مکمل ناول

کہانی : پہلا حصہ

رات کو شاید ٹماٹر لانے کے انعام کے طور پر اسے مزیدار کریلے گوشت کی پلیٹ بھیج دی گئی تھی ۔ سفیان لے کر آیا تھا ۔ اس دن کے بعد پہلی دفعہ آمنا سامنا ہوا تھا اس کا سفیان سے مگر اس کے انداز میں کسی قسم کی خفگی یا جارحیت اسے محسوس نہیں ہوئی تو وہ پر سکون ہو گیا تھا ۔ یقینا گھر والے اسے ذہنی طور قبول کر چکے تھے ۔ بس ایک سامعہ تھی جس کے چہرے سے ناگواری نہیں جا رہی تھی ۔ یا شاید اس کی شکل ہی ایسی تھی ۔ کبھی ہنستے مسکراتے تو وہ یوں بھی نظر نہیں آئی تھی ۔ بے گھر ہونے کی فکر تو دور ہوچکی تھی مگر فکرروزگار ابھی باقی تھی ۔ نہ ’’سیدھی سادھی بیچاری ‘‘ پلو پکڑا رہی تھی نہ ’’ گھریلو‘‘ سی کہانی کا کوئی آئیڈیا ذہن میں آرہا تھا ۔ شاید رائٹرز بلاک تھا یا شاید ایسی کہانی وہ لکھنا نہیں چاہتا تھا۔
ابھی بھی وہ گھنٹہ بھر سے کاغذ قلم ہاتھ میں لے کر ’’سیدھی سادھی‘‘ کی شبیہہ کاغذ پر اتارنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ کاغذ پر اپنی لکھی عبارت پڑھی تو تاسف سے سر نفی میں ہلایا تھا ۔ مکیش کا جو گانا وہ پچھلے کئی دن سے وہ سن رہا تھا اس کے بول ہی لکھ دیے تھے بے خیالی میں ۔ کاغذ کو مروڑ کراس نے ایک طرف پھینکا تھا اور نئے پیج پر لکھنا شروع کیا تھا۔
تخت پر بیٹھی سٹوڈنٹس کے لیے پیپر بناتی سامعہ کے سر پر اوپر سے گول مول ہوا کاغذ آکر گرا تھا ۔ سامعہ نے پہلے کاغذ کو دیکھا تھا اور پھر تخت کے عین اوپر موجود بالائی منزل کی کھڑکی کو ۔ کاغذ کھول کر پڑھا تو تلوں پر لگی سر پر بجھی تھی۔
’’ چھچھورا، بد تمیز ۔ ‘‘ کاغذ کو پھر مروڑتے ہوئے وہ غصے سے بڑبڑائی تھی ۔
کچھ دیر بعد نفیس باہر جانے کے لیے سیڑھیاں اترا تو جز بز سی سامعہ سیڑھیوں کے قریب ہی کھڑی تھی۔
’’ ہیلو، کیسی ہیں آپ؟‘‘ نفیس بہت ہی خوش مزاجی سے مسکرا کربولا تھا۔ جانتا تھا اس کی خوش اخلاقی سے وہ اور چڑتی ہے۔
’’ یہ کیا ہے ؟ ‘‘ نفیس نے اپنی ترنگ میں اس کے ہاتھ سے کاغذ لے کر باآواز بلند پڑھنا شروع کیا تھا۔
چاند سی محبوبہ ہو میری کب ایسا میں نے سوچاتھا
ہاں تم بالکل ویسی ہو جیسا میں نے سوچا تھا۔
نا رسمیں ہیں نا قسمیں ہیں نا شکوے ہیں نا وعدے ہیں۔
ایک صورت بھولی بھالی ہے،دو نیناں سیدھے سادھے ہیں۔
ایسا ہی روپ خیالوں میں تھا جیسا میں نے سوچا تھا
ہاں تم بالکل ویسی ہو جیسا میں نے سوچا تھا۔
پڑھ کر کاغذ اس کی طرف واپس بڑھایا تھاجیسے اس نے کاغذ پر لکھی عبارت پڑھوانے کے لیے ہی اسے روکا ہو ۔ سامعہ نے دانت پیسے تھے ۔
’’مطلب کیا ہے اس کا؟‘‘
’’ مطلب اس کا یہ ہے کہ ویسے تو تم گزارہ سی ہی ہو، مگر میرے سٹینڈرڈز بھی کوئی زیادہ ہائی فائی نہیں ہیں ۔سو میری طرف سے سین آن ہی سمجھو ۔ ‘‘ نفیس نے انتہائی عام فہم انداز میں مطلب بتایا تھا۔
سامعہ کا دل کیا تھا ایک تھپڑ جڑ دے۔
’’یہ لکھ کر پھینکنے سے آپ کا کیا مطلب ہے ؟ ‘‘
نفیس نے اوپر کھلی کھڑکی کو دیکھا تھا اور پھر اس کے عین نیچے تخت پر موجود کتابوں اور کاغذوں کوتو اسے سامعہ کے بگڑے تیور سمجھ میں آئے تھے۔
’’نہیں ، نہیں وہ مطلب میرا نہیں شاعر کا ہے میں نے بے خیالی میں لکھ دیا اور غلطی سے ڈسٹ بن کی جگہ کھڑکی سے باہر پھینک دیا ۔ ‘‘ نفیس نے فورا اپنی پوزیشن کلئیر کرنے کی کوشش کی تھی۔
سامعہ نے شک بھری نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔
’’ یہ صحن ہے ہمارا کوڑا دان نہیں ۔ یہ اپنی ادبی شاہکار اپنے تک رکھیے گا۔‘‘
اس سے پہلے کہ نفیس کوئی جواب دیتا گیٹ پر دستک ہوئی تھی ۔ نفیس نے گیٹ کھولا تو سامنے انیلا بمعہ اہل و عیال موجود تھی ۔ نفیس کے سلام کے جواب میں خشک سا جواب دے کر وہ آگے بڑھی تو نفیس بھی اس کے میاں سے رسمی سلام دعا کر کے باہر نکل گیا تھا ۔ سامعہ کے بعد انیلا تھی جسے اس کا یہاں آنا کھلا تھا ۔ اب نجانے یہ بات تھی یا کوئی اور مگر نفیس کو بھی اپنے چچا کے بچوں میں وہی تھی جو پسند نہیں آئی تھی ۔ شکل صورت میں وہ تینوں بہنوں میں اچھی تھی ۔ چچی کی جوانی کہہ لو پتلے نقش، سرخ سفید رنگت اور کنچی آنکھیں، ظاہری حسن کو دیکھ کر نفیس نے اسے اپنی نئی ہیروئن کے فریم میں رکھ کر دیکھنے کی کوشش کی تھی مگر اس سے تو ہیروئن سے زیادہ ویمپ کی وائبز آتی تھیں۔
چھوٹی ثمن میں بھی اس نے انسپیریشن تلاش کرنے کی کوشش کی تھی پیاری سی، ناولوں کی شوقین چلبلی مگر کردار کو گہرائی دینے والی نہ کوئی خوبی اس کو ثمن میں نظر آئی تھی اورنہ اس سے زیادہ وہ خود کچھ سوچ پایا تھا ۔ رہ گئی سامعہ تو وہ کچھ زیادہ ہی سڑیل تھی ۔
’’ چلو چھت مل گئی ہے بہت سمجھو ہیروئن کہیں اور ڈھونڈو ۔‘‘ سگریٹ سلگاتے ہوئے اس نے خود کلامی کی تھی۔
انیلا آج پھر اسی رشتے کا ایجنڈا لے کر آئی تھی۔
’’ امی، پیسے سے بڑی کوئی حقیقت نہیں ہے اس دنیا میں ۔ اب تو اندازہ ہو جانا چاہئے آپ کو اور باقی کون سا کوئی اچھے رشتوں کی لائن لگی ہوئی ہے سامعہ کے لیے۔‘‘
’’مگر پھر بھی اور سامعہ مان جائے گی؟‘‘
’’ آپ منانے کی کوشش تو کریں ۔ ‘‘ فریدہ تذبذب میں تھیں۔
لڑکے کا جرمنی میں اپنا کاروبار تھا یہاں پراپرٹی تھی ۔ کروڑوں کا ایک بنگلہ تو وہ سامعہ کے نام پر حق مہر میں لکھنے کو تیار تھے ۔ مسئلہ یہ تھا کہ’’لڑکا‘‘ پچپن سال کا طلاق یافتہ تین بچوں کا باپ تھا۔
’’ اس کی بہن کہہ رہی تھی کہ سفیان کو بھی جرمنی میں سیٹل کروا سکتا ہے ۔ آپ جذباتی نہ ہوں دماغ سے سوچیں ہم سب کا بھلا ہے اس میں ۔ پھر سامعہ کے لیے کون سا برا ہے ۔ نہ ساس نندوں کے بکھیڑے نہ نوکریوں کی مشقت آرام سے صاف ستھرے ملک میں بیگم صاحبہ بن کر رہے گی۔‘‘
رشتہ بیٹی کے جوڑ کا نہیں تھا یہ قلق اپنی جگہ مگر بہت سی پریشانیاں انہیں اس رشتے کی صورت میں حل ہوتی بھی نظر آرہیں تھیں۔
’’ اچھا میں بات کر کے دیکھتی ہوں…‘‘
’’ صرف بات نہ کریں اسے سمجھائیں بھی ۔ ‘‘ انیلا اس رشتے پر مصر تھی ۔
فریدہ نے جوابا کچھ نہیں کہا تھا ۔ وہ بات کرنے کا ارادہ ضرور رکھتیں تھیں مگر اس رشتے کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا اختیار وہ سامعہ ہی کو دینا چاہتیں تھیں ۔ انیلا کی مرضی یہ تھی کہ بات اس کے سامنے ہو مگر فریدہ نے ایسا نہیں کیا ۔ رات کا کھانا کھلا کر اسے رخصت کرنے کے بعد وہ سامعہ کے کمرے میں آئیں تھیں اور رسان سے مدعا اس کے سامنے رکھا تھا۔
’’تم چاہو گی تو میں بات آگے بڑھاؤں گی نہیں تو نہیں ۔ ‘‘ وہ بال اس کر کورٹ میں ڈال کر اٹھ آئیں تھیں ۔
سامعہ نے ان کے جانے کے بعد تصویر اٹھا کر غور سے دیکھی تھی ۔ فلٹر لگا کر تصویر لی گئی تھی غالباََ پھر بھی جو نظر آیا تھا اس نے سامعہ کا دل ڈبویا تھا ۔ ایک طرف کے بال بڑھا کر سر کے بیچوں بیچ موجود چندھیا چھپانے کی کوشش کی گئی تھی ۔ معمولی سے نقوش، نکلی ہوئی توند، پچپن سال سے زیادہ ہی کا لگ رہا تھا ۔ دل نے فورا انکار کیا تھا مگر انکار کرنا اتنا آسان بھی نہیں تھا ۔ یہ شخص سفیان کو جرمنی میں سیٹل کر سکتا تھا، ثمن کی اچھی تعلیم اور شادی میں مدد کر سکتا تھا ۔ امی کی روز روز کی پریشانیاں ختم ہو سکتیں تھیں ۔ اس رشتے کی بدولت وہ، شاید وہ سب کر سکتی تھی اپنے بہن بھائیوں اور ماں کے لیے جو وہ باوجود کوشش کے، نہیں کر پائی تھی ۔ ایک بار پھر تصویر اٹھا کر دیکھی تھی، دل میں تاریکی اترتی محسوس ہوئی تھی،مگر شاید اسی طرح مداوا ممکن تھا ۔ اپنے لیے سوچنے کا حق تو وہ برسوں پہلے گنوا چکی تھی۔
٭…٭…٭
نفیس نے تنگ آکر اایک روایتی مظلوم بہو اور سازشی نند کی کہانی شروع کر دی تھی ۔ اب نوکری کی تو نخرہ کی؟ ان حالات میں صرف اپنی مرضی کی کہانیاں لکھنا افورڈ نہیں کر سکتا تھا مگر ہر قدم پر اس کے اندر کا فیمینسٹ جاگ اٹھتا تھا اور جی چاہتا تھا کہ ہیروئن کو رونے دھونے کے علاوہ کسی کام پر لگوا دے مگر اتنے جلدی وہ یہ نہیں کرسکتا تھا کم از کم بیس قسطوں تک ہیروئن کی دھلائی ضروری تھی ۔ اکتا کر اسے نے قلم رکھا تھا ۔ خود کوفت ہونے لگی تھی اسے’’بیچاری‘‘ سے ۔ اسے ہمیشہ سے جی دار خواتین پسند تھیں اپنی ماں جیسی ۔ اچھا شوہر نصیب نہیں ہوا تو ساری زندگی اس کے ساتھ بیٹھ کر نصیب کا رونا نہیں رویا ۔ بھائی نے ان کے حصے کا تر کہ بھی ہڑپنا چاہا تو رو دھو کر چپ نہیں بیٹھیں ۔ قانونی راستہ اختیار کیا ۔ شاید اماں ہی اس کی آئیڈیل عورت تھیں اور اس کی ہر ہیروئن میں کہیں نہ کہیں ان کی جھلک ہوتی تھی ۔ سگریٹ سلگا کر چھت کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے وہ اپنی ماں کے بارے میں سوچ کر مسکرایا تھا۔
’’ یار اگر آپی یہ جرمنی والارشتہ قبول کر لیں نا تو مزہ ہی آجائے قسم سے، ہم بھی وہیں سیٹل ہو جائیں گے ۔ میں اور باجی دونوں وہاں اچھے سے سیٹ ہو جائیں تو امی کو بھی آرام سے بلوا سکتے ہیں ۔ ‘‘ چھت پرسفیان یقینا اپنی جانو کے ساتھ فون پر مستقبل کے پلان ڈسکس کر رہا تھا ۔
کھلی فضاء میں سگریٹ پینے کے لیے سیڑھیاں چڑھتا نفیس اس کی پرائیویسی کے خیال سے پلٹ گیا تھا ۔
’’مگر پتا نہیں باجی مانیں گی بھی یا نہیں ۔ ‘‘ سیڑھیاں اترتے ہوئے سفیان کا جملہ اس کے کانوں سے ٹکرایا تھا ۔
ویسے اگر سفیان کا خیالی پلاؤ سچ ہو جا تا تو اس کا بھی بھلا ہو سکتا تھا۔ آرام سے اس گھر کو بیچ کر اسے اس کا حصہ دیا جا سکتا تھا ۔ سب کی بھلائی اسی میں ہے رشتہ قبول کر لیجئے استانی صاحبہ ۔ دل ہی دل میں اس نے بھی سامعہ کو مشورہ دے ڈالا تھا۔
وہ ایک دوست کے ساتھ آج حیدرآباد جا رہا تھا رات وہیں رکنے کا ارادہ تھا ۔ مین گیٹ پر عموماََ جو تالہ موجود ہوتا تھا آج غائب تھا ۔ بہتر تھا کہ وہ کسی کو بتا کر جاتا کہ وہ آج رات واپس نہیں آئے گا ۔ نفیس نے رخ موڑ کر صحن میں ٹیوشن پڑھنے والے بچوں کے بیچوں بیچ تشریف فرمااستانی صاحبہ کو دیکھا تھا اور پھر کچھ سوچ کر اسی کی طرف چلا آیا تھا ۔ قریب آنے پر معلوم ہوا کہ وہ دوسری جانب نہیں دیکھ رہیں تھیں بلکہ چہرہ کاندھے پر ٹکائے بیٹھے بیٹھے سو رہی تھی ۔ہلکے ہلکے خراٹوں پر بچوں کے دانت نکل رہے تھے ۔ اس نے ہلکا سا کھنکار کر متوجہ کرنا چاہا مگر الٹا سامعہ کے خراٹے تیز ہو گئے تھے ۔ جس پر بچوں کی دبی دبی ہنسی کورس کی صورت اختیار کر گئی ۔ چونکنے کے سے انداز میں سامعہ کی آنکھ کھلی تھی ۔ لمحے بھر کو اس نے خواب کی سی کیفیت میں نفیس اور بچوں کو دیکھا تھا ۔ نفیس کو اپنے دل میں اس کے لیے پہلی دفعہ ہمدردی سی محسوس ہوئی تھی۔ کتنی تھکی ہوئی ہو گی جو یوں کرسی پر بیٹھے بیٹھے، بچوں کی چوں چوں کے باوجود سو گئی۔
’’ جی ؟ ‘‘ سامعہ نے سنبھل کر چشمہ آنکھوں پر سیدھا کیا تھا۔
’’میں جا رہا ہوں، رات کو واپس نہیں آؤں گا ۔ گیٹ پر تالہ نہیں ہے تو دیکھ لیجیے گا ۔ ‘‘
سامعہ نے جواباََ اثبات میں سر ہلا یا تو وہ اپنی گاڑی کی طرف پلٹ گیا مگر گیٹ کھولتے ہوئے وہ لاشعوری طور پر اس گھر کے مکینوں کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔ خصوصا سامعہ کے بارے میں۔ اس کی روٹین تو وہ اتنے دن سے دیکھ ہی رہا تھا ۔ صبح سویرے سکول کے لیے نکلتی تھی، ساڑھے تین بجے کے بعد ہی واپسی ہوتی، اور پھر چھ سے جو ٹیوشنز کا سلسلہ چلتا تو رات گئے تک جاتا ۔ سفیان فون پر یا دوستوں کے ساتھ، ثمن ناولوں کی دنیا میں غرق ۔ کم از کم بچوں کو ٹیوشنز پڑھانے میں تو وہ دونوں مدد کر ہی سکتے تھے ۔ ان دونوں کی بے حسی کوئی اتنی حیرت کی بات نہیں تھی، انسان فطرتاََ خود غرض ہے مگر آخر سامعہ کیوں ہر ذمہ داری کولہو کے بیل کی طرح اٹھا کر خاموشی سے چل رہی تھی؟ وہ کیوں ان دونوں کو مدد کانہیں کہتی تھی ؟ گھر میں کمانے والے کا جو رعب ہوتا ہے وہ بھی اس کے انداز میں ندارد تھا ۔ ہر ذمہ داری اس کی تھی مگر اختیار کے بغیر۔ عجیب بات تھی۔
٭…٭…٭
اس نے کڑھی کے لیے دہی لا کر چچی کے سامنے رکھا تو حسب معمول انہوں نے اسے خوش رہنے کی دعا دی تھی ۔ گو وہ دعاؤں سے زیادہ اس کڑھی کا طلب گار تھا جو آج ملنے کے واضح امکانات تھے ۔ اس کے اور چچی کے تعلقات دن بدن مثالی ہوتے جا رہے تھے ۔ سفیان زیادہ دیر یونیورسٹی میں ہوتا یا گھر سے باہر ۔ سفیان کی نسبت چچی کے نزدیک وہ ’’ ویلا‘‘تھا۔ لہٰذا کسی چھوٹے موٹے کام کے لیے اسے کہہ دیتیں ۔ شروع میں تو اس نے سوچا کہ زیادہ فری ہو رہی ہیں،انکار کرنا چاہیے مگر پھر اچھے بھلے ثمرات ملنے لگے تھے ۔ اس تھوڑی سی تابعداری کے بدلے پکاپکائے مزیدار کھانے کی پلیٹیں آنے لگیں تو نفیس کو یہ سودا برا نہیں لگا ۔ خود اسے کچھ خاص پکانا نہیں آتا تھا ۔ اماں کے بعد اس کے پاس ہمیشہ پارٹ ٹائم ملازم رہا جو صاف و ستھرائی کے علاوہ کھانا بھی بنا لیتا تھا مگر ان حالات میں وہ ایک اور خرچہ نہیں کھولنا چاہتا تھا ۔ سو خود ہی کچھ طبع آزمائی کرتا رہتا تھا ۔ ایسے میں چچی کے ہاتھ کا مزیدار کھانا من و سلوی سے کم نہیں لگتا تھا ۔ اس کی ایک پرانی رکی ہوئی پے منٹ خوش قسمتی سے مل گئی تو ہاتھ کچھ کھلا ہوگیا ۔ گاڑی بیچنے کا ارادہ بھی موقوف کیا ۔ چچا کی فیملی کی معاشی تنگی کا احساس اسے جلد ہی ہو گیا تھا ۔ وقتاََ فوقتاََ فرمائشی کھانوں کے لیے اپنے پلے سے سامان لانے لگا۔
’’ آج آپ زبردست سی بیف کی بریانی کھلا دیں ۔ ‘‘وہ گوشت کا تھیلا ان کے سامنے رکھتا۔
’’یہ قیمہ اچھا لگ رہا تھا تو لے آیا میں ۔ ہری مرچوں والا قیمہ بنا کر کھلائیں ۔ ‘‘ وہ مان سے فرمائش کرتا تو فریدہ مسکرا کر ہری مرچ قیمے کی تیاری میں لگ جاتیں۔
شروع میں وہ کچھ متامل ہوئیں ایک دو بار اسے پیسے بھی دینے کی کوشش کی مگر پھر یہ معمول کا حصہ بن گیا ۔ اب حالات یہ تھے کہ اس کا کھانا پینا تقریباََ انہیں کے ساتھ تھا۔
’’ اچھا سنو…‘‘ اسے واپسی کے لیے پلٹتے دیکھ کر انہوں نے پکارا تھا۔
’’سامعہ کا رشتہ آیا ہے ۔ ہم لڑکے والوں کے ہاں جا رہے ہیں ۔ میں چاہتی ہوں تم بھی چلو ہمارے ساتھ اور تو کوئی ہے نہیں نا باپ، نا چچا نا ماموں ۔ ‘‘ وہ کچھ رنجیدہ سی نظر آئیں۔
’’ مجھے کوئی اعتراض نہیں جانے پر مگر مجھے ان معاملات کا کوئی تجربہ نہیں ۔ ‘‘ ان کے اس طرح کہنے پر اسے کچھ ذمہ داری کا احساس ہوا تھا۔
’’ اللہ پر چھوڑا ہے میں نے ۔ رشتہ تو سمجھو پکا ہی ہے بس خانہ پوری کرنے جا رہے ہیں ۔ ‘‘ ان کی آنکھیں اور آواز دونوں بھرا گئیں تھیں ۔ وہ یقینا بیٹی رخصت کرنے کے خیال سے غم زدہ تھیں۔
’’ اللہ پر چھوڑا ہے تو اللہ سے بہتری کی امید رکھیں ۔ ‘‘ اس نے تدبر سے تسلی دینے کی کوشش کی تھی۔
’’کیا کرتا ہے لڑکا؟‘‘
’’جرمنی میں ہے ۔ اپنا کاروبار کر رہا ہے ۔ ‘‘ چلو بھئی جرمن رشتے ہی پر ہاں ہوگئی تھی مگر چچی کے انداز میں خوشی اور ولولہ اسے قطعاََ مفقود نظر آیا۔
دو دن بعد’’لڑکے‘‘ سے ملاقات ہوئی تو چچی کی رنجیدگی سمجھ آئی ۔ ہئیر کلر سے بالوں کے ساتھ ساتھ کچھ چمڑی غلطی سے کالی ہوئی تھی یا بالوں کی تعداد زیادہ دکھا نے کی ایک دانستہ کوشش تھی فیصلہ مشکل تھا ۔ پکی رنگت، عام سے نقوش، فربہ وجود اور تو اور انداز بھی کوئی پالشڈ، کلچرڈ نظر نہیں آرہا تھا ۔ سامعہ تو اچھی خاصی تھی۔ باقی دونوں بہنوں کی طرح ماں سے سرخ سفید رنگت اور کنچی آنکھیں تو نہیں لیں تھی مگر ملائمت لیے پتلے نقوش،کھلتا ہوا گندمی رنگ، دراز قد اور نازک سراپا ۔ اچھی خاصی خوش شکل تھی ۔ کیوں مان گئی اس شخص کے لیے؟ شاید روپیہ پیسہ اور آسان زندگی خوش شکل ہمسفرسے زیادہ ضروری ہوتے ہیں ۔ نفیس نے نفاست سے سجے اس بڑے سے گھر کے درودیوار دیکھ کر سوچا تھا ۔
لڑکے والوں کی طرف سے جلدی پر اصرار ہوا تو دوسری طرف سے بھی مزاحمت نہیں ہوئی ۔ مہینے بعد سادگی سے نکاح طے پا گیا۔ واپسی کے سفر میں انیلا آگے کے معاملات کے لیے پلان بنا رہی تھی جس پر فریدہ بے توجہی سے ہوں ہاں کر رہی تھیں ۔ ثمن کو ہونے والے بہنوئی سے مل کر کافی مایوسی ہوئی تھی جس کا اس نے برملا اظہار بھی کیا تھا اور رشتے پر اعتراض بھی ۔ سفیان کچھ خاموش ضرور تھا مگر اعتراض کرنا اس نے ضروری نہیں سمجھا تھا۔ غالباََ جرمنی کا پلان وہ اپنے دماغ میں پکا کر چکا تھا اور تھوڑی بہت ’’قربانی‘‘ کے لیے تیار تھا۔
گھر آکر اس نے سامعہ کا چہرہ تلاشا تھا مگر نہ کوئی آنسو تھا، نہ ناراضگی …کوئی خاموش شکوہ تک نہیں تھا ۔ وہ میکانکی انداز میں ان کے لیے دروازہ کھول کر پھر ٹیوشن کے لیے آئے بچوں کے پاس جا بیٹھی تھی ۔ یوں ہی خاموشی سے دن گزرے تھے کوئی بڑھ چڑھ کر تیاریاں بھی دیکھنے میں نہیں آئیں تھیں ۔ سامعہ نے کہہ دیا تھا کہ کسی لمبے چوڑے پروگرام کی گنجائش نہیں ہے ۔ خاندان کے چند بڑوں اور محلے کے چند قریبی چیدہ چیدہ لوگوں کو بلا نا کافی ہو گا ۔ برات میں بھی چھ آٹھ بندوں ہی کا کہا تھا ان لوگوں نے ۔ جو تھوڑی بہت تیاری ہو بھی رہی تھی سب انیلا کر رہی تھی۔
’’ سارے کام آپ نے مجھ پر ہی چھوڑے ہوئے ہیں ، سامعہ بی بی کو دیکھ کر تو لگتا ہے ان کی نہیں کسی محلے دار کی شادی ہے۔‘‘
’’ بہنیں ہی بہنوں کا کرتی ہیں اس نے بھی تو تم سب کا اتنا کیا ہے ۔ ‘‘ فریدہ نے سامعہ کی تھوڑی سے سائیڈ لی تھی۔
’’تو احسان کیا ہے ؟ ‘‘ انیلا نے جوابا بھڑک کر سوال کیا تھا ۔ فریدہ جواباََ کچھ نہیں بولیں تھیں۔
’’ اچھا کہئے گا اس سے کوئی فیشیل وغیرہ کروا لے اور مہندی بھی لگوا لے، کیا کہیں گے لوگ؟‘‘ چند ثانیوں کے بعد وہ کچھ ٹھنڈی ہو کر بولی تھی۔
’’کہہ دوں گی ۔ ‘‘ فریدہ اس کی باتوں سے اکتا رہی تھیں، وہ جانے کے لیے کھڑی ہوئی تو مزید رکنے کے لیے نہیں کہا اسے۔
’’اتنا ہی سوگ منانا تھا تو کر دیتی انکار کس نے بندوق تانی تھی اس کی کنپٹی پر ۔ ‘‘ جاتے جاتے بھی وہ بڑبڑائی تھی فریدہ بس تاسف سے سر ہلا کر رہ گئیں۔
سامعہ نے فیشیل بھی کروا لیا تھا اور مہندی بھی لگوا لی تھی مگر ڈھلتی شام کے سائے میں صحن پر کرسی پر بیٹھ کر اپنی مہندی کو دیکھتی سامعہ کو اپنے ہاتھ اپنے نہیں لگ رہے تھے۔ مہندی اس نے ہمیشہ کسی تہوار ہی پر لگوائی تھی ۔ عید پر، خاندان کی شادیوں پر ۔ مہندی تو خوشی اور شادمانی کی علامت ہے، تو پھر یہ اس کے ہاتھوں پر کیا کر رہی تھی ۔ چائے کا کپ اٹھا کر بالکونی میں میں داخل ہوتے نفیس کی نظر اس پر پڑی تھی۔
اپنے ہاتھوں پر لگی مہندی کو گھورتی وہ اسے اتنی کھوئی ہوئی اتنی تنہا لگی تھی کہ نفیس کا جی چاہا تھا کہ وہ اس کے پاس جا بیٹھے ۔ اس سے پوچھے کہ وہ ایسا کیوں کر رہی ہے ؟ کیا وہ واقعی اتنا تھک گئی ہے کہ کوئی آسان راستہ ڈھونڈ رہی ہے؟ اگر تھک گئی ہے تو سب کے حصے کا بوجھ اپنے کندھوں پر کیوں اٹھائے پھر رہی ہے ؟ جن کے لیے وہ قربانیاں دے رہی ہے وہ ہیں اس قابل ؟ مگر وہ یہ سب نہیں کہہ سکتا تھا ۔ وہ اس کی کہانی کا کوئی کردار نہیں تھی ۔ اسے کوئی حق نہیں تھا اس کی انتخابات پر سوال اٹھانے کا۔
اگلے دن وہ پارلر سے تیار ہو کر آئی تھی کامدانی سرخ فراک میں ملبوس کچھ زیادہ اچھی بھی نہیں لگ رہی تھی ۔ اب پتہ نہیں اس میں زیادہ کمال سستے پارلر کا تھا یا اس کے اندر چھائی یژمردگی کا ۔ نفیس آخری وقت میں دو چار کرسیاں ہلا جلا کررشتے داری کا حق نبھانے اور اس سے زیادہ فریدہ کی گڈ بک میں اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کے ارادے سے نیچے آیا تھا مگر فریدہ کے تقریب کے لیے جمع شدہ آٹھ دس رشتے داروں سے تعارف کے بعد چند منٹ بعد ہی واپس اوپر جانے کا سوچنے لگا تھا ۔
’’اچھا رئیس کا بیٹا ہے؟‘‘
’’کب آیا؟‘‘
’’کیوں آیا‘‘
’’کیا کرتا ہے؟‘‘
’’اب کیسے یاد آگیا اسے ددھیال ۔‘‘
ان کا تجسس نفیس کی طبیعت مکدر کر رہا تھا ۔ اس سے پہلے وہ واپس اوپر بھاگتا، بارات کی آمد کا غلغلہ ہوا تھا ۔ سامعہ بی بی کے دولہا نے فوراََ ہی سپاٹ لائٹ اس سے چھینی تھی۔
’’ہائے اللہ… کیا دیکھا فریدہ نے۔‘‘
’’یہ تو اللہ بخشے جلیس بھائی سے بھی شاید بڑا ہو عمر میں۔‘‘
’’نجانے کیا معاملات ہیں ۔ ‘‘
کھسر پھسر کچھ اتنی مدہم بھی نہیں تھی کہ اس کے کانوں تک نہ پہنچتی ۔ اسے نئے سرے سے افسوس ہوا تھا سامعہ کی قسمت پر ۔ کاش یہ کوئی ڈرامہ یا فلم ہوتی اور اس موقع پر ہیرو کی دبنگ انٹری ہوتی’’یہ شادی میرے جیتے جی نہیں ہو سکتی ۔ ‘‘ کولڈ ڈرنک کا سپ لیتے نفیس نے تاسف سے سوچا تھا ۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے