کہانی : پہلا حصہ

’’ آپ ٹھیک ہیں؟‘‘
اس کا مدد کے لیے بڑھا ہاتھ نظر انداز کر کے صرف ایک نگاہ غلط اس پر ڈالی گئی تھی ۔ نفیس کو اس کی نظروں کی ناگواری ناگوار گزری تھی ۔ آنکھیں بند کیے سڑک پار کر رہی اور اب ایسے تیور تھے کہ جیسے اس کی کوئی غلطی ہی نا ہو۔
’’ سڑک کراس کرنے سے پہلے دائیں دیکھنا چاہئے ،پھر بائیں دیکھنا چاہئیے ،اگر کوئی گاڑی آرہی ہو تو اس کے گزرنے کا انتظار کرنا چاہیے اور سڑک کراس کرنے کے لیے زیبرا کراسنگ کا استعمال کرنا چاہیے ۔ ‘‘وہ یوں بولا تھا جیسے بچوں کو کوئی سبق پڑھاتے ہیں۔
’’ گاڑی بھی آنکھیں کھول کر چلانی چاہیے۔‘‘
’’ جی درست فرما رہیں ہیں آپ ۔ سڑک پر کچھ لوگ خودکشی کی نیت سے بھی پھر رہے ہوتے ہیں ۔ انسان احتیاط نا کرے تو ان کے قتل کے الزام میں جیل جا سکتا ہے ۔ ‘‘
کتنا فضول آدمی تھا ۔ سامعہ سر جھٹک کے آگے بڑھی تھی۔
’’ سنئیے!‘‘
’’ مجھے آپ کی فضول باتیں سننے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ‘‘
’’ ظاہر ہے جب زندگی میں دلچسپی نا ہو تو باتوں میں کیسے ہو سکتی ہے، سڑک پر سامان گرا رہ گیا ہے وہ اٹھا لیں اگر… اس میں دلچسپی ہو تو۔‘‘
سامعہ نے پلٹ کر دیکھا تو اس کے بیگ سے گری کچھ چیزیں سڑک پر موجود تھیں ۔ جب تک وہ چیزیں اٹھاتی وہ گاڑی میں بیٹھ چکا تھا ۔ سامعہ اٹھ کھڑی ہوئی تو نفیس نے اسے اشارہ کیا تھا کہ گزر جائے مگر وہ دو قدم پیچھے ہو کر فٹ پاتھ پرہوگئی تھی اور پھر ناک کی سیدھ میں چلنا شروع کر دیا تھا۔
’’ چل بھئی یہ بی بی تو دنیا سے خفا ہے۔ ‘‘ نفیس گاڑی آگے بڑھاتے ہوئے بڑبڑایا تھا۔
سامعہ نے زن سے آگے بڑھتی گاڑی کو دیکھا تھا ۔ اسے اندازہ تھا کہ غلطی اس کی تھی اور اگر وہ بروقت گاڑی نا روک پاتا تو ناصرف وہ حادثے کا شکار ہو سکتی تھی بلکہ وہ بھی مصیبت میں پڑ سکتا تھا، مگر دل نہیں مانا تھا آج اپنی غلطی ماننے کو‘ آج اسے نے خود کو ہر الزام سے بری الذمہ قرار دیا تھا اور فرد جرم سے انکار کردیا تھا ۔ ساری غلطی اس گھنگریالے بالوں اور بھوری آنکھوں والے شخص کی تھی ۔ فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے اس نے دل ہی دل میں اسے جی بھر کر برابھلا کہا تھا لاپرواہی سے گاڑی چلانے پر بھی اور پھر چھچھوروں کی طرح جملے بازی کرنے پر بھی۔
انیلا آج میکے خصوصی کام سے آئی تھی ۔ اس کی کسی جاننے والی نے سامعہ کے لیے رشتہ بتایا تھامگر تفصیل سن کرفریدہ خاموش ہو گئیں تھیں۔
’’ پھر بات کرنی ہے سامعہ سے یا نہیں ۔‘‘
’’کیا بات کروں سامعہ سے میرا تو اپنا دل نہیں مان رہا، آٹھ دس سال کی بات ہوتی تو خیر تھی، مگر ستائیس سال کا فرق میاں بیوی میں ؟ ‘‘
’’ امی اتنا کھاتا پیتا امیر آدمی ہے جرمنی میں اپنا کاروبار ہے عیش کرے گی ۔ یہاں کیا رکھا ہے ۔ ‘‘ انیلا فریدہ کو منانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی۔
’’ شکل کے کیسے ہیں ؟ تصویر نہیں لائیں۔ ‘‘ چھوٹی ثمن نے دلچسپی سے پوچھا تھا۔
’’ شکل کے بس ویسے ہی ہیں جیسے مرد ہوتے ہیں ۔ مردوں کی شکل نہیں جیب دیکھ جاتی ہے۔ ‘‘ انیلا نے ٹالا تھا۔
’’یہ کیا بات ہوئی ؟ ‘‘ ثمن نے منہ بنایا تھا۔
’’ سارے مرد ایک شکل کے ہوتے ہیں کیا ؟ بڑا فرق پڑتا شکل سے آپ سوچیں ایک لمبی سی چمکتی کار ہو اور اس سے ایک پر وقار جورج کلونی جیسا شخص نکلے تو سامعہ آپی کی دھڑکنیں اسے دیکھ کر تیز ہو بھی سکتی ہیں۔‘‘
’’ او…پر وقار، لمبی کار‘ یہ اپنا دماغ تم کبھی ان ناولوں سے نکال بھی لیا کرو ۔ یہ ناولوں والے ہیرو ناولوں میں ہی رہتے ہیں ۔ اصل دنیا میں یہی ٹیڑے میڑے ملتے ہیں ۔ ‘‘ ثمن نے انیلا کی بات پر بدمزہ ہو کر پھر سے ناول کھول لیا تھا۔
’’ اچھا آپ کی مرضی ہے کرنی ہے بات تو کریں نہیں تو نا صحیح ۔ اچھا وہ مارچ کی ڈیٹ پکی ہوئی ہے شہلا (نند) کی ۔ ابھی سے بتا رہی ہوں کوئی ڈھنگ کا تحفہ ہو یا سلامی اتنی ہو کہ میری عزت رہ جائے سسرال میں ۔ میری جیٹھانی کا تو پتا ہے نا آپ کو، کتنے مہنگے تحفے دیتے ہیں اس کے گھر والے اور پھر وہ کیسی شو مارتی پھرتی ہے۔‘‘
’’ تو ہم کر سکتے ہیں اس کا مقابلہ؟ اتنا بڑا کاروبار ہے اس کے باپ کا… ادھر میں بیوہ ۔ ‘‘ فریدہ بیزاری سے بولیں تھیں۔
’’ تو میں نے کب کہا مقابلہ کریں، مگر کچھ تو عزت رکھیں میری بھی سسرال میں۔ بتا رہی ہوں ابھی سے مارچ تک ٹائم ہے کافی، سامعہ کو کہہ دی جیئے گا انتظام کرلے کچھ۔‘‘
’’ اچھا کہہ دوں گی ۔ ‘‘ فریدہ نے جان چھڑائی تھی۔
’’ قسم سے مان جائیں آپ ماں،بیٹی تو اس رشتے میں ہر مسئلے کا حل ہے ۔ ‘‘ انیلا کو تو یہ تو یہ رشتہ رحمت خداوندی لگ رہا تھا،مگر فریدہ بہر حال ماں تھیں ۔ بیٹی کے دل کا بھی سوچ رہیں تھیں۔
سامعہ سے سفیان کا خفا خفا انداز مزید برداشت نا ہوا تو فریدہ کے پاس چلی آئی۔
’’ امی کر لیتے ہیں بات فون پر ہی سہی ۔ ‘‘ بھائی کے لیے سفارش کی تھی۔
’’ کس منہ سے بات کروں سامعہ نا لڑکا کسی قابل ہے نا حالات ۔‘‘
’’ ان کی بیٹی کی بھی تو مرضی ہے شاید مان ہی جائیں۔‘‘
’’اچھا دیکھتے ہیں۔‘‘ فریدہ نے کچھ نیم رضامندی ظاہر کی۔
’’ مگر دیکھو اس لڑکے کو ذرا‘یونیورسٹی بھیجا کہ کچھ پڑھ لکھ جائے، یہ عشق معاشقوں میں پڑھ گیا ۔‘‘
’’ پڑھائی میں تو اچھا ہی ہے۔‘‘ سامعہ نے بھائی کا دفاع کیا تھا۔
’’مگر حالات کیا ہیں اور دو بن بیاہی بہنیں بیٹھی ہیں ۔ ‘‘ فریدہ کو سفیان پر غصہ تھا ۔
’’ مجھے تو رہنے دیں ۔ ثمن کے لیے خالہ نے پھر کوئی بات نہیں کی آپ سے ۔ ‘‘ ثمن شروع سے مانچسٹر میں مقیم فریدہ کی بہن کو اپنے بیٹے کے لیے پسند تھی ۔ فریدہ سے وہ باتوں باتوں میں کہہ بھی چکی تھیں کہ وہ اسے اپنی بہو بنائیں گی۔
’’کچھ کہتی تو رہتی ہے مگر بچپن کی کہی بات ہے،کیا پتہ ؟ مکرنے میں دیر کہاں لگتی ہے ۔ آخر انیلا کی بات بھی تو پھوپھی کے ہاں طے تھی ۔ برے وقت میں اپنوں کو پرایا ہونے میں دیر کہاں لگتی ہے۔ پھر آج کل لڑکے لڑکیاں سب اپنی مرضی سے کرتے ہیں ۔ حاشر تو پندرہ سال کی عمر میں انگلینڈ چلا گیا تھا ۔ ویسے تو کہتے ہیں مذہب کی طرف رجحان ہے وہاں کے رنگ میں نہیں رنگا مگر کیا پتا اس کی کیا مرضی ہوگی۔‘‘
جلیس احمد کے جیتے جی ان کے بڑے اچھے حالات رہے تھے ۔ ذاتی جنرل سٹور تھا جلیس احمد کا جو ٹھیک ٹھاک چلتا تھا ۔ بہت اچھی آمدنی ہو جاتی تھی ۔ اچھا کھانا، پینا پہننا اوڑھنا، دینا دلانا بچوں کی تعلیم سب سہولت سے ہوتا تھا ۔ کسی قسم کی تنگی ترشی کا کبھی سامنا نہیں کیا تھا مگر ان کی وفات کے بعد سب بدل گیا ۔ جلیس احمد کا چچا زاد بھائی جو ان کی دکان پر کام کرتا تھا چند مہینوں میں فریدہ کو جھوٹی سچی کہانیاں سنا کر سب لوٹ کر لے گیا ۔ فریدہ میں نا کاروبار کی سمجھ تھی نا کورٹ کچہری کی ہمت سو بس رو پیٹ کر، بد دعائیں دے کر خاموش ہو گئیں۔ سامعہ جس نے ابھی ابھی ایم ایس سی کا امتحان دیا تھا ایک پرائیویٹ سکول میں ملازمت کر لی ساتھ ٹیوشنز دینی شروع کر دیں ۔ دوسری منزل بھی کرائے پر چڑھا دی، تو کچھ گزارا ہونے لگا ۔ انیلا کے لیے اچھا رشتہ آیا تو فریدہ نے اپنا زیور بیچ کر اسے رخصت کر دیا ۔ سفیان کا یونیورسٹی میں ایڈمیشن ہوا تو سامعہ کو بھی خوش قسمتی سے گورنمنٹ سکول میں نوکری مل گئی تو یونیورسٹی کی فیس کا وسیلہ بن گیا ۔ زندگی کی گاڑی چل تو رہی تھی مگر بمشکل ۔ ذرا جو کوئی اضافی خرچہ نکل آتا تو مصیبت ہوجاتی تھی ۔ خاص طور پر جب سے کرائے داروں نے گھر چھوڑا تھا بجٹ بہت ٹائٹ ہو گیا تھا۔
’’ تمہارے لیے بھی انیلا ایک رشتے کا کہہ رہی ہے ۔ ‘‘ فریدہ دھیمے سے بولی تھیں۔
سامعہ نے کچھ چونک کر ماں کو دیکھا تو نجانے کیوں انہوں نے نظر چرا لی تھی۔
’’رہنے دیں‘ مجھے نہیں کرنی شادی ۔ ‘‘ وہ بیزار سے لہجے میں کہہ کر اٹھ گئی تھی۔
فریدہ نے البتہ دو دن بعد فریحہ کے گھر والوں سے بات کی تھی ۔ انہوں نے نا اقرار کیا تھا نا انکار بس دیکھیں گے، سوچیں گے ٹائپ جواب دیا تھا ۔ ان حالات میں مناسب جواب بھی یہی بن سکتا تھا ۔ صد شکر سفیان کا موڈ اچھا ہو گیا تھا، مگر اس کے اچھے موڈ کے با وجود سامعہ کی دوبارہ ہمت نہیں ہوئی تھی موٹر سائیکل بیچنے کا کہنے کی ۔ بس اب دعا ہی کا آسرا تھا کہ کوئی معجزہ ہو جائے اور گھر بناء مرمت ہی کرائے پر لگ جائے۔
٭…٭…٭
فریدہ باہر صحن میں تخت پر بیٹھیں بھنڈیاں کاٹ رہیں تھیں جب دروازے پر دستک ہوئی۔
گھر میں اور کوئی تھا نہیں سو خود ہی اٹھ کر دروزہ کھولا تھا ۔ سامنے نیلی جینز پر گرے شرٹ، آنکھوں پر کالی عینک لگائے تیس بتیس سال کا دراز قامت شخص کھڑا تھا ۔ انہیں دیکھ کر عینک آنکھوں سے اتاری تھی اور مودب انداز میں سلام کیا تھا ۔ فریدہ کو نجانے کیوں اس کے گھنگریالے بال اور گندمی چہرے کے نقوش کچھ جانے پہچانے لگے تھے۔
’’ وعلیکم اسلام… جی؟‘‘
’’ وہ، آپ کا گھر کرائے کے لیے خالی ہے ؟ وہی دیکھنے آیا تھا ۔ ‘‘ فریدہ نے ایک نظر پیچھے کھڑی اس کی سفید ویگنار کو دیکھا تھا۔ مشکل ہی تھا کہ اسے گھر پسند آتا،مگر کوشش کرنے میں کیا قباحت تھی۔
’’ اچھا اچھا آؤ ۔ ‘‘ انہوں نے راستہ دیا تھا اسے۔
’’ نیٹ سے اشتہار دیکھ کر آئے ہو؟‘‘
’’ جی۔‘‘
’’ کیا کرتے ہو ؟ ‘‘ اپنی معیت میں اس سیڑھیوں کی طرف لاتے ہوئے انہوں نے ساتھ انٹرویو شروع کیا تھا۔
’’ جی…رائٹر ہوں ۔ ‘‘وہ اطراف کا جائزہ لیتے ہوئے بولا تھا۔
’’ کیا لکھتے ہو۔‘‘
’’ کہانیاں ۔ ‘‘ فریدہ نے اس جواب پر رک کر اس کی طرف دیکھا تھا ۔
’’ میں پوچھ رہی ہوں کام کیا کرتے ہو؟ نوکری، کاروبار۔‘‘
’’ جی یہی کام کرتا ہوں ۔ ڈراموں وغیرہ کے لیے کہانیاں لکھتا ہوں ۔‘‘
’’ اس کام کے پیسے ملتے ہیں؟‘‘
’’ جی۔‘‘
’’ کمال ہے کہانیاں گھڑنے کے بھی پیسے ہوتے ہیں؟‘‘ فریدہ زیر لب بڑبڑائیں تھیں۔
’’ خیر جو بھی کام کرتے ہو کرایہ ٹائم پر ملنا چاہیے ۔ ‘‘ فریدہ نے پر زور انداز میں کہا تھا مگر اگلے پورشن میں قدم رکھتے ہی خود اپنی بات بڑی ہلکی لگی تھی ۔
بد رنگ در ودیوار، کھڑکیوں کی پھٹی جالیاں، کچھ کے تو شیشے بھی ٹوٹے ہوئے تھے ۔ دو دروازوں کے ہینڈل ندارد ، کچن کی ٹوٹی پھوٹی کیبینٹس۔ رسی سے باندھ کر ٹکایا گیا باتھ روم کا نلکا ۔ فریدہ نے کنکھیوں سے اسے دیکھا تھا ۔ بھینچے ہوئے لب، تنقیدی پر سوچ نظریں ۔ ان کا دل بجھ گیا ۔یہ بھی پلٹ کر نہیں آئے گا۔
’’ مرمت کے لیے آپ کو کتنا وقت چاہئے؟ میں تو جلد از جلد شفٹ ہونا چاہتا ہوں ؟ ‘‘
فریدہ اب کیا کہتیں کہ مرمت کے لیے انہیں وقت نہیں پیسوں کی ضرورت ہے مگر دماغ نے عین وقت پر کام کیا۔
’’ چاہو تو شفٹ ہو جاؤ، مرمت ساتھ ساتھ چلتی رہے گی ۔‘‘
یہ آجائے تو کیا ہے اسی سے کرایہ لے کر مرمت کروا لیں گے ۔ فریدہ نے اپنی دانست میں ہوشیاری کی تھی۔
’’اممم…چلیں ٹھیک ہے ۔ ‘‘ وہ کچھ سوچ کر بولا تھا ۔ کرائے وغیرہ کے بارے میں جو فریدہ نے کہا اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’اکیلے ہو تم ؟ ‘‘ اچانک فریدہ کو خیال آیا تھا۔
’’نہیں والدہ بھی ہیں ۔ گھر کی حالت بہتر کر کے انہیں بلواؤں گا ۔ ‘‘ جانتا تھا لوگ چھڑے چھانٹ کو گھر دینے سے گھبراتے ہیں ۔ کرائے دار ہاتھ سے نا نکل جائے یہ سوچ کر فریدہ نے ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی کوشش کی تھی۔
رات کو فخریہ اپنی کارگزاری سامعہ کو سنائی تھی۔
’’ امی ایسے کیسے کل ہی بلوا لیا آپ نے ۔ پہلے اسٹامپ وغیرہ ہونا چاہئے ۔ سفیان تم کل یونیورسٹی سے جلدی آجانا ۔ میں عمران بھائی سے پراپر پروسیجر پوچھ کر تمہیں کال کر کے سمجھا دو گی ۔ کاغذی کاروائی ساری مکمل کر کے ہی گھر میں کوئی داخل ہونا چاہئے ۔ ایڈوانس بھی پہلے لے لیں ۔ ‘‘ سامعہ نے سفیان کو تلقین کی تو اس نے لحظے بھر کو موبائل کی سکرین سے نظریں اٹھا کر سر اثبات میں ہلا دیا تھا۔
اگلے دن سفیان نے اتنا ضرور کیا تھا عمران بھائی سے فون پر بات کر لی تھی مگر آگے کے کام کے لیے وہ اپنے ’’ضرورری کاموں‘‘ سے وقت نہیں نکال پایا تھا ۔ نفیس اپنا سامان لے کر پہنچ گیا تو فریدہ سوزوکی میں لدا سامان دیکھ کر دوبارہ آنے کا نا کہہ سکیں ۔ سونے پر سہاگہ شام کو سامعہ آئی تو کسی نے ذکر بھی مناسب نہیں سمجھا۔