مکمل ناول

کہانی : دوسرا اور آخری حصہ

’’میں اوور ری ایکٹ کر رہی ہوں ۔ ثمن اور انیلا کو دکھ تھا کہ میں نے کچھ اچھا نہیں پہنا ۔ سفیان نے مذاق میں کہا تھا ۔ ‘‘ ریلنگ تھامے رات میں چمکتی روشنیوں کو دیکھتے ہوئے اس نے خود کو سمجھانے کی کوشش کی تھی، مگر دل بھی عجیب چیز ہے بڑے بڑے وار سہہ جاتا ہے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر ٹوٹ جاتا ہے۔
‘‘خود کو معاف کر دیجیے ۔ ‘‘ ا چانک آواز پر اس نے چونک کر دیکھا تھا ۔ نفیس چلتا ہوا اس کے برابر آکھڑا ہوا تھا۔
’’آپ نے جلیس چچا کو نہیں مارا ۔ ‘‘ وہ ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولا تھا ۔
سامعہ نے اس کا چہرہ غور سے دیکھا تھا، کہیں سے بھی یہ نہیں لگ رہا تھا کہ وہ جو کہہ رہا ہے اس پر یقین نہیں رکھتا ۔ جو آنسو وہ اتنی دیر سے ضبط کر رہی تھی بہہ نکلے تھے۔
’’ان کی موت طبعی تھی ۔ ‘‘ سامعہ نے بمشکل سسکی روکی تھی۔
’’جہاں تک میں نے سن رکھا ہے، دل کا دورہ رات و رات نہیں پڑتا ۔ دل کا کوئی عارضہ خاموشی سے چل رہا ہوتا ہے ۔ دادا کی وفات پچاس کے لگ بھگ عمر میں ہوئی، دل کا دورہ پڑھنے سے ۔ میرے والد کی ترپن سال کی عمر میں، دل کا دورہ پڑنے سے ، جلیس چچا بھی لگ بھگ اسی عمر کے تھے غالبا ؟ ‘‘ اس نے تصدیق کے لیے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا مگر وہ کچھ نہیں بولی تھی۔
ہچکیاں اب روک لینا محال تھا ۔ پچھلے سات سال سے وہ سننا چاہتی تھی، ماننا چاہتی تھی کہ اس نے اپنے ابو کو نہیں مارا ۔ وہ انہیں کیسے مار سکتی تھی وہ تو امی سے بھی زیادہ ان سے پیار کرتی تھی ۔ اس نے تو سوچا تھا کہ شادی کے بعد وہ ان کے قدموں میں گر کر انہیں منا لے گی اور سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ وہ روتی رہی، نفیس نے اسے چپ کروانے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔
’’ خود کو معاف کر دیجیے سامعہ، جب تک آپ خود کومعاف نہیں کریں گی کوئی آپ کو معاف نہیں کرے گا ۔ ‘‘ اب کے سامعہ نے کچھ چونک کر اس کا چہرہ دیکھا تھا۔
’’آپ خود کو مجرم سمجھتی ہیں اس لیے آپ کے گھر والے خود کو وکٹم سمجھتے ہیں ۔ یقین کیجئے ان کا خود کو وکٹم سمجھنا، آپ کے لیے ہی نہیں ان کے لیے بھی اچھا نہیں ہے مگر وہ سمجھتے رہیں گے کیونکہ یہ آسان راستہ ہے اور انسانوں کی اکثریت آسان راستوں پر چلنا پسند کرتی ہے ۔ آپ جو قربانی ان کے لیے دینا چاہتی ہیں دیں، مگر بڑی بہن بن کر مجرم بن کر نہیں ۔ انہیں احساس ہونا چاہئے آپ کی قربانیوں کا بھی اور اپنی ذمہ داریوں کا بھی ۔ ‘‘
وہ حالات کی ایک نئی جہت اسے دکھا رہا تھا۔ سامعہ نے کچھ سمجھ کر اور کچھ الجھ کر لمحے بھر کو اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا ۔ نفیس کو اس لمحے میں ادراک ہوا تھا کہ اس کی ہیروئن کا چہرہ بھلے ہی بھولا بھالا ہو مگر وہ دو نیناں سیدھے سادھے ہرگز نہ تھے ۔ اتنی گہرائیاں تھیں ان میں کہ وہ ڈوب سکتا تھا ۔ لمحے بھر کو اس کی نظر سامعہ کے چہرے پر تھم سی گئی تھی اور شاید اس نظر ہی نے سامعہ کو احساس دلایا تھا کہ وہ ٹیرس پر اس کے ساتھ اکیلی کھڑی ہے ۔ اگر خاندان والوں میں سے کوئی دیکھ لیتا تو خواہ مخواہ فسانہ بھی بن سکتا تھا ۔ بغیر مزید کچھ کہے وہ اندر چلی آئی تھی، مگر اس کی باتوں نے اس کے اندر ایک بھونچال سا اٹھایا تھا ۔ محفل اپنے اختتام کوکب پہنچی، اسے پتا چلا نہ گھر آکر کس نے کیا کہا، کیا نہیں، اسے کچھ سمجھ میں آیا۔
’’خود کو معاف کر دیجئے ۔ ‘‘ سادہ سے لہجے میں کہا گیا یہ جملہ اس کی سماعتوں میں گونجتا رہا۔
کئی بار جاننے والوں کی باتوں میں،نظروں میں اسے اپنے لیے ہمدردی محسوس ہوئی تھی مگر وہ سب اس کے لیے نرم گوشہ اس لیے رکھتے تھے کہ وہ پوری کہانی سے ناواقف تھے ۔ اس نے کیا کیا تھا اور اس کی وجہ سے کیا ہوگیا تھا، اس سے انجان تھے مگر یہ شخص تو سب جانتا تھا اور پھر بھی سمجھتا تھا کہ وہ معافی کے لائق ہے ۔ کیا واقعی وہ معافی کہ لائق تھی؟ اس کا جی چاہا تھا اس شخص کے سامنے جا کھڑی ہو، اپنے خلاف دلائل دے، تفصیل سے اپنی ایک ایک غلطی گنوائے، مگر پھر اس کی منطق سے قائل ہو جائے ۔اپنے خلاف یہ مقدمہ، وہ ہار جانا چاہتی تھی ۔ آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر تکیے میں جذب ہونے لگے تھے ۔ کتنے سال ہوگئے تھے ندامت کا بوجھ سینے میں لیے پھرتے، وہ بہت تھک گئی تھی۔
٭…٭…٭
دوسری منزل پر بیٹھا نفیس بے خواب آنکھوں سے سکرپٹ کے مسودے کو گھور رہا تھا ۔ جو کہانی اس کے دل کے اتنے قریب ہو گئی تھی اسے وہ بیچنے جا رہا تھا؟ پتہ نہیں کب ایک کردار کو دیکھتے،پرکھتے، سوچتے وہ دل میں بسا بیٹھا تھا ۔ اگلے دن اس نے نادیہ کو فون کیا تھا مگر مدعا سن کر وہ ہتھے سے اکھڑ گئی تھی۔
’’تمہارا دماغ ٹھیک ہے نفیس؟ ڈرامہ شوٹ پر ہے ایکٹرز، لوکیشنز سب بک ہیں ۔ سکرپٹ کیسے چینج ہو سکتا ہے؟ تم پہلی دفعہ تو نہیں لکھ رہے، جانتے ہو کیسے کام ہوتا ہے۔ ‘‘
’’یار مجھے دو دن دو میں اسی کاسٹ اور لوکیشنز کے ساتھ کوئی کہانی بناتا ہوں۔‘‘
’’مشکل ہے بہت مشکل‘ آخر تمہیں اچانک ہوا کیا ہے؟‘‘
’’یار پرسنل ریزنز ہیں ۔ پلیزززز ڈو سم تھنگ…‘‘
پھر بہت لے دے ہوئی تھی اس کے اور نادیہ کے بیچ مگر شروع کا کافی حصہ تمام تر کوششوں کے بعد بھی وہ تبدیل نہیں کروا سکا تھا ۔ چھٹی قسط میں البتہ ہیروئن کی شادی کروا دی تھی ۔ اس نے قدرے کم بڈھے اور کافی ہینڈسم دو بچوں کے باپ سے اور آگے ان کی کہانی تھی ۔ وہ مطمئن تو نہیں تھا مگر اب کیا ہو سکتا تھا؟
’’سامعہ یہ نفیس کی پڑھانے والی نوکری تین مہینے کی نہیں تھی ۔ ‘‘ سامعہ ان کے ساتھ لاؤنج میں بیٹھی کاپیاں چیک کر رہی تھی جب انہیں اچانک نفیس اور اس کی نوکری کا خیال آیا تھا۔
’’ہاں، وہ شاید دو مہینے مزید پڑھائیں گے ۔ ‘‘ سامعہ نے کاپیاں چیک کرتے ہوئے مصروف سے انداز میں کہا تھا ۔
وہ اس بات سے انجان تھی کہ اب وہ پڑھانے نہیں جاتا بلکہ لائبریری میں بیٹھ کر لکھتا ہے تاکہ واپسی پر اسے پک کر سکے۔
’’ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس کی وہ پڑھانے والی نوکری پکی ہو جائے؟ ویسے پڑھاتا کیا ہے وہاں؟‘‘
’’پتہ نہیں امی،ڈرامہ رائٹنگ پڑھاتے ہیں ۔ اس کا کچھ اپنا حساب کتاب ہوتا ہو گا عام سکول کالج کی طرح تو نہیں ۔ ‘‘
فریدہ نے تاسف بھری سانس بھری تھی ۔
’’اس کو بھی تو دیکھو نا اب بھلا یہ کون سا کام ہوا، کچھ اور پڑھ لیتا کوئی پکی سرکاری نوکری مل جاتی ۔ اب ایسی ہوائی نوکری کا کیا بھروسہ ۔ ‘‘ سامعہ نے جواباََ کچھ نہیں کہا تھا۔
’’و یسے تمہیں پتا ہے تمہاری دادی کیا کہتی تھیں؟‘‘
’’کیا ؟ ‘‘ سامعہ نے مصروف سے انداز میں پوچھا تھا۔
’’وہ کہتیں تھیں سامعہ میرے نفیس کی دولہن بنے گی ۔ ‘‘ سامعہ کی دھڑکن تیز ہوئی تھی، بے ساختہ ہی اس نے کاپی سے نظر اٹھا کر ماں کو دیکھا تھا اور نظر اٹھاتے ہی چہرہ شرمندگی سے لال ہوا تھا ۔ کھلے ہوئے دروازے میں کھڑا نفیس مسکراتی آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔ یقینا وہ فریدہ کی بات سن چکا تھا۔
’’ویسے پتہ نہیں اس نے شادی کیوں نہیں کی اب تک؟ شاید یہی ہوائی روزی کی وجہ سے کوئی اچھا رشتہ نا ملا ہو ورنہ باقی تو بڑا پیارا بچہ ہے۔‘‘
’’امی…‘‘ سامعہ کو سمجھ نہیں آیا تھا ماں کو کیسے روکے۔
’’اب مسئلہ تو یہ واقعی ہے۔ اسے کوئی اور کام نہیں مل سکتا ؟ ‘‘انہوں نے بڑی امید سے پوچھا تھا۔
’’مجھے نہیں پتہ…‘‘سامعہ جھلائی تھی ۔
نفیس نے ہاتھ میں پکڑا شاپر اسے دیکھا کر دروازے پر رکھا تھا اور مسکرا کر پلٹ گیا تھا اور سامعہ کا دل چاہے تھا کہیں ڈوب مرے۔ کیا سوچتا ہو گا وہ؟
اگلے دن اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے اسے سخت شرمندگی ہو رہی تھی مگر نفیس کا انداز اتنا نارمل تھا کہ جیسے اس نے کل ان ماں بیٹی کی گفتگو سنی تک نہ ہو ۔ کوئی شریر مسکراہٹ تک نہیں تھی مگر پھر شام میں وہ تخت پر بیٹھی اسائنمنٹ چیک کر رہی تھی جب ایک گول مول ہوا کاغذ اس کے سامنے گرا تھا۔ سامعہ نے اٹھا کر کھولا تھا۔
میری خوشیاں ہی نا بانٹے، میرے غم بھی سہنا چاہے
نہ دیکھے خواب محلوں کے میرے دل میں رہنا چاہے
اس دنیا میں کون تھا ایسا جیسا میں نے سوچا تھا
ہاں تم بالکل ویسی ہو جیسا میں نے سوچا تھا
سامعہ نے بمشکل مسکراہٹ دبا کر اوپر دیکھا تو وہ سامنے بالکونی میں کھڑا نظر آیا تھا ۔ ہاتھ سینے پر باندھے، ستون سے ٹیک لگائے وہ گہری نظروں سے اسی کو دیکھ رہا تھا ۔ سامعہ نے چاہا کہ اسے تند نظروں سے دیکھے، اس حرکت پر وضاحت طلب کرے مگر اس کا تو اپنا دل مدتوں کے بعد ٹین ایجرزکی طرح دھڑکا اٹھا تھا ۔ گلابی پڑتا چہرہ اور مسکراہٹ چھپانے کے لیے سر جھکا لینے کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔
یہ گھر اس کے لیے مبارک ثابت ہوا تھا شاید دل تو آباد ہوا ہی تھا اس کی فلم کو لے کر بھی کچھ مثبت خبرملی تھی ۔ایشیاء فلم فیسٹیول میں شمولیت کے لیے اسے منتخب کر لیا گیا تھا ۔ کچھ انڈسٹری میں موجود یار دوست تو بڑے پر امید تھے اس کی فلم کی فیسٹیول میں کامیابی کو لے کر ۔ اکثر نے فیسٹیول میں شرکت کا بھی مشورہ دیا تھا کیونکہ انہیں جیتنے کے امکانات بھی نظر آرہے تھے اور پھر نیٹ ورکنگ کا موقع بھی مل رہا تھا ۔ اپنی جیب کی موجودہ حالت کو نظر میں رکھتے وہ متامل تو تھا مگر ویزہ اس نے اپلائی کر ہی دیا تھا ۔ ملک میں بھی جلد ریلیز ہونے کے امکانات روشن تھے ۔ اس کی دعا تھی کہ کم از کم لاگت وصول ہو جائے تاکہ وہ اسی’’ہوائی روزی‘‘ کے ساتھ چچی سے’’فرزندی‘‘ میں قبول کرنے کی درخواست کر سکے ۔ اس نے سامعہ سے صاف کچھ کہا تھا نہ پوچھا تھا مگر اس کے چہرے پر کھلتے رنگ گواہ تھے کہ دل صرف اس کا ہی نہیں آباد ہو ا۔ اس کے باوجود وہ نہیں چاہتا تھا کہ سامعہ کو ایک بار پھر آزمائش میں ڈالے ۔ وہ چچی کے تمام تحفظات پہلے دور کر دینا چاہتا تھا ۔ فلم فیسٹیول کا نتیجے اور فلم کی ریلیز کا اب اسے شدت سے انتظار تھا،مگر خبر اس ریلیز کی آئی تھی جس سے وہ خوف زدہ تھا، اور آئی بھی کہاں سے؟
’’نفیس بھائی، نفیس بھائی ۔ ‘‘ وہ گیٹ سے نکلنے کو تھا جب پیچھے سے ثمن دوڑی دوڑی اس کے پیچھے آئی تھی۔
’’آپ نے بتا یا ہی نہیں کہ آپ کا نیا ڈرامہ آرہا ہے! وہ تو میں نے رائٹر کا نام پڑھ لیا پرومو میں ’’نادم‘‘ آپ نے ہی لکھا ہے ناں ۔‘ ‘ نفیس کا جی چاہا تھا صاف مکر جائے۔
’’میں ضرور دیکھوں گی ۔ ‘‘ ثمن جوش سے بولی تھی۔
’’نہیں، نہیں تم مت دیکھنا۔‘‘
’’کیوں۔‘‘ ثمن کو اچنبھاہوا تھا۔
’’وہ…آ… میرا مطلب ہے، اچھا ڈرامہ نہیں ہے ۔مطلب کافی ہیوی تھیم ہے ۔ تھوڑا ڈپریسنگ ٹائپ ۔‘‘
’’تو اتنا برا سا ڈرامہ آپ نے لکھا ہی کیوں ؟ ‘‘ ثمن کو افسوس ہوا تھا۔
’’بس غلطی ہو گئی ۔ ‘‘ نفیس زیرلب بڑبڑایا تھا ۔
’’میں ایک اور ڈرامہ لکھ رہا ہوں آج کل وہ بہت انٹرٹینگ ہو گا ۔ وہ تم ضرور دیکھنا۔‘‘
ثمن نے اثبات میں سر ہلایا تھااور نفیس نے دل سے دعا کی تھی کہ وہ واقعی نا دیکھے نہ ہی گھر میں کوئی اور دیکھے ۔ یوں تو اس نے حالات و واقعات میں کافی تبدیلیاں کی تھیں ڈرامائی عنصر بھی کافی شامل کیا تھا مگر جن کرداروں کی کہانی تھی ان کے لیے اپنا آپ پہچان لینا اتنا مشکل بھی نہیں تھا ۔ سب سے بڑھ کر ہیروئن کا گھر سے بھاگنا اور اس کاخط پڑھ کر باپ کا جان لیوا ہارٹ اٹیک ۔ ان میں سے کوئی بھی ڈرامہ دیکھ لیتا تو آسانی سے سمجھ سکتا تھا کہ یہ ان کی کہانی ہے۔
’’آخر میں نے لکھتے ہوئے ان لوگوں کے ممکنہ رد عمل کے بارے میں کیوں نہیں سوچا ؟ ‘‘اس نے خود کو کوسا تھا۔
’’کیونکہ اس وقت تمہیں ان کے ردعمل سے فرق نہیں پڑتا تھا ۔ ‘‘ ضمیر نے آئینہ دیکھایا تو وہ شرمندہ ہو گیا۔
اگلے دن وہ بجلی کے بل کے بارے میں بات کرنے نیچے گیا تھا ۔ فریدہ ٹی وی کے سامنے بیٹھی تھیں ۔ پاس ہی دوسرے صوفے پر سفیان نیم دراز تھا ۔ اس نے بات شروع ہی کی تھی کہ’’نادم‘‘ کے ٹائٹل سانگ کا میوزک چل پڑا تھا ۔ اسی لمحے ثمن اندر داخل ہوئی تھی۔
’’امی پتہ ہے یہ ڈرامہ نفیس بھائی نے لکھا ہے ۔ ‘‘ ثمن نے بڑے پر مسرت انداز میں اطلاع دی تھی۔
’’ارے واقعی، پھر تو میں ضرور دیکھوں گی ۔آج پہلی قسط ہے آرہی ہے ناں۔‘‘ انہوں نے تصدیق چاہی تھی ۔ نفیس نے بمشکل تھوک نگلا تھا، حلق میں پھندا لگتا محسوس ہوا تھا۔
’’ارے آپ لوگ یہ کیا دیکھ رہے ہیں ۔ انڈیا پاکستان کا میچ چل رہا ہے ، کوئی سپورٹس چینل لگائیں ۔ ‘‘ وہ فوری طور پر سکرین سے’’نادم‘‘ نام کی وہ غلطی غائب کرنا چاہتا تھا۔
’’انڈیا پاکستان کا کون سا میچ ہے آج ؟ ‘‘ سفیان اس کی بات پر اٹھ بیٹھا تھا۔
’’ہاں وہ… ہے میچ آج بڑا اچھا جا رہا ہے بلکہ ابھی تو شاہد آفریدی کی بیٹنگ چل رہی ہے۔‘‘
’’ہیں؟ شاہد آفریدی؟ اسے تو انٹرنیشنل کرکٹ چھوڑے ہوئے زمانے ہو گئے ۔ ‘‘
’’ارے نہیں وہ جو دوسرا آفریدی ہے، شاہین آفریدی۔‘‘
’’وہ تو بولر ہے؟‘‘
’’ہاں لیکن آج بہت اچھی بیٹنگ کر رہا ہے۔ ‘‘ سفیان کو اس کی دماغی حالت پر کچھ کچھ شبہ ہوا تھا مگر پھر بھی اس نے چینل بدل کر سپورٹس چینل لگایا تھا۔
پہلے ایک پھر دوسرا پھر تیسرا پھر چوتھا، مگر میچ کہیں ہوتا تو نظر آتا ناں۔
’’کیا ہو گیا نفیس بھائی؟ کس نے کہا کہ میچ ہے آج۔‘‘
’’وہ ایف ایم پر کوئی کہہ رہا تھا ۔ شاید کوئی پرانا قصہ ریپیٹ کر رہا تھا میں نے غلط سنا ۔ ‘‘ نفیس نے بات گول کرنے کی کوشش کی تھی۔
’’اچھا وہ میں اس لیے آیا تھا کہ میں سوچ رہا تھا آئس کریم کھانے چلتے ہیں۔ ‘‘ نفیس کو اس وقت یہی ترکیب سمجھ آئی تھی اس وقت۔
’’آئس کریم؟‘‘ تینوں نے حیرت سے اسے دیکھا تھا۔
’’ہاں وہ میری فلم ایک انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کے لیے سیلیکٹ ہوئی ہے تو سیلیبریٹ کرتے ہیں۔‘‘
تینوں نے اسے مبارک بعد دی تھی۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے