مکمل ناول

کہانی : پہلا حصہ

’’سفیان تم گئے تھے؟ سٹامپ وغیرہ لائے ہو؟‘‘
’’نہیں باجی، کل کروں گا وہ کام ۔ ‘‘
’’ کر لینا یاد سے… ‘‘سامعہ نے کھانے کی میز سے اٹھتے ہوئے کہا تھا اس بات سے انجان کہ اوپری منزل پہلے ہی آباد ہو چکی تھی ۔ اس گھر میں اس کے علاوہ ہر کوئی ایسا ہی تھا فطرتاََ بے فکر اور لاپرواہ۔
اگلے دن سکول اور پھر اس کے بعد ٹیوشن سینٹر میں جان کھپا کر وہ گھر پہنچی تو تھکن اور گرمی نے نڈھال کر رکھا تھا ۔ بیل بجا کر اس نے گیٹ سے ٹیک لگائی تھی اور ہاتھ میں پکڑے رجسٹر سے ہوا جھلنے لگی تھی ۔ اچانک ہی اس کے خلاف توقع چھوٹے گیٹ کے بجائے مین گیٹ کھولا گیا تو وہ توازن برقرار نا رکھ کر لڑکھڑائی تھی۔
’’ اوہ آرام سے…‘‘ اس کے کندھے پر لمحے بھر کو ہاتھ رکھ کر کسی نے اس کو توزان برقرار رکھنے میں مدد دی تھی ۔ سامعہ نے سنبھلتے ہوئے نو وارد پر نظر ڈالی۔
’’آپ؟‘‘
’’ ارے…آپ، یہ گرنا پڑنا شاید ہابی ہے آپ کی ۔ ‘‘ بادامی آنکھوں میں شرارت ناچی تھی۔
’’آپ یہاں کیا کر رہے ہیں ۔ ‘‘ سامعہ نے رعب سے پوچھا تھا۔
’’ میں رہتا ہوں یہاں۔‘‘
’’ کب سے؟‘‘
’’کل سے۔‘‘
’’نئے کرایے دار ہیں آپ۔‘‘
’’ جی یہی سمجھ لیں‘ ویسے آپ یہاں کیا کر رہی ہیں؟‘‘
’’ گھر ہے یہ میرا ۔ ‘‘نفیس نے سر جھٹک کر قریبا پیر پٹخ کر چلتی سامعہ کو جاتے دیکھا تھا پھر کندھے اچکا کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا تھا۔
’’ امی، یہ کیا ؟ آپ نے بغیر کسی کاغذی کاروائی کے اس بندے کو گھر میں گھسنے کی اجازت دے دی ؟ ‘‘سامعہ جھلائے ہوئے انداز میں ماں سے مخاطب ہوئی تھی۔
’’اوہو‘ وہ سزوکی میں اپنا سامان بھر کر لے آیا تھا تو میں کیا کہتی واپس چلے جاؤ ۔ خود ہی تو میں نے کہا تھا اسے کہ کل آجانا بے شک ۔ ‘‘
سامعہ نے سر پیٹا تھا اپنی ماں کہ بھول پن پر ۔
’’امی ایسے تھوڑی ہوتا ہے، بغیر کسی چھان بین، بغیر لکھت پڑھت کسی کو گھر دیتا ہے کوئی، وہ کوئی غنڈہ بدمعاش کوئی دہشت گرد ہو تو؟‘‘
’’ ہائے دہشت گرد ؟ ‘‘ فریدہ کا ہاتھ دل پر پڑا تھا۔
’’شکل سے تو بالکل نہیں لگ رہا تھا ۔ اسے جلدی گھر چاہئے تھا میں نے سوچا ہم نے تاخیر کی تو کہیں اور نا دیکھ لے ۔ ارے مجھے کیا پتا ان باتوں کا ۔‘‘ وہ روہانسی ہو کر بولیں تھیں۔
’’ اچھا کچھ نہیں ہو گا ۔ اللہ سیدھے رکھے گا معاملات انشاء اللہ ۔ ‘‘ ماں کا اڑتا رنگ دیکھ کر سامعہ نے تسلی دی تھی ۔
فریدہ ایسی ہی تھیں ۔ بہت خوبصورت تھیں کم عمری میں شادی ہوگئی،جلیس احمد بیوی کے دیوانے تھے ۔ شہزادیوں کی طرح رکھا ۔ اپنی زندگی میں کسی فکر کی ہوا نہیں لگنے دی تھی ۔ اچھا پکایا، اچھا کھایا، اچھا پہنا اوڑھا، گھر سجایا اور بس مگر جلیس احمد کے جانے کے بعد بھی وہ گھر سے باہر کی دنیا کی زیادہ فہم پیدا نہیں کر پائیں تھیں۔
’’اب کیا ہوگا ؟ ‘‘ تفکر سے پوچھا تھا۔
’’کچھ نہیں ہو گا بس جو پہلے کرنا چاہئے تھا وہ اب کریں گے ۔ سفیان آجائے تو بلا کر بات کرتے ہیں ۔ ‘‘سامعہ نے ماں کو تسلی دی تھی۔
شام کو سفیان اسے بلا لایا تھا ۔ سامعہ اور فریدہ تخت پر براجمان تھیں ۔ ایک کونے میں ثمن بھی ڈائجسٹ ہاتھ میں لیے موجود تھی ۔نفیس کو سلام دعا کے بعد سامنے پڑی کرسی پر بیٹھنے کی دعوت دی گئی تھی۔
’’آپ کو اس لیے زحمت دی ہے کہ جو بھی ضروری کاغذی کاروائی ہے وہ کل کی ہی تاریخ میں مکمل ہونی چاہیے ۔ سفیان سٹامپ بنوا کر لے آئے گا ۔ تین مہینے کا کرایہ بھی ایڈوانس میں ادا کر دیں کل تک‘ باقی ہمیں آپ کے شناختی کارڈ کی اٹیسٹڈ کاپی بھی چاہئے ۔ ‘‘ سامعہ نے معتدل لہجے میں سبھاؤ سے بات کی تھی۔
’’ شناختی کارڈ کے بعد اصولاََ تو کسی کاغذ کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ ایک منٹ میں آتا ہوں ۔ ‘‘ وہ کہہ کر اٹھا تھا اور تیز قدموں سے سیڑھیاں چڑھنے لگا تھا ۔
ان تینوں نے الجھ کر ایک دوسرے کو دیکھا تھا ۔ کیا مطلب تھا اس کی بات کا ۔ چند منٹ بعد اس نے نیچے اتر کر اپنا شناختی کارڈ سامعہ کی طرف بڑھایا تھا۔
’’نفیس احمد ولد رئیس احمد ۔ ‘‘ پھر ایک اور شناختی کارڈ ان کی طرف بڑھایا تھا۔
’’یہ میری مرحومہ والدہ کا شناختی کارڈ ہیں۔ تمکنت بانو اور یہ میرا برتھ سرٹیفیکیٹ ہے ۔ مستقل پتا یہیں کا درج ہے ۔ مزید کسی کاغذ کی تو اب ضرورت نہیں ؟ ‘‘ وہ کہہ کر سکون سے کرسی پر بیٹھ گیا تھا اور وہ تینوں حیرت سے کبھی اسے دیکھ رہے تھے اور کبھی ہاتھ میں پکڑے کاغذات کو۔
’’تم رئیس بھائی کے بیٹے ہو ؟‘‘ بلآخر فریدہ کا سکتہ ٹوٹا تھا۔
’’ جی۔‘‘
’’ آپ کرائے دار بن کر گھر میں گھسے اور اب کہہ رہے ہیں کہ آپ مالک ہیں ؟ آپ فوراََ نکلیں ہمارے گھر سے ۔ اگر آپ تایا جان کے بیٹے ہیں تو قانونی طریقے سے ثبوت کے ساتھ کلیم کریں ۔ ‘‘ سامعہ کو نا بندا سمجھ میں آیا تھا نا اس کی حرکتیں۔
’’ آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ آپ جلیس احمد کی فیملی ہیں ؟ ہو سکتا ہے آپ نے ان کے اور ’’میرے‘‘ مکان پر قبضہ کر رکھا ہو۔ ‘‘ وہ میرے پر زور دے کر بولا تھا۔
’’آپ بھی گھر خالی کریں اور قانونی طریقے سے ثبوت کے ساتھ کلیم کریں۔‘‘ اس کے ہاتھ سے شناختی کارڈ اور برتھ سرٹیفیکیٹ لے کر وہ اسی کے انداز میں بولا تھا اور ان تینوں کو حیران پریشان چھوڑ کر اوپر چلا گیا تھا۔
’’ ارے واہ یہ تو بالکل ناولوں والی سیچویشن ہو گئی۔ ‘‘ ثمن دلچسپی سے بولی تھی
’’ بیٹا تو یہ رئیس بھائی ہی کا ہے ۔ ‘‘ سامعہ نے ماں کا منہ دیکھا تھا۔
’’ بالکل تمکنت بھابھی کی شکل ہے ۔ ایسی ہی بادامی آنکھیں، گھنگریلے بال تھے ان کے، بس یہ لمبی ناک رئیس بھائی سے لی ہے اس نے ۔ ‘‘ فریدہ نے فوراََ رشتے دار کا بچہ دیکھ کر ماں باپ سے مماثلت پر تبصرے کی قومی رسم نبھائی تھی۔
’’پہلی نظر میں مجھے کچھ جانی پہچانی شکل لگی تھی ۔ نام بھی دیکھو نفیس،مگر میرا دھیان ہی نہیں گیا ۔‘‘
’’تایا جان اور تائی کی طلاق کیوں ہوئی تھی ۔ ‘‘ ثمن نے ناول پرے رکھا تھا۔ اچھا بھلا ڈرامہ تو گھر میں چلا آیا تھا۔
’’ بس رئیس بھائی کو دیکھا تو تھا تم لوگوں نے ۔ اللہ بخشے مگر کام چوری اور غیر ذمہداری میں اپنی مثال آپ ۔ دوستوں کے ساتھ ہنسی ٹھٹھا کیا، سگریٹ پھونکے اور بس، نا بیوی بچے کی کوئی پرواہ نا ان کے دانے پانی کی فکر ۔ اوپر سے بیوی پر رعب جمانے کا بھی بہت شوق تھا ۔ تمکنت بھابھی کی بھی برداشت کی حد تھی، ختم ہو گئی۔‘‘
’’ ہممم مگر اچھا ہوا نفیس بھائی ہمارے پاس آگئے ۔ میں تو کہتی ہوں اگر ہمارے بہت سارے کزنز ہوتے، سب ایک ہی گھر میں رہتے تو کتنا مزا آتا ۔‘‘ ثمن پر جوش لہجے میں بولی تھی۔
سامعہ نے ایک نظر بہن پر ڈال کر تاسف سے سر ہلایا تھا ۔ اس لڑکی کا تو ناولوں نے دماغ خراب کیا ہوا تھا۔
’’ مگر اپنے گھر میں کون جھوٹ بول کر گھستا ہے، اور اتنے سال یہ کہاں تھا ۔ تایا ابوکے جنازے تک پر نہیں آیا ۔ اب اچانک سے اسے ’’اپنا گھر‘‘ یاد آگیا ۔ پتہ نہیں کیا کرتا ہے؟ کس قماش کا ہے اور کس ارادے سے گھسا ہے گھر میں ۔ ‘‘ سامعہ کو تفکر نے گھیر لیا تھا ۔ کچھ کچھ اوپر والی منزل کے کرائے پر لگ جانے کی امید ختم ہونے کا غم بھی تھی۔
نفیس نے اوپر آتے ہی پہلا کام یہ کیا تھا کہ اپنے وکیل دوست کو کال ملائی تھی۔
’’ یار یہ پولیس تو نہیں بلا لیں گے مجھ پہ ۔‘‘
جواباََ نعمان ہنسا تھا۔
’’بلانی تو چاہیے ۔ تم بھی ڈیڑھ شانے نکلے، کرائے دار بن کر گھس گئے ۔ میں نے کہا تھا مل کر تیور دیکھو، گھر پر تمہارا کوئی حق ماننے کو تیار ہیں یا نہیں ۔ ‘‘
’’ یار میں آیا اسی نیت سے تھا ۔ دروازے کے باہر کرائے کے لیے خالی کا نوٹس لگا تھا ۔ دروازہ کھولتے ہی انہوں نے پوچھا کہ کیوں آئے ہو تو میں نے بغیر سوچے سمجھے کہہ دیا کرائے پہ گھر دیکھنے آیا ہوں ۔آگے میری چچی کی سادہ لوحی ‘ میں نے سوچا موقع مل رہا ہے گھسنے کا تو گھس جاتا ہوں گھر میں باقی بعد میں دیکھی جائے گی ۔ مالک مکان بھی تو میرا سامان پھینکنے کو تیار تھا۔‘‘
’’جو حالت تم بتا رہے ہو ان کے،مجھے نہیں لگتا تھانہ کچہری کے چکر میں پڑیں گے ۔لیگلی تمہارا حق تو بنتا ہے ۔ گھر دادا کا ہے ۔ تمہارے والد کو ان کے والد نے عاق کیا نا تمہیں تمہارے والد نے ۔ ان کی زندگی میں تمہارے ان سے تعلقات کی نوعیت کیا تھی اس سے قانون کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘
’’ بہر حال کوئی مسئلہ ہو گیا تو آ جانا، ورنہ روز قیامت اپنے سگریٹ اور چائے نہیں بخشوں گا تمہیں ۔‘‘ نعمان جواباََ ہنس دیا تھا۔
فون بند کر کے وہ کھڑکی کی طرف آیا تھا اور ذرا کی ذرا نیچے جھانکا تھا ۔ چاروں وہیں بیٹھے تھے اور یقینا موضوع گفتگو اس کی آمد ہی تھی ۔ ان سے نظر ہٹائی تو زنگ لگا گیٹ نظروں کی زد میں آیا تھا ۔ گزرتے وقت کے ساتھ گھر میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی تھی ۔ حتیٰ کہ صحن میں بچھا تخت اور اس پر بچھی اجلی چادر بھی ویسی ہی لگتی تھی جیسی اس کی بچپن کی یادوں میں تھی بس اس وقت تخت پر ہلکے رنگ کے کپڑوں میں ملبوس اس کی دادی براجمان ہوا کرتی تھیں۔
چار سال کی عمر میں وہ اپنی ماں کی انگلی تھامے اسی گیٹ سے نانا کے گھر لاہور جانے کے لیے نکلا تھا ۔ اس وقت وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ ہمیشہ کے لیے جا رہا ہے ۔ بہت عرصے تک یاد کیا تھا اس نے اس گھر اور اس کے مکینوں کو مگر پھر یادوں پر وقت کی اتنی دھول جم گئی کہ باپ تک بھولی بسری کہانی ہو گیا ۔ اس نے بھی تو کبھی پلٹ کر خبر نہیں لی ۔ بچوں کی کہانیاں لکھتے لکھتے وہ بڑا ہوا، پھر کالج کے دوستوں کے لیے سٹیج پلے لکھتے لکھتے، اشتہاروں اور ٹی وی ڈراموں کے لیے سکرپٹس لکھنے شروع کر دیے ۔ اتنی کامیابی مل ہی گئی کہ ماں کا’’کوئی ڈھنگ کی نوکری کر لیتے ‘‘ والا شکوہ دور ہو گیا ۔ ماں کی وفات کے بعد اسے نانا سے وراثت میں ملا گھر کرائے پر چڑھا کر وہ کراچی چلا آیا کیونکہ اس کا کام یہیں تھا مگر ایک شہر میں ہونے کہ باوجود کبھی اس کے دل میں یہ خواہش پیدا نا ہوئی کے اپنے باپ سے جا کر ملے ۔ باپ کے مرنے کہ کئی دن بعد جب اس تک خبر پہنچی تو ملال جاگا تھا دل میں، کبھی نہ ملنے کا، ایک ہی شہر میں ہو کر اس کے جنازے تک میں شریک نہ ہونے کا ۔ سال بھر بعد چچا کے مرنے کا بھی علم ہوا تھا اسے مگر جو وہ پیچھے چھوڑ آیا تھا اس سے اب لاتعلق ہی رہنا چاہتا تھا مگر اس وقت نہ کرایہ دینے کے پیسے تھے نہ نئے گھر کا ایڈاونس ۔ گاڑی بیچنے کے لیے کئی ہفتوں سے ایڈ لگا رکھا تھا مگر اچھی قیمت نہیں مل رہی تھی ۔ ضرورت اسے وہاں لے آئی تھی جہاں جذبات نہیں لا سکے تھے۔
اگلے کچھ دن وہ گھر سے کم ہی نکلا اس ڈر سے کہ کہیں اس کا سامان باہر پھینک کر وہ لوگ اس کے داخلے پر پابندی نا لگا دیں ۔ مگر آج جب وہ باہر جانے کے لیے اپنے کسی کام سے نکلا تو فریدہ تخت پر بیٹھی لہسن چھیل رہیں تھیں ۔ اس نے سلام کیا تھا۔
’’وعلیکم اسلام ، ایک کام کرو گے بیٹا؟‘‘
’’ جی۔‘‘
’’ یہ گلی کے نکڑ پر نا سبزی والا کھڑا ہو گا، ٹماٹر لا دو ذرا ۔ ‘‘ نفیس کو حیرت ہوئی تھی ان کی اتنی بے تکلفانہ فرمائش پر مگر تابعداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کلو ٹماٹروں کی تھیلی اٹھا لایا ۔ فریدہ اندر جا چکیں تھیں مگر تخت پر ثمن موجود تھی۔
’’ یہ ٹماٹر منگائے تھے آں… چچی نے ۔ ‘‘ ثمن نے تھیلی اس کے ہاتھ سے پکڑ لی تھی ۔ وہ جانے کے لیے پلٹا ہی تھا کہ ثمن نے اسے روکا تھا۔
’’ نفیس بھائی‘ آپ سچ میں ڈرامہ رائٹر ہیں؟‘‘
’’ جی۔‘‘ وہ مسکرایا تھا۔
’’ کون سا ڈرامہ لکھا ہے آپ نے‘‘
‘‘بساط، خاموشی، کھیل…‘‘ اس نے اپنے مشہور ڈراموں کے نام بتائے تھے۔
’’ ہمم… ‘‘ ثمن نے یادداشت پر زور ڈالا تھا مگر یقینا اسے کوئی ایسا ڈرامہ یاد نہیں آیا تھا ۔
’’ اصل میں میں ڈرامے ذرا کم ہی دیکھتی ہوں ۔ ناولز ہی اچھے لگتے ہیں مجھے تو زیادہ ۔ ڈرامہ بناتے ہوئے تو کہانی کا بیڑا ہی غرق کر دیتے ہیں ٹی وی والے ۔ ‘‘ثمن نے ٹی وی والوں کی نالائقی پر منہ بنایا تھا۔
’’ اب دیکھیں’’متاع جان ہے تو‘‘ میں عابی بھلا کوئی ویسا تھا جیسا انہوں نے ہیرو کاسٹ کیا تھا ؟ ‘‘ نفیس جس کی نا عابی سے واقفیت تھی نا ہیرو سے اس کے سوال پر سر ہلا کر رہ گیا تھا۔
’’اور وہ ثروت گیلانی بھی بس ٹھیک ہی ہے ۔ ہنیہ جتنی پیاری تو نہیں ہے۔ ‘‘ ثروت گیلانی کو تو اس نے دیکھ رکھا تھا مگر اب وہ ہنیہ جتنی پیاری تھی یا نہیں اس پر رائے دینے کہ لیے ہنیہ کو دیکھنا ضروری تھا۔
’’ ایک’’ہمسفر‘‘ ہی تھا جو کچھ ٹھیک بنایا تھا ۔ اچھا خیر آپ یہ بتائیں آپ نے عمیرہ احمد کو دیکھا ہے ۔ ‘‘ ثمن نے اشتیاق سے پوچھا تھا۔
نفیس نے سر نفی میں ہلا یا تھا ۔
’’ فرحت اشتیاق سے بھی نہیں ملے کبھی؟‘‘
’’ نہیں کبھی اتفاق نہیں ہوا ۔ ‘‘ نفیس نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا تھا ۔ ثمن کے چہرے پر چند لمحوں کو واضح مایوسی نظر آئی تھی۔
’’ چلیں کوئی بات نہیں ۔ اب آپ محنت کریں اور کوئی اچھا سا ڈرامہ لکھیں ’’تیرے بن‘‘ کے لیول کا تاکہ میں بھی اپنی فرینڈز کو بتا سکوں کے میرے کزن کتنے بڑے رائٹر ہیں ۔‘‘
’’ کوشش کروں گا۔ ‘‘ وہ جو دوسال پہلے بہترین رائٹر کا ایوارڈ جیت چکا تھا تیرے بن کے رائٹر کا لیول میچ نا کر پانے پر اور کیا کہتا۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے