب بھی شہر میں آتا ‘ میرے دفتر میں آ کر گھنٹوں میرا سر کھاتا ‘ اپنے قصے کرتا ‘ مجھے بُلاتا اب وہ سب فرصت اس کی نئی شادی نگل گئی ۔ پھر اس کے ابا جی بیمار ہو کر ہسپتال میں داخل ہو گئے ۔ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ عیادت کو گیا بارہا گیا ۔ بھابی بیگم اور اماں جی سے بھی ملاقات ہوئی مگر نئی دلہن کہیں نا دکھی ‘ پھر ابا جی دو ماہ کی بیماری کے بعد انتقال کر گئے ۔ میں نے اس پورے عرصے میں اس کی پوری فیملی کو بہت خوش اور مطمئن دیکھا تھا ۔ اب وہ مجھ سے نا آنے کا شکوہ نہیں کرتے تھے ۔ اماں جی کے پاس اپنے پوتوں کی مصروفیات کی داستان تھی تو ابا جی کا اونچا شملہ ہو گیا تھا مگر بھابی بیگم کیوں کر اتنی مطمئن تھی اس پر میں حیران تھا۔
اس دن پراپرٹی کے کچھ کام کے لیے میرا گھر جانا ہوا ۔ بھابھی بیگم نے مجھے لاؤنج میں بلوا لیا ۔ اماں جی چونکہ عدت میں تھی اس لیے وہ سامنے نہیں آئیں اور وہ خود ملک میں نہیں تھا۔ اس لیے بھابھی بیگم سے دستخط کروانے آیا تھا ۔ بھابھی بیگم اپنے نئے نویلے منے کے ساتھ آئیں ‘ تھوڑی خیر خیریت کی بات ہوئی ۔ ملازمہ ٹھنڈا لے آئی تب ہی ایک تین سال کا بچہ دوڑتا ہوا اماں جی اماں جی کرتا بھابی بیگم کے پاس آگیا اور اپنی افلاطونی زبان میں ان کو کچھ بتانے لگا بھابی بیگم نے بات سننے کے بعد اس کو میری طرف متوجہ کیا۔
’’تم انکل سے ملے۔‘‘ اب بھابھی بیگم اردو صاف بولنے لگی تھیں۔
’’ سلام کرو۔‘‘ انہوں نے ذرا سختی سے مصافحہ کروایا اور پھر بچہ ملازمہ کے سپرد کیا ۔
’’بڑا ہی بیبا بچہ ہے یہ میرا ۔‘‘ ان کے لہجے میں اس قدر محبت اور اپنائیت تھی کہ میرا جھکا ہوا سر بے اختیار اٹھ گیا۔
’’ چلو جی وکیل صاحب کا سر بھی اٹھا ۔‘‘انہوں نے چھیڑا تو میں مسکرا کر بولا۔
’’ بات ہی ایسی تھی ۔ اوپر سے انداز اتنی محبت اتنی اپنائیت لیے ہوا تھا کہ میں حیران ہو گیا ہوں۔‘‘
’’وکیل صاحب بعض لوگ دلوں میں گھر کرتے ہیں ۔ راج کرتے ہیں اس کی ماں بھی ایسی ہی عورت ہے اس نے میری گڑیا کی ساری ذمہ داری مجھ سے لے لی اور میری گود میں اپنے تینوں بیٹے ڈال دیے ویسے سچ بتاؤں چاروں بچے پال وہی رہی ہے میں تو اب جا کر مالکن بنی ہوں ۔ اس کے آنے کے بعد تو بالا (چوہدری ابدال کو سب گھر والے پیار سے بالا کہتے تھے) نے مجھے عزت دی ہے ، مجھ سے محبت کی ہے ، مجھ سے دوستی کی ہے ، مجھ کو اہمیت دینا شروع کی ہے اور میں نے بھی اس کے آنے سے جانا کہ جھک جانے سے کوئی چھوٹا نہیں ہوتا ۔ مجھے اس کے امید سے ہونے کی خبر نے حیران کر دیا تھا ۔ مجھے معلوم تھا کہ بالا اسی عورت کو ماں کا درجہ دے گا جس کے ساتھ اسے زندگی گزارنی ہوگی اور میں بچے کے ہونے سے بالکل پریشان ہو گئی مگر اس نے درخواست کی کہ بچہ سب سے پہلے اس کی بڑی اماں دیکھیں گی ۔ اس سے پہلے اس نے بالے کو بھی دیکھنے نہیں دیا ‘ نا خود دیکھا نا ماجی نا باؤجی کو دیکھنے دیا۔‘‘ ملازمہ کی آمد نے ربط منقطع کیا۔
’’بی بی جی ، چھوٹی بیگم نے دوا اور بسکٹ بھیجے ہیں کہہ رہی ہیں دوا کا وقت ہو گیا ہے۔‘‘
’’تم نے دیکھا وکیل صاحب ، ایسی عورتیں بھی ہوتی ہیں ۔ ایسی ہی عورتیں گھروں کو جنت بنا دیتی ہیں۔‘‘ دوا کھا کر بھابی بیگم نے چھوٹی بیگم کو دعا دی جس نے اسے بیٹوں کی ماں بنا دیا تھا اور شاید سہاگن تھی۔
’’شکر سے میرے بالے کو بھی سچی خوشی ملی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ نومولود کے ساتھ اندر کی سمت بڑھ گئیں اور میں دل ہی دل میں اس عورت کا شکر گزار ہوا کہ جس نے اس سارے کنبے بلکہ کثیر تعداد کے لوگوں کے دلوں میں عورت کے خوف کی جگہ عزت سے بدل دی ‘ اس نے عورت ہونے کا حق ادا کر دیا ۔ میں نے پورے دل سے کنبے کی خوشیوں کی دعا کی اور رخصت ہوا۔
ختم شد