کہانی : دوسرا اور آخری حصہ
’’چلیں جلدی کریں تیار ہوجائیں ۔ ‘‘ اس نے خود ہی ریموٹ اٹھا کر ٹی وی بند کیا تھا۔
’’سامعہ سے بھی پوچھ لیں۔‘‘
وہ چاروں جھٹ پٹ تیار ہوئے تھے ۔ برسوں گزر گئے تھے ایسی کوئی عیاشی کیے ۔ جلیس احمد کی وفات کے بعد شاید پہلی بار تھا کہ وہ مل کر باہر کچھ کھانے پینے جا رہے تھے ۔ ان چاروں نے آئسکریم بھی انجوائے کی تھی اور کراچی سے کوچ کرنے کو تیار بچی کچی سردی بھی ۔ مگر اس کا سارا وقت یہ سوچنے میں گزرا تھا کہ کیسے انہیں یہ ڈرامہ دیکھنے سے باز رکھے۔ بلآخر ایک تر کیب ذہن میں آہی گئی تھی ۔ اگلے ہی دن اس نے ضروری معلومات حاصل کی تھیں اور کیبل والوں کے دفتر جا پہنچا تھا۔
اگلے دن فریدہ دوپہر کو مرغ چھولوں کی پلیٹ اٹھائے خود اوپر آئیں تھیں۔
’’ پتہ نہیں کیبل کو کیا ہوا ہے کل سے نہیں آرہی ۔ میں نے فون بھی کروایا سامعہ سے پر وہ کہہ رہے ہیں آپ لوگوں نے خود کٹوائی ہے ۔ لو بتاؤ ہم نے کب کٹوائی ۔ ‘‘فریدہ کیبل کٹ جانے سے بدمزہ ہوئیں تھیں۔
’’ کوئی غلط فہمی ہو گئی ہو گی ۔ ‘‘ نفیس نے ان کے ہاتھ سے پلیٹ پکڑ کر سہولت سے ممکنہ وجہ پر روشنی ڈالی تھی۔
’’ یہ کیا بات ہوئی، غلط فہمی ان کو ہوئی اور کیبل ہماری گئی‘ دیکھو ذرا۔‘‘
’’ہمم‘ بات تو غلط ہے۔‘‘ نفیس نے اتفاق کیا تھا۔
’’تم جا کہ بات کر آؤ گے ۔ سفیان کا تو تمہیں پتہ ہے، کسی کام کا نہیں ہے ۔ ‘‘ انہوں نے لجاجت سے درخواست کی تھی۔
’’ آں… تھوڑا مصروف ہوں آج کل میں، کچھ دن تک جاتا ہوں۔‘‘
فریدہ بلا تاخیر یہ کام چاہتی تھیں ۔ ان کا تو دن ہی ٹی وی کے ساتھ گزرتا تھا مگر ظاہر ہے اسے مجبور تو نہیں کر سکتی تھیں جلد جانے کے لیے ۔ نفیس نے دماغ میں حساب کتاب کرلیا تھا، ڈرامہ ہفتے میں تین دن نشر ہونا تھا ۔ تین ہفتے حیلوں بہانوں میں نکل جائے تو آگے مسئلہ نہیں تھا ۔ پہلی چھ قسطیں ہی ایسی تھیں جو وہ بدل نہیں پایا تھا۔
پھر واقعی فریدہ کو ٹی وی میسر نہ ہوا اور ثمن نے بور سمجھ کر یوٹیوب پر نہیں دیکھا ، سفیان ڈرامے دیکھتا نہیں تھا۔ دیکھتی تو سامعہ بھی نہیں تھی مگر ثمن سے سنا کہ نفیس نے لکھا ہے تو یوٹیوب پر اس نے ڈھونڈ نکالا تھا ۔ وہ شخص جس کی آنکھیں بہت کچھ کہتی تھیں مگر لب خاموش رہتے تھے اس کی لکھی تحریر ہی میں اسے کھوجنے کے شوق میں اس نے دیکھنا شروع کیا تھا ۔ کالج میں لڑکے لڑکی کی محبت تک بات ٹھیک تھی، گھر والے نہیں مانے،عام سی بات تھی مگر ان کا گھر سے بھاگنے کا پلان ؟ اس کا دل سہما تھا، دماغ میں اندیشہ کلبلایا تھا ۔ کہیں؟ نہیں یہ تو بڑی عام سی بات ہے ۔ دل نے تسلی دی تھی، مگر تسلی زیادہ دیر نہیں چل پائی تھی ۔ رات کے اندھیرے میں گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی نے صبح صادق سے پہلے گھر کی دہلیز پر قدم رکھا تو صحن میں اس کے باپ کی لاش پڑی تھی ۔ سامعہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں رواں ہوئیں تھیں۔ غصہ، دکھ،مایوسی،شرم، اہانت، کیا نہیں محسوس کیا تھا اس نے ۔ یوں جیسے کسی نے بھرے بازار میں اسے بے لباس کر دیا ہو ۔ کسی کی روح کا سب سے گہرا گھاؤبیچ دینا، اس کے جسم کو بیچ دینے سے کم سنگین ہوتا ہے کیا؟ بیچا بھی کس نے تھا، اس نے جسے اپنے تخیل میں وہ مسیحا بنانے چلی تھی ۔ جس کی بولتی آنکھیں برسوں سے مدفن جذبوں اور امنگوں کو جگانے لگیں تھیں ۔ سامعہ نے بے دردی سے چہرے کو رگڑا اور فون اٹھائے لاؤنج میں چلی آئی تھی جہاں ثمن، فریدہ اور سفیان تینوں ہی موجود تھے۔
’’ نفیس کا نیا ڈرامہ ہماری کہانی ہے ۔ ‘‘ وہ سپاٹ لہجے میں بولی تھی اور پھر موبائل ان کے سامنے رکھ کر اندر چلی آئی تھی ۔ تینوں نے یوٹیوب پر کھلی ویڈیو دیکھی تھی ۔ اسی لمحے کھلے دروازے سے نفیس اندر داخل ہوا تھا ۔
’’یہ گجریلا لایا تھا میں۔‘‘
’’ نہیں چاہئے واپس لے جاؤ ۔ ‘‘ فریدہ کا لہجہ سپاٹ تھا۔ نفیس نے انہیں حیرت سے دیکھا تھا۔
’’کیوں…؟‘‘
’’ ہم گجریلا نہیں کھاتے ۔ رئیس بھائی کا پورشن اوپر والا تھا ۔ ہمارے گھر کے اندر آئندہ مت آئیے گا ۔ ‘‘ فریدہ کے لہجے سے صاف جھلکتے غصے اور سفیان اور ثمن کے خفا تاثرات نے اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ لوگ ڈرامہ دیکھ چکے ہیں۔
’’چچی…میں…‘‘ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا اپنی صفائی میں کیا کہے۔
’’چلے جاؤ یہاں سے۔ ‘‘ فریدہ سختی سے بولیں تھیں۔
’’ہم نے تمہیں اپنا سمجھا اور تم نے ہمیں تماشا سمجھا ؟ ‘‘ فریدہ کی آواز بھرا گئی تھی۔
’’چچی…‘‘
’’چلے جاؤ۔‘‘
نفیس ندامت سے سر جھکا کر باہر چلا آیا تھا ۔ جب اس نے کہانی لکھنی شروع کی اس وقت وہ اس گھر کو ایک عارضی ٹھکانے اور اس کے مکینوں کو عارضی پڑوسیوں کی طرح دیکھ رہا تھا ۔ مگر اسے یہ تو سوچنا چاہئیے تھا کہ وہ جن کی کہانی لکھ رہا ہے وہ جیتے جاگتے، احساسات و جذبات رکھنے والے انسان ہیں۔ یہ تو بنیادی اخلاقیات کا تقاضا تھا۔
اور سامعہ! وہ کیا سوچ رہی تھی؟
اگلے دن وہ صبح صبح سکول کے لیے نکل رہی تھی جب وہ اس کے سامنے جا کھڑا ہوا تھا۔
’’سامعہ پلیز میں اپنی غلطی پر شرمندہ ہوں۔‘‘
سامعہ نے نظر انداز کر کے آگے بڑھنے کی کوشش کی تھی۔
’’ایک منٹ میری بات سن لو پلیز۔‘‘
’’کہئے ۔ ‘‘ سامعہ سپاٹ انداز میں بولی تھی۔
’’ سامعہ میں تم سے محبت کرنے لگا ہوں۔‘‘
اس کی بات پر خلاف توقع سامعہ ہلکا سا ہنسی تھی۔
’’ محبت تو آپ کو مجھ سے ہونی ہی تھی ۔ محبت اور رومانس کے تڑکے کے بغیر کہانی کب مکمل ہوتی ہے ۔ ‘‘ بات مکمل کرتے ہوئے اس کی سیاہ آنکھیں جھلملا گئیں تھیں ۔
نفیس کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لیا تھا ۔ یہ کیا ہو گیا تھا اس سے؟اب کیسے وہ یہ سب ٹھیک کرے گا؟ کیسے پھر سے ان سب کا اعتماد جیتے گا ۔ شام کو وہ حسب معمول سامعہ کو پک کرنے گیا تھا اس کی اکیڈمی کے باہر مگر سامعہ نے گاڑی میں بیٹھنے سے انکار کر دیا تھا۔
بڑے بے کیف دن تھے ۔ سامعہ کو زندگی پھر ایک بوجھ کی طرح لگنے لگی تھی جسے اسے چار نا چار ڈھونا تھا ۔ نفیس کو دل ویران ویران محسوس ہوتا تھا ۔ محبت تو روٹھی ہی تھی، ان لوگوں کی اپنائیت جس کا وہ اب عادی ہو چکا تھا،اس کی کمی بھی چبھتی تھی ۔ انہی دنوں نفیس کا انڈیا کا ویزہ آگیا تو اس نے رخت سفر باندھ لیا ۔ جانے سے پہلے وہ فریدہ کے پاس آیا تھا بتانے اور خدا حافظ کہنے فریدہ نے خشک سے انداز میں خدا حافظ کہہ کر رخ پھیر لیا تھا ۔ اندر بیٹھی سامعہ نے ان کی یہ مختصر سی گفتگو سنی، تو بے ارادہ ہی اٹھ کر کھڑکی تک آئی تھی ۔ بلو جینز اور سیاہ شرٹ میں، بڑا سا بیک پیک کندھے پر لٹکائے وہ گیٹ کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ گیٹ سے نکل کر اس نے اپنے پیچھے دروازہ بند کیا تو ٹھک کی آواز کے ساتھ ہی منظر ویران ہوگیا تھا۔ محبت نام کی بلا شاید،اس کے لیے صرف ویرانیوں کا سامان تھی۔
ثمن اور سفیان کچھ دن تو تھوڑے غصے میں رہے مگر پھر تجسس جیت گیا ۔ دونوں دیکھنا چاہتے تھے کہ اگر ان کا کردار ہے ڈرامے میں تو کیسا ہے اور کس اداکار کو چنا گیا ہے ۔ ثمن کو دیکھتے دیکھا تو فریدہ نے بھی دیکھنا شروع کر دیا ۔ تینوں ہی کو اس ڈرامے نے عجیب جذبات کا شکار کیا تھا۔
ہیروئن کی چھوٹی بہن ناولوں کی نہیں کورین اور ٹرکش ڈراموں کی شوقین تھی مگر ثمن کو اس میں کئی جگہ اپنا آپ نظر آیا تھا ۔ شروع میں تو اس کو اپنے جیسا وہ کردار بہت مزے کا لگا تھا مگر جیسے جیسے کہانی آگے بڑھی ثمن کو اس کردار میں ایک بے حسی نظر آئی تھی ۔ وہ ڈراموں کی دنیا میں اتنی مست مگن تھی کہ اسے احساس ہی نہیں تھا کہ اس کی بڑی بہن کس مشقت سے زندگی کی گاڑی کھینچ رہی ہے ۔ ابا ہوتے تو یہ ہوتا، وہ ہوتا کے راگ الاپتی اس کی کتنی ہی باتیں اس کی بڑی بہن کو دکھی کر دیتی تھیں ۔ اس کی فرمائشیں کتنی ہی بار اس کی بہن کو مشکل میں ڈال دیتی تھیں ۔ کیا وہ ایسی تھی؟ وہ جھٹلانا چاہتی تھی مگر جھٹلا نہیں سکی تھی۔
سفیان کو اپنا کردار بالکل پسند نہیں آیا تھا ۔ پہلے تو جو اداکار بھائی کے رول میں کاسٹ کیا تھا اس کی معمولی شکل صورت دیکھ کر وہ جی بھر کر بد مزہ ہوا تھا۔ جیسے جیسے کہانی آگے بڑھی اس کو غصہ بھی آنے لگا تھا کتنا خودغرض دیکھایا تھا نفیس بھائی نے اسے ۔ وہ ایسا تو نہیں تھا ۔ آج کی قسط میں ہیروئن جو فیکٹری میں اوور ٹائم کر رہی ہوتی ہے ‘ اپنے بھائی کو کہتی ہے کہ وہ واپسی میں اسے فیکٹری سے پک کر لے واپسی میں بس مشکل سے ملتی ہے، مگر بھائی پڑھائی کا بہانہ بنا کر انکار کر دیتا ہے ۔ اگلے سین میں وہ ساحل کنارے اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ آئسکریم کھا رہا ہوتا ہے اور اس کی بہن سڑک پر خوار ہو رہی ہوتی ہے ۔ سامعہ فیکٹری میں کام نہیں کرتی تھی، اس نے اسے کبھی واپسی پر پک کرنے کو بھی نہیں کہا تھا، مگر سفیان اس کردار میں اپنی خود غرضی صاف دیکھ سکتا تھا ۔ کتنے مواقع اس کی آنکھوں کے سامنے لہرائے تھے جب سامعہ نے اس سے مدد مانگی تھی اور اس نے بہانے بنائے تھے یا اپنی محرومیوں کا رونا رو کر اسے مزید گلٹ میں مبتلا کیا تھا۔
فریدہ کو ہیروئن کی ماں بری عورت نہیں لگی تھی مگر بزدل اور کمزور ضرور لگی تھی ۔ جو نا اولاد میں انصاف کر پائی تھی نا مشکل حالات میں اپنی اولاد کی ڈھال بن سکی تھی ۔ یہ ذمہ داری وہ اپنی بیٹی کہ کندھوں پر ڈال کر بری الذمہ ہو گئی تھی ۔ اس کی بیٹی ندامت کے بوجھ تلے دبی ان سب کی جائز نا جائز سب مانے جا رہی تھی ۔ یہ بھول کر کہ وہ بھی انسان ہے، زندگی اور اس کی خوشیوں پر اس کا بھی تو حق ہے ۔ بالکل ان کی سامعہ کی طرح ۔ فریدہ کو پتہ ہی نہیں چلا کب ان کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہو گیا تھا۔
سامعہ نے ٹیوشن پڑھنے والے بچوں کو کام دے کر چند منٹ کے لیے آنکھیں بند کی تھیں ۔ وہ ذہنی اور جسمانی تھکن سے چور تھی ۔ نفیس کے ساتھ وہ جلدی پہنچ جاتی تھی تو کچھ آرام کا موقع مل جاتا تھا کچھ گاڑی میں بھی سو جاتی تھی تو کچھ مینج ہو جاتا تھا ۔ اب تو اسے لگ رہا تھا کہ وہ ان بچوں کے ساتھ بھی زیاتی کر رہی ہے مگر مجبوری تھی ثمن کے نکاح پر لیا ادھار ابھی باقی تھا ۔ انیلا کی نند کی شادی بھی آرہی تھی بیس پچیس ہزار کا خرچا تو تھا ۔ انیلا کم سے کم کر کے بھی دولہا دولہن کو دس دس ہزار سلامی پر راضی ہوئی تھی ۔ اگلے دو مہینے تک تو کم از کم اسے یہ ایکسٹرا ٹیوشن پڑھانی ہی تھی۔
’’آپی آپ تھوڑی دیر سو جائیں جا کے ۔ یہ تو سب چھوٹی کلاسز کے بچے ہیں انہیں میں کام کرا دیتی ہوں ۔‘‘ ثمن کی بات پر اس نے حیرت سے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا تھا۔
’’تم کرا دو گی ۔‘‘ سامعہ نے بے یقینی سے پوچھا تھا۔
’’ہاں،ہاں کرا دو گی آپ ریسٹ کر لیں تھوڑا پھر بڑی کلاسز کے بچے آنا شروع ہو جائیں گے ۔ ‘‘اس نے سامعہ کا ہاتھ تھام کر اسے کھینچ کر کرسی سے اٹھایا تھا ۔ سامعہ حیران سی اندر چلی آئی تھی گھنٹہ بھر آرام کے بعد وہ باہر نکلی تو ثمن بڑے انہماک سے بچوں کو پڑھانے میں مصروف تھی ۔ ثمن کو اچانک سے پڑھانے کا شوق کب ہوا؟
رات کو سامعہ ایک مارک شیٹ مکمل کر رہی تھی جب کمرے کی دوسری جانب لگے سنگل بیڈ پر دراز ثمن نے اسے مخاطب کیا تھا۔
’’ آپ چھوٹی کلاسز کے بچوں کو پہلے بلا لیا کریں اور بڑی کلاسز کے بچے چھ کے بعد، چھے بچے تک میں دیکھ لیا کروں گی۔‘‘
’’تمہیں اچانک یہ خیال کیسے آیا ۔ ‘‘ سامعہ سوال کیے بنا نا رہ سکی تھی۔
’’بس ایسے ہی ۔ سوچ رہی ہوں پاکستان سے جانے سے پہلے دو چار اچھے کام کر لوں ۔ ‘‘ وہ ہلکے پھلکے موڈ میں بولی تھی اور پھر موبائل دیکھنے لگی تھی۔
سامعہ کو اپنے سوال کا جواب تو نہیں ملا تھا مگر وہ مسکرا دی تھی۔
’’ تھینک یو ۔‘‘ اپنا کام ختم کر کے اس نے لائٹ بند کی تھی اور سونے کے لیے لیٹ ہی رہی تھی جب ثمن نے اسے پھر مخاطب کیا تھا۔
’’ سامعہ باجی!‘‘
’’ہممم…؟‘‘
’’آپ دنیا کی سب سے اچھی بہن ہیں ۔ ‘‘ سامعہ کو اس کی آواز بھاری لگی تھی۔
سامعہ نے رخ موڑ کر اسے دیکھا تو وہ اس کی طرف نہیں دیکھ رہی تھی ۔ سامعہ کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھرگئیں تھیں ۔ وہ پوچھنا چاہتی تھی کہ اچانک اسے یہ خیال کیسے آیا مگر نہیں پوچھا تھا، ڈر تھا کہ کہیں الفاظ کی جگہ سسکیاں نہ نکلیں۔
’’ انیلا ، شادی میں اگر پانچ، پانچ ہزار دے دیں امی سلامی ؟ ‘‘
اتنے مہینے سے قرض کی تلوار سر پر لٹکی ہوئی تھی ۔ اس نے حساب کیا تو اس مہینے برابر ہونے کا امکان تھا اگر خرچ میں مزید احتیاط کر لی جاتی ۔ آگے ابھی پھر رمضان کی مہنگائی اور عید کا خرچہ آنے والا تھا ۔ رمضان میں ٹیوشن بھی بڑی مشکل ہو جاتی تھی ۔ کم از کم پچھلا حساب تو ختم ہوجانا چاہیے تھا۔
’’ لو اب بیس ہزار پر بھی نہیں راضی آپ لوگ ؟ نہ دیں، کچھ بھی نہ دیں پھر! ‘‘ انیلا خفگی سے منہ پھیر کر بیٹھ گئی تھی۔
’’اچھا چلو ٹھیک ہمیں کچھ انتظام… ‘‘ فریدہ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے چپ کرایا تھا۔
’’ پانچ پانچ مناسب ہیں بالکل ۔ اگر تمہیں کم لگ رہے ہیں تو ایسا کرتے ہیں ہم شرکت ہی نہیں کرتے، تم کہہ دینا امی کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔‘‘
’’ ایسے کیسے؟ میں نے سات مہینے پہلے اس لیے بتایا کہ آپ لوگ تیار رہیں ۔ اریبہ (دیورانی) کے گھر والے جو کر رہے ہیں وہ تو بتایا تھا نا میں نے آپ کو؟ ‘‘
’’ہمارا ان سے کیا مقابلہ؟اس کے باپ بھائیوں کے اتنے ٹھیک ٹھاک کاروبار ہیں ۔ یہاں تمہاری ایک بہن ساری ذمہ داری اس کے کندھوں پر۔‘‘
’’اسی بہن نے ڈبویا ہم سب کو…‘‘ سامعہ کی طرفداری پر وہ ہتھے سے اکھڑ گئی تھی۔
’’یہ اگر اس رات منہ کالا کروانے نہ گئی ہوتی تو آج ہمارا باپ زندہ ہوتا۔‘‘
’’ زندگی اور موت اللہ کی طرف سے ہے۔تمہارے ابا کی زندگی اتنی ہی تھی ۔ ‘‘ سامعہ نے چونک کر فریدہ کا چہرہ دیکھا تھا۔
’’ہاں قسمت پہ لگا دیں اب آپ مگر سچ یہ ہے کہ ہماری قسمتیں بہت مختلف ہوتی اگر یہ عشق میں اندھی نہ ہوئی ہوتی ۔‘‘ وہ تڑخ کر بولی تھی۔
فریدہ نے سامعہ کے کپکپاتے لب اور نم آنکھیں دیکھیں تھیں ایک نظراور پھر رخ انیلا کی طرف پھیرا تھا۔
’’ بس کر دو انیلا جس کے بچھڑ جانے کے غم میں تم سگی بہن کے لیے دل میں بیر پالے بیٹھی ہو ٹھنڈے دل سے سوچو وہ تھا اس قابل ؟ تمہارے ابو کی وفات کے صرف چار مہینے بعد شادی ہوئی تھی اس کی اور ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ خوشی سے بانچھیں کھلی ہوئی تھیں ۔ واقعی تم اس کے لیے کوئی معنی رکھتی تو کچھ تو لڑتا تمہارے لیے، کوئی افسوس تو ہوتا اسے ۔ ‘‘انیلا سے کوئی جواب نہیں بن پڑا تھا۔