مکمل ناول

کہانی : دوسرا اور آخری حصہ

’’یہ جو تم روز ساس کی شکایت لے کر آ جاتی ہو، تمہارے خیال میں تمہاری وہ پھوپھی جسے یتیم بھتیجی پر ترس نہیں آیا، وہ ساس اچھی ہوتی ؟ یا اس کا بیٹا کم’’فرمانبردار‘‘ تھا ؟ تمہاری ساس کے پھر بھی کوئی اصول ہیں، شوہر میں خدا خوفی ہے ۔ شکر کرنا چاہئے تمہیں شکوے کے بجائے۔ ‘‘
’’یہ کماتی ہے تو آپ سب بھول گئیں ہیں اس کا کیا کرایا ۔ ‘‘
انیلا کے پاس جواب بے شک نہ ہو مگر دل اس کا اب بھی صاف نہیں ہوا تھا۔ پرس اٹھایا اور پیر پٹختی باہر نکل گئی تھی۔ فریدہ نے روکنے کی کوشش بھی نہیں کی تھی ۔ اس کے نکلتے ہی انہوں نے سامنے بیٹھی آنسو ضبط کرتی سامعہ کو دیکھا تھا اور اٹھ کراس کے پاس چلی آئیں تھیں ۔ برابر میں بیٹھ کر سامعہ کا سر اپنے سینے سے لگایا تواس کی ہچکی بندھ گئی تھی۔
’’ امی مجھے معاف کر دیں‘بہت بڑی غلطی ہو گئی مجھ سے اگر مجھے ذرا بھی پتا ہوتا۔‘‘
’’بس میری بچی بس ۔ جو ہوا وہ ہونا ہی تھی تمہارے ابو اتنی ہی عمر لکھوا کر لائے تھے ۔‘‘سامعہ کے آنسو اور ہچکیاں تیز ہو گئیں تھیں۔
جلیس احمد کی وفات کے بعد، اس دکھ میں فریدہ اور ان کے باقی تین بچوں کو ایک دوسرے کا سہارا میسر تھا ۔ رونے کے لیے بھی ان کی باتیں کرنے کے لیے بھی ۔ سامعہ کو سات سال بعد یہ موقع میسر آیا تھا کہ وہ اپنی زندگی کا سب سے گہرا دکھ اپنی ماں کے گلے لگ کر رو سکے ۔ وہ دیر تک روتی رہی اور فریدہ پر نم آنکھوں کے ساتھ اس کا سر سہلاتی رہیں ۔ پھر انیلا کی نند کی شادی آئی تھی ۔ سامعہ نے سلامی کے لیے بیس ہزار ہی رکھے تھے فریدہ کے ہاتھ پر مگر فریدہ نے دیکھ کر دس ہزار واپس کر دیے تھے۔
’’انیلا بہت ناراض ہو جائے گی امی!‘‘ وہ تفکرسے بولی تھی۔
فریدہ نے مسکراتے ہوئے سر ہلا کر اتفاق کیا تھا۔
’’عادتیں بگاڑ رکھیں ہیں تم نے اور میں نے ماں کا کردار نبھا کر ٹھیک کرنے کی کوشش بھی نہیں کی‘ ناراض تو ہو گی ۔ وقت لگتا ہے عادتیں ٹھیک ہونے میں ۔ ‘‘ وہ رسان سے بولیں تھیں۔ سامعہ کے کانوں میں کسی کا کہا ایک جملہ گونجا تھا۔
’’ خود کو معاف کر دیجئے جب تک آپ خود کو معاف نہیں کریں گی کوئی آپ کو معاف نہیں کرے گا ۔ ‘‘ سامعہ نے پیسے فریدہ کے ہاتھ سے لے لیے تھے۔
یہ دس ہزار وہ ناعمہ سے قرض لائی تھی ۔ آج ہی یہ اسے واپس کر کے اگلے مہینے کا آغاز وہ واجبات کے بغیر کر سکتی تھی۔
بہت عرصے بعد وہ آج چائے کا کپ لیے تخت پر بیٹھی صرف شام کا وقت انجوئے کر رہی تھی جب بیل بجی تھی ۔ پچھلے کافی دنوں سے بیل کی آواز کے ساتھ ایک امید بھرا تجسس بھی جڑ گیا تھا ۔ دل جب کسی کا منتظر ہو، تو ہوتا ہے، نا منطق سمجھتا ہے نا نصیحت مانتا ہے۔
سامعہ اٹھ کر گیٹ تک آئی تھی، کھولا تو وہی کھڑا تھا، نظر نے جس کو دیکھنے کی طلب کی تھی ۔ اسے دیکھ کر مقابل کے لبوں پر ایک خوبصورت مسکراہٹ آئی تھی ۔ نظروں میں شوق اترا تھا۔ سامعہ نے تیزی سے رخ بدلا تھا کہ چہرے کے تاثرات دل کی کہانی ہی نہ سنا دیں ۔ نفیس لمحے بھرکو آنکھیں بند کرکے ایسے سانس کھینچی تھی جیسے دیکھے گئے منظر کو آنکھوں میں قید کر رہا ہو۔
’’ویسے قبولیت کا لمحہ تھا کچھ اور مانگ لیتا تو بہتر تھا۔‘‘ دو قدم اس کے پیچھے چلتے نفیس نے مدھم آواز میں کہا تھا۔
اس نے دروازہ کھولتے جسے دیکھنے کی تمنا کی تھی، کیا دروازے کی دوسری جانب کھڑا وہ شخص بھی اسے دیکھنے کا متمنی تھا؟ کیا تھا یہ شخص؟ اس کے لفظ، اس کی نظریں جو کہتیں تھیں سچ کہتیں تھیں یا کوئی اور کہانی بن رہا تھا ؟ سامعہ کا دماغ الجھا تھا ۔ فریدہ بھی اسی لمحے باہر نکلیں تھیں ۔ نفیس نے سلام کیا تو جواب دیتے ہی حسب سابق منہ نہیں پھیرا تھا انہوں نے۔ نفیس کو مزید ہمت ہوئی، حال چال بھی پوچھ ڈالا انہوں نے بھی جواباََ مقابلے کا پوچھا جس میں شرکت کے لیے وہ گیا تھا ۔ نفیس نے جیتنے کا بتایا تو مبارک باد دی ۔ گو انداز میں کوئی گرمجوشی نہیں تھی مگر پہلے جتنی خفگی بھی محسوس نہیں ہوئی ۔ یہ بات نفیس کو حوصلہ افزاء لگی تھی ۔
اگلے دن نفیس صبح باہر جانے کو نیچے آیا تھا کہ ثمن نے روک لیا ۔
’’نفیس بھائی مجھے آپ سے ایک کام تھا ضروری!‘‘
’’ہاں بولو؟‘‘ ثمن نے ہاتھ میں پکڑا ایک کاغذ اس کی طرف بڑھایا تھا۔
‘‘میرے پاس ایک کہانی ہے یہ اس کا ون لائنر ہے۔ آپ اسے کسی چینل میں دے سکتے ہیں؟‘‘
نفیس نے چھ صفحات پر مشتمل ون لائنر پڑھنا شروع کیا تھا ۔ اختتام پر لا ھول پڑھنے کو جی چاہا تھا ۔ ایک بگڑے (قریباََنفسیاتی) امیر زادے کے’’جنونی عشق‘‘ کی کہانی تھی۔
’’ آں… اس سے کوئی بہتر آئیڈیا سوچو ۔ یہ کہانی…‘‘نفیس کو مناسب الفاظ نہیں مل رہے تھے کے کیسے دل آزاری کے بغیر وہ اس کی کہانی رد کرے۔
’’ ہیرو کا کردار کافی عجیب ہے۔‘‘
’’کیا بات کررہے ہیں نفیس بھائی ۔فیروز خان یا دانش تیمور نے کر لیا نا یہ کردار تو آگ لگ جائے گی آگ ۔ ‘‘ وہ جوش سے بولی تھی، پھر اس کے تاثرات دیکھ کر کچھ ٹھنڈی پڑی تھی۔
’’ میں چاہتی ہوں کہ اپنی شادی پر میں جو سب چاہتی ہوں اس کا بوجھ سامعہ آپی پر نا پڑے ۔ اگر میں ایسے کچھ پیسے کما لوں تو…‘‘
’’ہاں ٹھیک ہے مگر تم کچھ اس سے بہتر لکھنے کی کوشش کرو ۔‘‘
’’او… ہو… آپ کو نہیں پتہ آپ اور طرح کے ڈرامے لکھتے ہیں ۔ اس قسم کے ڈرامے بڑے ہٹ ہوتے ہیں آپ کسی کو دے کر تو دیکھیں ون لائنر ۔ ‘‘ اسی لمحے سامعہ باہر نکلی تھی۔ عبائے میں ملبوس شولڈر بیگ کندھے پر ڈالے لمحے بھر کو دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں تھیں اور پھر سامعہ تیز قدم لیتی گیٹ کی طرف چل دی تھی ۔ نفیس کی نظروں نے غیر ارادی طور پر اس کا تعاقب کیا تھا ۔ ثمن کے طرف دوبارہ متوجہ ہوا تو اس کے ہونٹوں پر معانی خیز مسکراہٹ تھی ۔
’’ اگر آپ میرے کام آئیں تو‘ میں بھی آپ کے کام آسکتی ہوں ۔ ‘‘ ثمن نے معنی خیزی سے آنکھیں مٹکائیں تھیں۔ نفیس نے پھر ایک نظر ون لائنر پر ڈالی تھی۔
’’آپ دے دیں کسی چینل میں آگے ہوا تو ہوا نہیں تو نہ سہی ۔ ‘‘ ثمن اس کا تامل دیکھ کر بولی تھی۔
’’ اوکے…ڈیل۔‘‘
’’مگر آپ اپنی طرف سے کوشش کریں گے۔‘‘
’’ہاں لیکن اگر پہلے سٹیپ ہی پر ریجیکٹ ہو گیا تو میں کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘
’’اوکے وہ میری قسمت ۔ ‘‘ ثمن نے اتفاق کیا تھا۔
رات کو سامعہ کھانے کے بعد میز سے برتن اٹھا رہی تھی جب سفیان نے پانچ ہزارکا نوٹ لا کر میز پر رکھا تھا۔
’’سامعہ باجی یہ…‘‘سامعہ نے پانچ ہزار کے نوٹ کو دیکھا تھا۔
’’چینج تو نہیں ہے میرے پاس… امی سے پوچھ لو۔‘‘
’’ نہیں چینج نہیں چاہیے ۔ ایک اور اچھی ٹیوشن مل گئی ہے ۔ بچ گئے ہیں آپ گھر کے خرچے کے لیے رکھ لیں ۔ ‘‘ سامعہ نے پانچ ہزار کے نوٹ کو دیکھا تھا اور پھر اپنے بھائی کے چہرے کو جو اس سے نگاہ نہیں ملا رہا تھا۔
’’ دو ٹیوشنز دو گے تو پڑھائی کا حرج نہیں ہو گا؟‘‘
’’ نہیں ہو گا میں نے اپنا شیڈول اسی حساب سے سیٹ کر لیا ہے۔‘‘ وہ جلدی سے کہہ کر نکل گیا تھا۔
سامعہ نے ٹیبل سے پانچ ہزار کا نوٹ اٹھا کر دیکھا تھا خوشی اور حیرت کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ ۔ کچن کے دروازے پر فریدہ نم آنکھوں کے ساتھ طمانیت کے ساتھ مسکرا دیں تھیں۔
ثمن سے’’مک مکا‘‘ اور فریدہ کے رویے میں خفگی کی کمی نے نفیس کو اعتماد دلایا تو تحفوں سے بھرا تھیلا تخت پر بیٹھی توریا ں چھیلتی فریدہ کے سامنے جا رکھا تھا۔
’’ یہ میں انڈیا سے آپ لوگوں کے لیے لایا تھا ۔‘‘
فریدہ نے ایک نظر تھیلے کو دیکھا تھا اور پھر اسے۔ نظر میں شکوہ تھا۔
’’ چچی پلیز مجھے معاف کر دیں ۔ ‘‘ وہ ملتجی انداز میں کہتا ان کے ساتھ تخت پر بیٹھ گیا تھا۔
’’ میں جانتا ہوں میں نے بہت غیر اخلاقی حرکت کی ہے ۔ مجھے اپنی غلطی کا احساس پہلے ہی ہو گیا تھا ۔ میں نے بہت کوشش کی سکرپٹ واپس لینے کی، چینج کرنے کی مگر شروع کی اقساط شوٹ ہوچکیں تھیں اور یہ ممکن نہیں تھا۔‘‘
فریدہ نے تاسف سے سر ہلا کر ٹھنڈی آہ بھری تھی۔
’’کیا کہوں تمہیں کام تو تم نے واقعی بہت غلط کیا ۔ ‘‘ نفیس نے شرمندگی سے نظر جھکا لی تھی۔
’’مگر شاید اچھا ہی ہواکہ تم نے ہماری کہانی لکھی ۔ ‘‘ اب کے نفیس نے حیرت سے انہیں دیکھا تھا۔ فریدہ مسکرائی تھیں۔
’’کبھی کبھی یہ سمجھنے کے لیے کہ ہمارا کردار کتنا مثبت ہے اور کتنا منفی اپنی کہانی کو کسی اور کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
نفیس ان کی بات سمجھ کر مسکرا دیا تھا۔
٭…٭ …٭
’’ یار پڑھ لو پلیز میری ایک کزن نے لکھا ہے اور مجھ سے وعدہ لیا ہے کہ متعلقہ بندے سے کم از کم پڑھوا لوں ۔ ‘‘ نفیس نے ثمن کی کہانی کا ون لائنر نادیہ کی میز پر رکھا تھا ۔ پڑھنے کے بعد نادیہ کا رد عمل اس کی توقع کے خلاف تھا۔
’’ ہہم… کچھ امیچورٹی ہے،مگر ٹرنز اور ٹویسٹس انٹرسٹنگ ہیں ۔ ‘‘ اس نے فوری رد نہیں کیا تھا بلکہ وہ پر سوچ نظروں سے مسودے کو دیکھا تھا۔ نفیس کو اچنبھا ہوا تھا۔
’’ سیریسلی؟ تم یہ بارڈر لائن سائیکو پیتھ کی’’لو سٹوری‘‘ تمہیں پسند آئی ہے۔ ‘‘
’’مجھے جج نہ کرو ایسے ڈراموں کی ریٹنگ آتی ہے بہت ۔ ‘‘نادیہ ہنس دی تھی۔
’’ایک شرط پر میں اپروو کر سکتی ہوں یہ کہانی۔‘‘ وہ کچھ سوچ کر بولی تھی۔
’’ کیا؟‘‘
’’ تم اس کو اپنی نگرانی میں لکھواؤں یا کو رائٹ کرو اپنی کزن کے ساتھ۔‘‘
’’ میں ایسی کہانی کو رائٹ کروں؟‘‘ نفیس نے تقریبا برا مانا تھا۔
’’ دیکھو، یہ جو بے بس بیچاری اور پوزیسیو الفاء کا رومانس ہے یہ ایک ٹائم ٹیسٹڈ ٹروپ ہے ۔ ا س کو ردی رومانس کہو یا کچھ بھی کہو ہر زبان کا رومانوی ادب بھرا پڑا ہے ایسی کہانیوں سے، کیونکہ لوگ پڑھتے ہیں تم یا اس کہانی سے ٹاکسسٹی کم کر کے اور کچھ سینس ایڈ کر کے اسے کسی حد تک اخلاقاََ اور عقلاََ قابل قبول بنا سکتے ہو ۔‘‘ نفیس نے گہری سانس بھری تھی۔ اس نے دعدہ کیا تھا ثمن سے کہ وہ اپنی طرف سے پوری کوشش کرے گا۔
’’ اوکے دیکھتا ہوں۔‘‘
ثمن سن کر بہت خوش ہوئی تھی مگر دونوں’’لکھاریوں‘‘ کی پہلی نشست ہی میں سانجھی ہانڈی چوراہے پر پھوٹنے کو تیار نظر آ رہی تھی ۔
اپنی چائے لینے سامعہ کچن میں آئی تو فریدہ نے اسے دو کپ چائے پہلے باہر صحن میں لڑتے دونوں لکھاریوں کے لیے پکڑائی تھی ۔ سامعہ چھوٹی سی ٹرے اٹھائے باہر آئی تھی
’’ اوہ بہن، ابھی پچھلے سین تک ہیرو فل ٹائم سائیکو چل رہا تھا اب اچانک نیک کیسے ہو گیا؟‘‘ نفیس سخت جھلایا ہوا تھا۔
’’کیونکہ اس کو محبت ہو گئی ہے۔‘‘
’’ محبت ہوئی ہے کہ جادو ہوا ہے، پوری پرسنیلٹی انسان کی ایسے نہیں بدل سکتی ۔ اس کی سوچ کیسے بدلی اس سب کی وضاحت ضروری ہے اور سچی بات ہے، یہ جیسا تم اسے شروع میں دیکھا رہی ہو، پہلے تو اسے کس ماہر نفسیات کی ضرورت ہے۔‘‘
’’ محبت سب بدل دیتی ہے ۔ ‘‘ ثمن مصر تھی۔
’’ آپ کو بھی تو سامعہ باجی سے محبت ہوئی تو آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔‘‘
’’ تمہاری سامعہ باجی سے محبت کرنے سے پہلے میں غلطی پر تھا سائیکو نہیں تھا ۔ ‘‘
نفیس جھلائی ہوئی آواز میں بولا تھا اور سامعہ کی دھڑکن تیز ہوئی تھی ۔ وہ اس سے محبت کرتا تھا؟ سامعہ کو چائے اٹھائے اپنی طرف آتے دیکھا تو نفیس نے ثمن کو ٹہوکا دیا تھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں فوراََ یہاں سے غائب ہونے کا کہا تھا۔
’’ کیوں؟‘‘ ثمن انجان بنی تھی۔
’’ فورا سے پہلے غائب ہو جاؤ یہاں سے، اتنی فضول کہانی پر دماغ خراب کرنے کا کوئی تو فائدہ ہونا چاہئے مجھے۔‘‘
’’ ہنہ، خود آپ جو کہانیاں لکھتے ہیں ناں ۔ اتنی بورنگ ہوتی ہیں کوئی دیکھتا ہی نہیں ۔ ‘‘ اٹھتے اٹھتے ثمن نے حساب برابر کیا تھا۔
سامعہ کے ہونٹوں پر ان کی نوک جھونک سن کر بے ساختہ مسکراہٹ آئی تھی ۔ سامعہ کے لبوں پر جسے دبا کر اس نے چائے کے کپ نفیس کے سامنے رکھے تھے اور فوراََ پلٹنے کی کوشش کی تھی۔
’’ رکئے۔‘‘ نفیس نے اسے روکنے کے لیے بے اختیار اس کا ہاتھ پکڑا تھا۔ سامعہ نے پلٹ کر اس کے ہاتھ کی گرفت میں اپنی کلائی کو دیکھا۔
’’ سوری ۔‘‘ نفیس نے فوراََ ہاتھ چھوڑا تھا۔
’’ آپ اب بھی ناراض ہیں مجھ سے ۔ ‘‘ اس نے پوچھا تھا۔ سامعہ نے لمحے بھر کو سوچا تھا۔ وہ جان چکی تھی کہ جو بدلا ہے سب اس کی ’’غلطی‘‘ کی وجہ سے بدلا ہے ۔ اب اس بات کا ایمانداری سے کیا جواب دیا جا سکتا تھا۔
’’ نہیں۔‘‘ سامعہ مبہم سی مسکراہٹ کے ساتھ سرنفی میں ہلایا تھا ۔ نفیس کی مسکراہٹ گہری ہو گئی تھی۔
’’ تو پھردرخواست کروں میں چچی سے کہ مجھے اپنی فرزندی میں قبول کر لیں ؟ ‘‘ سامعہ کی ہونٹوں پر آئی شرمیلی سی مسکراہٹ اس کا جواب تھی۔ نفیس سرشار ہو گیا تھا۔
’’ آپ کی شاید’’ہاں‘‘ سے زیادہ مدد کی ضرورت پڑے ۔ گو حالات انشاء اللہ کافی بہتر ہو رہے ہیں مگر بہر حال’’ہوائی روزی کا مسئلہ تو برقرار ہے ۔ ‘‘
وہ شرارت سے بولا تو سامعہ کو ہنسی آئی تھی۔
’’اپنے کاز کے لیے آپ سے سپورٹ کی توقع کر سکتا ہوں میں ؟ ‘‘سامعہ نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا تو اس کی شریر مسکراہٹ ہی نہیں جذبے لٹاتی آنکھیں بھی نظر آئیں تھیں۔
اس نے سر اثبات میں ہلا یا تھا اور مسرور سی پلٹ کر چل دی تھی۔

ختم شد

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے