کاروانِ زندگی : نعمان اسحٰق
درد کی شدت پہلے جیسی نہ تھی مگر اب بھی ناقابلِ برداشت تھا ۔ پر یہ دردِ مسلسل شاید اپنا عادی بنا چکا تھا کہ نوین اب اس درد کے علاوہ کچھ سوچنے کے قابل ہوئی۔
’’کتنے حسین ہیں یہ لمحے، کیا ساری زندگی ایسے حسن سے سجی ہو گی ۔ ‘‘ وہ پوچھتا ، وہ جو صادق تھا۔
’’ اونچ نیچ تو زندگی میں آتے رہتے ہیں ۔ آج خوشی تو کل غم،زندگی تو مدار میں چلنے کا نام ہے ۔ ‘‘ وہ مسکراتے ہوئے منطق پیش کرتی۔
’’اگر ایسا ہے تو میں اپنی ساری زندگی انہی حسین لمحوں کے نام کرتا ہوں ۔ زندگی آج کی شام کے نام۔‘‘ صادق بنچ سے اٹھ کھڑا ہوتا اور سرخ چہرہ لیے اونچی آواز میں چلاتا۔
قدموں کی چاپ نے یادوں کا تسلسل توڑا اور وہ اس حسین شام کے سحر سے نکلی تو یاد آیا کہ وہ ہسپتال کے کمرے میں لیٹی ہے ۔ دستک دے کر ڈاکٹر اور معاون عملے کی ٹیم اندر داخل ہوئی
’’ اب آپ کیسا محسوس کرتی ہیں؟‘‘شفیق چہرے والے ڈاکٹر نے اس سے پوچھا۔
اس نے مسکرانے کی کوشش کی‘ قبل اس کے کہ وہ جواب دیتی اس کی بہن صفیہ جو اس کی دیکھ بھال کے لیے ہسپتال میں قیام کیے ہوئے تھی۔ڈاکٹر سے کہنے لگی۔
’’ ڈاکٹر صاحب ، درد کی شدت سے کراہتی رہتی ہے ۔ کل ساری رات نہیں سوئی۔‘‘ ڈاکٹر نے ہلکے سے اثبات میں سر ہلایا۔
’’ درد تو کچھ دنوں میں ختم ہو جائے گا، مگر جو نقصان ہوا ہے اس کی تلافی ممکن نہیں۔‘‘
’’کیا مطلب ڈاکٹر صاحب؟‘‘ صفیہ پوچھ رہی تھی۔اور یہی سوال نوین کی آنکھوں میں پنہاں تھا۔
ڈاکٹر نے کچھ لمحے خاموشی کا وقفہ لیا۔
’’ریڑھ کی ہڈی کے زخم کی وجہ سے آپ کی ٹانگیں ناکارہ ہو چکی ہیں ۔ اب آپ کبھی چل پھر نہیں سکیں گی۔‘‘ڈاکٹر نرمی سے بتا رہا تھا۔ صفیہ پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی اور نوین…
نوین نے یہ خبر جیسے صبر سے سنی اور آنکھیں موند لیں ۔
’’ مجھے معاف کردو، میں مجبور ہوں۔‘‘ وہ سر جھکائے بیٹھی صادق سے کہتی۔
’’ معاف کیا۔‘‘ صادق پتھر کے لہجے میں کہتا۔
’’ ابو کے سر پر اتنا قرضہ چڑھا ہے، بہنوں کی شادیاں…‘‘وہ مزید بھی کچھ کہنا چاہتی تھی اپنی مجبوریوں کے قصے اور مشکلات کے افسانے مگر صادق نے کچھ نہ سنا ، چپ چاپ اٹھ کر چلا گیا۔ دور ، دور بہت دور…
’’نوین…‘‘ صفیہ نے اسے پکارا ۔ ڈاکٹر جا چکا تھا ۔سسکیاں بھرتی صفیہ اس کے سرہانے کھڑی تھی۔
’’ میں بہتر ہوں،تم بیٹھ جائو بلکہ گھر کا چکر لگا آئو ۔ میری وجہ سے رات بھر تم بھی نہ سوئی ہو گی۔‘‘ نوین صفیہ سے کہہ رہی تھی۔
اور صفیہ جو نوین سے زندگی بھر کے لیے اپاہج ہونے پر کچھ تعزیت او ر افسوس کے جملے کہنا چاہتی تھی، اسے پر سکون دیکھ کر تھم گئی۔ کچھ دیر بعد صفیہ کائوچ پر بیٹھی تھی۔ اور وہیں بیٹھے بیٹھے اسے اونگھ آگئی۔
نوین لیٹے ہوئے اپنے پیروں کی طرف دیکھنے لگی ۔ اس کا وجود ہسپتال کے لباس میں ملبوس تھا اور سینے تک ایک چادر سے ڈھکا تھا ۔ ہاتھ بے جان سے محسوس ہوتے تھے مگر اس نے ہمت سے کام لیتے ہوئے چادر کو ذرا سرکایا اور ٹانگوں کو دیکھنے لگی ۔ دونوں ٹانگیں پٹیوں میں قید تھیں۔ سفید پٹیاں جن پر خون کے سرخ دھبے تھے۔
یہ ایکسیڈنٹ اس کی زندگی کتنی بڑی تبدیلیاں لے آیا تھا ۔ آنکھیں موندیں تو پلکیں گیلی ہو گئیں۔ ہاتھ بڑھا کر آنسو پونچھنے والا کوئی نہ تھا۔
’’سفیر کہاں ہے؟ اور اس کے پاس کیوں نہیں۔‘‘اسے شوہر کا خیال آیا اور ایک استہزائیہ مسکر اہٹ اس کے ہونٹوں پر آٹھہری۔
اسے ہسپتال کا ماحول پسند نہیں ۔ خون دیکھ کر اسے وحشت ہوتی ہے وہ بھلا ہسپتال میں کیسے رہ سکتا ہے۔ یہ باتیں شاید اس رشتے سے زیادہ بڑی تھیں جس میں وہ دونوں بندھے تھے ۔کچھ دیر وہ یونہی خالی ذہن لیٹی رہی اور پھر دروازہ کھلنے کی آواز آئی ۔ دروازہ کھول کر آنے والا اور کوئی نہیں سفیر تھا ۔اس کا مجازی خدا ، جواپنی خدائی کا ہر مظہر ہر طور اسے دکھاتا۔
سوٹڈ بوٹڈچلتا ہوا وہ نوین کے پاس آ یا ۔ ہاتھ کے اشارے سے ملازم کو پھولوں کا گلدستہ میز پر رکھنے کا کہا ۔ اس چہل پہل سے صفیہ کی بھی آنکھ کھل گئی۔
’’ جلدی سے ٹھیک ہوجائو سویٹی،ہم لوگ تمہیں بہت مِس کرتے ہیں ۔ ‘‘ سفیر نے ایسے بہت سے جملے کہے ۔ لگ بھگ پندرہ منٹ بیٹھا اور پھر گھڑی دیکھتا اٹھ کھڑا ہوا۔
’’ اہم میٹنگ میں جانا تھا ورنہ ضرور رکتا۔‘‘
سفیر چلا گیا اور نوین اس پھولوں کے گلدستے پر نگاہیں جمائے لیٹی رہی ۔گھڑی کی سوئیوں نے اپنا سفر جاری رکھا اور اگلی صبح کا سورج بھی معمول کے مطابق طلوع ہوا ۔ اپنے مقررہ وقت پر ڈاکٹر نے رائونڈ کیا ۔ اس کے زخم دیکھے ۔ جونیئر ڈاکٹر اور معاون عملے کو ہدایات کیں اور طویل سانس بھرنے کے بعد کہنے لگا۔
’’ آپ بہادر خاتون ہیں۔ورنہ اس طرح کے شدید حادثات میں ہم نے لوگوں کو زندہ بچتے کم دیکھا ہے ۔‘‘ وہ چپ چاپ ڈاکٹر کی طرف دیکھے گئی۔
’’اور آج میرے پاس آپ کو بتانے کے لیے کل سے بری خبر ہے ۔ بہتر ہوتا کہ آپ کے شوہر آپ کے ساتھ ہوتے۔ ‘‘ ڈاکٹر کہہ رہا تھا۔
صفیہ سفیر کی غیر مو جودگی کے متعلق کوئی تاویل دینا چاہتی تھی مگر بن نہ پائی۔
’’ آپ کی شادی کو سات سال ہو چکے ہیں اور ابھی تک کوئی اولاد بھی نہیں ۔‘‘ وہ کیس ہسٹری میں لکھی باتیں دوہرا رہے تھے ۔نوین نا سمجھی سے ڈاکٹر کو دیکھنے لگی۔ اس بات کا مقصد …
’’مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آپریشن کی پیچیدگیوں کی وجہ سے اب آپ کبھی ماں نہیں بن سکیں گی۔‘‘ ڈاکٹر کہہ کر خاموش ہو گیا۔
صفیہ ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اور نوین …
اس کی آنکھوں سے بھی نمکین پانی بہہ نکلا۔
٭…٭
اس کا تعلق ایسے گھرانے سے تھا جہاں بیٹیوں کا والدین کو ’’نہیں‘‘ کہنے کا رواج ہر گز نہ تھا۔وہ پڑھائی میں اچھی تھی اور لکھنے میں بھی ۔ جی ہاں لکھنے میں بھی،جانے کہاںسے اسے لکھنے کا شوق چرایا تھا ۔بچپن میں ٹارزن ، عمروعیار اور ظالم دیو کی کہانیاں پڑھتے پڑھتے ہاتھوں میں ڈائجسٹ آن بسے ۔ اور ان ڈائجسٹوں کی کہانیاں پڑھتے پڑھتے اس بھی لگنے لگا کہ ایسی کہانیاں وہ بھی لکھ سکتی ہے۔
چنانچہ ایک رات اس نے قلم تھاما اور لکھنے بیٹھ گئی۔ صبح تک لکھتی رہی۔ کہانی مکمل ہوئی تو ایک مشہور جریدے کو بھیج دی۔
ایک ماہ کے اندر مدیرہ کا فون آگیا۔
’’ تمہاری کہانی خوب ہے اور اندازِ تحریر کا کوئی جواب نہیں، مزید لکھو ۔ ‘‘ مدیرہ نے ہمت بندھائی۔ کہانی چھپی اور معاوضے کی مد میں گھر کے پتے پر منی آرڈر وصول ہوا۔
وہ بے حد خوش ہوئی۔
توصیف احمد کو پتہ چلا تو انہیں زیادہ اچھا نہ لگا ۔خاموش رہے کہ چند دنوں کا شوق ہے مگر یہ شوق تو جیسے جذبہ بن گیا ۔لڑکیوں کا کالج جا کر پڑھنے کا رواج نہ تھا مگر اس نے باپ کی منتیں کیں ۔ توصیف نے یہاں بھی لچک دکھا دی اور وہ کالج پڑھنے چلی گئی ۔انہی دنوں اس نے صادق کے نام سے ایک کردار تخلیق کیا۔
صادق جو عام سا لڑکا تھا، مگر عام نہ تھا۔
جو غریب تھا مگر دل کا غریب نہ تھا۔
جو انسا ن تھا، مگر فرشتہ سا ۔
شہزادوں کی آن بان سا۔
کرداروں میں بے مثال۔
شخصیت میں لا زوال۔
اس نے صادق کی زندگی پر کئی ناولٹ اور افسانے لکھے ۔ یہ کردار اتنا مقبول ہوا کہ مدیرہ اور قارئین کے اصرار پر اس نے صادق کی زندگی پر سلسلے وار ناول لکھنا شروع کر دیا ۔کالج میں وہ اپنے اس لکھنے کے فن کی وجہ سے مشہور ہوگئی ۔ اور یہ شہرت و عزت اسے اچھی لگتی۔ زندگی کے یہ اچھے دن گزر رہے تھے کہ ایک دن ایک سینئر لڑکا آکر اس سے مخاطب ہوا۔
’’میں بھی صادق ہوں۔‘‘ اس کا دل دھڑک اٹھا۔ گھر کے ماحول اور اپنے اقدار کی وجہ سے وہ لڑکوں سے زیادہ نہ گھلتی ملتی تھی۔
’’آپ کے صادق جیسا۔‘‘ وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور وہاں سے جانے لگی۔
’’آپ اچھی مصنفہ ہیں ۔ ‘‘ اسے پیچھے سے آواز آئی مگر اس نے قدم نہ روکے۔
اس رات وہ اس اچھی مصنفہ کو دیر تلک آئینے میں دیکھتی رہی۔
صادق اکثر اسے ڈھونڈتا ہوا آجاتااور باتیں کرنے کی کوشش کرتا ۔ اور چونکہ وہ اس کے تخلیق کردہ کردار جیسا تھا تو وہ چاہ کر بھی زیادہ عرصے تک اجنبیت نہ دکھا پائی ۔پہلے پہل محض صادق بولتا پھر وہ اس کی باتوں کا جواب دینے لگی۔سلسلہ آگے بڑھا تو باقاعدہ گفتگو ہونے لگی۔اور ایک دن صادق نے اس سے پوچھ لیا۔
’’نوین مجھ سے شادی کروگی؟‘‘
زمین وآسمان سرخ گلابوں سے بھر گئے۔ اسے اپنی سانسوں سے مہک آنے لگی مگر وہ صادق کو جواب نہ دے پائی۔ اور صادق نے اس کی خاموشی میں چھپے ہاں کو پا لیا۔
’’میں اپنی ساری زندگی انہی حسین لمحوں کے نام کرتا ہوں ۔‘‘ صادق کہتا رہتا اور وہ مسکراتی رہتی۔
پاگل لڑکی تھی ، جانے کس دنیا کی شیدائی تھی ۔ افسانے لکھتے لکھتے زندگی کو فسانہ سمجھنے لگی تھی۔
کالج ابھی ختم نہ ہو تھا کہ اس کے لیے سفیر کارشتہ آگیا ۔اسے سفیر کے والد نے پسند کیا ۔ پڑھی لکھی ، سیدھی سادھی اور خوبصورت ۔ ان کے سفیر کے لیے عین مناسب، سفیر کو بھی اعتراض نہ ہوا ۔توصیف احمد سفیر کے والد کے مقروض تھے۔ لاکھوں کے مقروض…
’’ تم اپنی بیٹی کا رشتہ میرے سفیر سے کردو ۔ رشتہ داری ہو گی تو تمہارا قرض بھی جاتا رہے گا ۔ اب رشتہ داروں سے پیسے لینے کی ہمارے ہاں ہر گز روایت نہیں۔‘‘ یہ سفیر کے والد کی پیش کش تھی۔تو صیف کو حد درجہ مناسب لگی۔
’’ نہیں۔‘‘ وہ باپ کو منع کرنا چاہتی تھی۔
’’ خبردار جو منہ سے اناب شناب نکالا، تیرا گلا گھونٹ دوں گی ۔یہ بے ہودہ کہانیاں قصے لکھتے لکھتے اور کالج میں منہ مار کر اگر خود کو کچھ اور سمجھنے لگی ہے اور اپنی اوقات بھول گئی ہے تو یاد دلا دوں ہمارے ہاں بیٹیاں باپ کو نہیں ، نہیں کہتیں ۔ ‘‘ کہتے ہوئے ماں نے اس کی ہنسلی کی ہڈی کو زور سے دبایا ۔ اسے کھانسی آگئی اور آنکھ سے آنسو نکل پڑے۔
ہاں وہ شاید اپنی اوقات بھول گئی تھی۔
’’ابو کا قرضہ ، بہنوں کی شادیاں…‘‘ وہ اپنے صادق کو مجبوریاں بتانے لگی ۔یہ نہ بتا پائی کہ وہ اپنے باپ کو انکار نہیں کرسکتی۔
اور صادق عام سا ہو کر بھی عام نہ تھا۔
غریب ضرور تھا مگر دل کا غریب نہ تھا۔
جو فرشتے سا انسان تھا۔
اس نے معافی مانگی اور اس بے نام تعلق کو ختم کرنا چاہا۔
صادق نے آنکھوں ہی انکھوں میں روکنا چاہا مگر وہ نہ رکی ۔ پڑھائی ادھوری چھوڑ دی اور کچھ عرصے بعد سفیر کی دلہن بن کر سفیر پیلس میں پری بن کر اتری ۔
پڑھائی چھوٹی اور لکھنا اس نے خود چھوڑ دیا ۔ صادق والا ناول ابھی ڈائجسٹ میں سلسلے وار چل رہا تھا مگر اس میں اب صادق پر مزید لکھنے کی ہمت نہ تھی۔
’’ معذرت میں اب مزید نہیں لکھ پائوں گی۔‘‘ وہ مدیرہ سے فون پر کہہ رہی تھی۔
’’ایسے آپ ادھورا نہیں چھوڑ سکتیں ۔‘‘ مدیرہ کہہ رہی تھی ۔ اس کی آنکھ سے آنسو ٹپک پڑے ۔ یہاں زندگی ادھوری رہ گئی وہ تو ایک ناول تھا۔
مدیرہ کا بار بار کا اصرار ، یہاں تک کہ غصہ اور ناراضی بھی اس لکھنے کی طرف مائل نہ کر پائے اور ہزاروں چاہنے والے اس ادھورے ناول کے ادھورے پن کی وجہ تلاش کرتے رہ گئے۔
٭…٭
پہلے وہ لمحوں میں زندگی جیتی تھی ،مگر اب زندگی میں لمحے ہی نہ رہے ۔ سفیر کے ساتھ زندگی میں آرام تھا، سکون تھا، عیش تھا مگر پھر بھی کچھ نہ تھا ۔ سفیر کو پیسے کمانے کے علاوہ جو دلچسپیاں تھیں وہ بتانے لائق ہر گز نہ تھیں ۔ بیوی اس کے نزدیک گھر میں دودھ دینے والی گائے تھی ۔ جس کے دودھ سے جب دل چاہے افادہ حاصل کیا جائے ۔ اس کے علاوہ وہ اس بات کا بھی قائل تھا کہ بازار میںبھی خالص اور شیریں دودھ دستیاب ہے۔
سفیر کو ابھی بچے نہیں چاہیے تھے کہ ابھی تو کھیلنے کودنے کے دن ہیں ‘ کہاں بچے پالے جائیں گے۔
شادی کو سات سال گزر گئے اور بچے پیدا کرنے کا خیال نہ آیا ۔ اب جب وہ اپاہج ہو گئی تھی اور بچے پیدا کی صلاحیت سے بھی محروم تھی تو سفیر کو بچوں کی خواہش ہونے لگی۔
’’ سویٹی ،اب ساری زندگی تو یوں نہیں گزرے گی ۔ بچے تو ہونے چاہیے۔‘‘ وہ کیا پوشیدہ اشارے کرتا وہ سمجھ رہی تھی۔
’’ تم میری زندگی کا ہمیشہ حصہ رہو گی۔‘‘ نوین وہیل چیئر پر بیٹھی تھی اور سفیر اس کا ہاتھ چوم رہا تھا۔
’’مگر بچوں کے لیے، ہاں بچوں کے لیے تو مجھے دوسری شادی کرنی پڑے گی۔‘‘سفیر کہہ رہا تھا۔
گھر کی گائے اب دودھ دینے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی تھی ‘وہ دوسری گائے لانا چاہتا تھا ۔ اور کیا خبر کبھی پہلی گائے کو ذبح کر کے حلال کرنے کا خیال ذہن میں آجاتا کہ دودھ نہیں دیتی چلو گوشت سے افادہ حاصل کیا جائے۔
اور پھر یہ بھی ہو کر رہا۔آنے والی عفیرہ سے اس کا اپاہج وجود بھی گوارا نہ تھا۔
’’ اگر یہ گھر میں رہے گی تو میں گھر چھوڑ کر جارہی ہوں ۔‘‘ عفیرہ ہاتھ میں ہینڈ کیری کا ہینڈ تھامے تنفر سے اسے دیکھ رہی تھی۔
’’عفیرہ ڈارلنگ وہ بے چاری تمہیں کیا کہتی ہے ۔ ‘‘سفیر ڈارلنگ کو پچکارنے لگا۔ ڈارلنگ منہ پھلائے کھڑی رہی۔
’’ نہیں تو نہیں…‘‘ عفیرہ نہ مانی اور سفیر اس کی ضد کے سامنے’’ بے بس ‘‘ہوگیا۔
وہ دن آنے میں زیادہ وقت نہ لگا جب اسے سفیر نے طلاق دے دی۔
٭…٭
’’ بہتر تھا اس وقت ابو کو منع کر کے دیکھتی تو زندگی کے پہلو کچھ اور طرح سے ہوتے ۔‘‘ یہ پچھتاوا کئی دفعہ ذہن و دماغ پر دستک دیتا رہا مگر وہ شعوری کوششوں سے ذہن جھٹکتی رہی ۔ گزرے سالوں میں باپ کا انتقال ہو گیا تھا اور گھر اب بھائیوں اور ان کے بچوں کی رہائش گاہ تھا ۔ ماں بھی وہیں رہتی ۔ اس نے بھائیوں کے گھر جانا مناسب نہ سمجھا ۔ اب سفیر جیسے کروڑ پتی سے شادی کی تھی اس وجہ سے اس کا اکائونٹ بھرا ہو اتھا ۔ زیورات الگ سے ملکیت تھے ۔ اور کچھ نہیں تو سفیر نے اس حسنِ سلوک کا ضرور مظاہرہ کیاکہ دے دلا کر طلاق دی ۔ اس لے الگ کرائے پر گھر لینے اور ایک کل وقتی ملازمہ رکھنے میں اسے دقت نہ ہوئی۔
مگر زندگی ایسے کیسے گزرتی ، وہ اپاہج تھی ۔ اپنے کام خود کرنے پر قادر نہ تھی اور پیسہ کمایا نہ جائے صرف خرچ کیا جائے تو قارون کے خزانے بھی ختم ہوجائیں، اس کے اکائونٹ میں چند لاکھ ہی تھے ۔بہن صفیہ دلجوئی کے خیال سے اس کے پاس ٹھہرنے آئی۔
’’ کوئی مصروفیت ڈھونڈو ، یہ پہاڑ سی زندگی…‘‘ صفیہ کو اپنا مدعا بیان کرنے کے لیے مناسب الفا ظ نہ مل رہے تھے تو وہ رونے لگی۔
’’ میں اپاہج ہو گئی ہوں صفیہ ، بچے بھی نہیں پیدا کر سکتی ۔‘‘ اس کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔
’’ ایک زمانہ تھا، میں لکھا کرتی تھی۔ کالج میں پڑھا کرتی تھی، خوش رہا کرتی تھی۔ ‘‘ یہ نہ کہہ پائی کہ کسی کو پسند بھی کیا کرتی تھی۔
’’اس لیے خوش رہتی تھی کہ اپنے لیے جیتی تھی مگر پھر دوسروں کے لیے جینے لگی اور خوش رہنا چھوڑ دیا ۔ اللہ نے مجھے ایک نئی زندگی دی ہے۔میں اللہ سے ناراض نہیں کہ اس نے مجھے اپاہج کر دیابلکہ میں اس سے اس بات پر راضی ہوں کہ اس نے مجھ زندہ رکھا ۔پھر سفیر نے مجھے طلاق دے دی ، مجھے اس سے گلہ نہیں کہ وہ ایسا ہی تھا ۔ جب محبت نہ ہو تو میاں بیوی میں سے کوئی اپاہج ہوجائے تو دوسرا اسے چھوڑ دیتا ہے کہ ادھورے انسان کے ساتھ زندگی نہیں گزاری جاتی ۔‘‘وہ اپنے آنسو پونچھ رہی تھی۔ صفیہ اسے دلاسے دیتے رہ گئی۔
چند دن بعد کی اداس شام کا قصہ ہے کہ وہ اکیلی بیٹھی سوچ رہی تھی کہ کیسے زندگی گزارے کہ وقت بھی گزر جائے اور کچھ کما بھی سکے ۔ فون کرنے کے لیے ہمت درکار تھی۔
مگر اس نے ہمت کی اور فون کیا۔
’’ میں نوین گل بات کر رہی ہوں۔‘‘
’’نوین کیسی ہیں آپ؟‘‘مدیرہ نے اسے پہچان لیا اور اس سے اچھی بات تھی کہ مدیرہ کا لہجہ خوشگوار تھا۔
’’میں آپ کے لیے دوبارہ سے لکھنا چاہتی ہوں۔‘‘ اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔
’’ یہ تو اچھی بات ہے۔ آپ کے اس صادق والے ناول کا قارئین ابھی تک پوچھتے ہیں۔‘‘
وہ خاموش رہ گئی۔
’’ وہ ناول نہیں، کچھ اور…‘‘
’’ صادق کیوں نہیں۔‘‘ مدیرہ سے جتنی دیر بات ہوئی وہ اسے وہی ناول دوبارہ سے لکھنے پر مائل کرتی رہیں۔
اس رات وہ رات گئے تک اپنے ناول کے کردار صادق کو سوچنے کی کوشش کرتی رہی مگر ’’وہ ‘‘ صادق یاد آجاتا۔
صبح کا آغاز بے کلی لیے ہوا۔وہ وہیل چیئر پر اپنے کمرے میں بیٹھی تھی کہ ملازمہ نے اطلاع دی کہ کوئی صاحب اس سے ملنے آئے ہیں۔ اپنا نام نہیں بتاتے مگر ملنے پر اصرار کرتے ہیں۔
’’ نام نہیں بتاتے تو دروازے سے رخصت کر آئو۔‘‘ وہ اکتائے ہوئے لہجے میں کہہ رہی تھی۔
ملازمہ ان صاحب کو جواب دینے کی نیت سے دروازے پر گئی کہ صاحب زبردستی اندر چلے آئے ۔ ملازمہ چیختی پیچھے لپکی ۔صاحب کمرے کی چوکھٹ پررک گئے ۔اور نوین آنے والے کو دیکھ کر ساکت رہ گئی ۔ ملازمہ صاحب کو برا بھلا کہنے لگی اور صفائیاں دینے لگی کہ اس نے دروازے پر روکنے کی کوشش کی مگر یہ زبردستی اندر چلے آئے۔
’’ آپ جا کر اپنا کام کریں۔‘‘ نوین نے ملازمہ سے کہا۔
’’ آئو بیٹھو۔‘‘ نوین آنے والے کو کہہ رہی تھی۔
آنے والا قدم قدم چلتا آیا اور سامنے ایک کرسی پر بیٹھ گیا ۔خاموشی کمرے میں پر پھیلا کر گردش کرنے لگی۔
’’ میں بھی صادق ہوں۔‘‘ صادق نے جانے کس کیفیت میں کہا ۔ شاید یہ پہلی ملاقات کا حوالہ تھا۔
نوین نے بمشکل آنکھوں میں آئے آنسوئوں کو روکا۔
’’ کیسے ہو؟‘‘ وہ پوچھ رہی تھی۔
صادق نے جواب نہ دیا۔ کرسی سے اٹھا اور نوین کی وہیل چیئر کے پاس چلا آیا۔
’’ مجھے کل ایک کلاس فیلو نے اس بارے میں بتایا۔‘‘ اس کا دل چاہا کہ وہ نوین کا ہاتھ پکڑ لے۔
نوین کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے، وہ رونے لگی ۔ صادق نے کچھ نہ کہا۔ اسے روتا دیکھتا رہا ۔ کلاس فیلو کے توسط سے اسے طلاق کے بارے میں بھی معلوم تھا ۔ وہ روتی رہی ۔ صادق آنسو گنتا رہا۔جب آنسو بہنا بند ہوئے تو اس نے کہا۔
’’ میں نے ابھی بھی شادی نہیں کی۔‘‘ صادق بتا رہا تھا مگر اسے کیوں؟
’’ مجھ سے شادی کرو گی؟‘‘ صادق اس کے قدموں میں بیٹھ گیا۔
نوین کی آنکھوں میں ایک بار پھر آنسو آگئے۔
’’نہیں۔ ‘‘ وہ زور زور سے نفی میں سر ہلانے لگی۔
’’ اس لیے کہ اب تم بچے پیدا نہ کر سکو گی۔‘‘وہ اس بات سے بھی واقف تھا۔
’’ مجھے اس بات سے فر ق نہیں پڑتا۔‘‘ صادق نرمی سے کہہ رہا تھا۔
’’ یہ چھوٹی بات نہیں۔‘‘ وہ پھر سے رو رہی تھی۔
’’ میں سوچتا ہوں تمہیں روک لیتا۔ اس وقت منت کر لیتا۔‘‘ صادق ماضی کی بات پر پچھتا رہا تھا۔
’’ مگر اب نہیں۔ اب تم نہ مانی تو زبردستی کروں گا۔‘‘وہ کیا کہہ رہا تھا۔نوین سمجھنے سے قاصر تھی۔
’’دنیا میںکئی بچے ایسے ہیں، جنہیںماں باپ میسر نہیں ۔ ہم دو بچے ایڈاپٹ کریں گے، ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔‘‘ وہ اب مستقبل کی منصوبہ بندی بتارہا تھا۔
نوین کی آنکھوں سے آنسو مزید تیزی سے بہنے لگے۔
’’ نوین ۔ ‘‘اس نے محبت سے پکارا اور پھر اس کا ہاتھ سہلانے لگا۔
’’تم وہ عورت ہو جس کے ساتھ گزارے گئے لمحے ساری زندگی پر محیط ہیں۔میں ساری زندگی تمہارے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔‘‘
وہ نرمی سے کہہ رہا تھا ۔اس کے آنسوئوں کی رفتار میں مزید اضافہ ہوگیا۔
’’ہر گز نہیں،آج کے جذباتی فیصلے کل تمہیں پچھتائوں میں دھکیلیں گے ۔ ‘‘وہ اپاہج تھی اور بانجھ بھی، کسی مکمل انسان کی زندگی نہ برباد کرے گی۔
صادق کہتا رہا۔ وہ منع کرتی رہی۔
’’ تم میری زندگی کو ادھورا نہیں بلکہ پورا کروگی۔‘‘ صادق اسے قائل کر رہا تھا۔
’’میں پھر آئوں گا ۔ ‘‘صادق مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا۔وہ اسے منا لے گا ۔ وہ پر عزم تھا۔
اس شام نوین کو قلم تھامنے میں کوئی دقت نہ ہوئی اور اس نے اپنا ادھورا رہنے والا ناول وہیں سے شروع کیا جہاں سے ادھورا چھوڑا تھا ۔ قلم کی نوک سے موتی جڑے الفاظ نکلتے رہے اور صادق کے کردار کو امر کرتے رہے۔
رات گئے اس نے قلم روکا جب انگلیاں مزید لکھنے کی متحمل نہ تھیں ۔ لکھے ہوئے صفحات کو اس نے پلٹ کر دیکھا اور ایک سکون بھری سانس لی۔ آسمان پر تاروں کی مدھم روشنی تھی۔ مئوذن صبح کی اذان دے رہا تھا۔اور وہ خود کو پر سکون محسوس کر رہی تھی۔
اس کا صادق لوٹ آیا تھا۔ اس کی زندگی میں روشنی بکھرنے کو تھی ۔وہ ادھوری تھی مگر اسے پورا کرنے والا آگیا تھا ۔ زندگی لوٹ رہی تھی،دامن خوشیوں سے بھرنے والا تھا۔
صادق روز آنے لگا ، وہ انکار کرتی رہی اور انکار کرتے کرتے ایک دن اس نے اقرار کر لیا کہ صادق کی محبت سچی تھی ۔اور اس محبت کی اسے ضرورت تھی کہ اللہ اس کا دامن خوشیوں سے بھر رہا تھا تو
اسے منہ نہیں موڑنا چاہیے۔
بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
ختم شد